فضائل و مناقب خلیفہ دوم، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ

حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ اعلانِ نبوت کے چھٹے سال اسلام لائے۔ آپ کے قبولِ اسلام کے لیے نبی کریم نے اس طرح دعا فرمائی، ''اے اللہ! عمر بن خطاب کے ذریعہ اسلام کو غلبہ عطا فرما''۔اس حدیث میں آقا ومولیٰ کا صرف آ پ ہی کا نام لے کر دعا فرما نا مذکور ہے اور یہ آپ کے لیے بڑے شرف کی بات ہے۔

آپ کے اسلام قبول کرنے سے اسلام لانے والے مَردوں کی تعداد چالیس ہوگئی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول ہے کہ'' جب سے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اسلام لائے، یہ دین روزبروز ترقی کرتا چلا گیا''۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے اسلام قبول کیا تو دارِ اَرقم میں موجود مسلمانوں نے اس زور سے تکبیر بلند کی کہ اسے تمام اہلِ مکہ نے سنا۔ میں نے دریافت کیا، یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا، کیوں نہیں ، یقیناً ہم حق پر ہیں۔ میں نے عرض کی،پھر ہم پوشیدہ کیوں رہیں۔چنانچہ وہاں سے تمام مسلمان دو صفیں بنا کر نکلے۔ ایک صف میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے اور ایک میں ، مَیں تھا۔

جب ہم اس طرح مسجد حرام میں داخل ہوئے تو کفار کو سخت ملال ہوا۔ اس دن سے رسول کریم ﷺ نے مجھے فاروق کا لقب عطا فرمایا کیونکہ اسلام ظاہر ہو گیا اور حق وباطل میں فرق پیدا ہو گیا۔

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا کوئی شخص ایسا نہیں جس نے اعلانیہ ہجرت کی ہو۔جس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہجرت کے ارادے سے نکلے، آپ نے تلوار حمائل کی، کمان شانے پر لٹکائی اور ہاتھ میں تیر پکڑ کر خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ پھر وہاں موجود کفارِ قریش میں سے ایک ایک فرد سے الگ الگ فرمایا،

'' تمہاری صورتیں بگڑیں، تمہارا ناس ہو جائے! ہے کوئی تم میں جو اپنی ماں کو بیٹے سے محروم، اپنے بیٹے کو یتیم اور اپنی بیوی کو بیوہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہو! وہ آئے اور جنگل کے اس طرف آکر مجھ سے مقابلہ کرے۔میں اس شہر سے ہجرت کر رہا ہوں''۔کفار کو آپ کا مقابلہ کرنے کی جرات نہ ہو سکی۔

غیب جاننے والے آقا ومولیٰ ﷺ کا ارشاد ہے،اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہی ہوتے۔آپ سے پانچ سو اُنتالیس (٥٣٩) احادیث مروی ہیں۔ آپکی صاحبزادی حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو حضور ﷺ کی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہے۔

سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ تمام غزوات میں آقا ومولیٰ کے ساتھ رہے اور غزوہ اُحد میں آپ نے ثابت قدمی دکھائی۔مصر کی فتح کے بعد وہاں کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ نے مصریوں کو انکے رواج کے مطابق ایک کنواری لڑکی دریائے نیل کی بھینٹ چڑھانے کی اجازت نہ دی تو دریائے نیل خشک ہو گیا۔اس پر گورنر نے آپ کی خدمت میں سب ماجرا لکھ بھیجا۔ آپ نے ایک خط لکھ کر ان سے فرمایا، اس خط کو دریا میں ڈال دو۔

خط میں لکھا تھا،'' اللہ کے بندے امیرُ المومنین عمر کی جانب سے دریائے نیل کے نام! معلوم ہو کہ اگر تو خودبخود جاری ہوتا ہے تو مت جاری ہو، اور اگر تجھے اللہ تبارک وتعالٰی جاری فرماتا ہے تو میں اللہ واحد وقہار ہی سے استدعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے جاری کر دے''۔جب یہ خط دریا میں ڈالا گیا تو دریا ایسا جاری ہوا کہ معمول سے سولہ گز پانی زیادہ چڑھ گیا اور وہ پھر کبھی خشک نہ ہوا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک لشکر ساریہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نامی شخص کی سربراہی میں جنگ کے لیے نہاوند بھیجا۔ کچھ دن بعد جمعہ کے خطبہ میں آپ نے تین بار فرمایا، ''اے ساریہ! پہاڑ کی طرف''۔ جب لشکر کا قاصد آیا تو اس نے بتایا کہ ہمیں شکست ہونے کو تھی کہ ہم نے یہ آواز سنی، ''اے ساریہ ! پہاڑ کی طرف''۔ چنانچہ ہم پہاڑ کی طرف ہو گئے ۔پس جنگ کا پانسہ پلٹ گیااور ہمیں فتح ہوئی۔ (مشکوٰۃ باب الکرامات)

آپ ہی نے سب سے اول ہجری تاریخ وسال جاری کیا اور حکومتی نظم ونسق کے لیے دفاتر وانتظامی شعبے قائم فرمائے۔آپ نے مساجد میں روشنی کا مناسب انتظام کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ماہِ رمضان میں ایک مسجد میں قندیل روشن دیکھی تو فرمایا، اللہ تعالٰی عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قبر کو روشن فرمائے کہ انہوں نے ہماری مسجدوں کو روشن کر دیا۔

آپ اکثر صوف کا لباس پہنتے جس میں چمڑے کے پیوند لگے ہوتے۔ اسی لباس میں دُرّہ لیے ہوئے بازار تشریف لے جاتے اور اہلِ بازار کو ادب وتنبیہہ فرماتے۔ سادہ غذا کھاتے، عوام کے حالات جاننے کے لیے راتوں کو گشت کرتے۔

جب کسی کو عامل (گورنر) بناتے تو اسکے اثاثوں کی فہرست لکھ لیا کرتے نیز اسے عوام کی فلاح کے لیے نصیحتیں فرماتے، اورشکایت ملنے پر عامل کو بھی سزا دیتے۔

آپ کے دورِ خلافت میں بیشمار فتوحات ہوئیں۔ دمشق، بصرہ،اردن، مدائن، حلب، انطاکیہ، بیت المقدس،نیشاپور،مصر،اسکندر یہ،آذربائیجان، طرابلس، اصفہان، مکران وغیرہ متعدد علاقے آپ ہی کے دور میں اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے۔

٢٦ ذی الحجہ ٢٣ھ کو جب آپ نماز فجر پڑھانے لگے تو ایک مجوسی ابولولو نے آپ کو دو دھارے خنجر سے حملہ کر کے شدید زخمی کر دیا۔آپ نے خلیفہ کے انتخاب کے لیے ایک کمیٹی بنا دی جو چھ اکابر صحابہ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت سعد ، حضرت طلحہ اورحضرت زبیر ث پر مشتمل تھی کہ یہ باہم مشاورت سے ان میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کر لیں۔اسی دن آپ کی شہادت واقع ہوگئی۔آپ کی خواہش پر اُمُ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی اجازت سے آپ نبی کریم ﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پہلو میں دفن کیے گئے۔ ( ماخوذ از تاریخ الخلفاء)
 
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1382659 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.