ہرزہ سرائی

۔۔۔ ہرزہ سرائی ۔۔۔
طارق حسین بٹ(چیرمین پاکستان پیپلز ادبی فورم یو اے ای )
پاکستان پیپلز پارٹی جب کبھی بھی اقتدار میں آتی ہے تو کچھ لوگوں کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں۔ پی پی پی کا اقتدار ان کی برداشت سے باہر ہو جا تا ہے اور وہ اس کے خلاف سازشوں کا جال بھننا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے قلب و نگاہ میں کچو کے لگتے رہتے ہیں کہ اقتدار ایک دفع پھر پی پی پی کے پاس واپس چلا گیا ہے۔ایسے لوگ پی پی پی کی اقتدار کی نعمت سے سرفرازی کی وجہ سے حسد کی آگ میں اندر ہی اندر جلتے رہتے ہیں اور جو کچھ ان سے بن پڑتا ہے اسے اقتدار کی مسند سے نیچے اتارنے کے لئے جتن کرتے رہتے ہیں۔انھیں اس چیز سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اقتدار پر کسی ڈکٹیٹر نے شب خون مار کر قبضہ کر لیا ہے یا کسی سیاسی جماعت کو اقتدار اسٹیبلشمنٹ کی نوازشوں سے عطا ہوا ہے انھیں صرف ایک بات کا غم کھائے جاتا ہے کہ اقتدار کسی بھی طرح پی پی پی کے پاس نہ رہے۔ وہ پورا جتن کرتے ہیں زور لگاتے ہیں الزامات لگا تے ہیں دلکش افسانے تراشتے اور کہانیاں تخلیق کرتے ہیں لیکن عوام ان کی کٹ حجتیوں اور ا فسانہ طرا زیوں پر کان نہیں دھرتے اور پی پی پی کو اپنے مینڈیٹ سے نواز کر اقتدار کی مسند پر بٹھا دیتے ہیں، پی پی پی مخالفین کے لئے یہ گھڑی محشر کی گھڑی ہوتی ہے لہذا وہ ناکام و نامراد اور ذلیل و خوار ہو کر ا پنے بلوں میں واپس گھس جاتے ہیں لیکن تنقید اور سازش کا کو ئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ وہ ہمہ وقت کسی ایسے موقعے کی کی تلاش میں رہتے ہیں جب انھیں اس جماعت کے خلاف گل افشانی کا موقع میسر آجائے۔

پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جو جمہوری جدو جہد سے معرضِ وجود میں آیا ہے۔ اسے کسی فوج، مسلح دستوں یا منظم گروہوں نے تخلیق نہیں کیا بلکہ یہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی پر امن جدو جہد کا عظیم الشان شاہکار ہے ۔یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ وطنِ عزیز پر زطالع آزما جر نیلوں نے وقفے وقفے سے شب خون مار کر قتدار پر قبضہ کیا اور منتخب قیادتوں کو جلا وطن بھی کیا اور موت کی سزاﺅں کا حقد ار بھی گردانا لیکن عجیب اتفاق ہے کہ جمہوریےت سے عوام کی محبت کبھی کم نہیں ہوئی ۔ سچ تو یہ ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی پر امن جدو جہد اور جمہوریت سے ان کی کمٹمنٹ پاکستانی عوام کے شعور میں اتنی قوت سے جاگزین ہے کہ وہ جمہوری روایت کی خاطر ہمیشہ طالع آزماﺅں کے خلاف سینہ سپر ہو کر انھیں بھاگ جانے پر مجبور کرتے رہتے ہیں۔ پاکستاان میں جمہوریت کی اس جنگ کو پی پی پی نے جس شان اور جراتوں سے لڑا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پی پی پی کی جمہوری جدو جہد کی یہ با جرات داستان بہت سے حلقوں کو ناگوار گزرے لیکن یہ ایک ایسا سچ ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔پاکستا ن کے عوام پی پی پی کے اس باجرات کردار کو تحسین کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اس پارٹی سے ان کی محبت کی یہی بنیادی وجہ ہے جس کی بدولت وہ اس پارٹی کو اقتدار کے ایوانوں تک لے کر جاتے ہیں۔ پاکستانی سیاست میں اقتدار کا فیصلہ کرنے کا مکمل ا ختیار پاکستانی عوام کو حاصل ہے اور ا گر پاکستانی عوام پی پی پی پر ا عتماد کرتے ہیں اور اسے حقِ حکمرانی تفو یض کرتے ہیں تو اس میں سیخ پا ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ہر جماعت اور گروہ کو انتخابات میں برابری کا موقع دیا جاتا ہے لیکن اگر یہ گروہ اور جماعتیں عوام کو قائل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو اس میں پی پی پی کا کیا قصور ہے۔ پی پی پی نے جمہوریت کے لئے اپنی قیاد توں کی قربانی دی ہے لہذا یہ اسی کا صلہ ہے کہ لوگ اس جماعت کی فکر اور سوچ سے خود کو ہم آہنگ سمجھتے ہیں اور جس کا برملا اظہار وہ انتخابات کے موقع پر کر کے پی پی پی کو اقتدار کا حقدار ر ٹھہرا تے ہیں ۔جمہوری ملکوں میں عوام کے مینڈیٹ کا احترام کیا جاتا ہے اور منتخب حکومت کو اسے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں شائد سیاستدانوں میں برداشت کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ قبل از وقت حکومت کی رخصتی کی سازشیں شروع کر دیتے ہیں اور پی پی پی آجکل انہی سازشوں کی زد میں ہے۔۔

پی پی پی اکثرو بیشتر ایسی محلاتی سازشوں کا سامنا کرنے کی خو گر ہو گئی ہے لہذا وہ چھوٹی موٹی سازشوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتی اور اپنے سیاسی مخا لفین کے ساتھ کسی نہ کسی طرح حساب برابر کر لیتی ہے لیکن جب معاملہ ذاتی مخالفت سے ملکی سلا متی تک آ جاتا ہے تو پھر پی پی پی خاموشی کا سکوت توڑ دیتی ہے اور ملکی مخالفین کے ساتھ دو دو ہاتھ کرنے کےلئے میدان میں کود پڑتی ہے۔حسین حقانی سے منسوب مبینہ میمو میں آصف علی زرداری کو جس رح ملوث کرنے کی بھونڈی کوشش کی جا رہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔آئین کی دفعہ چھ(6) کا مطالبہ جس غیر منطقی انداز میں کیا گیا وہ ابھی تازہ تازہ ہے۔ حسین حقانی چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ اس کا اس میمو سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن مخالفین ہیں کہ حسین حقانی کی وساطت سے آصف علی زرداری کو نشانہ بنا نے کی سازشوں میں جٹے ہو ئے ہیں ۔ وہ ہر حال میں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو شکار کرنے کا ارادہ کئے ہوئے ہیں اور اس پر دفعہ چھ کا اطلاق کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کا آئین توڑنے والے طالع آزما جرنیلوں کے خلاف سپریم کورٹ دفعہ چھ کا اطلاق کرنے کی بجائے انھیں آئین میں تبدیلی کا مینڈیٹ بھی دیتی رہی ہے لیکن ایک بے بنیاد میمو کی بنیاد پر وہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری پر دفعہ چھ کا اطلاق کرنا چاہتی ہے۔سپریم کورٹ سے ہماری درخواست ہے کہ وہ پہلے ان طالع آزما جرنیلوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے انصاف کے تقاضے پورے کرے اس کے بعد اس مجوزہ میمو پر اپنی پھرتیاں دکھائے تاکہ قوم کو یقین ہو جائے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔ طالع آزما فوجی جرنیلوں کی وارداتوں کے وقت تو ملکی سالمیت اور غیرت کا راگ الاپنے والے میرے یہی سورمے جان بچا کر ملک سے بھاگ جاتے تھے اور پھر جمہوریت کو بچانے کی ساری ذمہ داری آصف علی زرداری جیسے با جرات ا نسانوں کے کندھوں پر ڈال دی جاتی تھی جسے انھوں نے پوری جوانمردی سے اٹھایا اور نبھایا ہے۔ اپنے لہو سے جراتوں کی داستان رقم کرنے کے اس کا یہی انداز تھا جس سے اس کے سخت ترین مخالفین نے اسے مردِ حر کے خطاب سے نوازا تھا لیکن آج وہی مردِ حر وطن سے غد اری کے الزامات کی ضد میں ہے لیکن ہمیشہ کی طرح مخالفین کو اس دفعہ بھی زلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑےگا کیونکہ جھوٹ کا یہی انجام ہو ا کرتا ہے ۔

جمہوریت کش گروہ جو طالع آزما فوجی ڈکٹیٹروں کے دست و بازو بنتے رہے ہیں اور وزارتوں مشاورتوں کا حقدار قرار پاتے رہے ہیں کیا اقتدار کی مسند پر بیٹھتے ہوئے انھیں اس وقت دفعہ چھ(6) کا مطالبہ یا د نہیں رہتا تھا۔ جنرل ضیا لحق ایک آمر تھا اور اس نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر نا جائز قبضہ کیا تھا لہذا سب سے پہلے تو ان سب افراد پر دفعہ چھ(6) کے تحت مقدمات قائم ہونے چائیں جھنوں نے جنرل ضیا الحق کا ساتھ دیا تھا اور اس کے مارشل لاءکے دست و بازو بنے تھے۔بھٹو دشمنی کے معنی کیا یہ ہوتے ہیں کہ شب خون مارنے والوں اور آئین قانون اور دستور سے بغاوت کرنے والوں کو حکمران تسلیم کر لیا جائے اور انکی پرستش شروع کر دی جائے۔ مفاد پرستوں کےلئے چونکہ مفادات کا حصول ہی ان کی پہلی اور آخری ترجیح ہو تی ہے لہذا وہ حصولِ مفادات کی خاطر کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔اس وقت انھیں آئین قانون اور حب الوطنی جیسا کوئی لفظ یاد نہیں رہتا ۔ان کی اقتدار کی خواہش ہر دوسری خواہش کو کچل کر رکھ دیتی ہے اور وہ ا قتدار کی خواہش کے اسیر ہو کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔حسین حقانی کے مجوزہ میمو پر اپوزیشن وہی راگ الاپ رہی ہے جو وہ اکثر ا لا پا کرتی ہے۔ ان کی سوچ اور فکر کا بنیادی نقطہ یہی ہے کہ ان کے علاوہ اس ملک کے سارے لوگ غدار اور ملک دشمن ہیں اور صرف وی محبِ وطن ہیں حا لا نکہ سچ تو یہ ہے کہ اس وطن کی سالمیت، بقا اور تحفظ کی خاطر جان کے نذرانے تو ان لوگوں نے دئے ہیں جنھیں یہ مٹھی بھر لوگ ملک دشمن قرار دینے پر تلے ہوئے ہیں اور ان کی رسوائی کرنے کا تہیہ کئے ہو ئے ہیں۔

اپوزیشن جماعتیں جن کا کام ہی سایوں کے پیچھے بھاگنا ہے حسین حقانی کے مجوزہ میمو پر بھی روائتی اندازِ سیاست کا اظہار کر رہی ہیں اور جو کچھ منہ میں آر ہا ہے کہے جا رہی ہیں۔ ان کے پاس شائد سوچنے کا وقت نہیں ہے کہ وہ یہ سوچ سکیں کے منصور اعجاز کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ کیا منصور اعجاز پاکستان کا دوست ہے یا دشمن؟اگر منصور اعجاز پاکستان کا دوست ثابت ہو جائے تو اس کی باتوں کو وزن دیا جانا ضروری ہے لیکن اگر وہ ہمیشہ سے صفِ دشمنان میں تھا تو پھر اس کی یہ ہرزہ سرائی پاکستان کو تقصان پہنچانے کےلئے ہے لہذا اسے نظر انداز کر دینا چائیے۔ جب مقصد سیا سی پوائنٹس سکور کرنا رہ جائے تو پھر ہوش کہاں ر ہتا ہے۔موجودہ وقت کا تقاضہ ہے کہ اربابِ اختیار ٹھنڈے دل و دماغ سے صورتِ حال کا جائزہ لیں کہ پاکستان کا مفاد کس بات میں ہے اور اسی کے مطابق کوئی معقول لائحہ عمل طے کریں۔ ہمارے ہاں تو سیاسی جماعتیں آﺅ دیکھتی ہیں نہ تاﺅ بس کسی بھی سنسنی خیز خبر پر اپنے مخالفین پر چڑھ دوڑتی ہیں۔ اسلام میں تو بڑا واضح حکم ہے کہ جھوٹے کی گواہی قابل قبول نہیں ہے لیکن ہماری مذہبی جماعتیں منصور اعجاز جیسے دروغ گو انسان پر وارے نیارے ہو رہی ہیں کہ اس نے اس متنازع میمو کی بات کر کے ایک بہت بڑا معرکہ سرانجام دیا ہے۔ یہ میمو چونکہ شکست خوردہ سیاسی جماعتوں کے مقاصد کے حصول میں ممدو معا ون بن سکتا ہے لہذ وہ منصور اعجاز پر داد و تحسین کے ڈھڈورے پیٹنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں اورآجکل وہ اسی فریضہ کی ادائیگی میں جٹے ہو ئے ہیں۔کاش وہ اتنی معمولی سی بات ہی سمجھ جاتے کہ دروغ گو شخص کی کوئی بات قابلِ قبول نہیں ہوتی کیونکہ وہ جھوٹا ہوتا ہے۔ جھوٹے کا منہ کالا ایک کہاوت ہی نہیں نلکہ ابدی سچ بھی ہے کیونکہ جھوٹ کا پول ایک دن تو کھل کے رہنا ہوتا ہے اور جھوٹے کو شرمندگی اور ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اس ا مجوزہ واقعہ میں بھی انشاا للہ جلد یا بدیر ہو کر رہے گا ۔

حسین حقانی امریکہ میں پاکستان کا سفیر تھا اسے آپ اتنا احترام تو دیں کہ اگر وہ اس متنازعہ میمو سے انکار کر رہا ہے تو آپ اس کی بات پر یقین کریں ، لیکن بجائے اس کے اسے کسی احترام اور اعزاز کا حقداد گردانا جاتا اس پر غداری کا الزام لگا کر اسے پوری دنیا میں رسوا کیا جا رہا ہے اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ اس الزام کی صداقت کےلئے کوئی ٹھوس شہادت بھی نہیں ہے۔ اس کے خلاف واحد ثبوت منصور اعجاز کی گواہی ہے اور وہ گواہی بھی اتنی کمزور ہے کہ انصاف کی دنیا میں وہ کو ئی وقت نہیں رکھتی۔ امریکی جنرل مائک مولن نے پہلے ہی اس میمو کو غیر اہم سمجھ کر ایک طرف رکھ دیا تھا اور اس کے مندرجات پر غو ر و عوض کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ حسین حقانی پر میمو لکھنے کا الزام منصور اعجاز نے لگا یا ہے لہذا یہ اسکی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے الزام کو دلائل، حقا ئق ،شہادتوں اور ثبوتوں سے ثابت کرے خالی بیان بازی اور الزامات سے تو سزائیں نہیں دی جا سکتیں۔ مسلم لیگ(ن) اور دو سری سیاسی جماعتوں کی کوشش یہ رہی ہے کہ حسین حقانی کو منصور اعجاز کو دو ٹیلیفوں کالز کرنے کی پاداش میں سولی پر لٹکا دیا جائے اوراسکے خود ساختہ اور غیر منطقی بیانات سے حسین حقانی کو غداروں کی صف میں کھڑا کر کے پاکستان کے آرٹیکل چھ (6) کا اس پر اطلاق کر کے اسے مثال بنا دیا جائے۔ مسلم لیگ (ن) سیاسی پو ا ئنٹس سکور کرنے کی کوشش کر رہی ہے وہ الزامات کو اس لئے ہوا دے رہی ہے کیونکہ وہ یہ سمجھتی ہے کہ حسین حقانی کو مجرم ثابت کرنے سے پی پی پی حکومت کی اخلاقی بنیادیں خود بخود کھوکھلی ہو جائیں گی ۔ صدرِ پاکستان آ صف علی زرداری سیاسی دباﺅ کے تحت مستعفی ہو جائیں گئے اور اقتدار پکے پھل کی طرح ان کی جولی میں گر پڑے گا ۔۔۔
اس سادگی پر کون نہ مر جائے غالب۔۔۔ قتل بھی کرتے ہیں مگر ہاتھ میں تلوار بھی نہیں۔

خواب دیکھنے اور احمقوں کی جنت میں رہنے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے لہذ جسے خواب دیکھنے کا شوق ہو وہ خواب د یکھتا رہے ۔ میرے یہ مہربان جس جال کو بننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اس میں خود ہی ایک دن پھنس کر رہ جائیں گئے۔ صدرِ پاکستان آ صف علی زرداری اتنے نادان نہیں ہیں کہ وہ سازشیوں کی ایسی مکروہ چالوں کو نہیں سمجھتے انھیں سب خبر ہے کہ کون کیا کر رہا ہے اور ان سب سے اس نے کیسے نمٹنا ہے۔ چار سال سے یہ سازشیں بھی جاری ہیں اور حکومت بھی جاری ہے اور انشا اللہ 2013 تک یہ سلسلہ یوں ہی پہلو بہ پہلو چلتا رہے گا نہ سا زشیں کم ہو ں گی اور نہ ہی صدرِ پاکستان آ صف علی زرداری ہتھیار پھینکیں گئے۔ یہ سیاسی جنگ اسی طرح جاری وساری رہے گی اس میں موضو عات ضرور بدلتے رہیں گے لیکن سیاست کے اندازو اطوار بہر حال نہیں بدلیں گئے۔سنسنی خیزی شائد ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہے جس سے فی الحال جان چھڑانا ممکن نہیں ہے۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 450354 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.