امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ

تیسری صدی کے جن محدثین اور علماءراسخین نے علم حدیث کی تنقیح اور توضیح کے لیے متعدد فنون ایجاد کیے اور اس علم کی توسیع اور اشاعت میں گراں قدر خدمات انجام دیں ان میں امام مسلم بن حجاج القشیری کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے ۔

امام مسلم فن حدیث کے اکابر ائمہ میں شمار کیے جاتے ہیں ، ابوزرعہ رازی اور ابوحاتم رازی نے ان کی امامت حدیث پر شہادت دی ، امام ترمذی اور ابوبکر خزیمہ جیسے مشاہیر نے ان سے روایت حدیث کو باعث شرف سمجھا اور ابو قریش نے کہا کہ دنیا میں صرف چار حفاظ ہیں اور امام مسلم ان میں سے ایک ہیں ۔

ولادت اور سلسلہ نسب :
عساکر الملت والدین ابو الحسین امام مسلم بن الحجاج بن مسلم بن ورد بن کر شاد القشیری خراسان کے ایک وسیع اور خوبصورت شہر نیشاپور میں بنو قشیر کے خاندان میں پیدا ہوئے ، امام مسلم کی ولادت کے سال میں موّرخین کا اختلاف ہے ، شاہ عبد العزیز نے ان کا سال ولادت 202 ھ لکھا ہے ، امام ذہبی نے 204 ھ بیان کیا ہے اور ابن اثیر نے 206 ھ کو اختیار کیا ہے ۔

تحصیل علم حدیث :
ابتدائی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اٹھارہ سال کی عمر میں امام مسلم نے علم حدیث کی تعلیم شروع کی ، فنِ حدیث کو انھوں نے انتہائی لگن اور محنت سے حاصل کیا اور بہت جلد نیشاپور کے عظیم محدثین میں ان کا شمار ہونا لگا ۔

شخصیت :
امام مسلم سرخ و سفید رنگ بلند قامت اور وجیہہ شخصیت کے مالک تھے ، سر پر عمامہ باندھتے تھے اور شملہ کندھوں کے درمیان لٹکایا کرتے تھے ، انھوں نے علم کو ذریعہ معاش نہیں بنایا ، کپڑوں کی تجارت کرکے اپنی نجی ضروریات پوری کیا کرتے تھے ۔(حافظ ابو الفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی 856 ھ ، تہذیب التہذیب ج 10 صفحہ 127 مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن 1346 ھ ) شاہ عبد العزیز لکھتے ہیں کہ امام مسلم اسکے عجائبات میں سے یہ ہے کہ انھوں نے عمر بھر نہ کسی کی غیبت کی نہ کسی کو مارا اور نہ کسی کے ساتھ درشت کلامی کی ۔

اساتذہ اور مشائخ :
علم حدیث کی طلب میں امام مسلم نے متعددشہروں کا سفر اختیار کیا ، نیشاپور کے اساتذہ سے اکتساب فیض کے بعد وہ حجاز ، شام ، عراق اور مصر گئے اور اَن گنت بار بغداد کا سفر کیا ، انھوں نے ان تمام شہروں کے مشاہیر اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذتہ کیا ، حافظ ابن حجر عسقلانی اور دیگر مورخین نے ان کے اساتذہ میں یحیٰی بن یحیٰی ، محمد بن یحیٰی ذہلی ، احمد بن حنبل ،اسحاق بن راہویہ ، عبد اللہ بن مسلمہ القعنبی ، احمد بن یونس یربوعی ، اسماعیل بن ابی اویس ، سعید بن منصور ، عون بن سلام ، داؤد بن عمرو الضبی ، ہیثم بن خارجہ ، شیبان ابن فروخ اور امام بخاری کا تذکرہ لکھا ہے ۔ ( امام عبد اللہ شمس الدین ذہبی المتوفی 748 ھ ، تذکرۃ الحفاظ جلد 2 صفحہ 558 ، مطبوعہ ادارۃ احیاءالتراث العربی بیروت )

تلامذہ :
امام مسلم سے بے حساب لوگوں نے سماع حدیث کیا ہے ، ان سے روایت کرنے والے تمام حضرات کے اسماءکا شمار تو مشکل ہے چند اسماءیہ ہیں :
ابو الفضل احمد بن سلمہ ، ابراہیم بن ابی طالب ، ابو عمروخناف، حسین بن محمد قبانی ، ابو عمر مستملی ، حافظ صالح بن محمد علی بن حسن ، محمد بن عبد الوہاب ، علی بن حسین بن جنید ، ابن خزیمہ ، ابن صاعد ، سراج ، محمد بن عبد بن حمید ، ابو حامد ابن الشرق، علی بن اسماعیل الصنعار، ابو محمد بن ابی حاتم رازی ، ابراہیم بن محمد بن سفیان ، محمد بن مخلد دوری، ابراہیم بن محمد حمزہ ، ابو عوانتہ اسفرائنی ، محمد بن اسحاق فاکہی ، ابوحامد اعمشی ، ابوحامد بن حسنویہ اور امام ترمذی ۔(حافظ شہاب الدین احمد بن علی ابن حجر عسقلانی المتوفی 852 ھ تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ 126 مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن 1346 ھ )

امام ترمذی نے اپنی جامع صحیح میں امام مسلم سے صرف ایک روایت ذکر کی ہے اور وہ یہ ہے ، عن یحیٰی بن یحیٰی عن ابی معاویہ عن محمد بن عمرو عن ابی سلمۃ عن ابی ہریرۃ ، احصوا ہلال شعبان برمضان ۔

کلمات الثناء:
امام مسلم کی خدمات اور ان کے کمالات کو ان کے اساتذہ اور معاصرین نے بے حد سراہا ہے ، ابو عمرو مستملی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہمیں اسحاق بن منصور احادیث لکھوارہے تھے اور امام مسلم ان احادیث میں سے انتخاب کررہے تھے اچانک اسحاق بن منصور نے آنکھ اوپر اٹھائی اور کہا ہم اس وقت تک کبھی خیر سے محروم نہیں ہوں گے جب تک ہمارے درمیان مسلم بن حجاج موجود ہیں ان کے ایک اور استاذ محمد بن عبد الوہاب فراد نے کہا کہ مسلم علم کا خزانہ ہے اور میں نے ان میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں پایا ، ابن اخرم نے کہا نیشاپور نے تین محدث پیداکیے ،محمد بن یحیٰی ، ابراہیم بن ابی طالب اور مسلم ۔ ابن عقدہ نے کہا کہ وہ جلیل القدر امام تھے بندار نے کہا دنیا میں صرف چار حفاظ ہیں ، ابوزرعہ ، محمد بن اسماعیل ، دارمی اور مسلم بن حجاج ۔ (حافظ شہاب الدین احمد بن علی ابن حجر عسقلانی المتوفی 852 ھ تہذیب التہذیب جلد 10 صفحہ 128 مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد دکن 1346 ھ )

علمی شکوہ :
امام مسلم فن حدیث میں عظیم صلاحیتوں کے مالک تھے ، حدیث صحیح اور سقیم کی پہچان میںوہ اپنے زمانہ کے اکثر محدثین پر فوقیت رکھتے تھے ، حتیٰ کہ بعض امور میں ان کو امام بخاری پر بھی فضیلت حاصل تھی کیونکہ امام بخاری نے اہل شام کی اکثر روایات ان کی کتابوں سے بطریق منادلہ حاصل کی ہیں ، خود ان کے مؤلفین سماع نہیں کیا ، اس لیے ان کے راویوں میں امام بخاری سے بسا اوقات غلطی واقع ہوجاتی ہے کیونکہ ایک ہی راوی کا کبھی نام ذکر کیا جاتا ہے اور کبھی کنیت ایسی صورت میں بعض دفعہ امام بخاری ان کو دو راوی خیال کرلیتے ہیں ، اور امام مسلم نے چونکہ اہل شام سے براہ راست سماع کیا ہے اس لیے وہ اس قسم کا مغالطہ نہیں کھاتے ۔ ( شاہ عبد العزیز محد ث دہلوی متوفی 1229 ھ بستان المحدثین ص 280 مطبوعہ سعید اینڈ کمپنی کراچی )

ٓامام بخاری سے تعلق خاطر :
جس طرح امام بخاری ایمان کے مرکب ہونے کے مسئلہ میں متشدد تھے اور اس شخص سے روایت نہیں لیتے تھے جوبساطت ایمان کے قائل ہو اسی طرح امام محمد بن یحیٰی ذہلی قدم قرآن کے مسئلہ میں متشدد تھے اور اس شخص سے سخت بیزار تھے جو الفاظ قرآن کو مخلوق مانتاہو ، جب امام بخاری اور امام محمد بن یحیٰی کا اس مسئلہ میں اختلاف ہوا تو ان میں اور امام بخاری میں سخت منافرت پیدا ہوگئی حتی کہ ایک دن محمد بن یحیٰی ذہلی نے اپنی مجلس میں اعلان کردیا کہ جوشخص الفاظ قرآن کے مخلوق ہونے کا قائل ہو وہ ہماری مجلس سے چلا جائے یہ سن کر امام مسلم نے اپنا عمامہ سنبھالا اور امام ذہلی کی مجلس سے اٹھ کر چلے گئے اور امام ذہلی سے انہوں نے جس قدر احادیث ضبط کی تھیں وہ سب انھیں واپس بھجوادیں ۔

تصانیف :
امام مسلم کی عمر اکثر حصہ روایت حدیث کے حصول کے لیے مختلف شہروںمیں سفر کرتے ہوئے گزرا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ درس و تدریس میں بھی بے حد مشغول رہے اس کے باوجود ان سے مندرجہ ذیل تصانیف یادگارہیں :
1۔الجامع الصحیح 2۔المسند الکبیر 3 ۔ کتاب الاسماءوالکنی 4۔کتاب الجامع علی الباب 5 ۔کتاب العلل 6۔کتاب الوحدان 7۔کتاب الافراد 8۔کتاب سوالات احمد بن حنبل 9۔کتاب حدیث عمرو بن شعیب 10۔کتاب الانتفاع باہب السباع 11۔ کتاب مشائخ مالک 12۔کتاب مشائخ ثوری 13۔کتاب مشائخ شعبہ 14۔کتاب من لیس لہ الارا وواحد 15۔کتاب المخضرمین 16۔کتاب اولاد الصحابۃ17۔کتاب اوہام المحدثین 18 ۔کتاب الطبقات 19۔مسند امام مالک 20 ۔ مسند الصحابۃ 21۔ کتاب افرادالشامیین (امام عبد اللہ شمس الدین ذہبی متوفی 748ھ تذکرۃ الحفاظ جلد 2 ص59 مطبوعہ ادارہ احیا ءالتراث العربی بیروت )

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ امام مسلم نے مسند الصحابہ بڑی تفصیل سے لکھنی شروع کی تھی مگر وہ مکمل نہ ہوسکی اور امام مسلم وفات پاگئے اور اگر وہ اس کو پورا کرلیتے تو وہ ایک ضخیم تصنیف ہوتی۔

وصال :
امام مسلم کے وصال کا سبب بھی نہایت عجیب و غریب بیان کیا گیا ہے ، حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ ایک دن مجلس مذاکرہ میں امام مسلم سے ایک حدیث کے بارے میں استفسار کیا گیا اس وقت آپ اس حدیث کے بارے میں کچھ نہ بتاسکے گھر آکر اپنی کتابوں میں اس حدیث کی تلاش شروع کردی قریب ہی کھجوروں کا ٹوکرا بھی رکھا ہواتھا امام مسلم کے استغراق اور انہماک کا یہ عالم تھا کہ کھجوروں کی مقدار کی طرف آپ کی توجہ نہ ہوسکی اور حدیث ملنے تک کھجوروں کا سارا ٹوکرا خالی ہوگیا اور غیر ارادی طور پر کھجوروں کا زیادہ کھالینا ہی ان کی موت کا سبب بن گیا اور اس طرح 24 رجب 261 ھ اتوار کے دن شام کے وقت علم حدیث کا یہ درخشندہ آفتاب غروب ہوگیا اور اگلے روز پیر کے دن خراسان کے اس عظیم محدث کو سپرد خاک کردیا گیا ۔

حسن عاقبت :
امام مسلم سادہ دل درویش تھے اور علم و عمل کی بہترین خوبیوں کے جامع تھے ، اللہ تعالی نے انھیں ان کی خدمات کی بہترین صلہ عطا فرمایا ابو حاتم رازی بیان کرتے ہیں میں نے امام مسلم کو خواب میں دیکھا اور ان کا حال دریافت کیا تو انھوں نے جواب دیا : اللہ تعالی نے اپنی جنت کو میرے لیے مباح کردیا ہے اور میں اس میں جہاں چاہتا ہوں رہتا ہوں ۔(شاہ عبد العزیز محدث دہلوی متوفی 1229ھ بستان المحدثین ص 281 مطبوعہ سعید اینڈ کمپنی کراچی )
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1381331 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.