بجلی اور گیس مہنگی اور مہنگی ہوتی جارہی ہے

پاکستان میں بجلی و گیس کا بحران شدید سے شدید ہوتا جارہا ہے ۔ بجلی اور گیس مہنگی اور مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ گھروں کے چولھے ٹھنڈے،کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بند، سڑکوں پر سی این جی گاڑیاں خاموش، بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور عوام سوچ میں گم ہیں کہ وہ ایسی جمہوریت کا کیا کریں جو ان کے مسائل پر ان کا منہ چڑا رہی ہے۔کابینہ کے ایک اجلاس میں وزیر خزانہ نے بتایا تھا کہ گزشتہ تین سالوں میں موجودہ حکومت ملک میں توانائی کے منصوبوں پر ایک ٹریلین روپے خرچ کر چکی ہے۔ لیکن اس کے باوجود نتیجہ صفر ہے۔ جون جولائی میں گرمی کی شدت بڑھنے کے ساتھ ہی ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں بھی بے حد اضافہ ہو ا تھا اور بجلی کا شاٹ فال چھ ہزار میگا واٹ کی ریکارڈ سطح تک پہنچ گیا تھا جبکہ شہروں میں کئی کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ اب یکم نومبر سے بجلی کے نرخ میں دو فیصد کا اضافہ کردیا گیاہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیاگیا ہے۔ ابھی اور ستم یہ باقی ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے تحت بجلی کی مد میں دی جانیوالی سبسڈی ختم کرنے کیلئے بجلی کی قیمت ماہانہ دو فی صد بڑھانا ہوگی۔ گزشتہ دو سال کے دوران بجلی کی قیمت میں تقریبا60 فیصد تک اضافہ کیا گیا ہے مگر بجلی کے شعبے میں خسارہ کم نہیں ہورہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر کا کہنا ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور ڈالر کی نسبت روپے کی قدر میں کمی سمیت مختلف عوامل کی وجہ سے تقریباً گزشتہ دس برس کے اندر بجلی کے نرخوں میں سو فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ مالی سال سنہ دو ہزار دو اور چار میں بجلی کی اوسط فی یونٹ قیمت تین روپے پچانوے پیسے تھی جو اگست دو ہزار گیارہ میں سات روپے چھیاسٹھ پیسے ہوچکی ہے۔قومی اسمبلی میں تحریری طور پر پیش کردہ حکومت کی معلومات کے مطابق جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی اس وقت بجلی کی اوسط قیمت پانچ روپے چوالیس پیسے فی یونٹ تھی جو اب دو روپے بائیس پیسے فی یونٹ بڑھی ہے۔لیکن بد دیانتی یہ ہے کہ بجلی کی قیمت میں فی یونٹ تقریبا تین روپے جو حالیہ اضافہ کیا گیا ہے وہ شامل نہیںکیا گیا۔ سبسیڈی ختم ہونے کے بعد بجلی کے فی یونٹ کی قیمت گیارہ روپے سے زیادہ ہے۔ مجموعی طور پر بجلی کے فی یونٹ نرخ میں تریسٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مختلف کمپنیوں پر تین سو ارب کے قرضے ہیں۔ جس کی ادائیگی کے لئے حکومت مختلف اوقات میں چار سو ارب روپے کے ٹرم فنانس سرٹیفیکیٹ جاری کرتی ہے۔بجلی کمپنیاں ، کمپنی کی حکونمت کی طرح سرمایہ سمیٹ رہی ہیں۔ بجلی اپنی صلاھیت سے پچاس فیصد کم پیدا کی جارہی ہے۔ مہنگا فرنس آئل بچایا جارہا ہے اور گیس سے بجلی پیدا کی جارہی ہے جس سے گیس بھی ناپید ہورہی ہے۔ بجلی کے لائین لاسسز تین سال میں اکانوے ارب ہوگئے ہیں۔ بجلی کے بلوں کی عدم وصولیابی سے قومی خزانے کو چونسٹھ ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ بجلی کمپنیاں من مانا منافع کما کر ملک سے باہر بھیج رہی ہیںََ ۔ ان پر حکومت کا کوئی قابو نہیں ہے۔ دوسری جانب گیس کا بھی برا حال ہے۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ گیس پیدا کرنے والے علاقوں میں بھی ہے۔ اس سال گیس کی قیمت میں چودہ فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ گیس کی لوڈ شیڈنگ سے آئندہ دنوں میں موسم میں فرٹیلائیزر فیکٹریاں پینتالیس دن بند رہیں گی۔ جس سے ملکی زراعت متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ سرکار کی جانب سے نوید سنائی جاتی ہے کہ موجودہ حکومت تاحال تین ہزار تین سو ستتر میگا واٹ اضافی بجلی سسٹم میں شامل کرچکی ہے جبکہ آئندہ دو سے تین سال میں چوبیس سو میگا واٹ مزید بجلی سسٹم میں آ جائے گی۔ تاحال بجلی سسٹم میں لائی گئی ہے اس میں چار کرائے کے بجلی گھروں کی تین سو نناوے میگاواٹ بجلی بھی شامل ہے جبکہ باقی بجلی جوہری، ہائیڈل، گیس اور تیل پر چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل کی گئی ہے۔ قومی اسمبلی میں توانائی کے بحران پر بحث کے دوران اپوزیشن کے بعض اراکین نے کہا تھا کہ نندی پور اور چِیچوں کی ملیاں میں قائم ہونے والے بجلی گھروں کی مشینری ایک سال سے کراچی کی بندر گاہ پر پڑی رہی اور مختلف وزارتوں میں خط و کتابت کی وجہ سے وہ قابل استعمال نہ ہوسکی۔ جبکہ بعض نے الزام لگایا کہ اس التواٰ کا سبب رشوت تھی۔ مارچ سنہ دو ہزار آٹھ (جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا) اس وقت فرنس آئل کی قیمت پینتیس ہزار ایک سو چھپن روپے فی میٹرک ٹن تھی جو ستبر سن دو ہزار گیارہ میں چونسٹھ ہزار سات سو بیالیس روپے ہوچکی ہے۔گیس کی قیمت دو سو باون روپے ایم ایم بی ٹی یو سے بڑھ کر تین سو چورانوے روپے جبکہ فی ڈالر کی قیمت باسٹھ روپے پچاسی پیسے سے بڑھ کر ساڑھے اٹھاسی روپے ہوچکی ہے۔ شائد یہی وجہ ہے کہ بجلی گھروں نے فرنس آئل کے بجائے گیس سے بجلی پیدا کرنا شروع کی ہے جس سے ملک میں گیس کے بحران میں بھی شدت آ گئی ہے۔ وفاقی وزیر کے بقول اگر گزشتہ پانچ برس میں دیکھا جائے تو فرنس آئل کی قیمت میں دو سو ستائیس فیصد جبکہ گیس کی قیمت میں چھیاسٹھ فیصد اضافہ ہوا اور اس کی وجہ سے بجلی کی قیمت بڑھائی گئی۔

دو ماہ قبل جب بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خلاف پورے ملک میں ہنگاموں کی لہر اٹھی تو حکومت حرکت میں آئی ۔ لیکن پھر سو گئی۔

بجلی فراہم کرنے والے ادارے پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی یعنی پیپکو کے مطابق ملک میں بجلی کی پیداوار کم ہو کر دس ہزار میگا واٹ رہ گئی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں بجلی کی طلب سولہ ہزار میگا واٹ تک جا پہنچی ہے۔ پیپکو حکام کا کہنا ہے کہ ملک کو اس وقت چھ ہزار میگا واٹ کے قریب بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔بجلی کی پیداوار میں کمی سے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھ گیا ہے اور شہروں میں دس سے بارہ گھنٹوں جبکہ دیہی علاقوں میں سولہ سولہ گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ کی جا رہی ہے۔لوڈشیڈنگ سے جہاں صنعتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے وہیں عام تاجر بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں اور ان کا روزگار بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔

موسم سرما میں قدرتی گیس کی کھپت میں اضافے کی وجہ سے پنجاب کے صنعتی شہروں میں لوڈ مینجمنٹ کے تحت گیس کی فراہمی معطل ہونے سےتین سے چار روز کے لیے ملیں اور کارخانے بند رہتے ہیں اور اسی وجہ سے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں بے روزگار ہیں۔ جبکہ صوبے کے سی این جی سٹیشن بھی ہفتے میں دو روز کے لئے بند ہوتے تھے۔ اب اس کا دورانیہ تین سے چار دن کا ہوگیا ہے۔
گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے مرکز اور پنجاب کے مانین تعلقات میں کشیدگی آگئی ہے اور وزیر اعلٰی پنجاب شہباز شریف صوبے میں ہونے والی قدرتی گیس کی عدم فراہمی پر کئی بار تشویش کا اظہار کرچکے ہیں اور آخری ملاقات میںشہباز شریف نے وزیراعظم سے یہ شکایت بھی کہ کہ وفاقی حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود پنجاب کو گیس کی فراہمی کے اعلان پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ قدرتی گیس کی کھپت زیادہ ہونے کی وجہ سے کارخانوں کو گیس کی فراہمی تاحکم ثانی معطل رہنے پر تاجر اور مزدور مشتعل ہیں اور صنعت کاروں آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دے رہے ہیں۔ صرف فیصل آباد میں لوڈ مینجمنٹ کے تحت گیس کی فراہمی معطل ہونے سے پانچ سو کے قریب ملیں اور کارخانے بند پڑے ہیں۔جس سے سب سے زیادہ متاثر وہ مزدور ہوئے جو کارخانوں میں یومیہ اجرت پر کام کرتے ہیں۔ گزشتہ چھ ماہ کے دوران پچاس ہزار مزدور بے روز گار ہوگئے ہیںدسمبر کا میہنہ شروع ہوتے ہی تین دنوں کی بندش کی جا رہی ہے۔جس کے بعد جنوری اور فروری کے بارے میں لوگ سوال کر رہے ہیں۔ کہ آئیندہ کیا ہوگا جو صورت حال پیدا ہوئی اس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بارے میں غور کیا جا رہاہے۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کے صنعتی شہروں میں پانچ دنوں سے قدرتی گیس کی فراہمی معطل ہونے کی وجہ سے ٹیکسائل ملز بحران سے دوچار ہیں اور لوڈ مینجمنٹ کے تحت گیس کی فراہمی معطل ہونے سے ملیں اور کارخانے بند پڑے ہیں۔

اس سلسلے میں آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن یعنی اپٹما کا ایک ہنگامی اجلاس میں پنجاب بھر سے ٹیکسٹائل ملز مالکان نے شرکت کی ہے اور احتجاجی تحریک چلانے کی دھمکی دی ہے۔ ٹیکسٹائل ملز مالکان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں صنعتوں کو گیس کی مکمل سپلائی بند کرنے کا فیصلہ وفاقی کابینہ کے اس اجلاس کے بعد کیا گیا ہے جس میں واضح طور پر صرف دوروز کی لوڈ شیڈنگ کا اعلان کیا کیاگیا تھا۔
لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔

دوسری جانب کرائے کے بجلی گھروں سے قوم کو بجلی تو نہٰن ملی لیکن لوٹ مار کی ایک شرمناک کہانی سامنے آئی ہے۔ اس کا مقدمہ آج کل شپریم کورٹ میں چل رہا ہے۔ چار ارب روپے سے زیادہ کی رقم عدالت کے حکم پر واپس مل گئی ہے۔ کئی ماہ پہلے سید نوید قمر نے ایک اور سوال کے جواب میں قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ ترکی سے جہاز پر منگوائے گئے بجلی گھر سے ماہانہ اکیاون میگا واٹ بجلی مل رہی ہے اور حکومت اٹھہتر کروڑ روپے انہیں ادا کر رہی ہے۔واضح رہے کہ اس بجلی گھر کو معاہدے کے مطابق دو سو اکتیس میگا واٹ بجلی پیدا کرنی ہے اور انہیں تیل کی فراہمی حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن حکومت مختلف وجوہات کی بناء پر انہیں تیل کی فراہمی نہیں کر پا رہی ہے اور محض اکیاون میگاواٹ کی خاطر اٹھتر کروڑ ماہانہ (نو ملین ڈالر) ‘کیپیسٹی چارجز’ کی مد میں ادا کر رہی ہے۔وزیر کے مطابق حکومت نیلم جہلم بجلی گھر بنانے کے لیے صارفین سے دس پیسے فی کلو واٹ فی گھنٹہ سرچارج لیتی ہے اور اب تک ساڑھے سترہ ارب روپے سے زیادہ رقم اکٹھی ہوئی ہے۔ لیکن اس جھوٹ کا پول سپریم کورٹ میں اسوقت کھل گیا ۔ سماعت کے دوران حقائق سامنے آئے۔ کرائے کے بجلی گھروں کے معاہدوں میں مبینہ بدعنوانی سے متعلق از خودنوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دیے ہیں کہ ان بجلی گھروں سے جتنی مہنگی حاصل کی جارہی ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔عدالت کا کہنا تھا کہ ایک طرف حکومت عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک سے قرضوں کے حصول کے لیے معاہدے کر رہی ہے اور دوسری طرف ان بجلی گھروں کو پیٹرول فراہم کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔دو رکنی بینچ نے از خودنوٹس کی سماعت کی تو رشما پاور کمپنی کے عبدالحفیظ پیرزادہ نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ موجودہ حکومت نے بغیر سوچے سمجھے ان منصوبوں کی منظوری دی۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے انیس کرائے کے بجلی گھروں کی منظوری دی تھی جسے بعد میں پانچ کردیا گیا۔

عبدالحفیظ پیرزادہ کا کہنا تھا کہ ملک میں بدعنوانی کا راج ہے اور کرپشن کی یہ حالت ہے کہ امریکی وزیر خارجہ کو دورہ پاکستان کے دوران یہ کہنا پڑا کہ حکومت بدعنوانی کو روکے۔ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کا یہ حال ہے کہ ایک وفاقی وزیر ان منصوبوں میں دوسرے سابق وفاقی وزیر پر کروڑوں روپے رشوت لینے کا الزام عائد کر رہا ہے۔چیف جسٹس نے جب وزارت پانی وبجلی کے وکیل خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ وہ ان کرائے کے بجلی گھروں سے اتنی مہنگی بجلی خرید رہے ہیں تو کوئی طریقہ کار وضح کیا ہے کہ عوام تک کس طرح اور کتنے داموں پر بجلی فراہم کی جائے گی۔ جس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ کرائے کے ان بجلی گھروں کو تیل فراہم کیوں نہیں کر رہے تو وزارت پانی وبجلی کے وزیر کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔چیف جسٹس کا کہناتھا کہ اگر عاقبت اندیشی سے کام لیا جاتا تو ملکی قرضے سڑسٹھ ارب ڈالر تک نہ پہنچتے۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ کرائے کے بجلی گھروں کے مالکان کو اربوں روپے پیشگی ادا کردیے گیے لیکن کسی نے یہ پوچھنے کی کوشش نہیں کی کہ ان بجلی گھروں سے کتنی میگاواٹ بجلی سسٹم میں آئے گی۔ کسی نے ان نجی پاور کمپنیوں سے یہ تک پوچھنے کی جسارت نہیں کی کہ اس منصوبے میں کونسی سی مشینری استعمال ہوگی اور نہ ہی کمپنیوں سے اس ضمن میں کوئی گارنٹی لی گئی۔ریشما پاور کمپنی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ ان کی کمپنی نے چھبیس فیصد سود پر ایڈوانس میں لیا تھا۔ دو سو ایک میگاواٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نجی پاور کمپنی کو چار ارب اور ساٹھ کروڑ سے زائد کی رقم ادا کی گئی جبکہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ریشما پاور کمپنی سے بجلی کی پیدوار نہ ہونے کے برابر تھی۔ عدالت کے حکم پر اس کمپنی سے چار ارب سے زائد کی رقم چھبیس فیصد مارک اپ سمیت واپس لی گئی۔ یہی حال ایک اور کمپنی گلف گوجرانوالہ پاور کمپنی کا تھا۔ ایک اور ٹیکنو پاور کمپنی نے بھی سات فیصد مارک اپ پر ایڈوانس میں لی گئی رقم واپس کی ۔ ان مختلف نجی پاور کمپنیوں کو حکومت نے ایڈونس کی مد میں پچیس ارب روپے دیے تھے تاہم سپریم کورٹ کی مداخلت پر ابھی تک صرف چار ارب روپے سے زائد کی رقم قومی خزانے میں واپس آسکی ہے۔ عدالتوں کے حکم کے بعد حکومت کو ہوش آیا ہے اور اب وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کو ایندھن کی فوری فراہمی یقینی بنائی جائے گی تاکہ بجلی کی پیداوار میں جلد از جلد اضافہ کیا جا سکے۔پاکستان میں بجلی کی کمی خاصی سنگین صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں بجلی کی پیدوار اور استعمال میں فرق ساڑھے چھ ہزار میگا واٹ تک پہنچ گیا ہے۔ یعنی ملک کا پہیہ چلانے کے لیے جتنی بجلی درکار ہے اس کا ایک تہائی پیدا کیا جا رہا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ اگر ہم گیس خریدنے میں آزاد ہوں تو ہم اپنی صلاحیت کے مطابق آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی فوری پیدا کرسکتے ہیں۔ تیل سے بجلی بنانے والی نجی کمپنیوں یا آئی پی پیز کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان کی ادائیگیاں روک رکھی ہیں جس کی وجہ سے وہ تیل نہیں خرید پا رہے اور یوں بجلی اپنی صلاحیت کے مطابق پیدا نہیں کر پاتے۔ یوں یہ سارا بحران مصنوعی اور حکومت کا پیدا کردہ نظر آتا ہے۔ دوسر ی جانب پانی اور بجلی کے ادارے ’واپڈا‘ کے بجٹ میں نوے ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کی اطلاعات ہیں۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے ’واٹر اینڈ پاور ڈیویلپمینٹ اتھارٹی‘ یا ’واپڈا‘ کے مالی سال سنہ دو ہزار نو اور دس کے بجٹ میں نوے ارب روپے سے زیادہ مالی بے ضابطگیوں اور بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے۔آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹ گزشتہ دنوں حکومت نے قومی اسمبلی میں پیش کی ہے لیکن اس پر بحث یا کارروائی کے لئے پارلیمنٹ کے پاس وقت نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے ٹھیکے میں اصل رقم سے پانچ ارب سترہ کروڑ روپے سے زیادہ رقم ادا کی گئی اور اس کے دستاویزات بھی آڈٹ حکام کو پیش نہیں کیے گئے۔ اس پروجیکٹ میں پونے انتیس کروڑ روپوں سے زیادہ رقم لگژری گاڑیوں کی خریداری پر خرچ کی گئی ہے اور ان گاڑیوں کی خریداری پر مارکیٹ کی قیمت سے آٹھ کروڑ سترہ لاکھ روپے زیادہ ادا کیے گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ واپڈا کی مالی بے ضابطگیوں میں ساٹھ کروڑ ڈالر سے زیادہ زر مبادلہ کی رقم بھی شامل ہے جو قواعد کی خلاف ورزی کرتے خرچ کی گئی ہے جبکہ قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ساڑھے بتیس ارب روپے کی مزید رقم بھی خرچ کی گئی ہے۔

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ واپڈا میں فراڈ اور چوری مالی گھپلوں کے مد میں تقریبا ساڑھے تینتالیس کروڑ روپے ضائع کیے گئے ہیں۔ جبکہ واپڈا حکام کی غفلت کی وجہ سے تقریبا بیالیس کروڑ کا نقصان ہوا۔رپورٹ کے مطابق مختلف کمپنیوں کو مطلوبہ رقم سے زیادہ ادائیگی کے مد میں تقریبا ساڑھے نو کروڑ کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ جبکہ پانچ ارب سترہ کروڑ روپے کے اخراجات کا واپڈا نے آڈٹ حکام کو ریکارڈ ہی فراہم نہیں کیا۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پانی ذخیرہ کرنے کی تین سہولیات جس میں تربیلا، منگلا اور چشمہ شامل ہے اس میں سنہ دو ہزار دس تک ریت بھرجانے کی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش چھ ملین ایکڑ فٹ کم ہوگئی ہے جوکہ تینتیس فیصد بنتی ہے۔ جبکہ سنہ دو ہزار پندرہ تک یہ گنجائش مزید کم ہوکر چھتیس فیصد اور سنہ دو ہزار بیس میں چالیس فیصد ہوسکتی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے نیلم جہلم منصوبے کے ٹھیکیدار کو قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انشورنس کے مد میں پونے تئیس کروڑ روپے سے زیادہ رقم ادا کی گئی ہے۔ ستم یہ ہے کہ اس منصوبے کے لیے رقم پاکستان میں تمام صارفین کے بلوں پر سرچارج عائد کرکے لی جاتی ہے اور اس رقم میں گھپلوں کے ذمہ داران کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں ہوئی۔پرویز مشرف کی سابقہ حکومت اور موجودہ حکومت نے کرائے کے بجلی گھروں کے پندرہ منصوبے منظور کیے جس سے ستائیس سو میگا واٹ بجلی سسٹم میں آنی تھی لیکن سنہ دو ہزار دس تک صرف باسٹھ میگا واٹ پیپکو حاصل کرسکا۔ پندرہ معاہدوں میں سے نو موثر ہوسکے اور حکومت نے پیشگی ادائیگی کرتے ہوئے سولہ ارب ساٹھ کروڑ روپے ادا کیے۔ قوم کو کوئی بتانے کو تیار نہیں کہ سولہ ارب ساٹھ کروڑ روپے میں کس کس کا حصہ رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے ’نو ڈیرو II رینٹل پاور پروجیکٹ‘ کو زیادہ ریٹ دینے کی وجہ سے قومی خزانے کو ڈیڑھ ارب روپے کا نقصان ہوا۔ جبکہ نگران حکومت کے دور میں فیصل آباد میں کرائے کا بجلی گھر لگانے کے ایک منصوبے میں ٹیکنو انجنیئرنگ سروس کو فائدہ پہنچاتے ہوئے قومی خزانے کو اسی کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ظاہر لگتا ہے کہ یہ کرپشن کے کیسز ہیں۔ لیکن جب ان کیسسز پر کوئی عدالتی کاروائی ہوتی ہے تو جمہوریت کے بچانے کی دھائی دی جاتی ہے۔ عوام حیران ہیں کہ وہ کس سے فریاد کریں۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387633 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More