امام بخاری اپنے پیش رو آئمہ کی
آرزو، اساتذہ کا فخر اور معاصرین کے لیے سراپا رشک تھے۔ ان کے زمانہ میں
احمد بن حنبل یحیٰی بن معین اور علی بن مدینی کا فنِ حدیث میں چرچا تھا۔
لیکن جب آسمان علمِ حدیث پر امام بخاری کا سورج طلوع ہوا تو تمام محدثین
ستاروں کی طرح چھپتے چلے گئے۔ صحیح مجرد میں سب سے پہلے انہوں نے مجموعہ
حدیث پیش کیا اور پھر کتب صحاح کی تصنیف کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
ولادت و سلسلہٴ نسب:
ناصر الاحادیث النبویہ و ناشر المواریت المحمدیہ امیر المومنین فی الحدیث
امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری الجعفی 13 شوال سہ 194ھ میں
مادراء النہر کے مشہور شہر بخارا میں پیدا ہوئے۔ امام بخاری کے والد
اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ الجعفی عظیم محدث اور ایک صالح بزرگ تھے۔ ابن
حبان نے ان کو لبقہ رابعہ کے ثقہ رادیوں میں شمار کیا (1) ۔ امام ذہبی نے
تاریخ اسلام میں اور امام بخاری نے تاریخ کبیر میں ان کا مفصل تزکرہ لکھا۔
انہیں امام مالک، عبداللہ بن مبارک اور حماد بن زید جیسے یکتائے روزگار
حضرات سے روایت حدیث کا شرف حاصل ہوا۔ اور یحیٰی بن جعفر بیکندی، احمد بن
جعفر، نصر بن حسین اور عراقیوں کی ایک بڑی جماعت نے ان سے احادیث کا سماع
کیا۔ امام بخاری کے والد خوشحال اور دولتمند تھے اور جس قدر مالدار تھے
اتنے ہی پرہیزگار تھے۔ احمد بن حفص کہتے ہیں کہ میں ابوالحسن اسماعیل بن
ابراہیم کی موت کے وقت ان کی خدمت میں حاضر تھا وہ کہنے لگے میرے پاس جس
قدر مال ہے اس میں ایک درہم بھی مشتبہ نہیں ہے (2)۔
امام بخاری کے جدامجد مغیرہ بن بردز جعفی مجوسی تھے اور اس زمانہ میں بخارا
کے حاکم یمان جعفی کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہوئے اور اسی نسبت سے جعفی
کہلائے۔ امام بخاری کو بھی جعفی اسی سبب سے کہا جاتا ہے (3)۔
ابتدائی حالات:
ایام طفولیت ہی میں امام بخاری کے والد کا انتقال ہو گیا تھا اور پرورش کی
تمام تر زمہ داری آپ کی والدہ نے سنبھال لی تھی۔ صغیر سن ہی میں امام بخاری
نابینا ہو گئے اس وقت کے مشہور اطباء اور معالجین سے رجوع کیا گیا مگر کسی
کی پیش نہ جا سکی۔ آپ کی والدہ بڑی عابدہ اور زاہدہ تھہں انہوں نے رو رو کر
اللہ تعالیٰ سے فریاد کی اور دامن پھیلا کر اپنے لختِ جگر کے لیے بصارت
مانگی۔ بالاخر دریائے رحمت جوش میں آیا اور ایک رات انہیں خواب میں حضرت
ابراہیم علیہ السلام کی زیارت ہوئی اور آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے
تمہاری آہ وزاری اور دعاوٴں کی کثرت کے سبب تمہارے بیٹے کی بصارت لوٹا دی
ہے۔ صبح جب امام بخاری بستر سے اٹھے تو ان کی آنکھیں روشن تھیں (4)۔
زمانہ تعلیم:
ابتدائی اور ضروری تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب امام بخاری کی عمر دس سال کو
پہنچی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں علمِ حدیث کا شوق پیدا کیا اور آپ نے
بخارا کے درسِ حدیث میں داخلہ لے لیا۔ علمِ حدیث کو آپ نے انتہائی کاوش اور
محنت سے حاصل کیا۔ متن کو محفوظ رکھا اور سند کے ایک ایک راوی کو ضبط کیا
حتیٰ کہ ایک سال بعد متنِ حدیث اور اس کی سند پر آپ کے عبور کا یہ عالم تھا
کہ بسا اوقات اساتذہ بھی آپ سے اپنی تصیح کرتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کے استاذ
داخلی نے حدیث بیان کرتے ہوئے کہا "حدثنا سفیان عن ابی الزبیر عن ابراھیم
"۔ آپ نے فرمایا، ابی الزبیر نہیں زبیر بن عدی ہے۔ استاذ حیران رہ گئے اور
انہوں نے بھری مجلس میں امام بخاری کی تحسین کی۔ امام بخاری یونہی تیزی اور
مہارت سے علوم دینیہ حاصل کرتے رہے یہاں تک کہ سولہ سال کی عمر میں امام
بخاری نے عبداللہ بن مبارک، وکیع اور دیگر اصحاب ابی حنیفہ کی کتابوں کہ
ازبر کر لیا تھا (5)۔
زیارت حرمین و آغاز تصنیف:
اٹھارہ برس کی عمی میں امام بخاری اپنے بڑے بھائی احمد بن اسماعیل اور اپنی
والدہ ماجدہ کے ساتھ حج کرنے کے لیے حرمین شریفین حاضر ہوئے۔ حج کے بعد ان
کے بھائی تو والدہ کو لے کر واپس چلے گئے اور امام بخاری مزید تعلیم کے
حصول کے لیے وہیں رہ گئے۔ اسی دوران انہوں نے قضایا الصحابۃ والتابعین کے
عنوان سے ایک کتاب لکھی اور اس کے بعد چاندنی راتوں میں روضہ انور کے پہلو
میں بیٹھ کر تاریخ کبیر تصنیف کی۔ امام بخاری کہتے ہیں " میں نے تاریخِ
کبیر میں جتنے لوگوں کے اسماء ذکر کیے ہیں مجھے ان میں سے ہر ایک کے بارے
میں کوئی نہ کوئی قصہ معلوم تھا۔ لیکن اختصار کے سبب میں نے ان تمام قصوں
کو درج نہیں کیا۔ تاریخ کبیر کی تکمیل ہوتے ہی اس کی نقل کا سلسلہ شروع ہو
گیا تھا۔ محمد بن یوسف فریابی کہتے ہیں کہ میں نے تاریخ کبیر کو اس وقت نقل
کیا جب امام بخاری کی ڈاڑھی بھی نہیں آئی تھی (6)۔
حصول علم کے لیے رحلت:
امام بخاری نے طلبِ حدیث کے لیے پہلا سفر مکہ کی طرف سن 216 ھ میں کیا تھا
اور اگر وہ اس سے پہلے سفر کرتے تو اس کے زمانہ کے طبقہ عالیہ کے ان محدثین
سے روایت حاصل کر لیتے جن سے ان کے معاصرین نے روایت کی ہے۔ اگر چہ انہوں
نے طبقہ عالیہ کے مقارب رواۃً مثلاً یزید بن ہارون اور ابوداوٴد طیاسی کا
زمانہ پا لیا تھا (7)۔
جس زمانہ میں امام بخاری مکہ میں وارد ہوئے اس وقت یمن میں امام عبدالرزاق
بقید حیات تھے۔ امام بخاری نے ان سے روایت حدیث کے لیعے یمن جانے کا قصد
کیا لیکن کسی نے ان کو غلط خبر دی کے امام عبدالرزاق کا انتقال ہو گیا یہ
سن کر انہوں نے سفر کا ارادہ ملتوی کر دیا اور ایک واسطہ کے ساتھ امام
عبدالرزاق سے روایت حدیث کرنے لگے۔
امام بخاری نے روایت حدیث کے سلسلہ میں بارہا دور دراز شہروں کا سفر کیا
اور برسہا برس وطن سے دور بیٹھے اکتسابِ علم کرتے رہے۔ انہوں نے خود بیان
کیا ہے کہ میں طلبِ حدیث کے لیے مصر اور شام دو مرتبہ گیا۔ چار مرتبہ بصرہ
گیا، چھ سال حجاز مقدس میں رہا اور اَن گنت مرتبہ محدثین کے ہمراہ کوفہ اور
بغداد گیا۔
بے مثال حافظہ:
امام بخاری بے پناہ قوتِ حافظہ کے مالک تھے۔ جب ہم ان کی قوتِ حفظ کے
کارنامے صفحات تاریخ پر دیکھتے ہیں تو یوں گمان ہوتا ہے جیسے وہ سر سے پیر
تک حافظہ ہی حافظہ ہوں۔ ان کے حافظہ کو دیکھ کر لوگوں کے دلوں میں ابوہریرہ
کی یاد تازہ ہو جاتی تھی۔ حاشد بن اسماعیل بیان کرتے ہیں کہ امام بخاری
لڑکپن میں ہمارے ساتھ حدیث کاے سماع کے لیے مشائخِ بصرہ کی خدمت میں حاضر
ہوتے تھے۔ امام بخاری کے سوا ہم تمام ساتھی احادیث ضبط تحریر میں لے آئے
تھے۔ سولہ دن گزر جانے کے بعد ایک روز ہمیں خیال آیا اور ہم نے بخاری کو
ملامت کی اور کہا کہ تم نے احادیث ضبط نہ کرکے اتنے دنوں کی محنت ضائع کر
دی۔ امام بخاری نے ہم سے کہا اچھا تم اپنے ضبط شدہ نوٹ لے آوٴ۔ ہم اپنے نوٹ
لے کر آئے اور امام بخاری نے سلسلہ دار احادیث سنانی شروع کر دیں۔ یہاں تک
انہوں نے پندرہ ہزار سے زیادہ احادیث بیان کر ڈالیں اور یہ سن کر ہمیں یوں
گمان ہوتا تھا کہ گویا یہ روایات ہمیں امام بخاری نے لکھوائی ہیں۔
محمد بن ازہر سجتانی کہتے ہیں کے میں امام بخاری کے ساتھ سلیمان بن حرب کی
خدمت میں سماع حدیث کے لیے حاضر ہوتا تھا میں احادیث لکھتا تھا اور امام
بخاری نہیں لکھتے تھے کسی نے مجھ سے کہا کہ بخاری احادیث کو نوٹ کیوں نہیں
کرتے میں نے کہا تم سے اگر کوئی حدیث لکھنے سے رہ جائے تو بخاری کے حافظہ
سے لکھ لینا۔
محمد بن حاتم کہتے ہیں کہ ایک دن ہم فریابی کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کے
فریابی نے ایک حدیث کی سند بیان کرتے ہوئے کہا "حدثنا سفیان عن ابی عروۃ عن
ابی الخطاب عن ابی الحمزۃ" اس سند میں سفیان کے علاوہ باقی تمام راویوں کی
کنیت زکر کی گئی تھی فریابی نے ان راویوں کے اصل نام پوچھے تمام مجالس پر
سکتہ چھا گیا اور کسی کو بھی ان کے ناموں کا پتہ نہ چل سکا۔ بالاخر سب کی
نظریں امام بخاری کی طرف اٹھیں اور انہوں نے کہنا شروع کیا، ابو عروہ کا
نام معمر بن راشد ہے، اور ابو الخطاب کا نام قتادہ بن دعامہ ہے اور ابو
حمزہ کا نام انس بن مالک ہے۔ جیسے ہی امام بخاری نے یہ اسماء بیان کیے تو
حاضرینِ مجلس دم بخود رہ گئے (8)۔
امام بخاری کی قوتِ حفظ بیان کرنے کے لیے یہ امر کافی ہے کہ جس کتاب کو وہ
ایک نظر دیکھ لیتے تھے وہ انہیں حفظ ہو جاتی تھی اور بعد میں جا کر یہ عدد
تین لاکھ تک پہنچ گیا جن میں سے ایک لاکھ احادیث صحیح اور دو لاکھ غیر صحیح
تھیں۔ ایک مرتبہ بلخ گئے تو وہاں کے لوگوں نے فرمائش کی آپ اپنے شیوخ سے
ایک ایک روایت بیان کریں تو آپ نے ایک ہزار شیوخ سے ایک ہزار احادیث زبانی
بیان کردیں۔
سلیمان بن مجاہد کہتے ہیں کہ ایک دن میں محمد بن سلام بیکندی کی مجلس میں
بیٹھا ہوا تھا محمد بن سلام نے کہا اگر تم کچھ دیر پہلے میرے پاس آتے تو
میں تم کو وہ بچہ دکھلاتا جس کو ستر احادیث یاد ہیں۔ سلیمان نے اس مجلس سے
اٹھ کر امام بخاری کی تلاش شروع کر دی بالاخر سلیمان نے امام بخاری کو
ڈھونڈ نکالا اور پوچھا کیا تم ہی وہ شخص ہو جس کو ستر ہزار احادیث حفظ حفظ
ہیں، امام بخاری نے کہا مجھے اس سے زیادہ احادیث یاد ہیں اور میں جن صحابہ
سے احادیث روایت کرتا ہوں ان میں سے اکثر کی ولادت اور وفات کی تاریخ اور
ان کی جائے سکونت پر اطلاع رکھتا ہوں۔ نیز میں کسی حدیث کو روایت نہیں کرتا
مگر کتاب اور سنت سے اس کی اصل پر واقفیت رکھتا ہوں (9)۔
اساتذہ و مشائخ:
امام بخاری کے اساتزہ اور مشائخ کی تعداد بہت زیادہ ہے انہوں نے شہر در شہر
اور قریہ در قریہ جا کر علم حدیث حاصل کیا۔ امام بخاری نے حصول روایت میں
اکابر، اماثل اور اصاغر کے فرق کا کبھی خیال نہیں رکھا۔ انہیں جہاں سے بھی
روایت ملتی اخذ کر لیتے خواہ بیان کرنے والا ان سے برتر ہو یا کمتر۔ امام
بخاری کے اساتزہ ومشائخ کی تعداد یوں تو ایک ہزار سے زائد ہے لیکن انہوں نے
اپنے وقت کے جن عظیم محدثین سے سماع حدیث کیا اس کی تفصیل یہ ہے۔
بخارا میں محمد سلام بیکنکدی عبداللہ بن محمد مسندی، محمد بن عروہ اور
ہارون بن الشعف سے بلخ میں مکی بن ابراہیم یحٰیی بن بشرالزاہد اور قتیبہ
سےمرد میں علی بن شقیق عبدان، معاز بن اسد اور صدقہ بن فضل سے، نیشاپور میں
یحٰیی بن یحٰیی بشیر بن حکم اور اسحاق سے، رہے میں حافظ ابراہیم بن موسیٰ
وغیرہ سے، بغداد میں محمد بن عیسیٰ، شریح بن نعمان اور معلی بن منصور سے
بصرہ میں ابو عاصم النبیل، بدل بن مجر، محمد بن عبداللہ انصاری، عبدالرحمان
بن محمد، عمر بن عاصم اور عبداللہ بن رجاء سے کوفہ میں عبید اللہ بن موسیٰ،
ابونعیم، طلق بن غنام، حسن بن عطیہ، خلاد بن یحٰیی، خالد بن مخلد اور قبیصہ
سے، مکّہ میں ابو عبدالرحمٰن مقری، حمیدی اور احمد بن محمد ازرقی سے، مدینہ
میں عبدالعزیز اویسی، مطرف بن عبداللہ اور ابو ثابت محمد بن عبداللہ سے،
واسط میں عمرو بن محمد بن عون وغیرہ سے مصر میں سعید بن ابی مریم، عبداللہ
بن صالح، سعید بن ملید اور عمرو بن ربیع بن طارق سے دمشق میں ابو مسہر اور
ابو نصر فرادیسی سے، قیساریہ میں محمد بن یوسف فریابی سے، عقسلان میں آدم
بن ابی ایاس سے، حمص میں ابو المغیرہ، ابو الیمان، علی بن عیاش، احمد بن
خالد، دہبی اور وحاظی سے سماع حدیث کیا (10)
بعض محققین نے امام بخاری کے اساتزہ اور مشائخ کے ضبط کا ایک خاص طریقہ
بیان کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ امام بخاری کے اساتزہ پانچ طبقوں میں
منحصر ہیں۔ طبقہ اولی میں وہ مشائخ ہیں جو ثقات تابعین سے روایت کرتے ہیں
جیسے محمد بن عبداللہ انصاری، مکی بن ابراہیم، ابو عاصم انیس، عبیداللہ بن
موسیٰ، اسماعیل بن ابی خالد اور ابو نعیم وغیرہ اور طبقہ ثانیہ میں وہ
مشائخ ہیں جو طبقہ اولیٰ کے معاصر ہیں۔ لیکن وہ ثقات تابعین سے روایت نہیں
کرتے جیسے آدم بن ابی ایاس، ابو مسہر، سعید بن ابی مریم اور ایوب بن سلیمان
وغیرہ اور طبقہ ثالثہ میں وہ مشائخ ہیں جو کبار تبع تابعین سے روایت کرے
ہیں جیسے سلیمان بن حرب، قتیبہ بن سعید، نعیم بن حماد، علی بن مدینی، یحٰیی
بن معصین، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ اس طبقہ سے روایت کرنے
میں امام مسلم بھی امام بخاری کے شریک ہیں اور طبقہ رابعہ میں وہ مشائخ ہیں
جو طلبِ حدیث کے سلسلہ میں امام بخاری کے رفیق اور شریک تھے لیکن انہوں نے
سماع حدیث امام بخاری سے پیلے شروع کیا تھا جیسے محمد بن یحٰیی ذہلی، ابو
حاتم رازی، محمد بن عبدالرحیم، عبد بن حمید اور احمد بن نصر اس طبقہ سے
امام بخاری نے اس وقت احادیث کو روایت کی جب ان کے مشائخ فوت ہو چکے تھے
اور جو احادیث اس طبقہ سے روایت کی ہیں وہ اور کسی کے پاس نہیں تھیں اور
طبقہ خامسہ میں وہ مشائخ ہیں جو دراصل امام بخاری کے تلامزہ (11) تھے۔ جیسے
عبداللہ بن حماد آملی، عبداللہ بن عباس خوارزمی اور حسین بن محمد قبانی، اس
طبقہ سے بھی امام بخاری نے ضرورت اور فائدہ کے پیشِ نظر احادیث روایت کی
ہیں، اگرچہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ بہرحال اس تحقیق سے یہ ظاہر ہو گیا کہ
امام بخاری نے اپنے اکابر، اماثل اور اصاغر سب سے روایت حدیث کی ہے اور
اپنے اس قول کو سچا کر دکھایا کہ اس وقت تک کوئی شخص کامل محدث نہیں ہو
سکتا جب تک کہ خود سے برتر مساوی اور کمتر سے حدیث روایت نہ کرے (12)۔
خداداد ذھانت:
امام بخاری کا زہن بہت بیدار اور نکتہ رس تھا وہ قرطاس و قلم پر اتنا
اعتماد نہیں کرتے تھے جتنا انہیں اپنے حافظہ اور زہن پر اعتماد تھا۔ لوگوں
نے بارہا فن حدیث میں امام بخاری کی قابلیت کا امتحان لیا لیکن وہ اپنی
خداداد ذہانت اور بے مثال حافظہ کی درجہ سے ہمیشہ سر خرور ہے۔
حافظ احمد بن عدی بیان کرتے ہیں کہ جب اہلِ بغداد کو معلوم ہوا کہ امام
بخاری بغداد آ رہے ہیں تو بغداد کے محدثین نے امام بخاری کا امتحان لینے کے
لیے ایک سو احادیث کے متون اور اسناد میں رد وبدل کر دیا ایک حدیث کی سند
کو دوسری حدیث کے ساتھ اور اس کی سند کو پہلی حدیث کے ساتھ لگا دیا اور اس
طرح ایک سو احادیث کے متن اور سند الٹ پلٹ کر دیے اور دس آدمیوں میں یہ
احادیث اس طرح تقسیم کر دیں کہ ہر شخص ایک ایک کر کے دس احادیث کے بارے میں
امام بخاری سے سوال کرے۔
امام بخاری جب بغداد میں داخل ہوئے تو اہلِ بغداد نے ان کے اعزاز میں ایک
مجلس مزاکرہ منعقد کی جس میں علماء امراء اور عوام کی بہت بڑی اکثریت شامل
تھی۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق ایک شخص اٹھا اور اس نے سند مقلوب کے ساتھ
پہلی حدیث پڑھی امام بخاری سے پوچھا تھا کیا آپ کو یہ حدیث معلوم ہے آپ نے
فرمایا نہیں اس نے پھر دوسری حدیث پڑھی پھر تیسری پھر چوتھی یہاں تک کہ اس
نے دس احادیث پڑھ ڈالیں اور امام بخاری نے ہر بار نفی میں جواب دیا۔ جاننے
والے اصل سبب سمجھ کر امام بخاری کے علم پر حیران ہو رہے تھے اور انجان لوگ
اس جواب کو امام بخاری کا عجز سمجھ کر پریشان ہو رہے تھے۔ پہلے شخص کے
سوالات کے بعد اس طرح دوسرے شخص نے اٹھ کر سوالات کیے اور امام بخاری نے
جواب دیے پھر تیسرا اٹھا پھر چوتھا۔ یہاں تک کہ دس آدمیوں نے سو احادیث
پوری کر ڈالیں اور امام بخاری نے ان تمام احادیث کے جواب میں یہی کہاں کہ
میں نہیں جانتا۔ جب امام بخاری نے دیکھا کہ یہ لوگ سوالات سے فارغ ہو گئے
اور اب کوئی شخص نہیں اٹھتا تو آپ کھڑے ہوگئے اور فرمایا کہ پہلے شخص نے جو
حدیث پڑھی اس کی اس نے یہ سند بیان کی تھی اور اس کی سند یہ ہے اس طرح ان
لوگوں کی پڑھی ہوئی سو احادیث کی غلط اسناد بھی پڑھ کر سنائیں اور ان کی
اصل اسناد بھی بیان کر دیں اور ہر حدیث کو اس کی اصل سند کے ساتھ لاحق کر
دیا جیسے ہی امام بخاری نے اپنے بیان کو ختم کیا تمام مجلس میں تحسین و
مرحبا کا غلغلہ اور آفرین آفرین کا شور اٹھا اور عوام و خواص سب نے امام
بخاری کے فضل کا اعتراف اور ان کی عظمت کا اقرار کر لیا (13)۔
حافظ ابو الازہر روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ سمرقند میں چار سو محدث جمع
ہوئے اور انہوں نے امام بخاری کو مغالطہ دینے کے لیے شام کی اسناد عراق کی
اسناد میں داخل کیں اور عراق کی شام میں، اسی طرح حرم کی اسناد یمن میں
داخل کیں اور یمن کی حرم میں وہ لوگ سات دن تک لگاتار اس قسم کے مغالطہ
آمیز متون اور اسانید امام بخاری کو پیش کرتے رہے لیکن ایک بار بھی وہ امام
بخاری کو نہ سند میں مغالطہ دے سکے نہ متن میں (14)۔
کثرت طرق پر اطلاع:
امام بخاری علمِ حدیث میں ہمہ قسم کی معلومات کے حامل تھے، حدیث کے تمام
طرق ان کی نظر میں ہوتے تھے ایک روایت جتنی اسانید سے مروی تھی امام بخاری
کو ان تمام پر عبور ہوتا تھا، اس زمانہ میں فرق و اسانید پر ان سے زیادہ
کسی کو دسترس نہیں تھی۔
یوسف بن موسیٰ مروزی بیان کرتے ہیں کہ میں بصرہ کی جامع مسجد میں بیٹھا ہوا
تھا کہ منادی کی آواز آئی اے علم کے طلبگارو! امام محمد بن اسماعیل یہاں
آئے ہوئے ہیں جس نے ان سے احادیث کی روایت لینی ہو وہ ان کی خدمت میں حاضر
ہو جائے۔ مروزی کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ایک دبلا پتلا سا نوجوان ستون کے
قریب انتہائی سادگی اور خضوع و خشوع سے نماز پڑھ رہا ہے۔ یہی امام بخاری
تھے اعلان سنتے ہی چاروں طرف سے مشتاق امام بخاری کے گرد جمع ہو گئے۔ امام
بخاری نے انہیں اگلے روز احادیث لکھوانے کا وعدہ کیا اور دوسرے روز صبح
مجلس منعقد ہو گئی۔ آپ نے فرمایا میں تم کو وہی احادیث لکھواوٴں گا جو
تمھارے شہر کے محدثین بیان کرتے ہیں لیکن نئی سند کے ساتھ پھر آپ نے ایک
حدیث منصور کی روایت سے پڑھی اور فرمایا تمھارے شہر والے اس حدیث کو منصور
کے غیر سے روایت کرتے ہیں اسی طرح امام بخاری نے ان کو کثیر تعداد میں
احادیث لکھوائیں اور ہر حدیث کے بارے میں فرماتے تمھارے شہر والوں نے اس
فلاں سے روایت کیا ہے اور میں اس کو فلاں سے لکھواتا ہوں (15)۔
حافظ ابو احمد اعمش بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نیشاپور کی ایک مجلس میں
امام مسلم بن حجاج بھی امام بخاری سے ملنے آئے دورانِ مجلس کسی شخص نے یہ
حدیث پڑھی۔
"عن ابی جریح عن موسیٰ بن عقبۃ عن اسمٰعیل بن ابی صالح عن ابیہ ءن ابی
ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال کفارۃ المجلس اذا قام العبد ان یقول
سبحٰنک اللھم و بحمدک اشہد ان لا الٰہ الاّ انت استغفرک و اتوب الیک"۔
امام مسلم نے اس حدیث کو سن کر کہا سبحان اللہ کس قدر عمدہ حدیث ہے دنیا
میں اس کا ثانی نہیں ہے یعنی یہ حدیث صرف اسی سند سے پائی جاتی ہے پھر امام
بخاری سے پوچھا کیا اس حدیث کی آپ کو کسی اور سند کا علم ہے امام بخاری نے
فرمایا ہاں لیکن وہ سند معلول ہے۔ امام مسلم نے درخواست کی کہ مجھے وہ سند
بتلائیں۔ امام بخاری نے فرمایا جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے ظاہر نہیں کیا اسے
مخفی رہنے دو۔ امام مسلم نے اٹھ کر امام بخاری کے سر کو بوسہ دیا اور اس
عاجزی سے مطالبہ کیا کہ اگر امام بخاری نہ بتلاتے تو قریب تھا کہ امام مسلم
رو پڑتے بالاخر امام بخاری نے فرمایا اگر نہیں مانتے تو لکھو
"حدثنا موسیٰ بن اسمٰعیل حدثنا وھیب حدثنا موسیٰ بن عقبہ عن عون بن عبداللہ
قال ، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کفارۃ المجلس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
امام مسلم اس حدیث کو سن کر بے حد مسرور ہوئے اور بے حد اختیار کہنے لگے اے
امام میں شہادت دیتا ہوں کہ دنیا میں کوئی شخص آپ کا مماثل نہیں ہے اور جو
شخص آپ سے بغض رکھے وہ حاسد کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا (16)۔
معرفت علل حدیث:
علل حدیث کی معرفت کو علم اصول حدیث میں انتہائی اہمیت دی جاتو ہے حدیث
معلل اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں کوئی علت خفیہ قادحہ ہو یعنی حدیث بظاہر
صحیح حدیث معلوم ہوتی ہو لیکن دراصل اس میں کوئی مقم ہو مثلاً موقوف کو
مرفوع قرار دیا گیا ہو یا بالعکس اسی طرح مرسل کو موصول قرار دیا ہو یا
بالعکس یا ایک حدیث کے متن کو دوسری حدیث میں داخل کر دیا گیا ہو یا اور
کوئی وہم ہو۔ ان علل مزکورہ میں سے کوئی علت بھی سند یا متن میں پائی جاتی
ہو تو وہ حدیث معلل ہوتی ہے۔ آئمہ حدیث نے روایت معلل کی معرفت کو بہت مشکل
قرار دیا ہے حتیٰ کہ عبدالرحمان مہدی نے کہا کہ علل حدیث کی معرفت الہام کے
سوا حاصل نہیں ہوتی۔
امام بخاری حدیث کے باقی فنون کی طرح علل حدیث میں بھی انتہائی ماہر اور
اپنے وقت کے امام گردانے جاتے ہیں اور بڑے بڑے مشہور محدث آپ کی خدمت میں
حاضر ہو کر آپ سے علل حدیث کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے۔
وراق بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام مسلم بن حجاج، امام بخاری کی خدمت
میں حاضر ہوئے اور کہاں اے استاذ الاساتذہ، سید المحدثین اور علل حدیث کے
طبیب یہ بتلائیے کہ " اخبرنا ابن جریح عن موسیٰ عن عقبہ عن سہیل عن ابیہ
ابی ھریرۃ " اس سند میں کونسی علت ہے امام بخاری نے فرمایا کہ موسیٰ بن
عقبہ کا سہیل سے سماع نہیں ہے۔ پس جو حدیث بظاہر متصل تھی وہ در حقیقت
منطقع ثابت ہوئی (17)۔
حافظ احمد بن حمدون بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک جنازہ کے موقع پر دیکھا کے
محمد بن یحیٰی ذہلی، امام بخاری سے اسماء اور علل کے بارے میں سوال کر رہے
تھے اور امام بخاری اس تیزی اور روانی سے جواب دے رہے تھے جیسے آپ کے منہ
سے جواب نہیں کمان سے تیر نکل رہا ہو (18)۔
نجی حالات:
امام بخاری کے والد محدث اسماعیل بن ابراہیم انتہائی امیر کبیر شخص تھے اور
امام بخاری نے ان سے وراثت میں مال و دولت کا بہت بڑا حصہ حاصل کیا تھا۔
امام بخاری اپنا مال مضاربت پر دیتے تھے خود بنفسہ تجارت نہیں کرتے تھے ایک
شخص نے آپ کے پچیس ہزار درہم دینے تھے آپ نے فرمایا تم دس درہم ماہانہ ادا
کر دیا کرو۔
ابو سعید بکر بن منیر کہتے ہیں ایک مرتبہ ابو حفص نے امام بخاری کے پاس کچھ
سامان بھیجا، تجار کو پتہ چلا تو وہ اس سامان کو خریدنے کے لیے پہنچ گئے
اور پانچ ہزار درہم کی پیشکش کی آپ نے فرمایا رات کو آنا شام کو تاجروں کا
دوسرا گروہ آیا اور اس نے دس ہزار درہم کی پیشکش کر دی آپ نے فرمایا میں
پہلے گروہ کے ساتھ بیع کی نیت کر چکا ہوں اب پانچ ہزار درہم کی خاطر میں
اپنی نیت بدلنا نہیں چاہتا۔
سادگی اور انکساری:
امام بخاری مزاج اور طبیعت کے اعتبار سے بہت سادہ اور جفاکش تھے اپنی ضرورت
کے تمام کام خود کر لیا کرتے تھے۔ مال و دولت اور جاہ مرتبت کے باوجود کبھی
خدام اور غلاموں کا حشم قائم نہیں رکھا۔ محمد بن حاتم وراق آپ کے خصوصی
شاگرد تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام بخاری بخارا کے قریب سرائے
بنا رہے تھے اور اپنے ہاتھوں سے اٹھا اٹھا کر دیوار میں اینٹیں لگا رہے تھے
میں نے آگے بڑھ کر کہا آپ رہنے دیجیے یہ اینٹیں میں لگا دیتا ہوں آپ نے
فرمایا قیامت کے دن یہ عمل مجھے نفع دے گا۔
وراق کہتے ہیں کہ جب ہم امام بخاری کے ساتھ کسی سفر میں جاتے تو آپ ہم سب
کو ایک کمرہ میں جمع کر دیا کرتے اور خود علیحدہ رہتے۔ ایک بار میں نے
دیکھا امام بخاری رات کو پندرہ بیس مرتبہ اٹھے اور ہر مرتبہ خود اپنے ہاتھ
سے آگ جلا کر چراغ روشن کیا۔ کچھ احادیث نکالیں ان پر نشانات لگائے پر تکیہ
پر سر رکھ کر لیٹ گئے۔ میں نے عرض کیا آپ نے رات کو اٹھ کر تنہا مشقت
برداشت کی مجھے اٹھا لیتے۔ فرمایا تم جوان ہو اور گہری نیند سوتے ہو میں
تمہاری نیند خراب کرنا نہیں چاہتا۔
فیاضی:
امام بخاری جس قدر مال سے غنی تھے اس سے زیادہ ان کا دل غنی تھا۔ بعض اوقات
ایک دن میں تین تین سو درہم صدقہ کر دیا کرتے تھے۔ وراق کہتے ہیں امام
بخاری کی ماہانہ آمدنی پانچ سو درہم تھی اور یہ تمام رقم وہ طلبہ پر خرچ کر
دیا کرتے تھے۔
زھد:
لزائد دنیاویہ اور عیش و عشرت سے امام بخاری کوسوں دور تھے طلب علم میں بسا
اوقات انہوں نے سوکھی ہوئی گھاس کھا کر بھی وقت گزارا ہے۔ ایک دن میں عام
طور پر صرف دو یا تین بادام کھایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بیمار پڑ گئے اطباء
نے بتلایا کہ سوکھی روٹی کھا کھا کر ان کی انتڑیاں سوکھ چکی ہیں اس وقت
امام بخاری نے بتلایا کہ وہ چالیس سال سے خشک روٹی کھا رہے ہیں اور اس طویل
عرصہ میں سالن کو بالکل ہاتھ نہیں لگایا۔
خدا خوفی:
امام بخاری تقویٰ اور پرہیزگاری کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے۔ ظاہروباطن میں
خدا سے بے حد ڈرتے تھے مشتبہات سے بچتے۔ غیبت سے پرہیز کرتے اور لوگوں کے
حقوق کا پورا خیال رکھتے تھے۔ انہیں تیر اندازی کا بے حد شوق تھا ایک مرتبہ
ان کا تیر نہر کے پل پر لگا اور اس کی کیل خراب ہوگئی۔ امام بخاری بے حد
پریشان ہوئے اور پل کے مالک حمید بن اخضر کے پاس پیغام بھیجا کہ یا ہم کو
کیل بدلنے کی اجازت دو یا کیل کی قیمت لے لو اور یا ہماری غلطی معاف کر دو۔
حمید بن اخضر نے سلام بھیجا اور کہا اے ابو عبداللہ میں صرف یہ کیل نہیں
بلکہ اپنی تمام املاک تمہارے تصرف میں دیتا ہوں جس طرح چاہے ان میں تصرف
کرو۔ امام بخاری نے جب یہ جواب سنا تو ان کا چہرہ کھل اٹھا اسی خوشی میں
انہوں نے پانچ سو احادیث بیان کیں اور تیں سو درہم صدقہ کر دیے۔
ایک شخص نے امام بخاری سے کہا آپ نے تاریخ کبیر میں لوگوں کے عیوب بیان کیے
ہیں اور ان کی غیبت کی ہے امام بخاری نے کہا میں نے کسی شخص پر کوئی حکم
نہیں لگایا صرف روایت بیان کی ہے چنانچہ کاذب راویوں کو آپ نے تاریخ کبیر
میں کذاب لکھنے کی بجائے کذبہ فلاں یا رماہ فلاں بالکذب لکھا ہے۔ بکر بن
منیر سے روایت ہے کہ امام بخاری کہتے تھے کہ مجھے امید ہے کہ جب میں اللہ
تعالیٰ سے ملاقات کروں گا تو اللہ تعالیٰ مجھ سے حساب نہیں لے گا کیونکہ
میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔
عبادت و ریاضت:
امام بخاری بے حد عبادت کزار اور شب بیدار تھے کثرت سے نوافل پڑھتے اور
روزے رکھتے تھے۔ رمضان شریف میں ہر روز ایک قران شریف کا ختم کرتے اور
روزانہ نصف شب کو اٹھ کر قران کریم کے دس پاروں کی تلاوت کرتے۔ تراویح میں
ختم قران کرتے اور ہر رکعت میں بیس آیات کی تلاوت کیا کرتے تھے۔
ابو بکر بن منیر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ محمد بن اسماعیل نماز پڑھ رہے تھے
نماز کے بعد انہوں نے قمیص کا دامن اٹھایا اور اپنے ایک شاگرد سے کہا زرا
دیکھنا میری قمیص کے نیچے کیا ہے۔ شاگرد نے دیکھا قمیص کے نیچے زنبور تھی
جس نے ان کے بدن پر پندرہ سولہ جگہ ڈنگ لگایا ہوا تھا جس کی وجہ سے آپ کا
بدن جگہ جگہ سے سوجھ گیا تھا۔ ابن منیر نے پوچھا جب آپ کو کو زنبور نے پہلی
پرتبہ کاٹا تو اس وقت آپ نے نماز کیوں نہیں توڑی۔ آپ نے فرمایا میں قران
کریم کی جس آیت کی تلاوت کر رہا تھا اس میں اتنا ذوق و شوق پا رہا تھا کہ
میں اس وقت اس تکلیف کی طرف متوجہ نہ ہو سکا۔
اخالاق حسنہ:
امام بخاری بڑے انتہائی برد بار اور حلیم تھے کسی شخص کی بد سلوکی پر وہ
کبھی غیض و غضب میں نہ آتے اور برائی کا بدلہ ہمیشہ نیکی سے دیا کرتے تھے
کسی شخص کی اصلاح مقصود ہوتی تو اسے برسرِ مجلس کبھی ملامت نہ کرتے ہر شخص
کی عزت نفس کا خیال رکھتے اور کبھی کسی شخص کو شرمندہ نہ ہونے دیتے۔
عبداللہ محمد صبیاءنی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام بخاری لکھ رہے تھے۔
ناگاہ کنیز آگے سے گزری اور اس نے پیر کی ٹھوکر سے دوات گرادی آپ نے فرمایا
دیکھ کر چلا کرو اس نے تنک کر بدتمیزی سے جواب دیا جب راستہ نہ ہو تو کیسے
چلوں آپ نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا اور کہا جاوٴ تم آزاد ہو۔
علی بن محمد منصور اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام بخاری
مسجد کے اندر حلقہ احباب میں بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص کی ڈاڑھی میں کوئی
گندی چیز لگی ہوئی تھی اس نے وہ گندگی ڈاڑھی سے نکال کر مسجد کے فرش پر
پھینک دی۔ علی بن محمد کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ امام بخاری نے لوگوں کی
نظریں بچا کر چپکے سے وہ گندگی اپنی آستین میں اٹھا کر رکھ لی اور بعد میں
لوگوں کے جانے کے بعد وہ گندگی مسجد کے باہر پھینک دی اس طرح امام بخاری نے
مسجد کے فرش کو بھی گندگی سے صاف کیا اور اس شخص کو بھی برسرِ مجلس شرمندگی
سے بچا لیا (19)۔
امام بخاری بے حد صابر و شاکر تھے اور اپنی ذات کا انتقام بالکل نہیں لیتے
تھے ان کے شیوخ میں سے محمد بن یحیٰی ذہلی نے نیشاپور میں الفاظِ قران کو
غیر مخلوق نہ کہنے پر امام بخاری کے خلاف محاز قائم کر دیا اور امام بخاری
کے درس پر پابندی لگا دی اور برسرِ عام کہہ دیا کہ بخاری اس شہر میں نہیں
رہ سکتے جس کی وجہ سے امام بخاری نیشاپور چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔ ذہلی کی
اس بدسلوکی سے امام مسلم اس قدر برہم ہوئے کہ انہوں نے وہ تمام احادیث جو
ذہلی سے املاء کی تھیں ایک بنڈل میں باندھ کر واپس ذہلی کو بجھوادیں۔ لیکن
امام بخاری نے ذہلی کی روایت کو نہیں چھوڑا اور صحیح بخاری میں ذہلی کی
روایت کو برقرار رکھا البتہ پورا نام زکر کرنے کی بجائے یا فقط محمد لکھتے
ہیں یا اس کے دادا کی طرف نسبت کر کے محمد بن خالد لکھتے کسی نے اس اجمال
کی وجہ پوچھی تو بتلایا کہ ذہلی مجھ پر جرح کرتا ہے اگر میں اس کا نام
صراحتہً زکر کروں تو وہ متعین ہو جائے گا اور لوگ سمجھیں گے کہ میں اپنے
جارح کی تعدیل کر رہا ہوں اور اس سے میری صداقت اور عدالت پر حرف آئے گا جس
کا اثر میری روایت پر پڑے گا۔
امام بخاری کا فقہی مسلک:
امام بخاری کے اپنے کلام میں اس بات کی کوئی تصریح نہیں ہے کہ ان کا فقہی
مسلک کیا تھا البتہ جامع صحیح میں امام بخاری ایسی احادیث بکثرت لائے ہیں
جو مسلک شافعی کی موید ہیں اور غالباً اسی بنا پر بعض مشاہیر علماء نے ان
کو امام شافعی کا مقلد گردانا ہے۔ چنانچہ امام قسطلانی تاج الدین سبکی کے
حوالہ سے لکھتے ہیں:-
" وقد ذکرہ اب عاصم فی طبقات اصحابنا الشافعیۃ (20)۔ "
"ابو عاصم نے امام بخاری کو ہمار سے طبقات شافعیہ میں بیان کیا ہے۔"
اور تاج الدین سبکی امام بخاری کے بارے میں لکھتے ہیں :-
" وسمع بمکّۃ عن الحمیدی و علیہ تفۃ عن الشافعی (21)۔"
" یعنی امام بخاری نے مکہ میں حمیدی سے سماع کیا اور انہیں سے فقہ شافعی
پڑھی۔"
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :-
" ذکر ابو عاصم العبادی ابا عبداللہ فی کتابہ الطبقات و قال سمع من
الزعفرانی وابی ثور الکرابیسی قلت و تفقہ علی الحمیدی و کلھم من اصحاب
الشافعی (22) ۔ "
" ابو عاصم عبادی نے امام بخاری کا ذکر اپنی کتاب طبقات شافعیہ میں کیا ہے
اور کہا ہے کہ امام بخاری نے زعفرانی ابوثور اور کرابیسی سے سماع کیا ہے
اور میں کہتا ہوں انہوں نے حمیدی سے فقہ پڑھی ہے اور یہ سب امام شافعی کے
شاگرد تھے ۔ "
امام تاج الدین سبکی نے یہ تمام ثبوت حافظ ابو عاصم کے اس قول کو تقویت
پہنچانے کے لیے زکر کیے ہیں کہ امام بخاری شافعی المذہب تھے۔ حافظ ابو عاصم
سن 357 ھ میں یعنی امام بخاری کے وصال کے ٹھیک ایک سو ایک سال بعد پیدا
ہوئے ان کا زمانہ امام بخاری کے بہت قریب تھا اس لیے ان کی بات پر اعتماد
کرنے کی وجوہ ہیں۔
اور نواب صدیق حسن بھوپالی مدینۃ العلوم سے نقل کرکے لکھتے ہیں :-
" ولنذکر بعد ذٰلک نبذا من ائمۃ الشافعیۃ لیٰکون الکتٰب کامل الطرفین حائز
الشرفین وھٰوٴلاء صنفان احدہما من تشرف بصحبتہ الامام الشافعی والاخر من
تلاھم من الائمۃ اما الاوّل فمنھم احمد الخلال، ابو جعفر البغدادی وامّا
الصنف الثانی فمنھم محمّد بن ادریس ابو حاتم الرّازی و محمد بن اسمٰعیل
البخاری ومحمّد بن علی الحکیم ترمذی (23)۔ "
" اور ہمیں چاہیے کہ اب کچھ آئمہ شافعیہ کا تذکرہ کریں تا کہ ہماری کتاب
حنفی اور شافعی دونوں طرفوں کی جامع ہو جائے اور آئمہ شافعیہ دو قسم پر ہیں
ایک وہ جو امام شافعی کی صحبت سے مشرف ہیں جیسے احمد خلال اور ابو جعفر
بغدادی، دوسری قسم کے آئمہ شافعیہ وہ ہیں جیسے محمد بن ادریس رازی، محمد بن
اسمعیل البخاری اور حکیم ترمذی۔ "
ان ٹھوس حوالہ جات کے پیشِ نظر امت کی اکثریت اس طرف گئی ہے کہ امام بخاری
شافعی المذہب تھے۔ بہرحال امام بخاری شافعی ہونے کی تقدیر پر بھی محض مقلد
نہیں تھے بلکہ مجتہدنی المسائل تھے اور طبقات فقہاء میں تیسرے درجے پر فائز
تھے یہی وجہ ہے کہ وہ بعض مسائل میں امام شافعی سے اختلاف کرتے ہیں اور ان
مسائل میں خود اجتہاد کرتے ہیں۔ اسی لیے اہلِ علم کے نزدیک امام بخاری کی
مثال شوافع میں ایسی ہے جیسے احناف میں امام ابوجعفر طحاوی کی۔
کلمات الثناء:
امام بخاری کے علمی اور عملی کمالات اور ان کے فضائل ومناقب کا ان کے زمانہ
کے تمام اہلِ فضل حضرات نے اعتراف کیا ہے۔ جن لوگوں نے آپ کے علمی اور عملی
خدمات کو سراہا ان میں آپ کے مشائخ، معاصرین اور تلامذہ کی ایک طویل فہرست
ہے۔ اگر امام بخاری کے حق میں بیان کیے گئے تمام تعریفی کلمات کو جمع کیا
جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں
کہ امام بخاری کی اس قدر مدح وثناء کی گئی ہے کہ قرطاس و قلم ختم ہو سکتے
ہیں لیکن ان کے مناقب کا بیان ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ وہ بحر ہے جو
اپنا ساحل نہیں رکھتا۔
اساتذہ سے:
امام بخاری کے استاذ ابو مصعب احمد بن ابی بکر نے کہا امام بخاری حدیث میں
امام احمد بن حنبل سے زیادہ بصیرت رکھتے ہیں۔ کسی شخص نے اس پات پر تعجب
کیا تو انہوں نے کہا اگر تم امام مالک کو دیکھتے تو ان میں اور بخاری میں
سرمو فرق نہ پاتے۔ امام بخاری کے ایک اور استاذ قتیبہ بن سعید نے کہا میرے
پاس مشرق و مغرب سے بے شمار لوگ علم حدیث کی تحصیل کے لیے آئے لیکن ان میں
بخاری جیسا کوئی نہ تھا۔ امام احمد بن حنبل نے کہا ارض خراسان نے آج تک
بخاری کی نظیر نہیں پیدا کی۔ اسحاق بن راہویہ نے کہا بخاری سے احادیث روایت
کرو اور ان کو لکھ لیا کرو۔ بلاریب اگر بخاری، حسن بصری کے زمانہ میں ہوتے
تو وہ علم حدیث میں ان کی طرف رجوع کرتے۔
معاصرین سے:
امام بخاری کے معاصرین میں سے دارمی نے کہا میں نے حجاز، شام اور عراق کے
علماء دیکھے مگر بخاری جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ اسحاق بن خزیمہ نے کہا اس
آسمان کے نیچے محمدن بن اسماعیل سے بڑھ کر کوئی عالمِ بالحدیث نہیں ہے۔
حاتم بن منصور نے کہا امام بخاری اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ایک آیت ہیں۔
تلامذہ سے:
اور تلامذہ میں سے امام ترمذی نے کہا میں نے اسانید اور علل کے علم میں
امام بخاری سے بڑھ کر کسی کو نہیں پایا۔ امام مسلم نے کہا میں شہادت دیتا
ہوں کہ امام بخاری کا کوئی مماثل نہیں ہے اور سلیم بن مجاہد نے کہا میں نے
ساٹھ سال سے امام بخاری جیسا کوئی شخص نہ علم میں دیکھا نہ عمل میں (24)۔
تلامذہ کی تعداد:
امام بخاری کے زمانہ میں بصرہ، بغداد، نیشاپور، سمرقند اور بخارا علوم
اسلامیہ کے مرکز قرار دیے جاتے تھے ان شہروں میں امام بخاری بارہا گئے اور
بے حساب لوگوں کو احادیث املاء کرائیں۔ بخارا سے لے کر حجاز تک امام بخاری
کے تلامذہ کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ ملا علی قاری ہروی اور قسطلانی نے لکھا
ہے کہ امام بخاری سے ایک لاکھ اشخاص نے روایت کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ
عدد وشمار ان کے تلامذہ کا احصاء کرنے سے قاصر ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے امام بخاری کے تلامذہ کا اجمالاً ذکر کیا ہے۔ وہ
لکھتے ہیں امام بخاری کے مشائخ میں سے عبداللہ بن محمد مسندی، عبداللہ بن
منیر، اسحاق بن احمد سرمادی اور محمد بن خلف بن قتیبہ نے ان سے روایت کی ہے
(25)۔
معاصرین میں سے ابوزرقہ، ابو ھاتم رازیان، ابراہیم حربی، ابو بکر بن ابی
عاصم، موسیٰ بن ہارون جمال، محمد بن عبداللہ بن مطین، اسحاق بن احمد بن
زیرک فارسی، محمد بن قتیبہ بخاری اور ابو بکر بن اعین نے امام بخاری سے
روایت کی ہے۔
اکابرین میں سے حافظ صالح بن محمد، مسلم بن حجاج، ابوالفضل احمد بن سلمہ،
ابوبکر بن اسحاق بن خزیمہ، محمد بن نصرمروزی ابو عبدالرحمٰن نسائی اور ابو
عیسیٰ ترمذی نے امام بخاری سے روایت کی ہے۔
جن لوگوں نے باقاعدہ شاگردی اختیار کی اور امام بخاری کی اعتماد حاصل کیا
ان کے اسماء یہ ہیں:-
عمر بن محمد بحیری، ابو بکر بن ابی الدنیا، ابو بکر بزار، حسین بن محمد
بتائی، یعقوب بن یوسف بن اخرم، عبداللہ بن محمد بن ناجہہ، سہل بن شازویہ
بخاری، عبیداللہ بن و اصل، قاسم بن زکریا مطرز، ابو قریش محمد بن جمعہ،
محمد بن سلیمان باغندی، ابراہیم بن موسیٰ جوہری، علی بن عباس ابو حامد
اعمشی، ابوبکر احمد بن محمد بن صدقہ بغدادی، اسحاق بن داوٴد، حاشد بن
اسماعیل بخاری، محمد بن عبداللہ بن جنید، محمد بن موسیٰ، جعفر بن محمد
نیشاپوری، ابوبکر بن داوٴد، ابوالقاسم بغوی، ابومحمد بن صاعد، محمد بن
ہارون حضرمی، اور حسین بن عاملی بغدادی۔
تصانیف:
امام بخاری کی زندگی کا اکثر حصہ احادیث کی تلاش میں شہر در شہر سفر میں
گزرا ہے اور انہیں کسی ایک جگہ سکون سے بیٹھ کر کام کرنے کا موقعہ بہت کم
ملا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے خاطر خواہ تعداد میں تصانیف چھوڑی ہیں۔ حافظ
ابن حجر عسقلانی اور دیگر حضرات نے جو امام بخاری کی تصانیف گنوائی ہیں وہ
یہ ہیں:-
الجامع الصحیح
التاریخ الکبیر
التاریخ الاوسط
التاریخ الصغیر
کتاب الصنعف
کتاب الکنی
الادب المفرد
جز رفع الیدین
جزالقراۃ خلف الامام
کتاب الاشربۃ
کتاب الہبہ
کتاب العلل
برالوالدین
الجامع الکبیر
التفسیر الکبیر
المسند الکبیر
خلق افعال العباد
قضایہ الصحابہ والتابعین
کتاب الوحدان
کتاب المبسوط
کتاب الفوائد
اسامی الصحابہ
خلق قران کا مناقشہ:
سن 250 ھ میں امام بخاری نے نیشاپور آنے کا پروگرام بنایا اس خبر کو سنتے
ہی اہالیان نیشاپور میں فرحت و مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ اس زمانہ میں محمد بن
یحیٰی ذہلی نیشاپور کی علمی ریاست کے والی تھے۔ محمد بن یحیٰی ذہلی نے شہر
کے لوگوں کو امام بخاری کے استقبال کی تلقین کی چنانچہ لوگوں کے ایک انبوہ
کثیر نے محمد بن یحیٰی کی قیادت میں شہر سے تین مرحلہ آگے جا کر امام بخاری
کا استقبال کیا اور انتہائی تزک واحتشام سے امام بخاری کو شہر میں لے کر
آئے۔ امام مسلم بن حجاج کہتے ہیں میں نے اس سے پہلے اتنا عظیم الشان
استقبال نہ کسی عالم کا دیکھا تھا نہ کسی حاکم کا۔
امام بخاری نے نیشاپور میں درس حدیث دینا شروع کیا ان کے درس میں ہر وقت
اژدہام رہتا تھا اور بے حساب لوگ امام بخاری سے علم حدیث کا استفادہ کرتے
تھے۔ بعض حاسدین کو امام بخاری کی شہرت اور مقبولیت بُری لگی اور انہوں نے
محمد بن یحیٰی کو امام بخاری کا مخالف بنا دیا۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ محمد
بن یحیٰی ذہلی قران کریم کے الفاظ کو بھی قدیم مانتے تھے۔ اس پر بڑی شدت سے
قائم تھے کسی شخص نے جاکر امام بخاری سے پوچھا کہ قران مخلوق ہے یا غیر
مخلوق۔ امام بخاری ٹالتے رہے جب اس نے زیادہ اصرار کیا تو آپ نے کہا:-
"القران کلام اللہ غیر مخلوق" اس نے پھر اسرار کیا قران کے الفاظ کا حکم
بتلائیے تو آپ نے کہا:- " افعالنا مخلوقۃ والفاظنا من افعالنا (ہمارے افعال
مخلوق ہیں اور الفاظ بھی ہمارے افعال ہیں) " بس پھر کیا تھا شور مچ گیا کہ
امام بخاری الفاظ قران کو مخلوق مانتے ہیں جب ذہلی تک یہ خبر پہنچی تو وہ
تمام عنایات منقطع کر کے یکیسر مخالف ہوگئے اور اعلان کر دیا کہ بخاری کے
درس میں کوئی شخص نہ جائے۔ چنانچہ مسلم بن حجاج کے سوا تمام لوگوں نے امام
بخاری کے درس میں جانا بند کردیا۔ آخرکار جب امام بخاری اہلِ نیشاپور سے
مایوس ہوگئے تو آپ نے نیشاپور سے بخارا کی طرف روانگی کا قصد کر لیا (26)۔
وطن کو واپسی:
جب اہلِ وطن کو معلوم ہوا کہ امام بخاری وطن واپس لوٹ رہے ہیں تو انہیں بے
حد خوشی ہوئی۔ انہوں نے بخارا سے کئی منزل پہلے امام بخاری کی پیشوائی کے
لیے خیمے نصب کر دیے اور بڑے تزک واہتمام اور شان و شکوہ سے امام بخاری کو
شہر لے کر آئے۔ امام بخاری نے بخارا میں درس قائم کر دیا اور اطمینان سے
پڑھانے میں مصروف ہوگئے۔
حاسدین نے یہاں بھی امام بخاری کا پیچھا نہ چھوڑا وہ خلافت عباسیہ کے نائب
خالد بن احمد ذہلی والی بخارا کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ امام بخاری سے
کہیے کہ وہ آپ کے صاحبزادے کو گھر آکر پڑھایا کریں جب والی بخارا نے امام
بخاری سے یہ فرمائش کی تو آپ نے فرمایا میں علم کو سلاطین کے دروازے پر لے
جا کر زلیل کرنا نہیں چاہتا۔ جس شخص کو پڑھنے کی ضرورت ہے اس کو میرے درس
میں آنا چاہیے۔ والی بخارا نے کہا اگر میرا لڑکا درس میں آئے تو وہ عام
لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں پڑھے گا آپ کو اسے علیحدٰہ پڑھانا ہوگا۔ امام
بخاری نے جواب دیا میں کسی شخص کو احادیث رسول کی سماعت سے روک نہیں سکتا۔
یہ جواب سن کر حاکم ناراض ہوگیا اور اس نے ابن الوقت علماء سے امام بخاری
کے خلاف فتویٰ حاصل کر کے انہیں شہر نکل جانے کا حکم دے دیا۔
امام بخاری اپنے وطن میں آکر بے وطن ہونے پر بہت آزردہ ہوئے۔ ابھی ایک ماہ
بھی نہ گزرا تھا کہ خلیفہ نے والی بخارا خالد بن احمد ذہلی کو معزول کر دیا
اور اسے گدھے پر سوار کرا کے محل سے نکالا گیا اور قیدخانہ میں بند کردیا
گیا جہاں وہ انتہائی ذلت اور رسوائی سے چند دن گزارنے کے بعد ہلاک ہوگیا۔
اسی طرح جن لوگوں نے امیر بخارا کی معاونت کی تھی وہ سب مختلف بلاوٴں مین
گرفتار ہو کر ہلاک ہوگئے (27)۔
وصال:
بخارا سے واپس ہونے کے بعد امام بخاری نے سمر قند جانے کا قصد کیا۔ ابھی
سمر قند سے کئی منزل دور تھے تو آپ کو اطلاع ملی کہ اہلِ سمرقند میں آپ کے
بارے میں دوآراء ہوگئی ہیں یہ سن کر آپ وہیں راستہ میں خرتنگ نامی ایک بستی
میں رک گئے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اے خدا یہ زمین اپنی وسعت کے باوجود
مجھ پر تنگ ہوتی جا رہی ہے مجھے اپنے پاس واپس بلالے۔ اس دعا کے بعد آپ
بیمار پڑگئے۔ اس اثناء میں اہلِ سمر قند نے بلانے کے لیے آپ کے پاس قاصد
بھیجا آپ جانے کے لیے تیار ہوگئے مگر طاقت نے ساتھ نہ دیا۔ چند دعائیں
پڑھیں اور لیٹ گئے۔ جسم سے پسینہ بہنا شروع ہوا۔ ابھی وہ پسینہ خشک نہ ہوا
تھا کہ آپ نے جان، جان آفرین کے شپرد کر دی اور اس طرح یکم شوال سن 265 ھ
کو باسٹھ سال کی زندگی گزار کر رات کے وقت علم و فضل کا وہ عظیم آفتاب غروب
ہوگیا جس کے علم و عمل کی روشنی سے سمر قند، بخارا، بغداد اور نیشاپور کے
بے شمار عوام وخواص اپنے دل و دماغ کو منور کر رہے تھے (28)۔
بارگاہ رسالت میں مقبولیت:
امام بخاری نے ساری عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہٴ کی تلاش، آپ
صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کی تتبع اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث
کی خدمت میں گزاری۔ ان کی زندگی کا ایک ایک عمل متابعتِ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کا مظہر تھا۔ وراق کہتے ہیں میں نے ایک پرتبہ خواب میں دیکھا کہ امام
بخاری حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے جا راہے ہیں اور حضور صلی
اللہ علیہ وسلم جس جگہ قدم رکھتے امام بخاری بھی بعد میں وہیں قدم رکھتے
ہیں (29)۔
فربزی کہتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کسی جگہ جا رہا ہوں حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہاں جا رہے ہو میں نے عرض کیا محمد بن اسمعاعیل
کے پاس۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاوٴ اور اسے جا کر میرا سلام
کہنا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عنایات جس طرح ندگی میں امام بخاری کے شاملِ
حال تھیں اسی طرح وصال کے بعد بھی یہ وجیہات ان پر سایہ فگن رہیں۔ چنانچہ
عبدالواحد بن آدم طوادیسی کہتے ہیں کہ میں نے ایک رات خواب دیکھا کہ حضور
صلی اللہ علیہ وسلم جماعتِ صحابہ کے ساتھ ایک جگہ کھڑے ہوئے ہیں میں نے
پوچھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کس کا انتظار ہے فرمایا بخاری کا۔ طوادیسی
کہتے ہیں چند دن بعد مجھے امام بخاری کے وصال کی خبر پہنچی میں نے تحقیق کی
تو معلوم ہوا کہ امام بخاری کا اسی رات انتقال ہوا تھا جس رات میں نے خواب
میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی تھی۔
|