ایک مقام پر حضرت خواجہ معین
الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا۔۔۔۔۔
اہل طریقت کیلئے دس شرائط ضروری ہیں
1۔۔۔ طلب حق
2۔۔۔ مرشد کامل کی طلب ( اگر کسی کو مرشد کا دل میسر نہیں آیا تو مرید بھی
نا مکمل رہے گا اور ساری زندگی دنیا اور آخرت کے درمیان بھٹکتا رہے گا)
3۔۔۔ ادب، کہ اس کے بغیر کچھ حاصل نہ ہوگا۔
4۔۔۔ شرط رضا کی یہ بندے کی پہچان ہے۔
5۔۔۔ محبت اور ترک فضولیات
6۔۔۔ شرط تقوٰی ہے۔
7۔۔۔ شریعت میں استقامت
8۔۔۔ کم کھانا ، کم سونا
9۔۔۔ اہل دنیا سے کنارہ کشی کرنا ان سے کوئی امید کوئی حریصانہ تعلق قائم
نہ رکھنا ۔
10۔۔۔ نماز اور روزہ کہ ان کی پابندی کے بغیر انسان راہ سلوک میں مستقل
مزاجی کے گامزن نہیں رہ سکتا۔
پھر آپ نے فرمایا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل حقیقت کیلئے بھی دس شرائط ضروری ہیں۔
1۔۔۔ معرفت میں کامل ہو اور خدا رسیدہ ہو ۔
2۔۔۔ یہ کہ کسی شخص کو آزار نہ پہنچائے ( خواہ اس کا دشمن ہی کیوں نہ ہو)
اور نہ کسی کے بارے میں بدگمانی سے کام لے۔
3۔۔۔ حق تعالٰی کی طرف سے راہنمائی کرے اور لوگوں سے وہی بات کرے جس سے دین
و دنیا کا فائدہ ہو۔
4۔۔۔ بندے کو متواضع ہونا چاہیے خدا انسان کی اس ادا کو پسند کرتا ہے۔
5۔۔۔ یہ کہ گوشہ نشینی اختیار کرے اس سے خیالات کو یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔
6۔۔۔ یہ کہ دنیا میں ہیر شخص کا احترام کرے( بظاہر وہ کیسا بھی نظر آتا ہو)
اور اپنے آپ کو تمام لوگوں سے حقیر و کم تر سمجھے اس سے نفس کی سرکشی کا
خاتمہ ہوتا ہے۔
7۔۔۔ تسلیم و رضا
8۔۔۔ ہر رنج و غم مصیبت میں صبر سے کام لے اور کبھی تقدیر سے یا تقدیر کا
شکوہ نہ کرے۔
9۔۔۔ شرط یہ کہ دل میں سوز و گداز پیدا کرے ، اس کے بغیر اسرار معرفت نہیں
کھلتے۔
10۔۔۔ قناعت و توکل کو اپنی عادت بنائے اگر انسان ان شرائط کی پابندی نہیں
کرتا تو وہ کتنا ہی باکمال ہو جائے درویش نہیں بن سکتا۔
ایک اور موقع پر حضرت سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ
نے فرمایا:
میں سالہا سال تک بارگاہ خداوندی میں طلب گار کی حیثیت سے کھڑا رہا لیکن
مجھے حیرت و ہیت کے سوا کچھ نہ ملا پھر جب اللہ عزوجل نے کرم فرمایا اور
اپنی قربت بخشی تو کوئی دشواری نہ رہی۔ دنیا والوں کو میں نے دنیا میں
مشغول دیکھا ۔ اور آخرت والوں کو ہر حال میں شرمندہ پایا۔ عاشق وہ ہے کہ
اگر صبح کی نماز ادا کرے تو دوسری صبح تک خیال دوست میں ڈوبا رہے۔ دل محبت
کا آتش کدہ ہے کہ جو چیز اس طرف آئے گی جل کر خاک ہو جائے گی۔ محبت کی آگ
سے بڑھ کر کوئی آگ نہیں ۔
درویش وہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس کے پاس اپنی ضرورت لے کر جائے تو محروم نہ
لوٹے۔
عارف وہ ہے جو اپنا دل دونوں جہاں سے ہٹالے، عارف کی ذات میں تین صفات کا
ہونا لازمی ہے۔
پہلی ہیت، دوسری تعظیم ، تیسری حیا۔
پیت یہ ہے کہ آدمی اپنے قصور پر شرمندہ ہو۔
تعظیم یہ ہے کہ ہمیشہ فرمانبرداری میں کوشاں رہے۔
اور حیا یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی پر نظر نہ ڈالے ۔
صادق وہ ہے کہ نہ تو ا سکی ملکیت میں کوئی چیز ہو اور نہ وہ خود کسی چیز
میں قید ہو متوکل وہ ہے جو نہ لوگوں سے مدد لیتا ہے اور نہ اسے کسی سے
شکایت ہوتی ہے۔ |