جامعِ قرآن، حضرت سیدنا عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ

اے لوگو!وہ وقت یادکرو، جب مسجد نبوی کی زمین تنگ تھی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو اس زمین کوخریدکر مسجد کے لئے وقف کردے اورجنت میں اس سے بہتر جگہ کاوارث بن جائے؟ تو وہ کون تھا جس نے رسول اللہ ﷺ کے اس حکم کی تعمیل کی تھی؟
آوازیں آئیں:آپ نے تعمیل کی تھی۔
پھر فرمایا:کیا تم آج مجھے اسی مسجد میں نماز پڑھنے سے روکتے ہو؟

یہ درد بھرا سوال کرنے والے عظیم صحابی رسول،خلیفہ ثالث، امیرالمومنین حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ تھے ،جو بارگاہ خداوندی کے انتہائی مقرب،پیکر عفت وحیائ، مجسم صدق وصفا، قدوة الصابرین، عمدة السالکین، منبع جودوسخا، ذوالنورین کے عظیم لقب سے سرفراز ہیں، خود زبان رسالت سے انہیں ”ولی فی الدنیا والآخرة“ کی بشارت سے نوازاگیا۔ جن کے بارے میں حضرت علی المرتضیٰؓ نے فرمایا:جناب عثمان ؓکو ملاءاعلیٰ میں ذوالنورین کے لقب سے پکاراجاتا ہے۔

شہید مظلوم خلیفہ ثالث حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ نبی کریم ﷺ سے چھ سال بعدپیدا ہوئے۔ آپ قبیلہ قریش کے عالی نسب اور نجیب الطرفین شخص تھے ۔ان چند خوش نصیب افراد میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے زمانہ جاہلیت میں ہی پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا۔ ابتداءسے سن بلوغت تک کسی ایسے شغل یا طریقہ کو اختیار نہیں کیا جو اخلاق حسنہ اور عادات کریمانہ کے خلاف ہو، آپ بڑے سلیم الفطرت ، دیانت دار اور راست باز تھے دل ہمدردانہ اور غمخوار پایاتھا۔جوان ہوئے تو تجارت شروع کر دی ، اپنی صداقت ، دیانت اور راست بازی کے باعث نہ صرف بہت بڑا نفع کمایابلکہ روسائے عرب مشہور ہوگئے۔ابتدا میں ہی حضرت ابوبکرصدیق کی دعوت پر اسلام قبول کرلیا۔نبی کریمﷺ نے آپ کی حسن سیرت وصورت اورخوش حالی ونیک طبعی کودیکھ کر انہیں اپنی دامادی میں قبول فرما کر ایک عظیم شرف سے نوازااور اپنی صاحبزادی حضرت رقیہؓ کا نکاح ان سے کر دیا، یہ نکاح اتنا بابرکت تھا کہ مکے میں عام طور پر لوگ کہاکرتے تھے:” بہترین جوڑا ، جو کسی انسان نے دیکھا وہ حضرت رقیہؓ اور ان کے خاوند ہیں“۔

جب مکہ مکرمہ میں مشرکین کے ظلم و ستم کی انتہا ہوگئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مشورے سے آپ نے اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رقیہ ؓکو ساتھ لیکر حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ اس موقع پر آپﷺ فرمایا:”میری امت میں عثمان پہلا شخص ہے جس نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی“۔آپ کا حبشہ میں تقریباً آٹھ سال قیام رہا۔پھر مکہ واپس آگئے، جس کے تھوڑے عرصے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام کوہجرت مدینہ کا حکم دیا تو حضرت عثمانؓ بھی مدینہ تشریف لے آئے ،یوں آپ نے دو ہجرتوں کا اعزاز حاصل کیا۔

ہجرت مدینہ کے بعد جب کفار کی ریشہ دوانیوں کے توڑ کے لئے اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کو جہاد کا حکم دیاتو حضرت عثمانؓ ،اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے بعد جان و مال کی قربانی پیش کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔تمام غزوات میں شرکت کی۔غزوئہ بدر کے موقع پر جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت رقیہؓ کی بیماری کے باعث ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان کو ان کی تیمارداری کیلئے مدینہ میں ہی چھوڑ دیا۔جب غزوہ بدر کی فتح پر صحابہ کرام نعرہ تکبیر کی صدا بلند کرتے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت عثمان اور اسامہ بن زید اس ملکہ جنت کی تجہیز و تکفین میں مشغول تھے۔ محبوب بیوی اور وہ بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نورنظر کی وفات کا سانحہ کوئی معمولی سانحہ نہ تھا ،حضرت عثمان پر بیک وقت دو بھاری مصیبتوں کا غم ِ گراں آپڑا،ایک حضرت رقیہ کی جدائی کا غم اور دوسرا اسلام کی پہلی اور عظیم الشان جنگ غزوہ بدر سے محرومی کا غم ،مگررسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے دونوں غموں کا ازالہ فرمایا کہ بدر کے مال غنیمت میں سے انہیں ایک مجاہد کے برابر حصہ عنایت فرمایا اور بشارت سنائی کہ وہ اجر وثواب میں بھی کسی بدری مجاہدسے کم نہیں رہیں گے۔ پھر اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثومؓ سے ان کا نکاح کروا کر دوبارہ خاندانِ نبوت سے ان کارشتہ قائم کر دیا۔

آپ رضی اللہ عنہ جمیع اوصاف جمیلہ واخلاق حسنہ کے مالک ہیں اور آپ کی تمام زندگی اطاعت الٰہی و اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں گزری۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتہائی قریبی رفقا میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ فاروق اعظم کی شہادت کے بعد چھ کبار صحابہ کرام پر مشتمل مجلس شوری نے حضرت عثمان کو خلافت کیلئے منتخب کیا۔ یکم محرم24 ھ کو آپ نے مسند خلافت سنبھالی۔بیعت ِ خلافت لینے کے بعد یہ خطبہ دیا: ''میرے نازک کندھوں پر یہ بارگراںڈال دیا گیا ہے جسے میں نے قبول کر لیا ہے۔ سن لیجئے !میں کتاب و سنت کی اتباع کرنے والا ہوںاور بدعت ایجاد کرنے والا نہیں ہوں''۔اس کے بعد ارشاد فرمایا :پھرسن لو! بلا شبہ دنیا ایک سبز باغ ہے جو لوگوں کے دلوں کو لبھاتی ہے اور اس کی طرف بہت سے لوگ جھک جاتے ہیں۔ پس تم دنیا سے دل نہ لگاﺅ اور نہ ہی اسی میں منہمک ہوجاؤ، یہ مضبوط ودیرپا چیز نہیں اور جان لو کہ دنیا کسی کو نہیں چھوڑتی، سوائے اس کے جوخود اسے چھوڑ دے“۔اس کے بعدامراءفوج اوروالیان صوبہ جات کے نام ایک مراسلہ جاری کیاکہ وہ رعایا کے ساتھ عدل وانصاف کا برتاؤ کریں اورجس طریقہ سے خلیفہ سابق کے دور میں خدمات انجام دیتے آئے ہیں اسی پر قائم رہیں، امانت داری اور وفاءعہد کا خاص لحاظ رکھیں۔

آپ کے زمانہ خلافت میںبکثرت فتوحات ہوئیں، ان مفتوحہ علاقوںمیں طرابلس ، الجزائر ، مراکش ، اسپین ، طبرستان ، آرمینیہ ، طالقان اور تنگنائے قسطنطنیہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اس کے علاوہ حضرت عثمان غنیؓ نے بے شمار کارنامے سرانجام دیئے ، وسیع تر فتوحات ، صوبوں کی تقسیم، حکام کی نگرانی ، جدید تعمیرات ، مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع ، بحری جنگوں کا آغاز اور دیگر مثالی مذہبی خدمات آپ کا طرہ امتیاز ہے۔

ان ظاہری کمالات کے ساتھ باطنی اوصاف وکمالات سے بھی وافر حصہ عطاءہواتھا۔اکثر اوقات خوفِ خدا سے آبدیدہ رہتے ، سامنے سے جنازہ گزرتا تو کھڑے ہو جاتے اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو نکل آتے۔ قبرستان سے گزرتے تو اس قدر روتے کہ داڑھی مبارک تر ہو جاتی۔آپ زہد ، تواضع و انکساری ، ایثار و سخاوت کے پیکر تھے ، سادگی کا یہ عالم تھا کہ گھر میں بیسیوں لونڈیاں اور غلام موجود تھے لیکن اپنا کام خود کر لیتے تھے اور کسی کو تکلیف نہ دیتے تھے ۔ آپ نے اپنے پورے زمانہ خلافت میں بیت المال سے اپنے ذاتی خرچ کیلئے کچھ نہیں لیا۔ اپنی تنخواہ تک عام مسلمانوں کیلئے چھوڑ دی تھی۔ ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے ، بیواﺅں اور یتیموں کی خبرگیری کرتے۔

غزوہ خیبر کے موقع پر مسلمان عسرت اور تنگی کی وجہ سے سخت پریشان تھے، دوسری طرف قیصرِ روم کی جنگی تیاریوں سے خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تشویش تھی۔ اس وقت حضرت عثمان نے لشکر کے ایک تہائی حصے کےتمام سازوسامان کی تیاری اپنے ذمہ لے لی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش ہو کر فرمایا : ''آج کے بعد عثمان ؓکا کوئی عمل اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا ''

اس کے علاوہ متعدد مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان کو صاف لفظوں میں جنت کی بشارت سنائی۔ اور آپ کی شہادت کی پیشین گوئی بھی خود زبان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو ئی تھی۔

بارہ سالہ خلافت کے ابتدائی آٹھ سال ،نہایت شاندار،بڑے اطمینان اور امن و امان کے ساتھ گزرے مگر آخری سالوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بپا کئے گئے فتنے سرابھارنے لگے ، تاریخ وسیر کی کتب میں اس کے متعدد اسباب لکھے ہیں۔حضرت عثمانؓ نے ان فتنوں کو دبانا چاہا لیکن یہ آگ ایسی لگی تھی جس کابجھانا آسان نہ تھا۔ یہاں تک کہ تمام اطراف میں یہودیت نوازوں نے سازشوں کوپھیلا دیا۔آخرکار وہ سازشی لوگ مختلف حیلوں بہانوں سے مدینہ منورہ پہنچ گئے اور کئی مراحل گزرنے کے بعد انہوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کامحاصرہ کرلیا۔

ایک موقع پرجب شرپسندوں نے مدینہ منورہ میں برسر عام آپ کی برائیاں بیان کیں تو آپ نے حضرت ابوثورؓ سے دردمندانہ ارشادفرمایا: مجھے اپنے پروردگار سے بڑی امیدیں ہیں اور میری دس امانتیں اللہ رب العزت کے پاس محفوظ ہیں۔(۱)میں اسلام قبول کرنے والا چوتھا شخص ہوں(۲)حضور نبی اکرم ﷺ نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحبزادیوں کو میرے عقد میں دیا(۳)میں کبھی گانے بجانے میں شریک نہیں ہوا(۴)میں کبھی لہو ولعب میں شریک نہیں ہوا(۵)میں نے کبھی کسی برائی اور بدی کی خواہش نہیں کی(۶)اسلام قبول کرنے کے بعد میں نے ہر جمعہ کو اللہ تعالٰی کے لئے ایک غلام آزاد کیا اگر اس وقت ممکن نہ ہوا تو بعد میں کیا(۷)جس وقت سے میں نے رسول اللہﷺ کی بیعت کی ہے ، میں نے اپنا دائیاں ہاتھ کبھی اپنی شرمگاہ کو نہیں لگایا (۸)زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام میں، میں نے کبھی زناکاری کا ارتکاب نہیں کیا (۹)زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام میں، میں نے کبھی چوری نہیں کی(۰۱)میں نے رسول کریم ﷺ کی حیات پاک میں ہی قرآن کریم حفظ کرلیا تھا۔ (تاریخ الخلفائ)

اس کے علاوہ ایک اور موقع پر جب شرپسندوں نے آپؓ کے قتل کا اعلان کردیا تو آپ نے فرمایا:”اے لوگو! آخر کس جرم میں تم میرے خون کے پیاسے ہو؟ شریعت اسلامی میں کسی شخص کے قتل کی تین ہی صورتیں ہوسکتی ہیں: اس نے بدکاری کی ہو تو اسے سنگسار کیا جاتا ہے۔ اس نے قتل عمد کیا ہو تو وہ قصاص میں مارا جاتا ہے، وہ مرتد ہوگیا ہوتو اسے انکار اسلام پر قتل کردیا جاتا ہے۔ تم اللہ کے لئے بتاؤ کیا میں نے کسی کوقتل کیا ہے؟ کیا تم مجھ پر بدکاری کا الزام لگا سکتے ہو؟ کیا میں رسول اللہﷺ کے دین سے پھر گیا ہوں؟ سنو ! میں گواہی دیتا ہوں اللہ ایک ہے اور محمد ﷺ اس کے بندے ورسول ہیں۔ کیا اب اس کے بعد بھی تمہارے پاس میرے قتل کاجواز باقی ہے؟“

حضرت عثمانؓ کے ان دردناک الفاظ کاکسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا لیکن پھر بھی مفسدین کے دلوں میں اللہ کا خوف پید ا نہ ہوا اور وہ اپنے ناپاک ارادوں سے باز نہ آئے۔ ان شرپسندوں نے چالیس دن تک آپؓ کے گھر کو محاصرے میں رکھا۔ اس موقع پر حضرت علیؓ اور بعض دیگر کبار صحابہ کرام نے اپنے صاحبزادوں کو حضرت عثمانؓ کی حفاظت کیلئے پہرے پر مامور کر رکھا تھا۔ حضرت علیؓ المرتضی نے اپنے صاحبزادوں حضرت حسنؓ وحسینؓ کوفرمایا کہ تلواریں لے کر حضرت عثمان کے مکان کے دروازے پر کھڑے رہواور کوئی شخص دشمنوں میں سے مکان کے اندر نہ جاسکے۔ محاصرے کے دوران اندر پانی تک پہنچانا جرم تھا، ایک دفعہ ام المو منین حضرت ام حبیبہؓ نے پانی پہنچانے کی کوشش کی مگر مفسدین کے دل نور ایمان سے خالی ہو چکے تھے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حرم محترم کا بھی خیال نہ رکھا اور بے ادبی کے ساتھ مزاحمت کر کے واپس کر دیا۔

یہ باغی اس قدر گستاخ اور بے باک ہو چکے تھے کہ حضرت عبداللہ بن سلامؓ ، حضرت ابوہریرہؓ وغیرہ بڑے بڑے صحابہ کرام کی بھی انہوں نے نہ سنی بلکہ ان حضرات کی توہین کی۔ حضرت عثمان کو اپنی شہادت کا پورا یقین تھا کیوں کہ آپ خود نبی کریم ﷺ سے اس قسم کی پیشین گوئیاں سن چکے تھے ، اس لئے آپ نے ایک موقع پر فرمایابھی کہ میں خود اپنی جان قربان کرنا آسان سمجھتا ہوں مگر اپنی ذات کے لئے مسلمانوں کو خون نہیں بہاؤں گا اس لئے آپ نے کسی کو بھی شرپسندوں کے ساتھ لڑنے کی اجازت نہ دی ۔جس دن آپ شہید ہوئے اس دن آپ روزہ کی حالت میں تھے جمعہ کادن تھا آپ نے خواب دیکھا کہ نبی کریم ﷺ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ تشریف فرماہیں اور ان سے کہہ رہے ہیں : عثمان !جلدی کرو،تمہارے افطار کے ہم منتظر ہیں۔ پھر بیداری کے بعد اہلیہ محترمہ سے فرمایا کہ میری شہادت کا وقت قریب ہے ، یہ باغی مجھے قتل کرڈالیں گے ۔انہوں نے کہا امیرالمومنین ایسا نہیں ہوسکتا ۔ فرمایا: میں یہ خواب دیکھ چکا ہوں۔اس کامل الحیاءوالایمان کی شان دیکھئے کہ عین شہادت کے دن ان کے پاس بیس غلام موجود تھے، ان سب کو یہ کہہ کر آزاد کردیا کہ میرا توآخری وقت آگیاہے ۔ساری عمر شلوار نہ پہنی تھی لیکن جب معلوم ہوگیا کہ وقت قریب ہے تو اس خیال سے کہ کہیں اس ہنگامے میں عریاں نہ ہوجاؤں شلوار منگائی اور خوب کس کر باندھ لی تاکہ شہید ہونے کے بعد ستر کھل نہ جائے اور پھر قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول ہوگئے۔

بالآخر چالیس دن کے محاصرے کے بعد باغیوں نے مکان پر حملہ کر دیا۔ حضرت امام حسنؓ اور دیگر محافظین نے مزاحمت کی کوشش کی تو بلوائیوں نے انہیں بھی زخمی کر دیا اوردیوار پھاند کر اندر گھس گئے۔ بیک وقت چار بدبختوں نے حضرت عثمانؓ پر مختلف وار کئے،ایک حملہ آور کہنے لگا: اے نعثل(لمبی داڑھی والے )خدا تجھ کو رسواکرے۔ حضرت عثمان نے فرمایا:میں نعثل نہیں بلکہ عثمان امیر المومنین ہوں۔ اتنے میں کنانہ بن بشیر نامی ایک بدبخت نے آپ کی پیشانی مبارک پر لوہا اس زور سے مارا کہ آپ پہلو کے بل گر پڑے ، اس وقت بھی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری تھے:بسم اللہ توکلت علی اللہ۔

پھر ایک اوربدبخت سودان بن حمران مرادی نے ایک ضرب لگائی جس سے خون کافوارہ جاری ہوگیا اور خون کاپہلا قطرہ ، قرآنی آیت : فسیکفیکہم اللہ وھو السمیع العلیم(اللہ ہی تم کو ان لوگوں کی طرف سے کافی ہے ، وہ سننے والا جاننے والا ہے)۔ایک اور سنگ دل سینہ پر چڑھ بیٹھا اور جسم مبارک پر نیزے کے پے درپے نو زخم لگائے اور جسم مبارک پر کودتا رہا،ایک اور بدبخت تلوار کا وار کیا ، جسے آپ کی وفادار بیوی حضرت نائلہؓ نے ہاتھ پر روکا جس سے ان کی تین انگلیاں کٹ گئیں، اس طرح شرپسندوں کی یورش سے پیغمبر ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک حضرت عثمان غنیؓ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔شہادت کے وقت حضرت عثمان تلاوت میں مصروف تھے قرآن کریم سامنے کھلا تھا اس خون ناحق نے جس آیت کو رنگین کیا وہ یہ ہے: فسیکفیکھم اللہ وھوالسمیع العلیم۔ اس طرح وہ پیشین گوئی پوری ہوگی جس کوامام حاکم نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ: میں نبی کریمﷺ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں عثمانؓ آئے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عثمان! تم سورہ بقرہ پڑھتے ہوئے شہید کئے جاؤ گے اور تمہارے خون کا قطرہ آیت ”فسیکفیکھم اللہ“ پر گرے گا، تم پر اہل مشرق واہل مغرب یورش کریں گے اور ربیعہ ومقرد (دوقبیلے) کے لوگوں کے برابر تمہاری سفارش قبول ہوگی اورتم قیامت میں بے کسوں کے سردار بنا کر اٹھائے جاؤ گے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا یہ دلگداز اور روح فرسا واقعہ18 ذوالحجہ 53 ھ جمعہ کے دن پیش آیا اورآپ جنت البقیع میں مدفون ہوئے.

حضرت عثمانؓ کو شہید کرنے والوں کے ساتھ دنیا میں ہی ایسا برا حشر ہوا کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ ابوقلابہ فرماتے ہیں کہ میں نے شام کے بازار میں ایک آدمی کی آواز سنی جو ”آگ ،آگ“ چیخ رہا تھا۔ میں قریب گیا تو میں نے دیکھا کہ اس کے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر ٹخنوں سے کٹے ہوئے ہیں اور دونوں آنکھوں سے اندھا منہ کے بل زمین پر پڑا گھسٹ رہا ہے اورآگ آگ چیخ رہاہے۔ میں نے اس سے اس حال کاسبب دریافت کیا تو کہنے لگا: میں ان لوگوں میں سے ہوں جو عثمانؓ کے گھر گھسے تھے، جب میں ان کے قریب گیا تو ان کی اہلیہ چیخنے لگیں ، میں نے ان کے طمانچہ مارا۔ عثمان نے کہا: تجھے کیا ہوگیا ہے؟ تو عورت پر ناحق ہاتھ اٹھاتا ہے ، خدا تیرے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے، تیری دونوں آنکھوں کو اندھا کردے اور تجھے آگ میں ڈالے۔ اب میری یہ حالت ہے جو تم دیکھ رہے ہو صرف آگ کی بددعا باقی رہ گئی ہے۔ حضرت ابوقلابہ فرماتے ہیں یہ سن کر مجھے بہت خوف محسوس ہوا اور میں اس کے پاس سے نکل بھاگا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اخلاق و کردار اور عادات کے اعتبار سے نہایت نیک اور اعلٰی کردار کے حامل تھے۔ عفت و حیا اور پاک دامنی میں اپنی مثال آپ تھے۔ زمانہ جاہلیت میں بھی برائی آپ کو اپنی جانب مائل نہ کرسکی۔آپ کی شرم و حیا کا یہ عالم تھا کہ خود آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی حضرت عثمان ؓکی حیا کا پاس و لحاظ رکھتے تھے۔ ایک بار آپ ﷺ اپنے حجرہ مبارک میں اس انداز سے محو استراحت تھے کہ آپ کی پنڈلی مبارک سے کپڑا ہٹا ہوا تھا اسی اثنا میں پہلے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ حضور نبی اکرمﷺنے اجازت مرحمت فرمادی لیکن جب حضرت عثمان غنی ؓ نے اجازت مانگی تو آپ ﷺ فورا سیدھے ہوئے اور اپنا کپڑا مبارک درست فرماتے ہوئے اپنی پنڈلی کو ڈھانپ لیا۔ بعد ازاں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دریافت فرمایا کہ آپ ﷺنے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے حاضر ہونے پر یہ اہتمام نہیں فرمایا جیسا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے آنے پر فرمایا۔ اس پر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:''اے عائشہؓ !میں کیوں نہ اس شخص سے حیا کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں“۔(صحیح مسلم)
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372793 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.