فرمان رسول کی روشنی میں فضائلِ سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ،

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا:۔ بے شک تم سے پہلی امتوں میں مُحَدَّثْ (صاحبِ الہام) ہوا کرتے تھے۔ اگر میری امت میں بھی کوئی مُحَدَّثْ ہے تو عمر ہے۔ (بخاری کتابُ المناقب، مسلم باب فضائل عمر)

انہی سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا، تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اللہ تعالٰیٰ کی طرف سے کلام فرمایا جاتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔اگر ان میں سے میری امت میں بھی کوئی ہے تو وہ عمر ہے۔ (بخاری کتابُ المناقب)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور سے اندر آنے کی اجازت مانگی اور آپ کے پاس قریش کی چند عورتیں گفتگو کر رہی تھیں اور اونچی آواز سے کچھ مطالبہ کر رہی تھیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اجازت مانگی تو وہ پردے کے پیچھے چھپ گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اندر داخل ہوئے اور رسول اﷲ ہنس رہے تھے ۔ عرض کی، یا رسول اﷲ ! آپ کو اﷲ تعالٰیٰ ہمیشہ مسکراتا رکھے ۔ نبی کریم نے فرمایا ، مجھے ان عورتوں پر تعجب ہے جو میرے پاس تھیں اور جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو پردے کے پیچھے چھپ گئیں۔ آپ نے کہا ، اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو مگر اﷲ کے رسول سے نہیں ڈرتیں؟ انہوں نے کہا، ہاں کیونکہ آپ سخت مزاج اور سخت گیر ہیں۔ رسول اﷲ نے فرمایا ، خوب اے ابنِ خطاب ! قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، شیطان جب بھی تم سے کسی راستے میں ملتا ہے تو اپنا راستہ بدل لیتا ہے ۔ (بخاری، مسلم)

حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا، میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں ایک محل دیکھا ۔ میں نے پوچھا، یہ محل کس کا ہے؟ جواب ملا، عمر بن خطاب کا میں نے ارادہ کیا کہ اندر داخل ہوکر اسے دیکھوں لیکن تمہاری غیرت یاد آگئی۔ اس پرحضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ عرض گزار ہوئے ، یا رسول اﷲ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ، کیا میں آپ پر غیرت کرسکتا ہوں۔ (بخاری، مسلم)

حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا،میں سویا ہوا تھا کہ مجھ پر لوگ پیش کیے گئے جنہوں نے قمیصیں پہنی ہوئیں تھیں۔ کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے بھی کم تھی۔ پھرمجھ پر عمر بن خطاب پیش کیے گئے تو ان پر بھی قمیص تھی اوروہ اسے گھسیٹ رہے تھے۔ لوگ عرض گزار ہوئے ، یا رسول اﷲ ! آپ نے اس قمیص سے کیا تعبیر لی ہے؟ فرمایا، دین۔ (بخاری، مسلم)

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اﷲ کو فرماتے ہوئے سنا ،میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا۔ میں نے پیا ، یہاں تک کہ سیرابی کو اپنے ناخنوں سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ پھر بچا ہوا دودھ میں نے عمر بن خطاب کو دے دیا۔ لوگ عرض گزار ہوئے ، یا رسول اﷲ ! آپ اس (دودھ) سے کیا مراد لیتے ہیں؟ فرمایا ، علم۔ (بخاری، مسلم)

۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا ، بے شک اﷲ تعالٰیٰ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری فرمادیا ہے۔(ترمذی)

۔ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا ، اﷲ تعالٰیٰ نے حق کو عمر کی زبان پر رکھ دیا ہے کہ وہ ہمیشہ حق بولتے ہیں۔ (ابوداؤد،ابن ماجہ، حاکم )

حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا،ہم اس بات میں شک نہیں کرتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زبان پر سکینہ بولتا ہے یعنی ان کے ارشاد پر سب کو دلی سکون ملتا ہے۔اسے امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں روایت کیا۔(مشکوٰۃ)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے دعا کی، اے اﷲ ! اسلام کو ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعے عزت دے۔ صبح ہوئی تو اگلے روز حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے نبی کریم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور مسجد میں اعلانیہ نماز پڑھی۔(احمد، ترمذی)

۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ نے دعا فرمائی، اے اﷲ ! اسلام کو عمر بن خطاب کے ذریعے غلبہ عطا فرما۔(مستدرک للحاکم)

اس حدیث میں مذکور دعا میں کسی دوسرے شخص کا نام شامل نہیں ہے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے سنن میں اُمُ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔ اسی حدیث کو طبرانی نے اوسط میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے اور معجم کبیر میں حضرت ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔ (تاریخ الخلفاء:١٨٣)

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ایمان لائے تو حضرت جبرئیل ںنازل ہوئے اور عرض کی، یا رسول اللہ ! آسمان والے حضرت عمر کے ایمان لانے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔(ابن ماجہ، حاکم)

۔ حضرت عبداللہ بن مسعودص سے روایت ہے کہ جب سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ مسلمان ہوگئے اس وقت سے ہم مسلسل کامیاب ہوتے آرہے ہیں۔ (بخاری )

۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے حضرت ابو بکر سے کہا ، اے رسول اﷲ کے بعد تمام لوگوں سے بہتر۔ حضرت ابو بکر نے کہا، آپ تو یوں کہتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اﷲ کو فرماتے ہوئے سنا ، سورج کسی ایسے شخص پر طلوع نہیں ہوا جو عمر سے بہتر ہو۔ (ترمذی)

حضرت ا بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا، رسول کریم کے وصال کے بعد میں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسا نیک اور سخی نہیں دیکھا گویا یہ خوبیاں تو آپ کی ذات پر ختم ہوگئی تھیں۔ (بخاری)

۔ حضرت عقبہ بن عامرص سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا ، اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔ (ترمذی، حاکم)

۔ حضرت بُرَیدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ کسی غزوہ کے لیے نکلے۔ جب واپس تشریف لائے تو ایک کالی لونڈی حاضر بارگاہ ہو کر عرض گزار ہوئی، یا رسول اﷲ ! میں نے نذر مانگی تھی کہ اگر اﷲ تعالٰیٰ آپ کو بخیریت واپس لوٹائے تو میں آپ کی خدمت میں دف بجا ؤں گی۔ رحمتِ عالم نے اس سے فرمایا ، اگر تم نے نذر مانی تھی تو بجالو، اور نہیں مانی تھی تو نہ بجاؤ۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ آئے اور وہ بجاتی رہی۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ آئے اوروہ بجاتی رہی۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ آئے اوروہ بجاتی رہی۔پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ آئے تو اس نے دف اپنے نیچے رکھی اور اس پر بیٹھ گئی۔ رسول کریم نے فرمایا، اے عمر! شیطان تم سے ڈرتا ہے۔ میں بیٹھا تھا لیکن یہ بجاتی رہی۔ ابو بکر آئے اور یہ بجاتی رہی، علی آئے اور یہ بجاتی رہی۔ پھر عثمان آئے اور یہ بجاتی رہی۔ جب اے عمر! تم اندر داخل ہوئے تو اس نے دف نیچے رکھ لی ۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین (ترمذی)

حضرت انس اور حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا، تین باتوں میں میرے رب نے میری موافقت فرمائی۔

١)میں عرض گزار ہوا ، یا رسول اﷲ ! کاش ہم مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ بنالیں تو حکم نازل ہوا،''اور ٹھہرالو مقامِ ابراہیم کو نماز کی جگہ''۔ (٢:١٢٥)
٢) میں نے عرض کی، یا رسول اﷲ ! ہماری عورتوں کے پاس بھلے اور برے آتے ہیں، کاش! آپ انہیں پردے کا حکم فرمائیں۔ اس پر پردے کی آیت نازل ہو گئی ۔
٣) نیزجب نبی کریم کی ازواج مطہرات غیرت کھا کر جمع ہو گئیں تو میں عرض گزار ہوا ، ''اگر آپ انہیں طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ان سے بہتر بدلے میں عطا فرمائے''۔ پس اسی طرح آیت نازل ہو گئی ۔(بخاری، مسلم)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو دوسرے لوگوں پر چار باتوں سے فضیلت دی گئی ہے۔

١) بدر کے قیدیوں کے بارے میں جب آپ نے اُن کو قتل کرنے کے لیے کہا تو اﷲ تعالٰی نے(آپ کی تائید میں) فرمایا ، ''اگر اﷲ پہلے فیصلہ نہ کرچکا ہوتا جو تم نے کیا تو تم کو بڑا عذاب پہنچتا''۔ ( ٨:٦٨)
٢)اور پردے کے معاملے میں جب آپ نے نبی کریمکی ازواجِ مطہرات سے پردے کے لیے کہا تو حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے کہا، اے ابنِ خطاب ! آپ ہم پر بھی حکم چلاتے ہیںحالانکہ وحی ہمارے گھر میں نازل ہوتی ہے۔ تو اﷲ تعالٰی نے حکم نازل فرمایا،''اور جب تم نے کوئی چیز ان سے مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو''۔ (٣٣:٥٣)
٣)اور حضور کی دعا کے باعث کہ'' اے اﷲ ! عمر کے ذریعے اسلام کی مدد فرما ''۔
٤)اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بیعت کے فیصلے کے باعث کہ سب سے پہلے اِنہوں نے بیعت کی۔ (احمد،مشکوٰۃ)

حضرت عبداللہ بن مسعودص فرماتے ہیں کہ اگرحضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا علم ترازو کے ایک پلے میں اور تمام اہلِ دنیا کا علم ترازو کے دوسرے پلے میں رکھ کر تولا جائے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا پلہ ہی بھاری رہے گا کیونکہ علم کے دس حصوں میں سے نو حصے علم آپ کو دیا گیا ہے۔ (طبرانی، حاکم، تاریخ الخلفاء:١٩٥)

حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا، میری امت سے وہ آدمی جنت میں بڑے بلند درجے والا ہے ۔ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے کہ خدا کی قسم، ہم اس آدمی سے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ہی مراد لیا کرتے تھے یہاں تک کہ وہ اپنے راستے پر چلے گئے یعنی وصال فرما گئے۔ (ابنِ ماجہ،مشکوٰۃ)

۔ حضرت مِسوَر بن مخرمہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو زخمی کیا گیا اور انہوں نے تکلیف محسوس کی تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تسلی دیتے ہوئے کہا ، اے امیرالمومنین ! کیا آپ پریشان ہیں حالانکہ آپ رسول ُاﷲ ا کی صحبت میں رہے اور اچھا ساتھ نبھایا۔ پھر جب وہ جدا ہوئے تو آپ سے راضی تھے پھر آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی صحبت میں رہے اور اچھا ساتھ نبھایا۔ پھر جب وہ جدا ہوئے تو آپ سے راضی تھے ۔ پھر آپ کی صحابہ کرام سے صحبت رہی اور اچھی صحبت رہی۔ اگر آپ ان سے جدا بھی ہوجائیں تو وہ آپ سے راضی ہیں۔

فرمایا ، تم نے رسول کریم کی صحبت اور رضامندی کا ذکر کیا ہے تو یہ اﷲ تعالٰی کا احسان ہے جو اس نے مجھ پر فرمایا ۔ تم نے حضرت ابوبکر کی صحبت اور رضامندی کا ذکر کیا تو یہ بھی اﷲ تعالٰی کا کرم ہے جو اس نے مجھ پر فرمایا۔ اور جو تم میری پریشانی دیکھ رہے ہو یہ تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی وجہ سے ہے۔ خدا کی قسم ! اگر میرے پاس زمین بھر سونا بھی ہوتا تو میں اﷲ کے عذاب کو دیکھنے سے پہلے اس کا فدیہ ادا کردیتا۔ (بخاری باب مناقب عمر بن خطاب)

۔ حضرت ابو سعید خُدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ نے فرمایا،جس شخص نے عمر سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے عمر سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔اللہ تعالٰی نے اہلِ عرفہ پر عموماً اور حضرت عمر پر خصوصاً فخر کیا ہے۔ جتنے انبیاء کرام مبعوث ہوئے ہیں، ہر ایک کی امت میں ایک محَدَّثْ ضرور ہوا ہے اگر میری امت کا کوئی محَدَّث ْ ہے تو وہ عمر ہے۔صحابہ کرام نے عرض کی، یا رسول اللہ ! محدَث کون ہوتا ہے؟ فرمایا، جس کی زبان سے ملائکہ گفتگو کریں۔ اس حدیث کی اسناد درست ہیں۔ (طبرانی فی الاوسط، تاریخ الخلفاء:١٩٤)

حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا، میرے بعد حق عمر کے ساتھ رہے گا خواہ وہ کہیں ہوں۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٣،طبرانی)

حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مرض ُالوصال میں دریافت کیا گیا، اگر آپ سے اللہ تعالٰی یہ دریافت فرمائے کہ تم نے عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کیوں خلیفہ منتخب کیا تو آپ اس کا کیا جواب دیں گے؟ فرمایا، میں عرض کروں گا کہ میں نے ان لوگوں پر ان میں سے سب سے بہتر شخص کو اپنا خلیفہ مقرر کیا تھا۔ (تاریخ الخلفاء: ١٩٥، طبقات ابن سعد)

۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ نے فرمایا، عمر اہلِ جنت کا چراغ ہیں۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٣، البزار، ابن عساکر)

۔ حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ غیب جاننے والے آقا نے حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا، یہی وہ ہستی ہے جس کے باعث فتنہ وفساد کے دروازے بند ہیں اور یہ جب تک زندہ رہے گا اس وقت تک تم میں کوئی پھوٹ اور فتنہ وفساد نہیں ڈال سکے گا۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٣، ازالۃ الخفاء)

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم کا ارشاد ہے،مجھ سے جبرئیل نے کہا ہے کہ اسلام عمر کی موت پر روئے گا یعنی ان کی وفات سے اسلام کو بہت نقصان پہنچے گا۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٤، طبرانی)
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سوا کسی شخص سے واقف نہیں جس نے جرات کے ساتھ راہِ خدا میں ملامت سنی ہو۔ (تاریخ الخلفاء:١٩٥)
۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میرے آقا ومولیٰ نے مجھ سے (از راہِ کرم وعنایت) یہ فرمایا،''اے میرے بھائی! ہمیں اپنی دعا میں نہ بھولنا''۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1283036 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.