مدینہ کی آواز نہاوندتک:
امیرالمؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ساریہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کو ایک لشکر کا سپہ سالاربنا کر نہاوند کی سرزمین میں جہاد کے
لیے روانہ فرمادیا۔ آپ جہاد میں مصروف تھے کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے مسجدنبوی کے منبر پر خطبہ پڑھتے ہوئے ناگہاں یہ ارشاد فرمایا
کہ یَاسَارِیةْ الجَبَل (یعنی اے ساریہ!پہاڑکی طرف اپنی پیٹھ کرلو) حاضرین
مسجد حیران رہ گئے کہ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو سرزمین نہاوند میں
مصروف جہاد ہیں اورمدینہ منورہ سے سینکڑوں میل کی دوری پر ہیں۔آج امیر
المؤمنین نے انہیں کیونکر اورکیسے پکارا ؟ لیکن نہاوند سے جب حضرت ساریہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قاصد آیا تو اس نے یہ خبر دی کہ میدان جنگ میں جب
کفار سے مقابلہ ہوا تو ہم کو شکست ہونے لگی اتنے میں ناگہاں ایک چیخنے والے
کی آواز آئی جو چلا چلا کریہ کہہ رہا تھا کہ اے ساریہ ! تم پہاڑ کی طرف
اپنی پیٹھ کرلو۔ حضرت ساریہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ تو امیر
المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز ہے، یہ کہا اورفوراً
ہی انہوں نے اپنے لشکر کو پہاڑ کی طرف پشت کر کے صف بندی کا حکم دیا اور اس
کے بعد جو ہمارے لشکر کی کفار سے ٹکر ہوئی تو ایک دم اچانک جنگ کا پانسہ ہی
پلٹ گیا اوردم زدن میں اسلامی لشکرنے کفار کی فوجوں کو روندڈالا اورعساکر
اسلامیہ کے قاہرانہ حملوں کی تاب نہ لاکر کفار کا لشکر میدان جنگ چھوڑ کر
بھاگ نکلا اور افواج اسلام نے فتح مبین کا پرچم لہرا دیا۔ (مشکوٰة باب
الکرامات)
دریا کے نام خط؛ روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ مصرکا دریائے نیل خشک ہوگیا۔ مصری باشندوں
نے مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فریاد کی اوریہ کہا کہ
مصر کی تمام ترپیداوارکا دارومداراسی دریائے نیل کے پانی پر ہے۔ اے امیر!اب
تک ہمارا یہ دستور رہا ہے کہ جب کبھی بھی یہ دریا سوکھ جاتاتھا تو ہم لوگ
ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو اس دریا میں زندہ دفن کر کے دریا کی بھینٹ
چڑھایا کرتے تھے تو یہ دریا جاری ہوجایا کرتاتھا اب ہم کیا کریں؟ گورنر نے
جواب دیا کہ ارحم الراحمین اوررحمة للعالمین کا رحمت بھرا دین ہمارا اسلام
ہرگز ہرگزکبھی بھی اس بے رحمی اورظالمانہ فعل کی اجازت نہیں دے سکتا لہٰذا
تم لوگ انتظار کرو میں دربار خلافت میں خط لکھ کر دریافت کرتاہوں وہاں سے
جو حکم ملے گا ہم اسپر عمل کریں گے چنانچہ ایک قاصدگورنر کا خط لے کر مدینہ
منورہ دربار خلافت میں حاضر ہوا امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گورنر
کا خط پڑھ کر دریائے نیل کے نام ایک خط تحریر فرمایا جس کا مضمون یہ تھا کہ
''اے دریائے نیل ! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی
ضرورت نہیں ہے اوراگر تواللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا تو پھر اللہ
تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوجا"۔ امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خط
کو قاصد کے حوالہ فرمایا اورحکم دیا کہ میرے اس خط کو دریائے نیل میں دفن
کردیا جائے۔چنانچہ آپ کے فرمان کے مطابق گورنر مصر نے اس خط کو دریائے نیل
کی خشک ریت میں دفن کردیا، خدا کی شان کہ جیسے ہی امیر المؤمنین رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کا خط دریا میں دفن کیا گیا فوراً ہی دریا جاری ہوگیا اوراس کے
بعد پھر کبھی خشک نہیں ہوا۔(حجةاللہ ج٢،ص١٦٨،ازالة الخفاء ،مقصد٢،ص٦٦١)
چادردیکھ کر آگ بجھ گئی: روایت میں ہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے
دور میں ایک مرتبہ ناگہاں ایک پہاڑ کے غار سے ایک بہت ہی خطرناک آگ نمودار
ہوئی جس نے آس پاس کی تمام چیزوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیا،جب لوگوں
نے دربار خلافت میں فریاد کی تو امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت
تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی چادر مبارک عطافرمائی اور
ارشادفرمایا کہ تم میری یہ چادر لے کر آگ کے پاس چلے جاؤ۔ چنانچہ حضرت تمیم
داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس مقدس چادر کو لے کرر وانہ ہوگئے اورجیسے ہی آگ
کے قریب پہنچے یکایک وہ آگ بجھنے اورپیچھے ہٹنے لگی یہاں تک کہ وہ غار کے
اندر چلی گئی اورجب یہ چادر لے کر غار کے اندر داخل ہوگئے تو وہ آگ بالکل
ہی بجھ گئی اور پھر کبھی بھی ظاہر نہیں ہوئی۔(ایضاً)
دوغیبی شیر:روایت ہے کہ بادشاہ روم کا بھیجا ہوا ایک عجمی کا فرمدینہ منورہ
آیا اورلوگوں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پتہ پوچھا، لوگوں نے
بتادیا کہ وہ دوپہر کو کھجور کے باغوں میں شہر سے کچھ دور قیلولہ فرماتے
ہوئے تم کو ملیں گے۔ یہ عجمی کافر ڈھونڈتے ڈھونڈتے آپ کے پاس پہنچ گیااور
یہ دیکھا کہ آپ اپنا چمڑے کا درّہ اپنے سر کے نیچے رکھ کر زمین پر گہری
نیند سو رہے ہیں۔ عجمی کافر اس ارادے سے تلوار کو نیام سے نکال کر آگے بڑھا
کہ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قتل کر کے بھاگ جائے مگر وہ جیسے
ہی آگے بڑھابالکل ہی اچانک اس نے یہ دیکھا کہ دو شیر منہ پھاڑے ہوئے اس پر
حملہ کرنے والے ہیں۔ یہ خوفناک منظر دیکھ کر وہ خوف ودہشت سے بلبلا کر چیخ
پڑا اور اس کی چیخ کی آواز سے امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
بیدارہوگئے اوریہ دیکھا کہ عجمی کافر ننگی تلوار ہاتھ میں لئے ہوئے
تھرتھرکانپ رہا ہے۔ آپ نے اس کی چیخ اوردہشت کا سبب دریافت فرمایا تو اس نے
سچ مچ ساراواقعہ بیان کردیا اورپھر بلند آواز سے کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام
ہوگیا اور امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے ساتھ نہایت ہی
مشفقانہ برتاؤ فرماکر اس کے قصور کو معاف کردیا۔(ایضاً)
قبر میں بدن سلامت؛ ولید بن عبدالملک اموی کے دور حکومت میں جب روضہ منورہ
کی دیوار گر پڑی اوربادشاہ کے حکم سے تعمیر جدیدکے لیے بنیادکھودی گئی
توناگہاں بنیادمیں ایک پاؤں نظر آیا، لوگ گھبراگئے اورسب نے یہی خیال کیا
کہ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا پائے اقدس ہے لیکن
جب عروہ بن زبیر صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہمانے دیکھا اور پہچانا پھر قسم
کھا کر یہ فرمایا کہ یہ حضورانورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کامقدس
پاؤں نہیں ہے بلکہ یہ امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قدم
شریف ہے تو لوگوں کی گھبراہٹ میں قدرے سکون ہوا۔ ( بخاری شریف )
دیگرکرامات:عبداللہ بن مسلمہ کہتے ہیں کہ ہمارے قبیلہ کا ایک وفد
امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ خلافت میں آیا تو اس
جماعت میں اشترنام کا ایک شخص بھی تھا۔ امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ
اس کو سر سے پیر تک باربار گرم گرم نگاہوں سے دیکھتے رہے پھر مجھ سے دریافت
فرمایا کہ کیا یہ شخص تمہارے ہی قبیلہ کا ہے ؟میں نے کہا کہ ''جی ہاں'' اس
وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خداعزوجل اس کو غارت کرے اور اس
کے شروفساد سے اس امت کو محفوظ رکھے۔ امیر المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی
اس دعا کے بیس برس بعد جب باغیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو
شہید کیا تو یہی ''اشتر''اس باغی گروہ کا ایک بہت بڑا لیڈر تھا۔
اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ ملک شام کے کفار سے جہاد
کرنے کے لیے لشکر بھرتی فرمارہے تھے۔ ناگہاں ایک ٹولی آپ کے سامنے آئی تو
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتہائی کراہت کے ساتھ ان لوگوں کی طرف سے منہ
پھیرلیا۔ پھر دوبارہ یہ لوگ آپ کے روبروآئے تو آپ نے منہ پھیرکر ان لوگوں
کو اسلامی فوج میں بھرتی کرنے سے انکار فرمادیا۔ لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے اس طرز عمل سے انتہائی حیران تھے لیکن آخر میں یہ راز کھلا کہ اس
ٹولی میں ''اسودتجیبی''بھی تھا جس نے اس واقعہ سے بیس برس بعد حضرت عثمان
غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی تلوار سے شہید کیا اوراس ٹولی میں
عبدالرحمن بن ملجم مرادی بھی تھا جس نے اس واقعہ سے تقریباًچھبیس برس کے
بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی تلوار سے شہید کرڈالا۔ |