کراچی میں سی این جی اسٹیشن کی بندش سے شہر میں سناٹا

کیا یہ کراچی کی تباہی کی نئی سازش ہے

کراچی میں سی این جی اسٹیشن کی بندش سے شہر میں سناٹا ہے۔ سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب ہے اور شہری پریشان ہیں۔ کراچی میں 60فیصد سے زائد پبلک ٹرانسپورٹ سی این جی پر منتقل ہونے اور سی این جی اسٹیشن بند ہونے سے شہر قائد کی سڑکیں ہڑتال کا منظر پیش کرنے لگی ہیں، سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے سی این جی گیس کی دو دن کی بندش اور رات گیارہ بجے سے سندھ بھر میں سی این جی اسٹیشن بند کرنے کی ہدایت کے بعد گیس نہ ملنے کی وجہ سے منگل کی شام ہی سے سی این جی اسٹیشن بند ہونا شروع ہوگئے تھے۔ سی این جی اسٹیشن پر لمبی لمبی قطاریں لگی تھیں۔

پاکستان میں ایک کے بعد ایک بحران نے عوام کو جان بلب کر رکھا ہے۔ آٹا، چاول چینی، دالیں، گھی، تیل، ٹماٹر، پیاز، پانی، بجلی،سیمنٹ، ریلوے،کا بحران یہ قوم دیکھ چکی ہے اور آئے دن کوئی نہ کوئی مصیبت ان کی راہ دیکھ رہی ہے۔ حکومت کے پاس کوئی روڈ میپ ہے نہ مستقبل کا کوئی لائحہ عمل نتیجہ ایک بے یقینی کی کیفیت ہے جو ہر شعبے میں نظر آتی ہے۔ توانائی کے بحران نے پاکستان میں سی این جی کی راہ دکھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے گیس کی قیمتوں میں کئی سو گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ دنیا میں ٹرانسپورٹ میں پاکستان قدرتی گیس استعمال کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کی سی این جی کی گاڑیوں کی تعداد ستائیس لاکھ ہے۔دوسرے نمبر پر ایران ہے جہاں سی این جی گاڑیوں کی تعداد انیس لاکھ پچاس ہزار ، بھارت میں یہ تعداد گیارہ لاکھ ہے۔اس وقت پاکستان سی این جی انڈسٹری میں پہلے نمبر پرہے 90 بلین روپے کی پرائیویٹ سیکٹر نے سرمایہ کاری کی ہے اور دنیا بھر میں سی این جی کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے۔ اس وقت 27لاکھ گاڑیاں سی این جی پر ہیں اورسی این جی انڈسٹری 28 فیصد ٹیکس ادا کررہی ہیں۔ اس انڈسٹری میں حکومت کی طرف سے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی گئی ‘ سی این جی مڈل کلاس کا ایندھن ہے جو کہ کسی بھی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس کے علاوہ سی این جی ماحول پر نہایت مثبت اثرات مرتب کررہا ہے کیونکہ یہ 85 فیصد کم زہریلی گیس اخراج کرتی ہے زیر ولیڈ اور زیرو ذراتی مادہ اخراج کرتا ہے اس وقت سی این جی پرچلنے والی 27 ملین گاڑیاں جن میں سوزوکی اور ٹیوٹا وین شامل ہیں اگر پیٹرول اور ڈیزل پرچل رہی ہوتیں تو بڑے شہروں کی ہوا سانس لینے کے قابل نہ رہتی۔ سی این جی انڈسٹری اب تک 90 بلین کی انویسٹمنٹ کرچکی ہے۔ سی این جی 6.12 بلین لیٹر پیٹرول کا متبادل بن چکی ہے اوراس سے اربوں ڈالر کی بچت ہورہی ہے سی این جی کے کارروباری حلقوں نے حکومت کے دئیے گئے اہداف کو کامیابی کے ساتھ عملی جامہ پہنایا ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹرو ں نے اپنی گاڑیوں کو سی این جی پر منتقل کر لیا ہے اور سی این جی کی کی بندش ان کے سفری معاملات کو بری طرح متاثر کر دیتی ہے پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب ہوجاتی ہے اور بہت کم گاڑیاں سڑکوں پر ہونے کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے۔شہریوں کا کہنا تھا کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں سی این جی اسٹیشن کو بندش سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ورنہ سی این جی اسٹیشن کی بندش کراچی کو تباہ کر سکتی ہے۔گیس کی لوڈ شیڈنگ کے حکومتی فیصلے کے بعدکراچی سمیت سندھ بھر میں سی این جی اسٹیشن کی بندش کی وجہ سے تمام فلاحی اداروں کی ایمبولینس سروس بھی متاثر ہوئی ہیں۔ صرف کراچی میں ایدھی اور چھیپا ویلفیئر کی60سے زائد ایمبولینسیں سی این جی نہ ہونے کے باعث کھڑی ہوگئیں سول ہسپتال،جناح ہسپتال اور عباسی شہید ہسپتال میں مریضوں کو شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔چھیپا ویلفیئر کے ترجمان کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ متعدد ایمبولینسوں میں سی این جی ختم ہورہی ہے جس کے بعد مختلف ہسپتال میں مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔کراچی میں گذشتہ سال مئی میں پہلی بار بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لیے حکومتی فیصلے کے تحت سندھ اور بلوچستان کے سی این جی اسٹیشنز 24 گھنٹے کیلئے بند کئے گئے تھے۔ اس سے قبل حکومت کی توانائی بچت پالیسی کے تحت صوبہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں سی این جی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سی این جی اسیٹشنز کو ایک روز بند رکھنے سے بچائی گئی گیس بجلی کے منصوبوں کو فراہم کی جارہی ہے جس سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ لیکن عوام کو ان وعدوںپر کوئی اعتبار نہیں ہے۔

کراچی میں گیس اسٹیشنز کی بندش سے سب سے زیادہ متاثر سی این جی رکشہ ڈرائیورز ہوئے ہیں جن کا کہنا ہے کہ گیس سلنڈر چھوٹا ہونے کے باعث ان کو اپنے رکشے بند کرنا پڑتے ہیں جس سے ان کا روز گار متاثر ہو رہاہے۔ کراچی میں منگل کی سہ پہر سے ہی سی این جی اسٹیشنوں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگنا شروع ہوگئی تھیں۔جس کی وجہ سے شہرکے بیشتر سی این جی اسٹیشن گیس کا پریشر کم یا ختم ہونے کی وجہ سے گیارہ بجے سے پہلے ہی بند ہوگئے۔کراچی میں محکمہ داخلہ سندھ نے پہلے ہی موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کر رکھی ہے ایسے میں سی این جی کی بندش نے شہریوں کو بری طرح متاثر کیا ہے ، بسیں نہ ملنے کے باعث دفاتر پہنچنے میں دشواری کا سامنا ہے وہاں بچوں کے اسکول وین ڈرائیوروں نے بھی چھٹی کر لی ہے۔ بچے ٹرانسپورٹ کے نہ ہونے سے گھروں کو دیر سے پہنچے۔

اس مسئلے پر کنزیو مر ایسو سی ایشن آ ف پا کستا ن کے چیئرمین کو کب اقبا ل کا کہنا ہے کہ سی این جی کی ہفتہ وار بندش سے توا نا ئی کے بحران پہ قا بو پا نے میں کو ئی فر ق نہیں پڑتا ہے۔ بجلی کے بحرا ن کی وجہ سے لو گ معا شی بد حا لی کا شکا ر ہو گئے ہیں ، آ ٹے کی قیمت میں کمی کے باوجو د نان با ئی 7سے 8روپے کی رو ٹی فرو خت کر رہے ہیں۔ بجلی کے بحرا ن کی وجہ سے پو رے ملک میں معا شی بحرا ن شروع ہو چکا ہے سفید پو ش طبقہ اپنی جمع پو نجی کھا رہا ہے۔ہر کا رو با ری ایک دو سرے کی طرف سوالیہ نگا ہو ں سے دیکھ رہا ہے کہ آ ئندہ آ نے والا وقت کیسے گزرے گا، ما رکیٹوں سے گاہک غائب ہیں۔

گذشتہ سال جون میں وفاقی وزیر برائے ماحولیات حمید اللہ جان آفریدی نے کراچی والوں کو نوید سنائی تھی کہ اگلے چند ماہ تک آٹھ ہزار سی این جی بسیں پاکستان آرہی ہیں جن میں سے چار ہزار کراچی میں چلائی جائیں گی۔انہوں نے آج کراچی میں کوریا اور پاکستان کے اشتراک سے متبادل توانائی کے حوالے سے کی جانے والی سرمایہ کاری سے متعلق سیمینار سے خطاب میں کہی تھی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کے پھیلاؤ کے خلاف اقدامات کئے جارہے ہیں اور وفاقی محکمہ ماحولیات بھی پاکستان میں صاف شفاف ماحول اور اس حوالے سے متبادل ٹیکنالوجی کے فروغ کے لئے متحرک ہے۔ ابھی سال بھی پورا نہی ہوا ہے کہ حکومت نے اس بارے میں یو ٹرن لے لیا ہے۔ ملک میںسی این جی اسٹیشنز کی ہفتہ وار تعطیل کا فیصلہ وفاقی حکومت نے بجلی کی پیداوار میں اضافے کیلئے کیا تھا تاہم اس فیصلے سے بجلی کی صورتحال زیادہ بہتر نہ ہوسکی تاہم عوام اور سی ای جی اسٹیشنز کے مالکان کو ضرور پریشانی کا سامنا کرناپڑرہا ہے۔

کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاری کا کہنا ہے کہ سڑک پر ڈیزل سے چلنے والی گاڑیوں کے علاوہ صرف وہی گاڑیاں چل رہی ہیں جو منگل کی رات سی این جی بھر واچکی ہیں لیکن دوپہر کے بعد سے لے کر جمع کی صبح تک یہ گاڑیاں بھی غائب ہوجائیں گی۔” کاروبار تو متاثر ہو ہی رہا ہے لیکن معیشت اور عوام کو اس بندش سے کیا نقصان ہوگا شاید حکومت کو اس کا اندازہ نہیں ہے۔ نیشنل فورم فار انوائرمنٹ نے بھی گیس لوڈ مینجمنٹ پلان کے تحت سی این جی اسٹیشنز بند کرنے پر انتہائی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ اس فیصلے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو گا اور ماحول کیلئے کی جانے والی کوششوں پر فرق پڑے گا فورم کے صدر محمد نعیم قریشی کا کہنا ہے کہ ملک میں چلنے والی 50لاکھ گاڑٰیوں میں سے 25لاکھ گاڑیاں سی این جی پر منتقل ہوئی ہیں اور اس سے گذشتہ دس سال میں فضائی آلودگی میں 30فیصد کمی واقع ہوئی ہے جو نہ صرف ملک و معیشت بلکہ انسانی زندگی کیلئے بہتر ہے اور ملک میں سالانہ 30ہزار افراد فضائی آلودگی سے ہلاک ہوجاتے ہیں ، نعیم قریشی کا کہنا ہے کہ پاکستان نے فضائی آلودگی میں خاتمے کیلئے 1995 میں کیو ٹو پروٹوکول پر دستخط کیئے ہیں جس کے تحت وہ فضائی آلودگی میں کمی کیلئے اقدامات کرے گا انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے سی این جی کی صنعت اور سرمایہ کاری پر منفی اثر پڑے گا اور دوسری طرف پٹرول کی درآمد پر لاکھوں ڈالر کا زرمبادلہ بھی خرچ ہوگا ، انھوں نے تجویز دی کہ شمسی توانائی سے چلنے والے گیزرز کی حوصلہ افزائی کی جائے ، ایل پی جی آٹو گیس اسٹیشنز جلد از جلد شروع کیئے جائیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو سی این جی پر منتقل کرنے کے عمل کو تیز کیا جائے نیشنل فورم نے عوام سے بھی اپیل کی کہ وہ گیزر ، ہیٹر اور چولہوں کو مناسب وقفے سے استعمال کریں اور گیس کو بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھائیں۔کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے مطابق شہر میں چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ کی تعداد کل 18 ہزار ہے جن میں سے تقریباً 16 ہزار سی این جی میں تبدیل کی جاچکی ہیں۔ ارشاد بخاری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے سے بیشتر گاڑیوں کی سی این جی میں تبدیلی کے رجحان کو دیکھتے ہوئے پبلک ٹرانسپورٹ مالکان نے بھی اپنی گاڑیاں ڈیزل سے سی این جی میں تبدیل کر لیں لیکن شاید انھیں اندازہ نہیں تھا کہ آنے والے وقتوں میں انھیں اس کا کیا خمیازہ بھگتنا ہوگا۔ سی این جی ڈیلرز ایسو سی ایشن سندھ کے صدر عبد السمیع خان کا کہنا ہے کہ سندھ میں 450 سی این جی اسٹیشنز ہیں جب کہ ستر فیصد گاڑیاں سی این جی پر چل رہی ہیں جو منگل کو گیس کی بندش سے متاثر ہوئی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک میں گیس کی قلت ہے لیکن حکومت کو گھریلو صارفین کے بعدہمیں ترجیح دینی چاہئے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی ترقی کے لیے کراچی کی اقتصادی سرگرمیوں کا جاری رہنا بہت اہم ہے۔ ”ہم سے مشاورت کیے بغیریہ فیصلے کردئیے جاتے ہیں۔اگر حکومت تین چار سال پہلے سی این جی سے متعلق اپنی پالیسی کااعلان کردیتی کہ کتنی گاڑیاں سی این جی پر ہونی چاہئیں تو آج یہ حال نہ ہوتا۔ “

پاکستان میں سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ گیس کی قلت بھی بڑھ جاتی ہے۔حکومتِ پاکستان نے موسم ِ سرما میں قدرتی گیس کی طلب و رسد میں عدم تواز ن کی وجہ سے اس بحران پر قابو پانے کے لیے گیس لوڈ مینجمنٹ منصوبے کا اعلان کیا تھا تاہم گھریلو صارفین کو اس پابندی سے مستثنٰی قرار دیا تھا۔
گھریلو صارفین گیس کی بندش سے پریشان وزارت پیٹرولیم نے موسم سرما میں گیس کی لوڈ مینجمنٹ کا جو منصوبہ ترتیب دیا تھا اس کے تحت گھریلو صارفین ترجیہی بنیادوں پر گیس فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔

امیرجماعت اسلامی کراچی محمد حسین محنتی نے ہفتے میں دو دن سی این جی اسٹیشنز کی بندش کے فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے مگر حکمرانوں کی کرپشن،نااہلی اور بدانتظامی کے باعث عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سی این جی بندش سے ٹرانسپورٹ بری طرح متاثر ہوگی جس سے ہزاروں محنت کش اورعوام بری طرح متاثر ہوں گے۔حکومت اپنی نااہلی کا سارا بوجھ عوام پر منتقل کر رہی ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ سی این جی بندش کا عوام دشمن فیصلہ فی الفور واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں گےس کے وسےع ذخائر موجود ہیں جو صوبے کی ضرورےات کے لئے کافی ہیں،آئےن کے تحت صوبے کے وسائل پر پہلا حق صوبے کا ہے،گےس کی لوڈ شیڈنگ کا کوئی تک نہیں بنتا مگر حکمران اپنی نا اہلی چھپانے کےلئے سندھ کے عوام کو اس حق سے محروم کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ سی این جی بندش سے ہزاروں منی بسیں،کوچز،رکشہ ‘ ٹیکسی اور دیگر گاڑیاں بند ہوجائیں گی جس سے شہر پبلک ٹرانسپورٹ کی ہڑتال کامنظر پیش کرے گااور اس کا سارا اثر پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے متوسط اور غریب عوام پر پڑے گا۔ڈیزل کی قیمتوں میں آئے روز ہوشربا اضافے کی وجہ سے گاڑی مالکان نے مجبوراً ہزاروں روپے خرچ کر کے گاڑیوں کو سی این جی پر منتقل کرایا مگر سی این جی بندش کے ظالمانہ فیصلے سے ان کی معاشی صورتحال مزید ابتر ہوگی، رکشہ‘ٹیکسی اور لوڈنگ سوزوکی چلانے والے ہزاروں محنت کش اس سے براہ راست متاثر ہوں گے اور ان کے گھروں کے چولہے بجھ جائیں گے۔

سی این جی مارکیٹ کے حلقوں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال سے خاص طور پر وہ لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جو حال ہی میں اس کاروبار سے وابستہ ہوئے ہیں اور ان میں وہ جن کے پاس صرف سی این جی اسٹیشن ہیں۔ انہوں نے کروڑوں روپے کے قرضے لے کر سرمایہ کاری کی ہے جبکہ سی این جی اسٹیشنوں کی بندش سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ بھی بے روز گار ہوں گے۔

سردیوں میں گیس کا بحران گزشتہ کئی سالوں سے چل رہا ہے لیکن اس مرتبہ سی این جی کو دانستہ طورپر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی این جی ایسوسی ایشن نے حکومت سے رابطہ کیا لیکن حکومت نے مذاکرات کرنے سے انکار کردیا ہے ‘ عوام کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہیے اورہم حکومت کے ساتھ اس سلسلے میں مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل چاہتے ہیں۔ دوسری جانب زرعی معیشت کے طفیل پاکستان آج تک ”دوستوں“ اوردشمنوں دونوں کی ریشہ دوانیوں کاکامیابی سے مقابلہ کرتا چلاآ رہا ہے اور امریکہ و بھارت کی دیرینہ خواہش کے علاوہ ہمارے عوام دوست حکمرانوں کی کدو کاوش کے باوجود معاشی دیوالیہ پن سے بچتا چلا آرہا ہے لیکن بجلی مہنگی اور نایاب، ڈیزل سونے کے بھاؤ اور پانی کی فراہمی میں مسلسل کمی کے باوجود کسانوں اور کاشتکاروں نے مختلف اجناس گندم، چنا، چاول، گناوغیرہ کی پیداوار میں ریکارڈ اضافے کا کارنامہ انجام دیا اور عام آدمی خودانحصاری پر زور دینے لگا جوہمارے پالیسی سازوں اور حکمرانوں کو پسند نہیں آیا او ر اس نے گیس کی کمی کا بہانہ بناکر سی این جی سٹیشنوں کو ہفتے میں دوتین روز بندش کا اہتمام کیا تاکہ جوٹرانسپورٹ سی این جی استعمال کر رہی ہے وہ سڑکوں کارخ نہ کرے۔حالانکہ جب لوگوں کو گیس کے استعمال کی ترغیب دی جارہی تھی تو اس وقت سوچنا ضروری تھا کہ قیمتی گیس کے ذخائر کتنا عرصہ چلیں گے؟ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا فیصلہ کرتے وقت بھی یہ اہتمام نہیں کیا گیا کہ اس قومی بحران میں ہر طبقے کے لوگ اپنا حصہ ڈالیں اور جنریٹرز کے گھریلوو کمرشل استعمال کو کسی قاعدے قانون کا پابند کیا جائے تاکہ قیمتی زرمبادلہ تیل کی درآمد پر ضائع نہ ہو اورگیس سے چلنے والے جنریٹر کی روک تھام ضروری ہے تاکہ قیمتی گیس سے گھریلو صارفین کے علاوہ انڈسٹری کی ضروریات پوری کی جائیں۔ ایل این جی گیس کی درآمد کا فیصلہ ہوا تو لائسنس شفاف انداز میں جاری کرنے کی بجائے من پسند افراد کو الاٹ ہوئے اور اتنا بڑا قومی سکینڈل وجود میں آیا جس کی وجہ سے ایل این جی کی درآمد کا معاملہ معرض التوا میں پڑاہے۔تازہ شاہکار یہ ہے کہ گیس کی لوڈشیڈنگ کا دائرہ فرٹیلائزر انڈسٹری تک بڑھا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے کھادوں کی قلت اور مہنگائی نے کسانوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ فرٹیلائزر انڈسٹری صرف گیس پر چلتی ہے اور وہ ڈیزل، یا فرنس آئل سے نہیں چلائی جاسکتی اسی بنا پر فرٹیلائزرز کوترجیحی بنیادوں پرگیس فراہم کی جاتی رہی ہے۔ گیس کی سپلائی میں تعطل ڈال کر مقامی انڈسٹری کو بند اور مخصوص مافیا کو کھادیں درآمدکرنے کی اجازت دی جارہی ہے تاکہ وہ اپنی جیبیں بھریں۔ انڈسٹری کی بندش سے نہ صرف بیروزگاری میں اضافہ ہوگا بلکہ مہنگی درآمدی کھاد کسانوں اور کاشتکاروں کی مشکلات میں اضافہ کرے گی اور زرعی معیشت کو نقصان پہنچے گا لیکن حکمرانوں کو اس سے کیا؟

سی این جی سٹیشنز کی بندش سے آمد و رفت میں خلل پڑتا ہے۔ فرٹیلائزر انڈسٹری کی بندش سے لوگ بیروزگار بھی ہوں گے اور زرعی پیداوار پر بھی اس کے مہلک اثرات مرتب ہوں گے البتہ حکومت کے بعض چہیتوں کودرآمدی کھادوں سے بھرپور فائدہ ہوگا اور وہ اپنے سرپرستوں کی خدمت و تواضع پورے اہتمام سے کرسکیں گے۔ یہ فیصلہ کس نے اور کیوں کیا ؟ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔ زرعی معیشت کی حوصلہ افزائی کا یہ حکومتی انداز قوم کو مبارک! اب یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ حکمران ان کے لئے کچھ نہیں کرتے۔پنجاب میں طویل عرصے سے سی این جی اسٹیشنوں کی ہفتہ وار بندش سے پریشان مالکان کا حوصلہ جواب دے گیا اور انہوں نے بندش کا حکم ماننے سے انکار کر دیا حکومت کی جانب سے مسلسل ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے شہر میں چلنے والی 8000منی بسوں اور کوچز سمیت 1500 بسیں جو ڈیزل سے سی این جی پر منتقل کرائی گئی ہیں، سی این جی کی 2 دن کی بندش کی وجہ سے روٹ پر نہیں آ سکیں گی اور جہاں نجی گاڑی مالکان پریشانی کا شکار ہوں گے، وہیں ڈیزل سے سی این جی میں منتقل کرائی گئی پبلک ٹرانسپورٹ پر براہ راست اثر پڑے گا وہ بند ہو جائے گی، جس کی وجہ سے ہزاروں یومیہ اجرت کے محنت کشوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے معمول کے مطابق دفاتر جانے میں شدید اذیت اورپریشانی کا سامنا ہو گا۔ اس سلسلے میں کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے صدر ارشاد بخاریکا کہنا ہے کہ سی این جی کی 2دن کی بندش سے ٹرانسپورٹ کم چلے گی، جس کا تمام اثر متوسط اور غریب عوام پر پڑے گا، ڈیزل کی روز بروز ہوشربا قیمتوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹ مالکان نے مجبوراً ہزاروں روپے کے عیوض گاڑیوں کو سی این جی پر منتقل کرایا۔ انہوں نے صدر، وزیراعظم اور وزیر پیٹرولیم سے مطالبہ کیا ہے شہر کی موجودہ امن و امان کی صورتحال میں اس طرح کے فیصلے عوام کو مزید پریشانی میں مبتلا کردیں گے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ امن ظالمانہ اقدام کو فوری واپس لیاجائے بصورت دیگر ہم ٹرانسپورٹرز کا اجلاس بلاکر گاڑیاں بند کرنے کا فیصلہ کریں گے۔

شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ سی این جی کا بحران ختم کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں تاکہ ان کی مشکلات کم ہو سکیں ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ کاروں والوں کیلئے سی این جی بند کر کے پبلک ٹرانسپورٹ کو گیس فراہم کی جائے تاکہ عوام کو سفری سہولیات میں رکاوٹ پیدا نہ ہو اگر متحدہ ٹرانسپورٹ یونین کی جانب سے پہیہ جام کی کال دی گئی تو اس میںبھرپور شرکت کی جائیگی۔ سندھ ہائی کورٹ کی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ بھی سی این جی بندش کے خلاف حکم امتناع جاری کرچکی ہے۔ جس پر عمل نہیں کیا جارہا۔پورے ملک میں عوام کا حکومت کے خلاف غم وغصہ بڑھ رہا ہے اور لوگ حکومتی فیصلے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اس پہلے پوٹھوہار ریجن کے بیشتر سی این جی اسٹیشن مالکان نے تین روزہ بندش کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تھا اور کئی اسٹیشن کھلے رہے اور گاڑیوں کو سی این جی فراہم کی جا تی رہی۔ حکومت نے سی این جی کی قیمتوں میں بے حد اضافہ کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ اضافہ عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایت پر کیا گیا ہے اور اس کی وجہ حکومتی قرضے ہیں۔ اسی پلان کے تحت گھر یلو صارفین اور فر ٹیلائزر سیکٹر کے لئے گیس میں سبسڈی ختم کر کے قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اوگرا اتھا ر ٹی ایک عضو معطل بن گیا ہے۔ جو پٹرو لیم مصنو عا ت میں بلا جو از اضا فہ کر رہا ہے۔ اور عوام کی مشکلات کو نہیں دیکھا جارہا ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387700 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More