کیا12 دسمبرکونئی دہلی منائے گی اپنی ویں100 برسی ؟

ہندوستان کا دارالحکومت نئی دہلی رواں ماہ سو برس کا ہو جائے گا مگر ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ آیا اس موقع پر کوئی تقریبات منائی جائیں گی یا پھر برطانیہ کے نوآبادیاتی دور کی علامت سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے گا۔12 دسمبر 1911کو تاج برطانیہ کے بادشاہ جارج پنجم نے پرانے دہلی شہر کے شمال میں ایک قطعہ زمین پر تمام ہندوستانی شہزادوں اور حکمرانوں کا ایک شاندار دربار منعقد کر کے اعلان کیا تھا کہ ملک کا دارالحکومت کلکتہ سے وہاں منتقل کیا جائے گا۔یہ وہی انگریز تھے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے بینر تلے ملک میں داخل ہوئے تھے۔برطانوی شرق الہند کمپنی جسے انگریزی میں British East India Companyکہا جاتا ہے، جزائر شرق الہند میں کاروباری مواقع کی تلاش کیلئے تشکیل دیا گیا ایک تجارتی ادارہ تھا تاہم بعد ازاں اس نے برصغیر میں کاروبار پر نظریں مرکوز کر لیں اور یہاں برطانیہ کے قبضے کی راہ ہموار کی۔ 1857کی جنگ آزادی تک ہندوستان میں کمپنی کی حکومت تھی۔ اس کے بعد ہندوستان براہ راست تاج برطانیہ کے زیر نگیں آ گیا۔

جارج پنجم کا یہ فیصلہ اس بنیاد پر تھا کہ کلکتہ میں امن و امان کی صورت حال بگڑتی جا رہی تھی اور اس کے علاوہ دفاعی نقطہ نظر سے دہلی برصغیر کے قلب میں واقع تھا۔اب ایک سو برس گزرنے کے بعد دہلی ہندوسان کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک ہے اور دریائے جمنا کے آر پار پھیلے ہوئے اس کے نواحی علاقوں میں 1 کروڑ 80 لاکھ تک نفوس بستے ہیں۔دہلی کی وزیر اعلٰی شیلا دکشت نے اس دن کو منانے کی تقریبات سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھاکہ ابھی اس بارے میں ابہام پایا جاتا ہے کہ کس چیز کی اور کیسے تقریبات منائی جائیں۔ وزارت ثقافت نے ایک منصوبہ تو وضع کیا ہے لیکن ابھی ان کی واضح سمت متعین نہیں ہے۔

جارج پنجم نے جس مقام پر1911میں دربار منعقد کیا تھا بعد میں اس کی بجائے پرانے شہر کے جنوبی علاقے کو منتخب کیا گیا اور دربار والی جگہ کو 1947میں آزادی کے بعد برطانوی سامراج کی نشانی مجسموں کا قبرستان بنا دیا گیا۔ ’کورونیشن پارک‘ کہلانے والی اس جگہ کو کئی دہائیوں تک نظر انداز اور فراموش کیا گیا مگر اب آہستہ آہستہ اس کی تزئین و آرائش کا کام شروع ہو رہا ہے تاہم یہ 12 دسمبر کی تقریبات کیلئے تیار نہیں ہو گا۔بالکل اسی طرح جیسے دولت مشترکہ کھیلوں کے موقع دہلی کو افراتفری کے عالم میں تیار کیا گیا تھا۔ اس تیاری میں اس حقیقت کو بھی فراموش کردیا گیا کہ یہ کھیل برطانوی غلامی کی یادگار ہیں۔ایشلی کوپر وہ اولین شخصیت تھے جنہوں نے ’خیرسگالی‘ کو فروغ دینے اور پورے برطانوی راج کے اندر اچھے تعلقات برقرار رکھنے کے لئے ایک ’کل برطانوی کھیل‘ پروگرام منعقد کرنے کے خیال کو پیش کیا۔ سال 1928 میں کینیڈا کے ایک اہم ایتھلیٹ بابی ربنسن کو دولت مشترکہ کھیلوں کے انعقاد کا بوجھ سونپا گیا۔ یہ کھیل 1930 میںہملٹن شہر، اونٹاریو، کینیڈا میں منعقد کئے گئے اور اس میں 11 ممالک کے 400 کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔اس وقت سے ہر چار سال میں دولت مشترکہ کھیلوں کا انعقاد کیا گیا لیکن دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ کی حالت ایسی خراب ہوئی کہ ان کا انعقاد نہیں کیا گیا تھا۔ ان کھیلوں کے متعدد نام ہیں جیسے برطانوی ایمپائر کھیل،دولت مشترکہ کھیل اور برطانوی دولت مشترکہ کھیل۔ 1978 سے انہیں صرف دولت مشترکہ کھیل یا دولت کھیل کہاگیا۔

دہلی میں انڈین نیشنل ٹرسٹ برائے فنون و ثقافتی ورثہ کے سربراہ اے جی کرشنا مینن کے بقول ایک سو برس پہلے کے واقعات پر خوشی منانا ایک طرح سے تاریخ کو نئے سرے سے لکھنے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہاکہ’ نئی دہلی کا ڈیزائن انگریزوں نے تیار کیا تھا مگر اس کی تعمیر ہندوستانی مزدوروں، معماروں اور صلاحیت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی تھی۔‘دہلی میں آنے والے اکثر سیاحوں اور مقامی افراد کے خیال میں نئی دہلی میں نوآبادیاتی دور کا طرز تعمیر ہندوسان کے قابل دید مقامات میں سے ایک ہے جس میں 340 کمروں پر مشتمل صدارتی محل بھی شامل ہے، جہاں کبھی وائسرائے ہند پورے ہندوستان پر حکومت کرتے تھے۔برطانوی راج کے امور پر گہری نگاہ رکھنے والے ایک ہندوسانی تاریخ دان مہیش رنگاراجن کا کہنا تھا، ”یہ دہلی کو1911میں ایک بار پھر ہندوسانی دارالحکومت بنانے کی سالگرہ منانے کا موقع ہے۔‘

دراصل نئی دہلی کو اپنا دارالسطنت بنانے والی ایسٹ انڈیاکمپنی کو 1600میں ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں ہندوستان میں تجارت کا پروانہ ملا۔ 1613میں اس نے سورٹھ کے مقام پر پہلی کوٹھی قائم کی اس زمانے میں اس کی تجارت زیادہ تر جاوا اور سماٹرا وغیرہ سے تھی۔ جہاں سے گرم مصالحہ برآمد کرکے یوروپ میں بھاری داموں بیچا جاتا تھا۔ 1623میں جب ولندیزیوں نے انگریزوں کو جزائر شرق الہند سے نکال باہر کیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تمام تر توجہ ہندوستان پر مرکوز کر دی۔ 1662کے دوران بمبئی بھی اس کے حلقہ اثر میں آگیا۔ اور کچھ عرصہ بعد شہر ایک اہم تجارتی بندرگاہ بن گیا۔ 1689میں کمپنی نے علاقائی تسخیر بھی شروع کردی جس کے باعث بالآخر ہندوستان میں برطانوی طاقت کو سربلندی حاصل ہوئی۔ 1858میں یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لئے تاہم 1874تک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے۔دہلی کے حکام 12 دسمبر کو اس حوالے سے چند تقریبات منانے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر شہر کے بیشتر باسی اپنے شہر کی سو سالہ تاریخ کے بارے میں لاعلم رہیں گے۔ نئی دہلی میں میٹرو ٹرینوں، شاہراہوں اور سیٹیلائٹ ٹاؤنز کے تیزی سے فروغ پانے کے بعد بہت سے شہری برطانیہ کی نوآبادیاتی تاریخ میں دلچسپی لینے کی بجائے ایک نئے عالمگیر نظام میں ہندوسان کو ایک مضبوط ملک کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

دوسری جانب یہ حقیقت بھی کم دلچسپ نہیں ہے کہ2010میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو ہندوستانی نژاد برطانوی کاروباری شخصیت سنجیو مہتہ ہے خرید لیا۔ دنیا کی پہلی ملٹی نیشنل ( برطانوی ) ایسٹ انڈیا کمپنی کا دوبارہ آغازہوا۔ کرہ ارض کے ایک بڑے حصہ پر حکمرانی کرنے والی کمپنی کو ایک ہندوسانی تاجر ممبئی نژاد سنجیومہتہ نے ڈیڑھ کروڑ ڈالرمیں خرید ا۔ اس کمپنی نے اپنے عروج کے زمانہ میں برطانوی افرادی قوت کے ایک تہائی حصہ کو ہندوسان میں ملازم رکھا تھا۔ عالمی تجارت کے نصف حصہ پر گویا اس کمپنی کا قبضہ تھا۔ اب سنجیومہتہ اس کمپنی کے واحد مالک ہیں اور اس کی دولت سے مالا مال نیز بے رحمانہ ماضی میں غوطہ زن ہیں تاکہ مستقبل میں اس کمپنی کو ایک نئی جہت دے سکیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے پہلے اسٹور کا آئندہ مارچ میں لندن کے قریبی علاقہ مے فیر میں ہوا۔ سنجیو مہتہ نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ جب میں نے اس کمپنی کو خریدا تو میں نے اس کارروائی کو خوش بختی پر مبنی پایا۔ یقیناً یہ ایک جذباتی لمحہ ہے اور مجھے اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ اب ہم اس کمپنی کے مالک ہیں جو کبھی ہماری مالک تھی۔ ان جذبات کے اظہار کیلئے مجھے الفاظ نہیں مل پا رہے ہیں۔ یہاں یہ تذکرہ بے جانہ ہو گا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا رسمی آغاز 1600 میں ہوا تھا جب برطانیہ کی ملکہ الزبتھ اول نے تاجروں کے اس گروپ کو ’ دی کمپنی اینڈ مرچنٹس آف لندن ٹریڈنگ ‘ کے نام کے تحت ایک حکم جاری کیا تھا۔ 1757 تک یہ کمپنی برطانوی سامراج کا طاقتور بازو بن چکی تھی۔ اس کی اپنی فوج تھی‘ بحری بیڑہ اور کرنسی بھی تھی۔ہندوسان کے کئی اہم تجارتی عہدوں پر اس کمپنی کا عملاً قبضہ تھا۔ اس کمپنی کو مختلف ناموں جیسے کمپنی بہادر اور چاند کمپنی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ حکومت برطانیہ نے اس کمپنی کو قومیا لیا تھا اور 1857 کی جنگ کیلئے ہندوستانیوں کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
S A Sagar
About the Author: S A Sagar Read More Articles by S A Sagar: 147 Articles with 122912 views Reading and Writing;
Relie on facts and researches deep in to what I am writing about.
Columnist, Free Launce Journalist
http://sagarurdutahzeeb.bl
.. View More