ہندوستان میں بسنے والے باشندوں
کی معصو میت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے۔ انگریزوں نے غالباََ سو
سال تک ان پر حکمرانی کی انگریزوں کی مکمل ایڈمنسٹری کو چلانے کے لئے
انگلستان سے صرف 10,000 گورے افسروں کو ہندوستاں میں لایا گیا ۔دس ہزار
انتظامی آفیسر اور ایک لاکھ برٹش فوجیوں نے غالباََ50کروڑ آبادی کو سو سال
تک غلام بنائے رکھا۔اس کی وجہ گوروں نے آتے ہی سب سے پہلے ان کو قدامت
پسندی اور اولڈ روایات میں جکڑے ہوئے دیکھااور جا ن لیاکہ ان کو قدیم
روایات میں باندھ کر ہی ان پر حکومت کی جا سکتی ہے۔ اس کا انہوں نے بھر پور
فائدہ اٹھایا ۔انہوںنے آتے ہی قدیم مذہبی روایات اور قدامت پسندی کو منظم
طریقے سے فروغ دیا۔اور ہندوستانیوں کو آپس میں الجھا کر سو سال تک ان پر
حکومت کی۔یہاں بسنے والے باشندوں میں دو قومیں ہندو اور مسلمان اکثریت میں
تھے ۔اور جب انگریز ہندو ستاں میں واردہو ئے تو اس وقت انتظامی حکومت
مسلمانوں کے پاس تھی۔انگریزوں نے بڑی مکاری کے ساتھ دونوں قوموں کو آپس
میںالجھایا پھر ہندوﺅں کو مسلمانوں کے خلاف اکسایا اور سکھوں کو اپنے ساتھ
ملایا۔چونکہ انگریزوں سے پہلے مسلماں حکمراں تھے ان کو جابر اور ظالم قرار
دے کر اپنی حکومت کو مضبوط کیا۔مگر بیسویں صدی کی سحر انگیزی نے جہاں دنیا
میںمقیم دیگر مقبوضہ نو آبادیاتیوں کو رہائی دلائی وہیں ہندوستانیوں کے
دلوں میں بھی انگریزوں کے تسلط سے آزادی کی چنگاری کو ہوا دی۔اور ہندوستاں
کے باشندے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے پھر سے ایک ساتھ مل گئے۔اور
انگریزوں کو بھگا کر عظیم بر صغیر کو بانٹ دیا جس میں سے دو آزاد خود
مختارممالک پاکستان اور بھارت دنیا کے نقشے میں وقوع پزیر ہوئے۔چونکہ صدیوں
سے ایک ساتھ رہتے ہونے کی وجہ سے یہ دونو ں قومیں ایک دوسرے میں اس طرح گھل
مل گئیں ان کی عبادتیں تو ایک دوسرے سے مختلف تھی لیکن رہن سہن کھانا پینا
خاندانی روایات یکساں ہی تھے ۔جیسے ہی بٹوارے کا وقت آیا تو ذہنی طور پر
دونو ں ممالک کی عوام تیار نہ تھی۔ جس کے باعث دونوں ممالک کے لوگ شدید
مشکلات کا شکار ہوئے۔نہایت تکلیف دہ اور اندو ہناک مناظر ان کی جدائی کے
دوران دیکھنے کو ملے۔خصوصاََشر پسند عناصر اور دونوںطرف کے لٹیروںنے اس
موقع پر ان کی معصومیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا ۔اب جب یہ صدیوں سے ایک ساتھ
رہتے ہوئے اچانک علیحدہ ہوئے پہلے تو شدید مشکلات کا شکار ہوئے آہستہ آہستہ
دونوں ممالک کے باشندوں نے خود سے سمجھوتا کرتے ہوئے ایک نئی زندگی کی
شروعات کی۔لیکن ہمسایہ ہونے کی وجہ سے اور برسوں ایک ساتھ رہتے ہونے کی وجہ
سے ان کی تمام عادات واطواررسوم ورواجات یکساں ہی رہے۔دنیا تیزی سے ترقی
کرتے آگے بڑھتی جا رہی تھی ۔ یہ بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے۔نام نہادعالمی
سیاسی ٹھیکیداروں اور اندرونی مفاد پرست عناصر نے ان محبت بانٹنے والے عظیم
برصغیر کے بھولے بھالے معصوم باشندوں کو اپنے غیر قانونی مفادات کے تحفظ کی
خاطرایک دوسرے کے خلاف خوب اکسایااور ماضی میں ہونے والی تقسیم کو بنیاد
بنا کے ان کے دلوں میں نفرتوں کے بیج بوئے۔مگر یہ محبتیں بانٹنے والے معصوم
لوگ کچھ تو ان کی باتوں میں آگئے ڈھیر سارے غدار بھی پیدا ہوئے ۔لیکن
اکثریت اب بھی ماضی کی طرح ایک دوسرے سے پیار کرتی ہے۔ پسندیدہ قوم،ملک یا
کسی معاشرے کو فیورٹ دینے کے لئے اس کی کون سی کوالٹیزدیکھی جاتی ہیں۔ہم
اپنی ذاتی زندگی میں کسی کو لائک کرتے ہیںتو ہم سب سے پہلے اس پرسنلٹی میں
کوالٹیز دیکھتے ہیں جس سے متاثر ہو کر ہم دیگر لوگوں کی نسبت کسی ایک کو
پسند کرتے ہیں۔ آج پاکستان اپنے دیرینہ ہمسائے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار
دینے جا رہا ہے تو ایک بار پھر وہی اندرونی مفاد پرست ٹولہ بلیک مارکیٹنگ
کرنے والے سرمایہ دار اور ریڈیمیڈ سیاستدانوں کو اپنے غیر قانو نی مفادات
خطرے میں دیکھائی دینے لگے تو وہ اس کی مخالفت پر اتر آئے ہیں ۔ان کی جانب
سے سخت ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے تو دوسری طرف مذہبی تنظیمیں بھی اپنا حصہ
کا ثواب سمیٹنے کے لئے اس کی مخالفت کر رہی ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس
فیصلے سے غریب عوام اور عام آدمی کو کیا فائدہ ملنے جا رہا ہے ایک طرف تو
لوکل تجارت پر پابندی ہٹنے سے آلو پیاز چینی کے داموں میں نمایاں کمی ہو
گی۔کاسمیٹکس کی چیزوں کے دام بھی کم ہوں گے۔تو دوسری طرف موٹر سائیکلیوں کی
قیمتیں بھی عام آدمی کی رسائی تک آ جائیں گی۔تجارت آگے بڑھے گی تو گاڑیاں
بھی سستی ہوں گی۔آج دونوںممالک کی عوام کا عام سروے کرا لیں 80فیصد امن
پسند لوگ اب بھی ایک دوسرے کو پہلے کی طرح چاہتے ہیں۔آرٹ انڈسٹری اور
کھیلوں میں تو اس فیصلے کی بھر پور حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ شعیب ملک
اور ثانیہ کی شادی ہو یا پاکستان انڈیا کا کرکٹ میچ یہ دو نوں ممالک کی قوم
اپنی ساری مصروفیات ترک کر دیں گی اور اپنے ان ہیروز کو داد دینے کے لیے سرِ
شام ہی ٹی وی کے آگے چائے کے کپ ہاتھوں میں تھام کر جھومنا شروع کر دیں گے۔
پاکستان کے بڑے بڑے نامور سنگر انڈین میوزک انڈسٹری سے بھر پور فائدہ اٹھا
رہے ہیں تو دوسری طرف 80فیصد پاکستانی عوام انڈین فلمیں اور انڈین میوزک
شوق سے سنتی ہے،ہماری عورتیں انڈین ڈرامے انڈین فیشن شوق سے اپناتی
ہیں۔کیونکہ عوام جان چکی ہے کہ ہمیشہ اکھٹے رہنے کے لیے امن اور شانتی ہی
واحد ذریعہ ہے۔یہ کام تو پہلے ہی ہو جانا چاہیے تھاجب جنرل پرویز مشرف بر
سراقتدارمیں تھے۔اس وقت انڈیا پاکستان کو پسندیدہ ملک قرار دینے جاریا تھا
۔مگر اس وقت بھی عالمی سیاسی ٹھیکیداروں کو ان دو پڑوسی ممالک کی دوستی سے
اپنے مفادات ڈوبتے دکھائی دئے اور چنگاری پھینک دی جس کے ردِعمل میں دوستی
کی بجائے دونوں ممالک کی فوجیں جنگ کے لیے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئیں۔
مگر اسوقت بھی دونوںممالک کی عوام نے جنگ پر امن کو ترجیح دی۔لیکن آج حالات
یکسر بدل چکے ہیںاب ایسی کوئی انسانیت سوز سازش دونوں ممالک کی عوام کامیاب
نہیں ہونے دے گی۔اس لیے کہ عوام بھی اب جان چکی ہے کہ امن ہی میں عافیت
ہے۔اور محبتیں بانٹنے سے ہی محبتیں بڑھتی ہیں۔دوستی ،امن اور آزاد تجارت
ہمیشہ ساتھ رہنے کے لیے بہت ضروری ہے۔بالخصوص پاکستانی عوام کو چینی کے لیے
اور انڈیا کی عوام کو نمک کے لیے لائنوں میں نہیں کھڑا ہونا پڑے گا ۔دوسری
طرف تباہی کی طرف رواںدواںپاکستانی فلم انڈسٹری بھی ریلکس ہو گی ا ورآرٹ سے
ریلیٹڈپاکستانی ٹیلنٹ کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی ہو گی ۔
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا (بشکریہ علامہ صاحب) |