حضرت سیدنا محمد بغدادی امجھری رضی اللہ عنہ

محبوب سبحاني قطب لاثاني سيدنا شيخ عبد القادر جيلاني رضي الله عنه﴿م561ھ﴾ كي ذات گرامي محتاج تعارف نهيں دين و سنيت اور شريعت و طريقت كے حوالے سے آپ كي خدمات اسلامي تاريخ كا ايك زريں باب هيں۔ آپ تمام اوليا كے سردار هيں۔ جب آپ نے فرمايا: ٫٫قد مي هذه عليٰ رقبۃ كل ولي اللّٰه ٬٬وهاں موجود تمام اولياے كرام نے اپني گردنيں جھكا ديں اور دور دراز مقامات كے اولياے كرام نے بھي اپني اپني جگه سرِ تسليم خم كر ديا۔ حضرت خواجه غريب نواز عليه الرحمه نے بھي بڑي عقيدت سے اس وقت فرمايا تھا :٫٫بل عليٰ راسي و عيني ٬٬ آپ كے فرزندوں ميں سے سيدنا شاه عبد الرزاق قادري جيلاني كي اولاد ميں سيدنا سيد محمد قادري بغدادي رضي الله عنه پيدا هوئے۔ هندستان ميں چند ايسے اوليا هيں جن كو رسول پاك صلي الله عليه وسلم نے اسلام پھيلانے كے ليے هندستان بھيجا ۔ ان چند وليوں ميں سے ايك سيد الهند سيدنا محمد بغدادي كي ذات بابركات هے۔ رسولِ پاك صلي الله تعاليٰ عليه وسلم نے آپ كو هندستان جانے كي بشارت دي اور آپ سركار كے حكم پر هي هندستان تشريف لائے ۔ حضرت سيدنا محمد بغدادي رضي الله عنه بغداد شريف سے هندستان ميں سلسله قادريه كو لانے والے پهلے قادري بغدادي بزرگ هيں۔


ولادت، تعليم، تبليغ اسلام:نائب غوث الوريٰ سيد الهند سيدنا محمد قادري بغدادي رضي الله عنه كي ولادت مباركه 25 رمضان المباارك 810ھ بروز جمعه بمقام بغداد هوئي آپ كا اصل نام محمد هے۔ آپ سيدنا كے لقب سے مشهور هوئے۔ آپ كے والد ماجد كا نام حضرت سيدنا شمس الدين سيد محمد درويش قادري تھا۔ آپ غوث اعظم كي گيارهويں پشت سے تھے ، آپ كا شمار اس وقت كے اكابر علما ميں تھا ، آپ غوث اعظم كے آستانه كے سجاده نشين تھے ۔ الله تعاليٰ نے حضرت سيدنا كي ذات پاك ميں غير معمولي اوصاف حميده شروع سے هي وديعت فرمايا تھا ۔ آپ نے ابتدائي تعليم اپنے والد ماجد سے حاصل كي ۔ جب آپ كي عمر شريف سات سال هوئي تو آپ نے بغداد كے ايك مدرسے ميں داخله ليا اور اس مدرسے ميں حفظ و قرائ ت كي تعليم مكمل كي ۔ ادب، فقه، اصولِ فقه، حديث كا علم حضرت علامه ابو اسحاق كوفي سے حاصل كيا ۔ اس طرح آپ نے تيئيس سال كي عمر ميں تعليم مكمل كي ۔ بچپن سے هي آپ سے كرامتوں كا ظهور هوتا تھا ۔ جب آپ كي عمر سات سال تھي ، آپ نے ايك غريب كو مٹي كا ڈھيلا ديا، مٹي كا ڈھيلا سونے كا ڈھيلا هو گيا۔ اسي طرح دس سال كي عمر ميں ايك قبرستان ميں گئے اور رونے لگے پھر اس كے بعد هنسنے لگے۔ ايك شخص نے جب يه ماجرا ديكھا تو رونے اور هنسنے كي وجه پوچھي تو حضرت سيدنا نے ارشاد فرمايا كه جب ميں قبر كے اندر ديكھتا هوں كه بنده عذابِ الٰهي ميں هے تو ميں رو ديتا هوں اور جب ديكھتا هوں كه بنده مسرت و شادماني ميں هے تو ميں هنس ديتا هوں ۔ پھر حضرت نے حديث بيان فرمائي ، رسولِ پاك نے ارشاد فرمايا هے :٫٫القبر روضۃ من رياض الجنۃ او حفرۃ من حفر النيران ٬٬﴿مناقب محمديه،ص:40،از:علامه علي شير شيرازي﴾


اسي طرح مدينه منوره كے مشهور عالمِ دين حضرت علامه ابو طلحه مدني پير كي تلا ش ميں كشاں كشاں بغداد تشريف لائے اور حضرت سيدنا كے والد ماجد كي بارگاه ميں حاضر هوئے اور خيال كيا كه جو كوئي اس مجلس ميں يه بولے گا كه ﴿يا طلحۃ انت مني ﴾ تو ميں اس سے مريد هو جاو ں گا۔ اس وقت حضرت سيدنا كي عمر دس سال تھي، وه بول پڑے يا طلحۃ انت مني۔ اتنا سنتے هي ابو طلحه مدني حضرت سيدنا كے قدموں پر گر پڑے اور كهنے لگے كه آپ مجھے مريد كر ليں۔ آپ نے فرمايا كه ميں ابھي نابالغ هوں اور نابالغ كي اقتدا درست نهيں ۔ چناں چه حضرت سيدنا خلافت سے سرفراز هوئے تو سب سے پهلے ابو طلحه مدني عليه الرحمه نے شرف بيعت حاصل كيا۔﴿مناقب محمديه، ص:23﴾


حضرت سيدنا تكميلِ تعليم كے بعد خدمتِ خلق اور عبادتِ الٰهي ميں مشغول هو گئے ۔ فرائض تو فرائض هيں، آپ نے هميشه سنن و نوافل كي بھي پابندي كي ۔ ايران كے مشهور و معروف مصنف علامه علي شير شيرازي تحرير كرتے هيں:


٫٫ديدم سيدنا رضي الله عنه را هيچ فعل ازو صادر نمي شد كه موجب هوا و هوس و نفسانيت باشد و درعبادت از اندازه بشر كوشش زياد مي كرد هيچ فرض خدا و سنت رسول الله صلي الله تعاليٰ عليه وسلم فوت نه كرد۔٬٬ ﴿مناقب محمديه قلمي،ص:52﴾


ترجمه: سيدنا پاك كو ميں نے ديكھا كه آپ سے هوس و نفسانيت كا كوئي عمل صادر نهيں هوتا تھا اور عبادت ميں لوگوں كے اندازے سے زياده كوشش كرتے تھے ۔ الله كے فرائض ميں سے كوئي فرض اور رسول الله كي سنتوں ميں سے كوئي سنت فوت نه كي۔


حضرت سيدناصبح سے آدھي رات تك درس و وعظ ميں مشغول رهتے ۔ شيخ علي شير شيرازي لكھتے هيں:


٫٫از صبح تا نيم شب بجز درس و واعظ درميان نمي آمد۔٬٬


 ﴿مناقب محمديه، ص:23﴾


جس وقت آپ كي عمر شريف تيئيس سال كي هوئي ، تمام علوم و فنون ميں شهره آفاق هو گئے ۔ خلافت دينے سے پهلے ان كے والد ماجد نے انھيں ايك سخت آزمائش سے گزارا۔ والد ماجد نے انھيں قرن كے جنگل ميں مجاهدے كے ليے بھيجا ۔ والد كے حكم سے حضرت سيدنا قرن كے جنگل ميں وارد هوئے ، وهاں چار سال تك عبادتِ خدا وندي ميں مشغول رهے ۔ آپ نے مسلسل چار سال تك روزه ركھا ، دو سال تك نه كچھ كھايا اور نه پيا۔ جب افطار كا وقت هوتا تو گھاس كي پتي سے افطار كرتے اور كوئي چيز نه كھاتے اور ايسا اس ليے كرتے كيوں كه رسولِ پاك نے ارشاد فرمايا هے :


٫٫اني لست ك حد منكم بيت عند ربي و ھو يطعمني و يسقني۔٬٬ ﴿مناقب محمديه، ص:42﴾


حضرت سيدنا كے جسم اطهر ميں كوئي كم زوري نه آئي تھي اور نه عبادت و رياضت ميں كوئي كمي هوئي ۔ راتوں ميں حضرت سيدنا ذرا بھي نه سوتے ۔ اس طرح چار سال گزر گئے ۔ قرن كے مجاهدے كے بعد والد ماجد نے حضرت سيدنا كو ستائيس سال كي عمر ميں شرف بيعت سے مشرف فرمايا اور سلسله قادريه كي خلافت سے بھي نوازا۔ والد ماجد نے به اشاره غيبي منصب ارشاد و دعوت پر مامور فرما ديا تھا ، ليكن بارگاهِ رسالت سے اس كي تائيد و توثيق باقي تھي اور دعوتِ حق كا تاج زريں زيب سر هونا ضروري تھا ۔ مرشد كامل نے آپ سے ارشاد فرمايا كه تم مدينه منوره حاضري دو اور مسجد نبوي ميں اعتكاف كرو ،۔ تمھيں هر طرف سے يه آواز سنائي دے گي:٫٫ادع الخلق الي الحق ٬٬ ﴿مخلوق كو خدا كي طرف بلاو ﴾ مگر اس نداے غيبي كي طرف توجه نه دينا جب تك رسول الله كے رخِ انور كي زيارت نه هو جائے۔ پھر سركارِ دوعالم جو حكم صادرفرمائيں اس پر عمل كرنا ۔ حضرت سيدنا مدينه منوره پهنچنے كے بعد مسجد نبوي ميں محوِ مراقبه تھے كه در و ديوار سے آواز آئي٫٫ادع الخلق الي الحق ٬٬ مگر حضرت نے توجه نه دي ۔ ايك دن حضرت سيدنا كي عجيب سي حالت هو گئي ، معلوم هو رها تھا كه حضرت سيدنا پاك مدهوش هيں ، ان كے دهن مبارك سے كف جاري تھا جيسا كه دريا جوش مارتا هوا ساحل پر جھاگ ڈالتا هے ۔ رسولِ پاك كا فيضانِ خاص برس رها تھا ، اسي حالت ميں حضرت كي زبان پر چند اشعار جاري هوئے


سقاني سيدي كوثر زلالا


عطاني روح جدي و وصالا


فقال الجد لي ولدي كريم


لك الدرجات عند الله تعاليٰ


فلا خوف لك لا الحزن يوما


لك قصر من الفردوس اعليٰ


سمعت قول جدي فرح قلبي


دفع اللّٰه من قلبي ملالا


﴿مناقب محمديه،ص:60﴾


ان اشعار كا ترجمه اس دور كے مرشد روحاني امام ملت شيخ طريقت اولادِ غوثِ اعظم حضرت علامه مفتي الحاج شاه سيد اصغر امام قادري مصباحي صاحب قبله حفظ الله عليه نے اس انداز ميں كيا هے


پلا كر ساقي كوثر نے جامِ كوثرِ شيريں


عطا كي روحِ نانا نے وصالِ لذتِ شيريں


كها مجھ كو كريم اور بيٹا كهه كر يه بشارت دي


تمهارا مرتبه اعليٰ هے حق نے تم كو جنت دي


ملال و حزن و غم كا كچھ اثر باقي نه هو تم پر


محل اعليٰ ملے گا خلد ميں اور هاتھ ميں كوثر


خوشي سے جھوم اٹھا دل يه بشارت نانا كي سن كر


مٹايا حق تعاليٰ نے مرے دل سے ملال يكسر


اس واقعے كے بعدحضرت سيدنا كو رسولِ پاك كي بشارت خواب ميں نصيب هوئي ۔ رسولِ پاك نے ارشاد فرمايا كه : ٫٫سيد محمد قادري، تم كو اسلام پھيلانے هندستان جانا هے۔٬٬


﴿صوفي ازم ان بهار، از پروفيسر حسن عسكري، مناقب محمديه ،ص:66﴾


حضرت سيدنا كي هندستان آنے كي وجه يه تھي كه هندستان كے صوبه بهار ميں ايك راجا جيون كول حكومت كرتا تھا ۔ راجا مسلمانوں پر بڑا ظلم كرتا تھا۔ حضرت شيخ علي هندي جو اس علاقه كے مشهور بزرگ تھے ، راجا نے ان كے خاندان والوں كو هلاك كر ديا تھا ، اس ليے شيخ علي هندي اپني فرياد لے كر مدينه طيبه حاضر هوئے، تب رسولِ پاك نے حضرت سيدنا كو حكم ديا كه تم هندستان جاو اور ادھر شيخ علي هندي كو بھي سيدنا سے ملنے كي بشارت هوئي۔


آمد هِ ند:اس حكم كے مطابق 846ھ ميں حضرت سيدنا نے 40 خلفا كے ساتھ بغداد مقدس سے كوچ كيا۔ حضرت نے هندستان جانے سے پهلے والد سے عرض كيا كه حضور ميں تو هندستان جاتا هوں ، ليكن ميں كهاں سے پرچم اسلام بلند كروں گا اور ميرا قيام كهاں هوگا۔ تو والد ماجد نے ايك عصا عنايت كيا اور فرمايا، يه غوثِ اعظم كا عصا هے ۔ تم اسے لے جاو ۔ اس عصا كو تم هندستان ميں جهاں نصب كرو اور يه سرسبز و شاداب هو جائے وهيں سے تم پرچمِ اسلام بلند كرنا اور وهاں پر تمهارا قيام هوگا ۔ حضرت سيدنا والد گرامي كي اس ره نمائي كے بعد عازمِ هند هوئے ۔ دورانِ سفر كندھار ميں كچھ دن قيام كيا ۔ وهاں پر حضرت سے ايك عجيب و غريب كرامت كا صدور هوا۔ بادشاهِ افغانستان كو جب يه معلوم هوا كه غوثِ اعظم كي اولاد ميں سے ايك بزرگ ميرے ملك ميں قيام پذير هيں ، وه حاضر خدمت هوا اور آپ كو اپنے محل ميں لايا ۔ دوسرے دن بادشاه كے دربار ميں محفل سجي تھي كه ايك شرعي مسئله چھڑ گيا كه عورت جب غسل كرے اور چوٹي بندھي هو تو اس كو اپني چوٹي غسل كے وقت كھولنا ضروري هے يا نهيں؟ حضرت نے فرمايا كه ايسا ضروري نهيں هے، بلكه جڑ ميں پاني پهنچ جائے ، يهي كافي هے ۔ پھر حضرت سيدنا نے رسولِ پاك كي حديث بيان فرمائي :٫٫قال النبي صلي الله عليه وسلم ل م سلمۃ يكفيك اذا بلَّ صول شعرك ٬٬ اس مجلس ميں كندھار كے مولوي منصور بيٹھے تھے ۔ انھوں نے دل ميں يه سوچا كه حضور نے اپني بيوي كے آرام كے ليے يه حديث بيان فرمائي هے ﴿معاذ الله﴾ ۔ حضرت سيدنا كو فوراً هي كشف هوا اور حضرت نے ان سے توبه كرنے كے ليے كها ۔ اس نے توبه كرنے كے بجائے حضرت پر يه الزام لگايا كه آپ اپنے مريدين بڑھانے كے ليے ايسا كر رهے هيں، ميں نے تو ايسا هرگز نهيں سوچا هے ۔ حضرت رنجيده هو گئے، حضرت نے فرمايا كه تو مجھے جھٹلاتا هے ، تو چپ رهے گا اور تيرا دل گواهي دے گا كه تونے ايسا سوچا هے كه نهيں ۔ چناں چه مولوي منصور چپ هو گيا ۔ اس كي زبان پر مهر لگ گئي ۔ اس كا دل وهي بولنے لگا جو اس نے سوچا تھا ۔ حاضرينِ مجلس حيرت زده ره گئے ۔ اس مجلس ميں جو علماے كرام تشريف فرما تھے انھوں نے كها كه هم نے تو قرآن مقدس ميں يه آيت پڑھي تھي:٫٫اَل يَومَ نَخ تِمُ عَلٰي اَف وَاھِھِم وَ تُكَلِّمُنَا اَي دِي ھِم وَ تَش ھَدُ اَر جُلُھُم بِمَا كَانُو ا يَك سِبُو نَ ٬٬ ﴿يٰس :65﴾آج هم ان كے مونهوں پر مهر كر ديں گے اور ان كے هاتھ هم سے بات كريں گے اور ان كے پاو ں ان كے كيے كي گواهي ديں گے﴿كنز الايمان﴾۔ليكن آج تو هم اپني آنكھوں سے يه ديكھ رهے هيں جب خدا كے مقرب بندوں كو ايسي قدرت هے كه وه مناظر قيامت پيش كر ديں تو روز محشر ارشادِ خدا وندي كا ظهور بلا شبهه هوگا۔ اس وقت چھ بت پرست بيٹھے تھے ۔ انھوں نے يه كرامتِ كبريٰ ديكھ كر كلمه طيبه پڑھ ليا ۔ بادشاه نے منصور كو قتل كرانا چاها ، ليكن حضرت سيدنا كے منع كرنے پر چھوڑ ديا۔ حضرت نے منصور سے توبه كرائي ۔ بادشاه افغانستان حضرت سے مريد هو گيا ۔ حضرت نے تين روز قيام كيا ، پھر وهاں سے آگے كے ليے روانه هو گئے۔


حضرت سيدنا نے اپنے خلفا كے ساتھ ملتان كا رخ كيا ، پھر وهاں كچھ روز قيام فرمايا ، پھر عازمِ هند هوئے ۔ هندستان كي رياست اتر پرديش كے مشهور و معروف قصبه كچھوچھه مقدسه كے ايك گاو ں سرهرپور ميں تشريف لائے ۔ سيد حسن جو كه بغداد كے رهنے والے تھے ، يهيں مقيم هو گئے تھے ۔ سيد حسن كو خواب ميں بشارت هوئي كه سيد محمد قادري تشريف لا رهے هيں ، ان كو اپنے يهاں ٹھهرانا ، پھر اپني بهن سے ان كا نكاح كر دينا ۔ سيد حسن نے حضرت كا استقبال كيا ، پھر اپني بهن سے حضرت كا نكاح كيا۔ پندره روز كے بعد اپني شريكِ حيات كو چھوڑ كر حضرت اپنے مريدوں كے ساتھ بهار كي طرف روانه هوئے ۔ حضرت سيدنا بهار كے خوف ناك جنگل نرهنه پهنچے ۔ نرهنه ايك ندي كے كنارے واقع تھا جهاں وحشي درندے، جانور رهتے تھے۔ اس جنگل سے كچھ فاصلے پر راجا جيون كول كا قلعه تھا جس نے شيخ علي هندي كے خاندان والوں كو هلاك كر ديا تھا۔


حضرت اتمامِ حجت كے ليے راجا كے پاس گئے ۔ اس نے حضرت سے كها، آپ جائيے ، آپ همارا كچھ نهيں بگاڑ سكتے۔ چناں چه حضرت سيدنا نے رو رو كر بارگاهِ رب العزت ميں دعا كي :يا قادر اھلكھم كھلكۃ قوم نوح في طوفان ٬٬ دعا قبول هوئي، طوفان آيا ۔ راجا كا قلعه برباد هو گيا ، راجا مع اهل و عيال مارا گيا۔


﴿مناقب محمديه قلمي، ص:81 صوفي ازم اِن بهار﴾


راجا كي هلاكت كے بعد حضرت اسي جنگل ميں تھے كه اچانك ايك دن قومِ جن كے سردار حضرت شمعون حاضرِ خدمت هوئے اور گفتگو كرنے لگے ۔ حضرت كے خلفا ميں سے ايك علي شير شيرازي نے جب يه ديكھا تو بے هوش هو گئے ۔حضرت سيدنا نے شمعون سے كها:٫٫يا شمعون احضر جميلا ٬٬ شمعون فوراً ايك خوب رو انسان كي شكل ميں نمودار هوئے۔ پھر انھوں نے حضرت سيدنا كے بارے ميں شيخ علي شيرازي سے اپنے يه تاثرات پيش كيے ، حضرت شمعون نے فرمايا:


٫٫دريں روزگار شرق تا غرب مثل شيخنا سيد محمد قادري در علم و عمل آنچه او را قبله حاجات دانسته گاه گاه مي رسيم و از با علم صوري و معنوي با حسب قابليت خود ها ، مستفيض مي گرديم۔٬٬﴿مناقب محمديه، ص:89﴾


اس زمانے ميں پورب سے پچھم تك همارے شيخ حضرت سيدنا محمد قادري كي طرح علم و عمل ميں دوسرا نهيں هم لوگ ان كو اپنا قبله حاجات جان كر كبھي كبھي ان كي بارگاه ميں حاضر هو جاتے هيں اور ان كے ظاهر و باطن علوم سے اپني قابليت كے لحاظ سے فائده حاصل كرتے هيں۔


حضرت نے اسي جنگل ميںمرده گھوڑے كو زنده فرما ديا ، حضرت كي كرامت سے دو ماه كي بچھڑي دودھ دينے لگي، ازدها حضرت كو كھانے كي غرض سے آيا ، ليكن حضرت كي كرامت سے كلمه طيبه پڑھنے لگا اور اس كے بعد كسي كو بھي نهيں كھايا ۔ حضرت نے وهيں پر بيٹھے بيٹھے ايك ڈوبتي كشتي كو بچا ليا ، پھر حضرت اس جنگل سے روانه هوئے اور امجھر تشريف لائے ۔ جيون كول كے بھائي كو جب معلوم هوا كه حضرت امجھر ميں هيں تو بدله لينے كے ليے اپني فوج كے ساتھ نكلا ۔ راجا كرموں كول نے پهلے جادو سے مقابله كيا ليكن اس كے جادو كا كوئي اثر نهيں هوا ، پھر اپنے فوجيوں كے ساتھ مقابلے پر آيا ۔ حضرت سيدنا نے اپنے مريدوں كے ساتھ اس كا مقابله كيا اور كرموں كول حضرت كے هاتھوں مارا گيا ۔ حضرت نے وه عصا جو بغداد سے لائے تھے امجھر شريف ميں نصب فرما ديا اور عصا تھوڑي دير ميں سرسبز و شاداب هو گيا ۔ وه عصا آج تك مزار شريف كے احاطے ميں درخت كي شكل ميں موجود هے ۔ اس عصا كي خصوصيت يه هے كه جس گھر ميں اس كي ٹهنيوں اور اس كي پتيوں كو ركھ ديا جائے وهاں سانپ بچھو نهيں آتے ۔ اس عصا كا نام انجاس هے ۔ اس عصا كي پتيوں كوپيس كر مريض كو پلايا جاتا هے تو وه شفا ياب هو جاتا هے ۔ انجاس﴿مفرد﴾ كا معني تعويذ هے ۔ امجھر شريف سے هو كر سون ندي بهتي تھي ۔ حضرت نے حكم ديا كه فقير اب يهاں قيام پذير هوتا هے ، لهذا تو يهاں سے رخ پھير لے چناں چه وه ندي تيس كلو ميٹر كي دوري سے بهنے لگي ۔ امجھر شريف ميں آج بھي اس ندي كے آثار موجود هيں۔


﴿بهار گزٹ ،ص:8،1930ئ، صوفي ازم اِن بهار﴾


حضرت كي كرامتيں كثير هيں جن كو شمار نهيں كيا جا سكتا ۔ حضرت كے دست حق پرست پر هزاروں كي تعداد ميں لوگ مشرف به اسلام هوئے ۔ واليِ بهار بھي حضرت سے مريد هو گيا ۔ يكم ربيع الاول 940ھ ميں حضرت كا وصال هوا۔ حضرت نے وفات سے پهلے فرمايا تھا كه فقير جاتا هے اور اس كي يادعشق عشق سے باقي ره گئي ۔ عشق عشق كا مجموعي عدد 940هے ۔


حضرت سيدنا كي شانِ اقدس ميں دورِ حاضر كے چند مشاهير اور نام ور شخصيات كي رائے:حضرت علامه مفتي شريف الحق امجدي عليه الرحمه فرماتے هيں: ٫٫حضرت سيدنا محمد بغدادي امجھري رضي الله عنه سلسله قادريه كو جاري كرنے والے سرزمينِ هند ميں سب سے پهلے قادري بغدادي بزرگ هيں۔٬٬﴿بموقع جلسه دستار فضيلت دار العلوم فيضان سيدنا 1997ئ﴾


رئيس القلم علامه ارشد القادري فرماتے هيں:٫٫امجھر شريف هندستان كا بغداد هے۔٬٬﴿بموقع جلسه دستار بندي فيضان سيدنا 1995ئ﴾


شهزاده حضور حافظ ملت عزيز ملت علامه شاه عبد الحفيظ صاحب قبله رقم طراز هيں، ٫٫حضرت سيد الهند سيدنا محمد بغدادي رضي الله عنه غوث اعظم كي نسل سے هيں اور هندستان ميں سلسله قادريه كي اهم كڑي هيں، جن كے فيضان كرم نے بهت سے مرده دلوں كو زندگي بخشي هے اور آج بھي ان كا فيضان امجھر شريف سے جاري هے۔٬٬ ﴿تذكره سيد الهند،ص:11﴾


رئيس التحرير علامه يٰسين اختر مصباحي رقم طراز هيں :٫٫امجھر شريف سلسله قادريه كي عظيم و قديم خانقاه هے جهاں صديوں سے غوثِ اعظم كے فيض كا دريا رواں هے اور خلق خدا اپنے اپنے ظرف كے مطابق اس سے مستفيض اور سيراب هو كر اپني روحاني پياس بجھا رهي هے ، حضرت علامه مفتي سيد شاه اصغر امام قادري صاحب قبله اس وقت آستانه عاليه قادريه امجھر شريف كے مرشد روحاني هيں جو ايك طرف جامعه فاروقيه بنارس كے صدر المدرسين كي حيثيت سے علمِ دين كي گراں قدر خدمت انجام دے رهے هيںاور دوسري طرف باوقار و با فيض آستانه عاليه كے مرشدِ روحاني كي حيثيت سے روحانيت كا فيض تقسيم كر رهے هيں ۔٬٬﴿تذكره سيد الهند،ص:12﴾


خير الاذكيا صدر العلما حضرت علامه محمد احمد مصباحي صاحب رقم طراز هيں:٫٫امجھر شريف ايك قديم آبادي هے جهاں سيدنا محمد قادري بغدادي رضي الله عنه بغداد سے 846ھ ميں تشريف لائے اور يه قريه بهت سے اهلِ دل اور اهلِ عقيدت كا ماويٰ و مرجع بن گيا ۔ ان كي ولادت 810ھ ميں اور وفات 940ھ ميں هے ۔ هندستان كي تاريخ اولاد غوثِ اعظم رضي الله عنه سے كسي اور كي هند ميں آمد ان سے پهلے نهيں بتاتي۔ ان كي تشريف آوري سے سرزمين، هند ميں فيضانِ قادريت خوب خوب پھيلا۔٬٬
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1283171 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.