اثاثے اور سیاستدان

عمران خان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرکے اپنے اثاثے ایک بار پھر ظاہر کردئے اور ان پر جو الزامات میڈیا میں لگائے جارہے تھے ان کے کافی حد تک تسلی بخش جوابات بھی دیدئے ہیں۔ انہوں نے اپنی جماعت کے باقی اکابرین کے بارے میں بھی بتایا کہ ان کے بھی اثاثے ڈیکلیئر کئے جائیں گے۔ عمران خان کی جانب سے میڈیا کے سامنے ان الزامات کے جوابات دیدئے گئے ہیں جو مالی حوالوں سے ان پر لگ رہے تھے، اب یہ باقی جماعتوں کے قائدین کابھی فرض بنتا ہے کہ وہ بھی اسی طرح میڈیا کے سامنے آکر اپنے اثاثوں کی تفصیل بتا دیں اور کتنا ہی اچھا ہو کہ ایسا قانون بنا دیا جائے کہ اگر کسی کے گمنام یا بینامی اثاثے پکڑے گئے تو نہ صرف وہ سیاستدان نااہل ہوجائے گا بلکہ اس کے اثاثے بھی بحق سرکار ضبط کرلئے جائیں گے، لیکن اس قوم کا یہ خواب شائد ہی کبھی پورا ہوسکے گا۔

اثاثوں کی کرپشن کی بات سمجھنے سے پہلے دو تین باتیں بہت اہم ہیں جن کی اگر سمجھ آجائے تو کافی حد تک گیم کھل جاتی ہے۔ بینامی کا باقاعدہ ایک قانون اس وقت بھی پاکستان میں موجود ہے جس کے تحت اگر کوئی شخص کوئی جائیداد خریدتا ہے اور اپنے نام کی بجائے اپنی بیوی، بچوں، بہن، بھائی یا والدین کے نام اس کی رجسٹری، ٹرانسفر یا انتقال کروالیتا ہے تو اس کو بینامی کہا جائے گا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص بیرون ملک سے رقم پاکستان میں بھیجتا ہے جس سے اس کی بیوی ایک جائیداد اپنے نام پر خریدتی ہے تو کل کلاں کو اگر وہ شخص چاہے تو عدالت سے رجوع کرسکتا ہے کہ یہ جائیداد اصل میں میری ملکیت ہے، میری بیوی اس جائیداد کی اصل مالکہ نہیں بلکہ صرف بینامی طور پر مالکہ تھی کیونکہ میں ملک سے باہر تھا اور اپنے نام پر جائیداد نہیں خرید سکتا تھا، ایسے کیسز میں سب سے اہم نکتہ یہ ہوتا ہے کہ میری بیوی نہ تو کوئی نوکری کرتی ہے اور نہ اس کا کوئی ذریعہ روزگار تھا جس کی کمائی سے وہ یہ جائیداد خرید سکتی، یعنی اگر کوئی شخص یہ ثابت کردے کہ جائیداد اس کی رقم سے خریدی گئی، جس کے نام پر خریدی گئی وہ رقم اس کی نہیں تھی، اور یہ حالات تھے جن کی وجہ سے میں اپنے نام پر جائیداد نہ خرید سکا تو عدالت اس کی بات سنتی ہے اور شہادتوں کی روشنی میں مانتی بھی ہے۔ ایک اور اہم اور ضروری بات جو اس طرح کے کیسز میں دیکھی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اکثر وہ لوگ جو سرکاری ملازمت میں ہوتے ہیں اور جن کی ”اوپر“ کی کمائی خصوصی طور پر زیادہ ہوتی ہے وہ اپنی کوئی جائیداد اپنے نام پر نہیں خریدتے بلکہ اپنے اہل خانہ میں سے کسی کے نام پر خریدتے ہیں اور احتیاط کے طور پر بینامی خریدار سے کوئی مختار نامہ اور انڈرٹیکنگ بھی لکھوا لی جاتی ہے کہ جائیداد اصل میں تو فلاں شخص کی ملکیت ہے لیکن میں صرف بینامی طور پر مالک ہوں، جب کوئی سرکاری ملازم بعد از ریٹائرمنٹ اپنی جائیداد واپس مانگتا ہے اور دوسری پارٹی انکار کردیتی ہے، یا آپس میں حالات کشیدہ ہوجاتے ہیں اور بینامی مالک وہ جائیداد فروخت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے اور وہاں چونکہ یہ کہنا مناسب نہیں ہوتا کہ یہ جائیداد میری ”اوپر“ کی کمائی کی ہے اس لئے یہ گراﺅنڈ لی جاتی ہے کہ کیونکہ مجھے بینامی مالک (چاہے وہ بیوی ہو یا بچے یا بہن، بھائی) سے بہت پیار، انس اور محبت تھی اس لئے اس محبت میں اور پیار کے اظہار کے لئے یہ جائیداد اس کے نام بینامی طور پر منتقل کی تھی اور ساتھ ہی ہمارے درمیان یہ طے ہوا تھا کہ جب میں کہوں گا یہ جائیداد مجھے واپس کردی جائے گی چنانچہ عدالت مجھے میری جائیداد، جس کا کہ میں اصل مالک ہوں، واپس دلائے۔ پاکستان میں اس وقت سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ایسے کیسززیر سماعت ہیں جن میں ثابت ہونے پر بہت سے کیسز میں مدعی کے حق میں فیصلے بھی ہوئے ہیں۔

عمران خان نے اپنی پریس کانفرنس میں 1992 کے ایک قانون کا بھی حوالہ دیا جس کے مطابق بیرون ملک سے پاکستان میں آنے والی رقوم نہ صرف ٹیکس فری ہوں گی بلکہ ان کے بارے میں کسی قسم کا کوئی سوال بھی نہیں پوچھا جائے گا، اسی زمانے میں ایئر پورٹس پر گرین چینلز کا بھی اجراءکیا گیا تھا جس سے کوئی بھی ایسا پاکستانی جو بیرون ملک بوجہ ملازمت یا کاروبار رہتا ہو، گذر سکتا تھا اور وہاں سے گذرنے والوں کی کوئی چیکنگ بھی نہیں ہوا کرتی تھی، ان قوانین کو شائد بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو کرپشن سے بچانے اور پاکستان میں رقوم لانے کی ترغیب دینے کے لئے بنایا گیا ہو لیکن ”اندر“ کی باتیں اب تو ساری دنیا جانتی ہے کہ کس طرح اس قانون کا غلط فائدہ اٹھایا گیا اور کیسے کیسے طریقوں سے غیر قانونی طور پر پہلے رقوم پاکستان سے باہر بھیجی گئیں اور پھر ”قانونی“ طریقوں سے ٹیکس فری کرکے پاکستان میں واپس لائی گئیں۔ آج بھی اگر کسی شخص نے کوئی زمین یا جائیداد خریدنی ہو تو وہ سب سے پہلے اپنے ٹیکس ایڈوائزر کے پاس جاتا ہے جو اس کو مشورہ دیتا ہے کہ تمہارے پاس پہلے اس جائیداد کی قیمت کے مطابق ”سفید دھن“ (White Money) ہونی چاہئے تاکہ تم کل کو کسی شکنجے میں نہ آجاﺅ، چنانچہ وہ اس کو اپنے کسی جاننے والے بنک آفیسر کے پاس بھیج دیتا ہے جو اس سے کچھ فیصد زائد رقم لےکر اس کو بیرون ملک سے ”سفید دھن“ منگوا دیتا ہے، اور چونکہ قانون موجود ہے کہ بیرون ملک سے آنے والی رقوم پر نہ کوئی ٹیکس نا سوال جواب، اللہ اللہ خیر صلا!یہ کام جب ایک عام آدمی بھی کرسکتا ہو تو ہم سوچ سکتے ہیں کہ بڑے بڑے لیڈروں کے لئے کیا مشکلات ہوسکتی ہیں۔

اگر اثاثوں کے کھیل کو اس کے منطقی انجام پر پہنچانا ہے تو اس کے لئے نہ صرف قانون سازی ہونی چاہئے بلکہ عوام الناس کو بھی بیدار کرنا پڑے گا، انہیں شعور و آگہی دینا ہوگی کہ کس طریقے سے پاکستان کا مال لوٹا گیا ہے اور کیسے اسے دوبارہ پاکستان لایا گیا ہے۔دوسری بات کہ صاف ستھرا اصول ہے کہ کسی بھی شخص کے اثاثے، اس کی حکومت میں آنے سے پہلے کتنے تھے اور آج کتنے ہیں، پاکستان میں ترقی کی رفتار کتنی ہے، اسی طرح کا کاروبار کرنے والے دوسرے لوگوں کی شرح ترقی کیا رہی، اگر وہ کاروبار اپنی پوری آب و تاب سے چل رہا ہوتا، منافع ہی منافع ہوتا، کسی قسم کا کوئی خسارہ نہ ہوتا، تو کتنی شرح افزائش/منافع ہوتی، اس میں بھی کچھ فیصد زائد دے کر باقی بحق سرکار ضبظ کرلیا جائے، کن کن لوگوں نے بنکوں سے قرضے لئے اور اپنے آپ کو ”ڈیفالٹر“ ظاہر کرکے وہ قرضے معاف کروائے جبکہ اس کے گھر والے مزید سے مزید امیر ہوتے گئے.... ان سب باتوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن جن کو توجہ دینی ہے وہ تو خود یہ کام کرنے میں مشہور ہیں اور آج بھی مشغول ہیں، تو کیا اسظلاحاً کسی ”اناہزارے“ کو ڈھونڈا جائے (کیونکہ یہ بات تو ہم بھول ہی چکے ہیں، کئی لوگوں کے نزدیک Out Dated ہوچکی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے گھوڑوں کو سرکاری چراگاہ میں چرانے سے بھی انکار کردیا تھا )یا عمران خان کے چیلنج کے جواب اور مزید جوابی الزامات کا انتظار کیا جائے۔ ایک بات بہرحال طے ہے کہ پاکستان میں بہت کچھ بینامی ہے اور قانون کا تحفظ بھی موجود ہے، انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین تبدیل کئے جاسکتے ہیں بلکہ موقع کی مناسبت سے کرنے بھی ضرور چاہئیں، اس وقت تک جب تک اس ملک میں اللہ کا قانون مکمل طور پر نافذ نہیں ہوجاتا، کیونکہ اللہ کا قانون اگر آگیا تو کم از کم ہمارے سیاسی رہنماﺅں کی اکثریت ایک ہاتھ سے تو ہاتھ دھو بیٹھے گی....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222524 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.