یکم محرم یوم شہادت فاروق اعظم
رضی اللہ عنہ پر خصوصی تحریر
حضور نبی کریم ﷺکے خلیفہ دوم حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہیں ۔آپ کے والد
قریش کے قبیلہ بنی عدی کے سردار تھے ۔یہ قبیلہ ذہانت ، بصیرت، بہادری اور
خطابت میں سب سے ممتاز تھا ،یہ تمام خصوصیات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی
ورثہ میں حاصل ہوئی تھیں ۔آپ جب جوان ہوئے تو پورے ملک میں آپ کی بے پناہ
بہادری اور قوت کا زبر دست چرچا تھا ۔
اسلام قبول کرنے والے خوش نصیب مردوں کی اولین فہرست میں حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کا نام گرامی چالیسویں نمبر پر ہے ۔ اس وقت مسلمان خواتین کی تعداد
گیارہ تھی ۔یہ وہ صبر آزماوقت تھا جب آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں پر کفار قریش
نے ظلم و ستم کا ایک روح فرسا سلسلہ شروع کر دیا تھا اور مسلمانوں نہیں
اتنی قوت نہ تھی کہ وہ علی الاعلان نماز بھی ادا کر سکیں ۔ان سنگین حالات
میں نبی کریم ﷺ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ ! عمر و بن ہشام (ابو جہل) یا
عمر بن خطاب سے جو تجھ کو پیارا ہو ،اسلام کو عزت عطا فرما ۔گویا حضرت عمر
رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جن کی اہمیت کو خود نبی کریم ﷺ نے محسوس فرمایا
اور اپنی دعا سے یہ واضح کر دیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا اسلام لانا اسلام
کی عظمت و شوکت کا باعث ہو گا اور بعد کے واقعات نے بھی اس کی تصدیق کر دی
۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کر لینے کے بعد مسلمانوں کے
حوصلے بلند ہو گئے اور کافروں کا زور ٹوٹ گیا ۔خانہ کعبہ میں علی الاعلان
نماز ادا کی جانے لگی ۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو ایمان لانے میں پس و پیش
کر رہی تھی ،خوف دور ہو جانے کے باعث مشرف بہ اسلام ہو گئی ۔روایت کے مطابق
جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو حضرت جبریل علیہ السلام
تشریف لائے اور فرمایا کہ یا محمد ﷺ ! تمام آسمان والے عمررضی اللہ عنہ کے
مشرف بہ اسلام ہونے سے بے حد مسرور ہیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ذہانت ،بصیرت اور معاملہ فہمی کا یہ عالم تھا کہ
اذان کا طریقہ ،شراب پر پابندی ،ازواج مطہرات کا پردہ اور بعض دیگر مسائل
کے متعلق قرآن مجید کی جو آیات نازل ہوئیں وہ سب حضرت عمر فاروق رضی اللہ
عنہ کے مشوروں کی تائید میں تھیں ۔ یہاں تک کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ ”میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمررضی اللہ عنہ ہوتے ۔“
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا علم
اگر ایک پلڑے میں رکھا جائے اور روئے زمین کے تمام زندہ لوگوں کے علوم ایک
پلہ میں تو یقیناحضرت عمررضی اللہ عنہ کا علم ان سب کے علم سے زیادہ ہو گا
۔احادیث میں آپ کی بڑی جلیل فضیلتیں بیان ہوئی ہیں ۔حضور ﷺ نے فرمایا :
”آسمان کا ہر فرشتہ عمررضی اللہ عنہ کی توقیر کرتا ہے اور زمین کا ہر شیطان
ان کے خوف سے لرزتا ہے ۔“(ابن عساکر)
نیز حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جس نے عمررضی اللہ عنہ سے بغض رکھا اس نے
مجھ سے بغض رکھا اور جس نے عمررضی اللہ عنہ کو محبوب رکھا اس نے مجھے محبوب
رکھا۔“ (طبرانی)
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :” میں اس شخص سے بری و بیزار
ہوں جو حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کا ذکر بدی کے ساتھ کرے ۔“حضور
نبی کریم ﷺ نے جتنے غزوات میں حصہ لیا ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان میں
شرکت کی ۔غزوہ بدر اور غزوہ حنین میں جب کفار و مشرکین آنحضرت ﷺ کو نقصان
پہنچانے کی سر تو ڑ کوشش کر رہے تھے تو آپ نے حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت
علی رضی اللہ عنہما کے ہمراہ جانبازی اور دلیری سے مقابلہ کر کے دشمنوں کے
عزائم کو ناکام بنا دیا ۔غزوہ تبوک کی تیاری کے فنڈ میں آپ نے اپنا نصف
اثاثہ بارگاہ رسالت میں حاضر کر دیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اوصاف جمیلہ کے پیش نظر حضرت ابو بکر صدیق رضی
اللہ عنہ نے اپنی وفات سے چند روز قبل اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی
رائے معلوم کر کے مسجد میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا اور حضرت عمر فاروق
رضی اللہ عنہ کو اپنی جگہ خلافت کے منصب پر فائز کرنے کی تجویز پیش کی ۔سب
نے بارضا و رغبت اتفاق رائے سے تائید کی ۔ چنانچہ خلیفہ اول رضی اللہ عنہ
کی وفات کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ 22جمادی الثانی 13ہجری کو مسند
خلافت پر متمکن ہوئے ۔آپ کا دور خلافت دس برس ،چھ ماہ اور اٹھارہ دن ہے
۔حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عامة الناس کی زندگی خوشحال بنانے کے لئے
ایک ایسا عظیم الشان اقتصادی نظام نافذ کیا جس کی مثال انسانی تاریخ پیش
کرنے سے قاصر ہے ۔ اگر یہ نظام آج بھی من و عن اختیار کیا جائے تو بھوک ،
بیماری ،غربت اور جہالت کے سیاہ بادل چشم زدن میں غائب ہو سکتے ہیں۔ آپ نے
اقتصادی نظام کی عمارت سنت رسول اللہ ﷺ پر رکھی اور اعلان کیا کہ دجلہ سے
نیل تک اگر ایک فرد بھی بھوکا ،ننگا ،مظلوم ،یا تکلیف میں رہا تو قیامت کے
دن مجھے اس کا جواب دہ ہونا پڑے گا۔
آپ کو انسانی فلاح و بہبود کی دن رات فکر دامن گیر رہتی تھی ۔آپ راتوں کو
گشت کر کے ان کے حالات اور تکالیف معلوم کرنے کی کوشش کرتے اور موقعہ پر ہی
امداد واعانت کرتے اور اپنی ذات کے لئے فرماتے ہیں :”میرے لئے دو کپڑے لینا
حلال ہیں ایک سردی اور دوسرا گرمی کے لئے ۔جب کہ حج وعمرہ کے لئے صرف ایک
سواری درکار ہے ۔نیز میری اور میرے اہل خانہ کی خوراک وہی ہو گی ۔جو قریش
کے کسی متوسط الحال فرد کی ہوتی ہے ۔
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا پورا دور خلافت اور بالخصوص ان کا
سیاسی نظام مسلم حکمرانوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔عہد فاروقی میں مکمل اسلامی
نظام نافذ تھا۔ حکام کا فرض تھا کہ وہ گھر گھر ہر فرد کی بنیادی ضروریات
پوری کرنے کا فریضہ اسلامی ادا کریں اور خود عامة الناس کے معیار زندگی کو
اختیار کریں۔ دوسری جانب رعایا کا فرض تھا کہ وہ دین کی حدود میںرہتے ہوئے
امیر کی اطاعت کریں ۔
جب بیت المقدس پر پہلی مرتبہ مسلم امہ کا فاتحانہ پرچم لہرایا۔ آپ کی عظیم
سلطنت کی سرحد ایک جانب افریقہ کے صحراﺅں اور دوسری جانب عراق ، شام،
فلسطین ،مصر اور ایران وغیرہ تک پہنچ چکی تھی ۔اس قلیل مدت میں عظیم الشان
فتوحات پر بنی نوع انسان کی پوری تاریخ حیران ہے ۔بلا شبہ میدان جنگ میں ان
فتوحات کا سہرا حضرت خالد بن ولید ،حضرت ابو عبید ہ ،حضرت عمرو بن العاص ،
حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم جیسے
نامور جرنیلوں کے سر ہے ۔لیکن تاریخ کا کہنا ہے کہ خلیفہ دوم حضرت عمررضی
اللہ عنہ ہر محاذ کی تازہ صورتحال سے نہ صرف باخبر رہتے تھے بلکہ ہر مورچہ
کی چھوٹی سے لے کر بڑی تمام جنگی حکمت عملی آپ کی ہدایت کے مطابق تشکیل دی
جاتی تھی ۔یہی سبب تھا کہ اس وقت کے بڑے بڑے حکمران اور انکی افواج و عوام
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نام ہی سے سر اسیمہ اور خوفزدہ ہو جاتے تھے ۔
اسلامی تقویم سن ہجری حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ہی کے عہد خلافت میں
شروع کی گئی تھی ۔آپ کے دور میں تقریباً چار ہزار مساجد تعمیر ہوئیں ۔ نئے
پل ، سڑکیں، مسافر خانے ،نہریں اور کنویں وغیرہ تعمیر کئے گئے ۔مدارس قائم
کیے گئے ۔جہاں قرآن مجید ،تفسیر ، حدیث ،فقہ اور زبان و ادب کی تعلیم کا
اعلیٰ انتظام تھا ۔نیز مسجد نبوی کی توسیع کا اعزاز بھی آپ کو حاصل ہے
۔سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے کارہائے نمایاں ہر دور کے حکمرانوں کے
لئے مشعل راہ ہیں۔
26ذی الحجہ 23ہجری بدھ کے دن دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق اعظم رضی
اللہ عنہ نے نماز فجر کی امامت شروع ہی کی تھی کہ کسی شخص نے خنجر سے آپ پر
لگاتار وار کیے ۔زخم گہرے تھے اور خون جاری تھا ۔آپ نے دریافت فرمایا کہ یہ
کون تھا جس نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا؟ صحابہ نے جواب دیا کہ یہ ایرانی
غلام اور ابو لولو فیروز تھا ، امیر المومنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا
:الحمد للہ !میرا قاتل مسلمان نہیں ہے۔اس طرح آپ کی شہر نبی ﷺ میں شہادت کی
دعا قبول ہوئی اور یکم محرم الحرام 24ہجری کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
بعد وفات باجازت حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور ﷺ کے
روضہ اقدس میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں مدفون ہوئے ۔
وہ عمر جس کے اعداءپہ شیدا سقر
اُس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام
(اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ) |