نام کا برکت اللہ ،حقیقتاً مانندِ
برکت ہی تھے
اتوار کا دن جب بھی آتا ہے ،دلوں کی سوگواری ماحول کو اپنی لپٹ میں لے لیتی
ہے۔یادوں کی ہوائیں جب چُھو کر گزرتی ہیں ،تو دل بے اختیار اس ہستی کو یاد
کرتا ہے،جو آج گرچہ ہم میں موجود نہیں ،لیکن ان کی یادوں کی خوشبو آج بھی
ہمارے دلوں کو مہکا رہی ہے ۔وہ شخصیت ہے ہمارے دادا برکت اللہ محروم کی ۔ان
کے لیئے کچھ لکھنے کو جب بھی قلم اٹھایا ،آنسوﺅں نے آنکھوں کو دھندلا
دیا۔ان کی وفات سے آج تک خود کو باور کراتا رہا کہ مجھے ان کی شخصیت پر کچھ
نہ کچھ ایسا ضرور لکھنا ہے،جو اس عظیم شخص کو خراجِ تحسین پیش کر سکے۔انہوں
نے ہم سے جو بے لوث پیار کیااور وہ محبتیں،شفقتیں،جو ان کی ذات سے ہم کو
ملتی رہیں ،آخر اس کا قرض بھی تو چکانا ہے ۔وہ حُسن سلوک اور اپنے پُرخلوص
جذبوں کی کبھی نہ مٹنے والی ایک داستان رقم کر گئے ہیں۔ماضی کے در وا ہوتے
ہیں ،تو بچپن کے وہ خوبصورت دن اپنی آب و تاب کے ساتھ جگمگاتے نظر آتے ہیں
،وہ اسلام آباد میں ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے لیکن اکثر وہ کامرہ میں سلمان
چاچو جو کہ میرے سب سے چھوٹے چاچو ہیں ان کے پاس جاتے تھے۔اور جب ان کا
واپس اسلام آباد آنے کا پروگرام بنتا ،یہ خبر ہم فیملی والوں میں نہایت جوش
و مسرت کے ساتھ سُنی جاتی اور دِنوں کو انگلیوں پر شمار کیا جاتا۔وہ دن عید
سے کم نہیں ہوتا جب ہم ان کو اپنے درمیان پاتے اور پھر کب دن شام میں بدلتا
اورشام رات میں ڈھلتی ،سب بھول جاتے ۔ان کا وہ پر مزاح انداز ِگفتگو اور
اپنے سفر کے قصے دل چسپ پیرائے میں بیان کرنا،وقت گزرنے کا احساس بھلا دیتے
۔بچپن کی بات چلی تو ان تحائف کا ذکر ضرور کروں گا ،جو وہ اپنی آمد پر ہمیں
کو خود لے جا کر ہماری پسند دلاتے،چاہے وہ کتنے ہی قیمتی کیوں نہ ہوں ،لیکن
ان کے لئے قیمتی ہماری وہ خوشی ہوتی ہے ،جو ہمارے چہروں پر دمک رہی ہوتی
ہے۔جب خوشیوں بھرا دل لئے ہم گھر آتے،تو دادا جان ہمیں دیکھ کر بے انتہا
خوش ہوتے ۔ان کی شخصیت صرف ہمارے لئے ہی نہیں ،ہر خاص و عام کے لئے ایک
جادوئی اثر کی حامل تھی ۔جو ان سے ملتا ان ہی کا ہو کر رہ جاتااور یہی ان
کی ذات کی وہ خوبی تھی ،جس کے چھوٹے بڑے سب گریدہ تھے۔آپﷺ سے ان کی والہانہ
محبت اور عقیدت کا یہ عالم تھا کہ اکثر ان کی زبان پر درود پاک کا ورد جاری
رہتا۔دادا جان کی شخصیت کی کئی خوبیاں تھیں ۔وہ رشتوں کی پاسداری کا ہنر
جانتے تھے۔محبت و مروت کی نہ صرف مثال تھے ،بلکہ میل ملاپ اور باہمی سلوک
کو ہمیشہ اولیت اور فوقیت دیتے تھے،یہی وجہ ہے کہ ان کی وفات پر ان سے
متعلق ہر رشتہ مجسم آنسو بن گیا ۔خدا کرے ،ان کی اولاد،یعنی ہم ان کی
خوبیوں کا عکس بن کر ان کے نام کو روشن رکھیں۔موت ایک بہت بڑی تلخ حقیقت ہے
،کبھی عزیز لوگوں کی جدائی کا ایسا زخم دے جاتی ہے کہ وہ پھر بھر نہیں
پاتا۔ان کی معمولی بیماری نے دیکھتے ہی دیکھتے اتنی سنگین نوعیت اختیار کر
لی کہ دعائیں اور ڈاکٹروں کی مہارت بھی ان کو جانے سے نہ روک سکی ۔ہوا کچھ
یو ں کہ میرے چچا ذاد بھائی محمد وسیم کی شادی 12جون 2011بروز اتوار کے دن
تھی ۔میرے دادا جان شادی میں شرکت کے لئے ایبٹ آباد کے گاﺅ ں جوگیمار
پہنچے۔لیکن شادی کی خوشیاں نہ دیکھ پائے اچانک بیمار پڑگئے اور دیکھتے ہی
دیکھتے ان کی یہ معمولی بیماری سنگین حالت اختیار کر گئی۔بارہ جون ہی کہ دن
عین بارات نکلنے کا ٹائم تھاکہ وسیم نے مجھے 03135078227پر کا ل کی کہ
بارات کا ٹائم ہو گیا ہے تیار ہو کے آ جاﺅ۔میں تیارہونے سے پہلے دادا جان
کے پاس گیا انہوں نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور ان کا مجھ سے اس دوران آخری
کلام تھا کہ ﴾مجھے اٹھاﺅ!میں زیادہ بات نہیں کر سکتا﴿اس کے بعد میں غسل کہ
لئے چلا گیا ابھی نلکا تک نہ کھولا تھا کہ چیخ و پکار کی مختلف آوازیں میر
ے کانوں میں گونجنے لگیں۔میں فوراً باہر آگیا دیکھتا کیا ہوں کہ دادا جان
کی روح قبض ہو رہی ہے اور اُس وقت بھی ان کی نظر مجھ پر پڑی اور مجھے ان کی
اس نظر میں ایک عجیب و غریب کشش دکھی۔اور مجھے لگا کہ وہ مجھ سے کچھ بات
کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن وہ بلکل بے بس تھے مجھ سے کوئی بات نہ کر سکتے تھے
کیوں کہ اس وقت بات کرنا ان کے بس میں نہ تھا ۔اور دادا جان کی موت اتنی
شاندار تھی کہ جس ہال میں انکی موت واقع ہوئی اس ہال میں اڑھائی سو ﴾250﴿سے
بھی زیادہ لوگ موجود تھے جو کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے تھے،اور دادا جان کی
زبان پر بھی کلمہ طیبہ کا ورد تھا۔یوں دیکھتے ہی دیکھتے ان کی روح ان کے
جسم ِ خاکی سے پرواز کر گئی،اور علاقہ کی مانی تانی ہستیوں نے اِن کی موت
کو شاندار قرار دیا اور کہا کہ ایسی موت زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھی
تھی۔اور میری زندگی میں یہ پہلی موت تھی جو میرے آنکھوں کہ سامنے ہوئی۔دادا
جان کی وفات ان کے چاہنے والوں کے لئے کسی سانحے سے کم درجہ نہیں
رکھتی۔پیچھے رہ جانے والے ان کہ لئے عقیدتوں کے جتنے بھی چراغ جلائیں ،محبتوں
کے کتنے بھی پھول نچھاور کریں ،اس شخص کی عظمت کے لئے کم ہے ۔آج دادا جان
کے بارے میں یہ سب لکھتے ہوئے،میری آنکھیں اشک بار ہیں اور دل کہتا ہے کہ
کاش آنسوﺅں کو پونچھنے اور روتے ہوئے دل کو ہنسانے کے لئے وہ کہیں سے چپکے
سے آ جائیں ۔لیکن ایسا ہو نہیں سکتا ۔یہی وہ حقیقت ہے ،جسے گزشتہ چند
مہینوں سے ہم تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اُتر جا تے ہیں
اک بُرائی ہے تو بس یہ ہے کہ مر جاتے ہیں |