جنرل مشرف نے جب میاں نواز شریف
کی حکومت کو چلتا کیا تو سوائے جاوید ہاشمی کے مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کوئی
خاص آواز اس کے خلاف اٹھی ہو۔بڑے بڑے جغادری پولیس والوں کے ساتھ مل کے ہاﺅس
اریسٹ ہونے کی درخواست کر رہے تھے۔پیپلز پارٹی والوں کی تو خوشی دیدنی
تھی۔وہ بھی جو نواز شریف کی "عطا "کردہ سفارتوں کے مزے لوٹ چکے تھے ان دنوں
ایک دم سے سکینڈے نیوین ملکوں کے سفر نامے لکھنے میں مصروف ہو گئے تھے۔ایک
گہرا سکوت تھا جو چار سو طاری تھا۔ہم جیسے نواز شریف کے متوالے حیران تھے
کہ آخر نواز شریف کے خوان ِ نعمت کے خوشہ چین کہاں گئے۔نواز شریف گو زرداری
کی طرح یاروں کے یار نہیں لیکن چاپلوسوں کو تو ان کی بارگاہ سے بھی خلعتیں،
بلا روک و ٹوک آیا کرتی تھیں۔ لفافوں کا چلن انہی کے دور میں عام ہوا تھا۔
آج یہ لوگ باہر کیوں نہیں نکلتے۔اس وقت آج کے اٹھارہ کروڑ سولہ کروڑ ہو
کرتے تھے لیکن مجال ہے کہ کوئی باہر نکلا ہو۔اگر یہ کوئی قوم ہوتی تو
احتجاج کرتی۔ صرف ایک لاکھ لوگ بھی اسلام آباد کے کسی چوک میں جمع ہوتے تو
فوج کبھی اقتدار نہ سنبھالتی۔جرنیل نواز شریف کو گرفتار کرنے کے بعد خود اس
مخمصے میں تھے کہ اب کیا کریں۔جب تین دنوں تک سارے ملک کو سانپ سونگھا رہا
توان کی جان میں جان آئی اور یوں ایک اور سیاہ دور کا آغاز ہوا۔
سیاہ دور اپنی تمام تر سیاہی کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیاتو جمہوریت کی سحر
پھوٹی ۔ جمہوریت کی صبح طلوع ہوئی ۔پہلی کرنوں نے پاکستان کو اپنے حصار میں
لے لیا۔ ۔لوگ خوشی سے دیوانے ہو رہے تھے کہ ڈکٹیٹر گیااب جمہور کی حکومت ہے
۔عام عوام کی، عوام کے ذریعے ،عوام کے لئے لیکن اس کے بر عکس ہوا کیا ،
ڈکٹیر کے سب سے بڑے مخالف سارے جمہوری اصولوں کی دھجیاں بکھیرتے ا یک ایک
وزارت کی بھیک لینے ا سی ڈکٹیٹر کے در دولت پہ سیس نوائے حاضر ہو گئے۔اس کے
بعداس جمہوری حکومت نے جمہور کا وہ حال کیا کہ عوام کا سانس لینا محال ہو
گیا۔عوام بے صبرے تو ہوتے ہی ہیں۔انہوں نے پھر منہ کھول کے فوج کی طرف
دیکھنا شروع کیا۔اب کی بار فوج کی طرف سے بھی ایک لمبی چپ تھی سب کے جواب
میں۔عوام زبان حال سے پکارتی رہی اور جنرل کیانی نے اپنا منہ دوسری طرف
پھیرے رکھا۔لوگ کہتے ہیں کہ اس دور میں جمہوریت کی جتنا خیال فوج نے رکھا
خود جمہوری قوتوں نے نہیں رکھا۔لوگوں نے فوج کو سر عام طعنے دینا شروع
کئے۔اس پہ بھی جب کوئی جواب نہ ملاتو یاروں نے باقاعدہ فوج کے لتے لینا
شروع کئے ۔وہ جو ساری زندگی فوجی بوٹوں کے تلوے چاٹنے کو ہی اپنی زندگی کی
معراج سمجھتے رہے تھے،انہیں بھی ہمت پڑی اور انہوں نے فوج کو گالی دینا
فیشن بنا لیا۔
وہ جن کے کبھی ایک فوجی کو سامنے پا کے پسینے نہیں رکتے تھے اب ان کی
زبانیں نہیں رکتی تھیں۔فوج نے اپنا منہ دوسری طرف پھیرنے کی پالیسی جاری
رکھی اور پھر نوبت یہاں تلک پہنچی کہ فوج کو باقاعدہ ایک ادارے کے طور پہ
ذلیل و رسوا کیا جانے لگا۔آئی ایس آئی دشمن کی آنکھ میں میں تو ہمیشہ ہی سے
کھٹکتی رہی ہے اب اسے ملک کے اندر بھی طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جانے
لگا۔جنگ کے ہنگام تو کبھی کبھار امریکیوں کو بھی جن کا دفاعی بجٹ دنیا کے
سارے ممالک کے آدھے بجٹ کے برابر ہے لاشیں اٹھانا پڑتی ہیں۔جی ایچ کیو
،مہران بیس حملے کو فوج کی تضحیک اور تذلیل کا استعارہ بنا دیا گیا۔دو مئی
کا واقعہ تو فوج کے ان مہربانوں کے لئے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوا۔طرار
زبانیںتلواروں کی کاٹ لئے باہر نکلیں اور انہوں نے ہر غلطی اور ہر قصور کے
لئے فوج کو ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔فوج اس وقت اندرونی اور بیرونی
دونوں اطراف سے دباﺅ کا شکار تھی۔یہی وہ وقت تھا جب ان محب وطن سیاستدانوں
نے وطن ہی سودا کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔امریکیوں کو باقاعدہ دعوت دے دی گئی
کہ جناب ہماری فوج نالائق ہے آپ آئیں اور آکے ہمارے ملک سے دہشت گردوں کو
بھی خود ہی صاف کریں اور ہمارے ایٹمی پروگرام کو بھی ۔کہ ہم ان دونوں کو
سنبھالنے کے قابل نہیں۔ملک کی سلامتی کے محافظوں کے لئے یہ خبر ایسی تھی کہ
انہیں اپنی اطاعت اور غیر جانبداری کو ایک طرف رکھ کے اس معاملے کو دیکھنا
پڑا۔معاملے کی تحقیق میں پایا گیا کہ ان برے سوداگروں نے اس سب کے جواب میں
صرف اپنے اقتدار کی یقین دہانی مانگی تھی اور بس۔اسے کہتے ہیں کہ
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
معاملہ کھلا تو قوم کو بھی یقین آگیا کہ حب وطن کے یہ دعویدار کتنے محب وطن
ہیں۔یہ بھی کہ ملکی سلامتی کے معاملات ان یبوست زدہ اور نحوست کے مارے
لوگوں پہ نہیں چھوڑے جا سکتے۔قوم پھر سے پاک فوج کی حمایت میں سڑکوں پہ
ہے۔یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ملک کی پالیسیاں حکومت بنایا کرتی ہے حکومتی
ادارے ان پر عمل درآمد کے پابند ہوتے ہیں۔حکومت نے سوات میں آپریشن کا
فیصلہ کیا تو فوج نے وہاں امن قائم کر کے دکھا دیا۔
ولی محمد کا دکھ سب پاکستانیوں کا دکھ ہے۔خواہ وہ فوجی ولی محمد ہو یا
سولین ۔لیکن ولی محمد کو اس حال تک کس نے پہنچایا۔مشرف نے اور پھر مشرف کے
بعد آنے والے لوگوں نے۔مشرف نے ابتدا کی تھی زرداری نے انتہا کر دی۔مشرف کے
دور میں تو ایک آدھ ہی حملہ ہوا تھا ان کے دور میں تو ولی محمد کے دکھوں کا
شمار بھی نہیں کیا جا سکتا۔عوام کے دکھ سکھ کا حساب حکومتوں کی ذمہ داری
ہوتی ہے کہ ریاست اپنے عوام کے جان و مال کی حفاظت کی امین ہوتی ہے۔ یہ
حکومت ریاست ہی کا سودا کرنے کے در پے ہے جان و مال کی امین کیا خاک ہو
گی۔ہمیں اگر ولی محمد کا نوحہ لکھنا ہے تو کیا ضروری ہے کہ اس کے لئے ہم
فوج ہی کے لتے لیں ۔ہم حکومت سے کیوں نہیں کہتے کہ پاکستان کے سارے ولی
محمد تمہاری ذمہ داری ہیں ۔
چار سال تک اس حکومت کاپشتیبان بننے والا اپوزیشن لیڈر آج آنے والے
انتخابات میں نوشتہ دیوار پڑھ کے قوم کا ہمدرد بن رہا ہے ۔آپ کیا پاکستان
کے سارے ولی محمدوں کو اندھا سمجھتے ہیں کہ آپ حکومت اور اپوزیشن کا سارا
ملبہ فوج پہ ڈالیں گے اور قوم اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لے گی۔جاوید
چوہدری کے کالموں پہ ٹکڑے لگانے والے اپنے ممدوحین کے لتے کیوں نہیں لیتے
جنہوں نے اس حکومت کو چار سال تک سہارا دئیے رکھا۔جوڈیشری کی آزادی کے لئے
لانگ مارچ ہو سکتا ہے تو ولی محمد کے حالات سدھارنے کے لئے کیوں نہیں۔وہاں
چونکہ اصغر خان کا کیس کوئی نہیں سنتا اور آپ کے ممدوحین کو ایک منٹ میں
ریلیف مل جاتا ہے اس لئے۔جناب والا جو لوگ اپنے بازو خود اپنے ہاتھوں توڑ
لیا کرتے ہیں انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے لئے دشمن نہیں دشمن کے کتے ہی
کافی ہوتے ہیں۔فوج آپ کا بازﺅے شمشیر زن ہے اسے توڑ کے آپ کو سوائے شرمندگی
اور پچھتاوے کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں |