قاہرہ کا تحریر چوک پھر ایک بار
ایمان افروزنعروں سے گونج اٹھا اورسنگینوں کی قہرآلود نگاہیں مظاہرین آس
پاس منڈلانے لگیں۔فوج کے ظلم و ستم کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں آزادی کے
متوالے منگل کے روزوہاں جمع ہو گئے۔ اس بیچ فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والوں
کے جنازے وہاں لائے گئے جس سے ماہِ فروری کے احتجاج کی یاد تازہ ہو گئی ۔انقلابی
عوام کا جوش و خروش فیض کی نظم کا ترجمان بن گیا ؎
مچل رہا ہے رگِ زندگی میں خونِ بہار
الجھ رہے ہیں پرانے غموں سے روح کے تار
چلو کہ چل کے چراغاں کریں دیارِ حبیب
ہیں انتظار میں اگلی محبتوں کے مزار
محبتیں جو فنا ہو گئیں ہیں میرے ندیم!
عوام کواس بار ان محبتوں کے فنا ہو جانے کا اندیشہ تحریر چوک پر لے آیاجس
کے نتیجے میں اس سال فروری کے اندر حسنی مبارک کے ۳۳ سالہ قدیم اقتدار کا
خاتمہ ہو گیا تھا۔مظاہرین نعرے لگا رہے تھے کہ ہم فیلڈمارشل کو اقتدار سے
بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ ملک مصری عوام کا ہے ۔ یہ
خطۂ ارض برائے فروخت نہیں ہے اس لئے ہمیں کسی نگرانِ کار کی چنداں ضرورت
نہیں ہے ۔ مظاہرین یہ بھی مطالبہ کر رہے تھے کہ ہمیں فوجی نہیں بلکہ عوامی
حکومت چاہئے ۔یاد رہے کہ اعلیٰ ترین فوجی کاؤنسل کے سربراہ حسین طنطاوی دو
دہائیوں تک وزیر ِدفاع کی حیثیت سے حسنی مبارک کی خدمت انجام دے چکے ہیں ۔
اس بیچ حسین طنطاوی نے براہِ را ست قوم سے خطاب کیا لیکن اس کا کوئی اثر
احتجاج کرنے والوں پر نہیں پڑا۔مظاہرین کے مطابق پانی سر سے اونچا ہو چکا
ہے ایسے میں طنطاوی کے خطاب کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس میں خاصی
تاخیر ہو چکی ہے اور فوجی کاؤنسل اب جو کچھ کہہ رہی وہ بالکل بے معنیٰ ہے
۔ عوام کا کہنا یہ ہے کہ ایک طرف یہ فوجی ہمیں ہلاک کرتے ہیں اور پھر ہمیں
یقین دلاتے ہیں کہ وہ تحقیقات کریں گے ۔فوج بیک وقت جنگ کی ایک فریق اور
ثالث کیونکر ہو سکتی ہے گویا ندا فاضلی والی بات کہ ؎
میرا قاتل ہی میرا منصف ہے
کیا مرے حق میں فیصلہ دے گا
ماہِ فروری میں جب پہلی مرتبہ عوام نے حسنی مبارک کی آ مریت کے خلاف علمِ
بغاوت بلند کیا تو اس وقت فوجی سربراہ اس بات سے واقف تھے کہ ان لوگوں نے
گزشتہ پچاس سال میں سارے حکومتی اداروں اورعوامی تحریکات کو مکمل طور پر
مفلوج کر دیا ہے اس لئےحسنی مبارک سے نجات حاصل کر لینے کے بعد جو سیاسی
خلا پیدا ہو گا اسے فوراً پر کرنا ممکن نہیں ہوسکےگا ایسے میں جو بھی کار
گزار حکومت وجود میں آئے گی، فوج کی مدد کے بغیر اس کی بقاء ناممکن ہو
جائیگی اور اس صورتحال کا فائدہ اٹھا کر وہ بلاواسطہ اقتدار پر قابض ہو
جائیں گے ۔ عوام کا جوش و خروش وقت کے ساتھ سردہوجائیگا اور اگر وہ دوبارہ
سر اٹھا تےبھی ہیں تو طاقت کے بل بوتے پر انہیں روند دیا جائیگا ۔اس حکمت
عملی پر عمل درآمد کرتے ہوئے فوجی حکومت نے بہت جلد اپنے جوروظلم کا آغاز
بھی کر دیا ۔ ان فوجی سربراہوں کا حال یہ ہیکہ ایکطرف ہمدردی جتاتے ہیں اور
دوسری جانب سفاکی دکھلاتے ہیں بقول احمد فراز جس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ
اب کس کا جشن منایا جائے وہ؟ ؎
ان نوحہ گروں کا جس نے ہمیں خود قتل کیا خود روتے ہیں
ایسے بھی کہیں دم ساز ہوئے، ایسے جلاد بھی ہوتے ہیں
یہ بات قابلِ تو جہ ہے کہ حال میں حکومت مخالف مظاہروں میں ۳۳ افراد جان
بحق ہوگئے۔فوجی عدالت میں عام شہریوں کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے اور ایک
ایسی صورتحال پیدا کر دی گئی جس کو ایمنسٹی انٹر نیشنل و دیگرانسانی حقوق
کے تحفظ کی خاطر سرگرم تنظیموں نے حسنی مبارک کے دورسے بھی ابتر قرار دیا
۔اس خون خرابے کے خلاف فوج کی اعلیٰ کاؤنسل پر دباؤ ڈالنے کی خاطر عوام
سڑکوں پر اتر آئے۔کارگزار وزیر اعظم عسام اشرف نے اپنی کابینہ سمیت
استعفیٰ دے دیا ۔ عسام اشرف کا شمار ان رہنماؤں میں ہوتا ہے جو سب سے پہلے
تحریر چوک پر عوام سے آملے تھے۔ فوجی کاؤنسل نے وزیر اعظم کا استعفیٰ
قبول نہیں کیا بلکہ متبادل کے اہتمام تک انہیں اپنی ذمہ داری ادا کرنے
کیلئے کہااور محمد البرضائی سے رابطہ قائم کیا تاکہ وہ حکومت کی کمان
سنبھالیں۔اس موقع پر البرضائی شش و پنج میں مبتلا ہیں اس لئے کہ انہیں
اندیشہ ہے وزاراء کے تعین میں ان کو حسبِ ضرورت آزادی نہیں دی جائیگی ۔
مصر کے اندر جو یہ طوفان وطلاتم لوٹ کر آیا ہے اس کی وجو ہات کا پتہ لگا
نا بہت آسان ہے ۔اس سال کی ابتدا میں جب وہاں عوامی بغاوت رونما ہوئی تو
اس وقت فوج نے اپنا وقار بچانے کی خاطر اور اپنے مفادات کے پیش ِنظر حسنی
مبارک کے بجائے عوام کا ساتھ دیا ۔ اس لئے کہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ
اس بار دریائے نیل میں جو شگاف واقع ہوا ہے اس کے اندر حسنی مبارک کو غرقاب
ہونا ہی ہونا ہے ایسے میں اگر انہوں نے حسنی مبارک کا ساتھ دیا تو فرعون کی
فوج کے انجام کی تمنا غالب کے اس شعر کی مصداق کریں گے ؎
ہوئے ہم جو مر کے رسوا ، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا ، نہ کوئی مزار ہوتا
فوجی کاؤنسل نے گزشتہ ہفتہ ایک اور من مانی کر ڈالی۔ اس نے اپنی جانب سے
عوام پر ایک ایسے دستور کا مسودہ تھوپنے کی کو شش کی جس کی بنیاد پر مستقبل
میں مصر حکومت کا چلائی جائیگی ۔اس حماقت نےعوام کے زخموں پر نمک کا کام
کیا اورانقلاب کے ایندھن کو تیلی دکھلا دی ۔ویسے جو مسودہ فوجی ٹولے نے پیش
کیا ہے اس میں نمائشی طور پر کچھ اچھے اصول اور رہنمائی ضرور موجود ہے لیکن
فوج کو ریاست اور تینوں شہری بازو یعنی مقننہ، عدلیہ اور انتطامیہ
پربالاتری حاصل ہے ۔ یہی وہ طریقۂ کار تھا جس کی مدد سے فوجی آمریت نے
برسوں تک مصری قوم کا استحصال کیا لیکن حالیہ بیداری کے بعد یہ حربہ ہر گز
مصر میں چل نہیں سکتا ۔ فوج ایکطرف تو قانون کی حکمرانی کا نعرہ لگاتی ہے
اور دوسری طرف اپنے آپ کو اس سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے یہ منافقانہ رویہ اب
قابل ِ عمل نہیں ہے ۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ نا ممکن ہے کہ فوج
خود اپنا بجٹ بنا کر عوام پر تھوپ دے اور قومی تحفظ کی آڑ میں اپنے مفادات
کی حفاظت کرے ۔مصری عوام اس طرح کے کسی دستور کو قبول نہیں کریں گے بلکہ ان
کا جاءز اور معقول مطالبہ یہ ہے ایک آزاد ادارے کے تحت پہلے صاف و شفاف
انتخابات کا انعقاد ہو ۔ اس کے بعد عوامی حکومت کا قیام عمل میں آئے جو
دستور کی تدوین کی ذمہ داری کو ادا کرے ۔
مظاہروں کے دوران ایک چونکا دینے والی خبر یہ آئی کہ اخوان المسلمون اور
اسکے سیاسی بازو حریت و انصاف پارٹی نے اپنے کارکنان کو تحریر چوک پر آنے
سے روک دیا ہے گویا فوجی حکام کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کرنا فوج کے سامنے
ہتھیار ڈال دینے یا اس سے ہاتھ ملا لینے کے مترادف ہے حالانکہ یہ اس بے
بنیاد بات کا حقیقتِ حال سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ فوج نے اس ماہ کے اوائل
میں جب اس دستوری موشگافی کا اعلان کیا اسی وقت سے یہ افواہ گردش کرنے لگی
جس کی باقائدہ تردید اخوان رہنما ڈاکٹر سعد الکتانی نے کی ۔ انہوں نے صاف
کہا کہ حریت و انصاف پارٹی اس مسودے کو مکمل طور پر مسترد کرتی ہے ۔ دستور
کے یہ نام نہاد رہنما اصول ۲۵ جنوری کو برپا ہونے والے انقلاب کی روح کے
سراسر منافی ہیں۔ حکام کو اس طرح عوام پر اپنی مرضی تھوپنے کا کوئی اختیار
نہیں ہے ۔انہیں عوام کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے جنہوں نے بڑی قربانیاں
دے کرملک میں عظیم انقلاب برپا کیا۔ ڈاکٹرالکتانی نے واضح کیا کہ ان کی
پارٹی فوجی پابندیوں کو تسلیم نہیں کرے گی اور خاموش تماشائی نہیں بنی رہے
گی ۔اس موقف کو اخوان نے کل جماعتی اجتماع میں حکومت تک کے سامنے واضح
انداز میں رکھ دیااوراس موضوع پر گفتگو کا دروازہ ہمیشہ کیلئے بندکر دیا
گیا ۔ اس کے بعد ۳۴ سیاسی جماعتوں کی میٹنگ میں اس فوجی دستور کو متفقہ طور
پر مسترد کیا گیااخوان اس میں پیش پیش تھے نیز ۱۸ نومبر سے ہونے والے تحریر
چوک کےاحتجاج میں شرکت کا اعلان کیا گیا ۔ یہ تمام تفصیلات ۱۷ نومبر سے
اخوان کی ویب سائٹ پر موجود ہیں ۔ اس کے باوجود الجزیرہ نے اپنے نامہ نگار
کے حوالے یہبے بنیاد افواہ اڑائی جو ساری دنیا میں پھیل گئی ۔
اخوان المسلمون کے ترجمان ڈاکٹر محمود غزلان نے شباب ٹیلی ویژن کے نامہ
نگار سے گفتگو کرتے ہوئے اپنے موقف کی مزید وضاحت کی اور کہا اگر فوجی حکام
اور نائب وزیراعظم علی السلمی دستور کے ان رہنما اصولوں کو واپس نہیں لیتے
تو ہم تحریر چوک پر ہونے والے احتجاج میں شریک ہوں گے ۔انہوں نے یہ بھی کہا
کہ انقلاب کے بعد سے اپنے مطالبات کو منوانے کیلئے عوام کے پاس دباؤ بنانے
کے علاوہ کوئی اور متبادل موجود نہیں ہے اس لئے انہیں بار بار سڑکوں پر اتر
کر آنے کیلئے مجبور ہونا پڑتا ہے جو پسندیدہ صورتحال نہیں ہے ۔حقیقت تو یہ
ہے احتجاج کے دوران حالیہ تعطل کے خاتمے کی غرض سے جس میٹنگ میں شرکت کی آڑ
میں یہ افواہ اڑائی گئی تھی اس میں اخوان کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتیں بھی
شریک تھیں لیکن صرف اخوان کے حوالے سے غلط فہمی پھیلائی گئی جبکہ فوجی ٹولے
کے اقتدار کو جون تک منتقل کرنےپر راضی ہو جان حریت و انصاف پارٹی کے صدر
ڈاکٹر محمود مورسی کی کوششوں کا ثمر ہے ورنہ کم از کم ۲۰۱۳ ء تک اس کا
ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
جس فوج نے حسنی مبارک کے زمانے میں اپنی عوام پر گولی چلانے سے انکار کردیا
تھا اس سے یہ توقع کسی کو نہیں تھی کہ وہ شہید ہونے والوں کے لواحقین پر گو
لیاں برسائے گی اور دیکھتے دیکھتے دسیوں لاشیں گرادے گی۔ اس موقع پر فوجی
حکمرانوں کو چاہئے تھا کہ قرآنِ مجید کی اس ہدایت کو پیشِ نظر رکھتے جس
میں ربِ کائنات کا ارشاد ہے کہ :زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی
اصلاح ہو چکی ہے اور خدا ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ، یقیناً
اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے (۷۔۵۶)
فوجی حکمرانوں کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ مظاہرہ کرنے والوں کے ساتھ
سختی سے پیش آئیں۔اس لئے کہ وقتی طور پر سہی یہ جو اقتدار کی باگ ڈور ان
کے ہاتھ آئی ہے اس کا سہرہ صرف اور مظاہرین کے سر ہے ۔ اگر یہ لوگ اپنی
جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ عمل نہ آتے تو حسن طنطاوی نہ جانے کب تک حسنی
مبارک کے آگے دم ہلاتے رہتے اور آگے چل کر ان کے بیٹے جمال مبارک کے بندۂ
بے دام بن جاتے جسے اقتدار سنبھالنے کیلئے اسی طرح تیار کیا جارہا ہے تھا
جیسے کہ ہندوستان میں راہل گاندھی کی تاجپوشی کی تیاری چل رہی ہے
۔احسانمندی کا تقاضہ تو یہ ہے فوج ان مظاہرین کی ممنون و مشکور ہو،جلد از
جلد اپنی اس عارضی ذمہ داری کو ادا کرکے اقتدار عوام کے نمائندوں کے حوالے
کردے اوراپنی چھاؤنی میں لوٹ جائے ۔خود فوج کا اپنا وقار و احترام بھی اسی
صورت محفوظ رہے گا۔لیکن جب فرعونیت دماغ میں گھس جاتی ہے تو انسان کی عقل
ماری جاتی ہے لیک ایسے انسانوں کوفرحت عباس کا یہ شعر یاد رکھنا چاہئے
یہ تو وقت کے بس میں ،ہے کہ کتنی مہلت دے
ورنہ بخت ڈھلنے میں دیر کتنی لگتی ہے
گزشتہ منگل کو ایک لاکھ لوگوں کے تحریر چوک پر جمع ہونے کا یہ دباو تو ضرور
ہی پڑا کہ فیلڈ مارشل حسین طنطاوی کو پہلی بار عوام سے خطاب کرنے پر مجبور
ہونا پڑانہوں نے اپنا سارا زور یہ ثابت کرنے پر صرف کر دیا کہ فوج کس قدر
غیر جانبدار ہے ۔ وہ کس خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر رہی ہے
اور وہ انتخابات کی انعقاد میں کس قدر سنجیدہ ہے ۔ وہ بار یہ کہتے رہے کہ
فوج کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں ہے انتخابات کون منعقد کرواتا ہے اور صدر
کون بنتا ہے ؟ انہوں نے عوام کو یقین دلایا کہ فوج اقتدار کی منتقلی کے
حوالے سے سنجیدہ ہے اور اگر عوام یہ چاہتے ہیں کہ اقتدار سے مکمل طور پر
دستبردار ہوکرفوج دوبارہ اپنے بیرک میں چلی جائے تو اس کا فیصلہ استصواب کے
ذریعہ ہوگا ۔ یہ خطرناک موقف ہے گویا انہیں تحریر چوک پر مظاہرین کے ٹھاٹیں
مارتے ہوئے سمندر پر اعتبار نہیں ہے جو وہ استصواب کے خواب سجا رہے ہیں نیز
اگر وہ استصواب فوج کے زیرِ نگرانی ہوتا ہے تو اس کے غیر جانبدار ہونے کا
امکان کس قدر ہے ؟ اس احتجاج کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ پہلی مرتبہ فوج کی
جانب سےانتقالِ ا قتدار کا واضح ٹائم ٹیبل سامنے آیا اورجو ۲۰۱۳ کی قیاس
آرائی کی جارہی تھی اس کا خاتمہ ہو گیا ۔ طنطاوی کے مطابق جون تک صدارتی
انتخابات کی تکمیل ہو جائیگی اور جولائی ۲۰۱۲ میں اقتدار عوام کے نمائندوں
کے حوالے کر دیا جائیگا ۔ مظاہرین پر اس خطاب کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا
کیوں کہ فوجی حکمراں اقتدار کے معاملے میں اپنی وعدہ خلافی کیلئے مشہور ہیں
۔ جب اقتدار کی کرسی ان کے ہاتھ آتی ہے تو وہ جونک کی مانند اس سے چمٹ
جاتے ہیں اور ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ جان جائے مگر کرسی نہ جائے ۔ حسن
طنطاوی کو یاد رکھنا چاہئے کہ کرنل معمر قذافی ان سے کہیں زیادہ طاقتور تھا
لیکن اس کے باوجود اس کا فوجی دبدبا اس کے کسی کام نہ آیا ۔جو بندوق اپنی
عوام پر کھلتی اس کا رخ بالآخر چلانے والوں کی جان مڑتا ہی مڑتا ہے ۔ اگر
طنطاوی کو لگتا ہے کہ اسرائیل کے مفادات کے پیشِ نظرناٹو کبھی بھی ان کی
مخالفت نہیں کرے گی تب بھی انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ مجاہدین اسلام کا کامل
انحصار کسی بھی دنیاوی وسائل مثلاً ناٹو پر نہیں ہوتاوہ اللہ پر توکل کرکے
جہاد کرتے ہیں جسکی زندہ مثال افغانستان ہے جہاں انہوں نے خود ناٹو تک کے
دانت کھٹے کر دئیےہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ اللہ کی مدد و نصرت جس کے شامل حال
ہوتی ہے اسے کوئی فیصلہ کن اور آخری شکست سے دوچار نہیں کرسکتا ۔ اس لئے کہ
ارشادِخداوندی ہے وَكَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْيَا{اللہ کا بول ہی بالا
ہے ۔ یہی وہ کلمہ ہے جو غالب وسربلند ہونے والا ہے} |