عمران خان عجب قسمت لے کے پیدا
ہوا ہے۔میں اس کے بچپن سے تو واقف نہیں کہ لیکن اندازہ لگا سکتا ہوں کہ اس
کا بچپن بھی ایسا ہی ہوا ہو گا جیسی اس کی نوجوانی تھی۔وہ اپنے سے دور کے
لوگوں کی جان تھا لیکن اس کے آس پاس کے لوگ ہمہ وقت اس سے خفا،ڈرے ڈرے اور
اس کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے۔وہ کرکٹ کا اچھا کھلاڑی تھا۔کرکٹ کے
کھلاڑی اس وقت بھی سٹار ہوا کرتے تھے۔اس زمانے میں ایک لطیفہ مشہور تھا کہ
لوگوں نے اس ڈر سے اپنے گھروں سے ٹی وی اٹھوا دئیے ہیں کہ کہیں عمران ٹی وی
سکرین سے باہر نہ نکل آئے۔وہ موڈی بھی تھا۔کہتے ہیں اس کی گردن میں سریا
تھا۔وہ لئے دئیے بھی رہتا تھا۔وہ کھلاڑی کی حیثیت سے کھیلتا رہا۔پھر اسے
کپتان بنا دیا گیا اور اس کی قیادت میں پاکستان نے ورلڈ کپ جیت لیا۔فائنل
میں جب وہ ٹک ٹک کر رہا تھا تو اللہ معاف کرے اور عمران بھی لوگوں نے تو جو
کہا سو کہا میں نے خود بڑی گالیاں دیں۔مجھے یقین تھا کہ اس کی ٹک ٹک میچ
ہروا دے گی۔وہ لگا رہا اور پھر وہ ہو گیا جس کے لئے پورا پاکستان دعا گو
تھا۔پاکستان ورلڈ کپ جیت گیا۔گو جیت کے بہت سے باپ ہوتے ہیں لیکن یہاں بہت
سارے باپوں کے ہوتے ہوئے بھی عمران اور ورلڈ کپ لوگوں کو یاد رہے اور باقی
تاریخ کی کتابوں میں گم ہو گئے۔
عمران نے ورلڈ کپ پکڑ کے ورلڈ کپ سے بھی مشکل ہدف کی Batonہاتھ میں پکڑ
لی۔اس کی ماں کی رحلت کینسر کے باعث ہوئی تھی۔وہ ماں کو تو نہ بچا سکا لیکن
اس نے عہد کیا کہ وہ پاکستان میں اب کینسر کو کھل کھیلنے نہیں دے گا۔لوگوں
نے سنا تو کہا انوکھا لاڈلا کھیلنے کو چاندمانگتا ہے۔اس نے جس سے بھی مشورہ
کیا اس نے یہی کہا بھائی ترقی پذیر ملکوں میں یہ ہسپتال بڑی مشکل سے بن
پاتے ہیں۔تم تیسری دنیا کے ایک ملک اور ملک بھی وہ جو کرپشن بھتہ خوری اور
چور بازاری میں اپنا ثانی نہیں رکھتاوہاں اس طرح کا سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال
بنانا چاہتے ہو۔بھول جاﺅ یہ ناممکن ہے۔ہو ہی نہیں سکتا۔ڈاکٹروں نے کہا ممکن
نہیں۔غرضیکہ کوئی ایسا نہیں ملا جو حوصلہ دیتا۔صرف پاکستانی عوام تھے جنہوں
نے اس پہ بھروسہ کیا۔اس نے اپنی خون پسینے کی کمائی جو اس نے بیرون ملک سے
کمائی تھی وہ بھی اپنے اس مشن میں لگا دی۔اس میں کچھ حصہ ہمارے اس وقت کے
حکمرانوں نے بھی ڈالا۔جس کے آج کل وہ طعنے دیتے نہیں تھکتے۔
ٹک کے نہ بیٹھنے والی اس روح نے دیکھا کہ جسمانی کینسر کا ہسپتال تو اس نے
بنا لیا اور وہاں لوگوں کا علاج بھی ہو رہا ہے۔میرٹ پہ ہو رہا ہے۔امیروں کے
پیسے سے غریب بھی مستفید ہو رہے ہیں تو اس نے ملک سے کرپشن ،اقرباءپروری
اور چور بازاری کا کینسر ختم کرنے کی ٹھانی۔اور یوں وہ سیاست میں
آگیا۔سیاست میں اس کا مقابلہ ان لوگوں سے تھا جو ان بیماریوں کی پرداخت
کرنے والے تھے۔انہوں نے مشہور کر دیا کہ نالائق ہے نکما ہے اکھڑ اور
ناتجربہ کار ہے ۔کرکٹ کھیلنا اور بات اور ملک لوٹنا میرا مطلب ہے چلانا اور
بات۔وہ کرکٹ کی طرح یہاں بھی ٹک ٹک لگا رہا۔سکور بورڈ پہ اس کے رنز بڑھ رہے
تھے کہ اچانک بساط ہی لپیٹ دی گئی۔اس دفعہ میچ کوئی اور کھلا رہا تھا۔میچ
کرانے والوں نے میچ شروع کرنے سے پہلے میچ کی شرائط وہی رکھیں جو سیاست کے
میدان میں آنے سے پہلے عمران کے ذہن میں تھے۔یہیں عمران نے پہلی ٹھوکر
کھائی اور اس میچ میں حصہ لینے کی حامی بھر لی جسے نہ تو عوام تسلیم کرتی
تھی اور نہ ہی بین الاقوامی ادارے۔جونہی اسے سمجھ آئی کہ یہ میچ تو کھیل کے
بنیادی اصولوں ہی کے خلاف ہے تو اس نے قوم سے سر عام معافی مانگی اور اس
میچ سے ہی اپنے آپ کو علیحدہ کر لیا۔
اس قدم نے اسے نقصان تو پہنچایا تھا لیکن اسی نے اسے پہلے سے زیادہ محتاط
کر دیا تھا۔اس نے وہ کہنا شروع کیا جو پاکستانی عوام کے دل میں تھا۔وہ
امریکہ اور امریکہ کے حواریوں کے خلاف تھا۔وہ طالبانی نہ تھا لیکن طالبان
کو مارنے کے حق میں بھی نہ تھا۔وہ جو اس وقت کہہ رہا تھا۔آج ساری دنیا وہی
کہنے پہ مجبور ہے۔اس لئے کہ اجتماعی دانش کبھی غلط نہیں ہوا کرتی۔وہ اسی
اجتماعی دانش کا ترجمان تھا۔سرحدوں کے اندر فوج کا استعمال لوگوں کے گلے
شکوے بڑھا دیتا ہے۔گلے شکوے بڑھ کے قتل مقاتلے تک پہنچے۔پھر وہ ہوا جس کی
کسی کو توقع نہ تھی۔پاکستان تقسیم ہو گیا۔عوام بٹ کے رہ گئے۔بین الاقوامی
طاقتیں اپنا اپنا ایجنڈا لے کے ہمارے ملک میں در آئیں اور ہم بھینسوں کی
لڑائی میں جھاڑیاں بن کے رہ گئے۔مشرف صاحب کو اپنے اقتدار کے لئے وہ وہ
سمجھوتے کرنے پڑے جن کی دنیا کی تاریخ میں مثال مشکل ہی سے ملے گی۔خدا خدا
کر کے ظلمت بھری یہ شب کٹی اور جمہوریت کا نور ہر طرف پھیلنے کی امید بندھ
گئی۔
عوام اپنی مرضی کی حکومت چننے کو بے چین تھے اور اشرافیہ اپنے منصوبے ترتیب
دے چکی تھی۔ قدرت نے بھی تو اپنا آپ کہیں دکھانا ہوتا ہے۔اسی منصوبے میں بے
نظیر کو بلی چڑھا دیا گیا۔ وہ غریب جان سے گئی تو عمران اور چند دوسرے اس
منصوبے کو پا گئے۔انہوں نے نون غنوں کو بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ اس
انتخاب میں حصہ لے کے آپ عوام کی حالت تو کیا بدلیں گے، خود بھی ذلیل ہوں
گے۔ اس کاکہا پھر سچ ہوا۔بے نظیر کا خون بہا لینے والے اس کا خون رنگ دوپٹہ
اٹھائے نواز شریف کو ساتھ ملائے ملک کے تخت پہ براجمان ہو گئے۔نواز شریف
صاحب جو مشرف کا نام سننا پسند نہ کرتے تھے۔سارے اصول بھلا کے سر جھکائے
حلف لینے اسی کے آگے سیس نوانے چلے گئے۔پاکستان کے عوام بھلے شاہین کی نظر
نہ رکھتے ہوں لیکن بعد کے دنوں میں انہوں نے زرداری کے ہاتھوں نواز لیگ کی
گت بنتے دیکھی تو انہوں نے عمران پہ اعتبار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔لاہور کا
جلسہ اس اعتبار کا نقطہ آغاز تھا۔اس کے بعد کے دن جب اللہ کی مدد آجائے تو
تم دیکھو گے کہ لوگ جوق در جوق اللہ کے دین یعنی حق اور سچ کی جانب لپکتے
ہیں۔بند ٹوٹ گیا اور ساری دنیا عمران کا دم بھرتی نظر آنے لگی۔ان میں وہ
بھی تھے جو دل سے نظام بدلنا چاہتے تھے اور وہ بھی جو پرانے نظام کو ٹوٹتا
نہیں دیکھ سکتے تھے۔یہ خطرے کی پہلی گھنٹی تھی۔
اب خطرے کی دوسری گھنٹی یہ ہے کہ انتظامیہ ایک ایسا بندوبست کرنا چاہ رہی
ہے جو تین سال رہے۔اس میں گند صاف کیا جائے۔اس کا سربراہ عمران کو بنایا
جائے۔عمران کچھ ایسا کرے کہ اس کے بعد اس کی حکومت بن جائے۔خان صاحب! خدا
را ایسا نہ کیجئیے گا۔اب آپ کی پارٹی عوام کی پارٹی ہے۔آپ کو اب چور دروازے
سے حکومت میں آنے کی کیا ضرورت ہے۔قوموں کی تاریخ میں سال کچھ زیادہ اہم
نہیں ہوتے۔آپ کو اقتدار اس دفعہ ملے نہ ملے یہ اہم نہیں اہم یہ ہے کہ آپ نے
اس کے لئے صحیح راستے کا انتخاب کیا یا غلط راستے کا۔اگر آپ نے بھی چور
دروازے ہی سے اقتدار میں آنا ہے تو پھر زرداری اور نواز میں کیا برائی
ہے۔یاد رہے خان صاحب! اصول اصول ہوتے ہیں اور جو شخص ایک بار اپنے اصول توڑ
دے عوام اس کا اعتبار کم ہی کیا کرتے ہیں۔
ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں |