جنگ بدر کفر و اسلام کا مشہور
ترین معرکہ ہے۔ ۱۷ رمضان ۲ ھ میں مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام ''بدر''
میں یہ جنگ ہوئی۔ اس لڑائی میں تعداد اور اسلحہ کے لحاظ سے مسلمان بہت ہی
کمتر اور پست حالی میں تھے۔ مسلمانوں میں بوڑھے، جوان اور بچے اور انصار و
مہاجرین کل مل کر تین سو تیرہ مجاہدین اسلام علم نبوی کے زیرِ سایہ کفار کے
ایک عظیم لشکر سے نبرد آزما تھے۔ سامانِ جنگ کی قلت کا یہ عالم تھا کہ پوری
اسلامی فوج میں چھ زرہیں اور آٹھ تلواریں تھیں۔ اور کفار کا لشکر تقریباً
ایک ہزار نہایت ہی جنگجو اور بہادروں پر مشتمل تھا اور ان بہادروں کے ساتھ
ایک سو بہترین گھوڑے، سات سو اونٹ اور قسم قسم کے مہلک ہتھیار تھے۔ اس جنگ
میں مسلمانوں کی گھبراہٹ اور بے چینی ایک قدرتی بات تھی۔ حضور اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم رات بھر جاگ کر خدا عزوجل سے لو لگائے مصروف دعاتھے کہ
''الٰہی ! اگر یہ چند نفوس ہلاک ہو گئے تو پھر قیامت تک روئے زمین پر تیری
عبادت کرنے والے نہ رہیں گے۔''
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام، مناشدۃ الرسول ربہ النصر،ج۱، ص ۵۵۴ ،ملخصاً)
دعا مانگتے ہوئے آپ کی چادر مبارک دوشِ انور سے زمین پر گر پڑی اور آپ پر
رقت طاری ہو گئی۔ یہاں تک کہ آنسو جاری ہو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ
عنہ آپ کے یار غار تھے۔ آپ کو اس طرح بے قرار دیکھ کر اُن کے دل کا سکون و
قرار جاتا رہا۔ انہوں نے چادر مبارک کو اٹھا کر آپ کے مقدس کندھے پر ڈال
دیا اور آپ کا دست مبارک تھام کر بھرائی ہوئی آواز میں بڑے ادب کے ساتھ عرض
کیا کہ حضور اب بس کیجئے۔ اللہ تعالیٰ ضرور اپنا وعدہ پورا فرمائے گا۔ اپنے
یار غار صدیق جاں نثار(رضی اللہ عنہ )کی گزارش مان کر آپ نے دعا ختم کردی
اور نہایت اطمینان کے ساتھ پیغمبرانہ لہجے میں یہ فرمایا کہ:۔
سَیُہۡزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوۡنَ الدُّبُرَ ﴿45﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اب بھگائی جاتی ہے یہ جماعت اور پیٹھیں پھیر دیں گے۔
(پ27،القمر:45)
صبح کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آیاتِ جہاد کی تلاوت فرما کر ایسا
ولولہ انگیز وعظ فرمایا کہ مجاہدین کی رگوں میں خون کا قطرہ قطرہ جوش و
خروش کا سمندر بن کر طوفانی موجیں مارنے لگا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
یہ بشارت دی کہ اگر صبر کے ساتھ تم مجاہدین میدانِ جنگ میں ڈٹے رہے تو اللہ
تعالیٰ تمہاری مدد کے لئے آسمان سے فرشتوں کی فوج بھیج دے گا۔
چنانچہ پانچ ہزار فرشتوں کی فوج میدانِ جنگ میں اتر پڑی اور دم زدن میں
میدانِ جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہاجرین کا
جھنڈا لہرا رہے تھے اور حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصار کے
علمبردار تھے۔ کفار کے ستر آدمی قتل ہو گئے۔ اور ستر گرفتار ہوئے باقی اپنا
سارا سامان چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ کفار کے مقتولین میں قریش کے بڑے بڑے
نامور سردار جو بہادری اور سپہ گری میں یکتائے روزگار تھے۔ ایک ایک کر کے
سب موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے۔ یہاں تک کہ کفار قریش کی لشکری طاقت ہی فنا
ہو گئی۔ مسلمانوں میں کل چودہ خوش نصیبوں کو شہادت کا شرف ملا جن میں چھ
مہاجر اور آٹھ انصار تھے اور مسلمانوں کو بے شمار مالِ غنیمت ملا جو کفار
چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر اور فرشتوں کی فوج کا تذکرہ قرآن مجید میں ان لفظوں
کے ساتھ فرمایا کہ:۔ وَلَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنۡتُمْ
اَذِلَّۃٌ ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوۡنَ ﴿123﴾اِذْ تَقُوۡلُ
لِلْمُؤْمِنِیۡنَ اَلَنۡ یَّکْفِیَکُمْ اَنۡ یُّمِدَّکُمْ رَبُّکُمۡ
بِثَلٰثَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُنۡزَلِیۡنَ ﴿124﴾ؕبَلٰۤی ۙ اِنۡ
تَصْبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا وَیَاۡتُوۡکُمۡ مِّنۡ فَوْرِہِمْ ہٰذَا
یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمۡ بِخَمْسَۃِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ
مُسَوِّمِیۡنَ ﴿125﴾وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰی لَکُمْ
وَلِتَطْمَئِنَّ قُلُوۡبُکُمۡ بِہٖ ؕ وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنۡدِ
اللہِ الْعَزِیۡزِ الْحَکِیۡمِ ﴿126﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے
سروسامان تھے۔ تو اللہ سے ڈروکہ کہیں تم شکر گزار ہو جب اے محبوب تم
مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد
کرے تین ہزار فرشتے اتار کر ہاں کیوں نہیں اگر تم صبر و تقویٰ کرو اور کافر
اسی دم تم پر آپڑیں تو تمہارا رب تمہاری مدد کو پانچ ہزار فرشتے نشان والے
بھیجے گا اور یہ فتح اللہ نے نہ کی مگر تمہاری خوشی کے لئے اور اسی لئے کہ
اس سے تمہارے دلوں کو چین ملے اور مدد نہیں مگر اللہ غالب حکمت والے کے پاس
سے۔ (پ4،آل عمران:123تا126)
درس ہدایت:۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کی تعداد اور سامانِ جنگ کی قلت کے
باوجود فتح مبین نے مسلمانوں کے قدموں کا بوسہ لیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے
کہ فتح کثرتِ تعداد اور سامانِ جنگ کی فراوانی پر موقوف نہیں۔ بلکہ فتح کا
دارومدار نصرتِ خداوندی پر ہے کہ وہ جب چاہتا ہے تو فرشتوں کی فوج آسمان سے
میدانِ جنگ میں اتار کر مسلمانوں کی امداد و نصرت فرما دیتا ہے اور مسلمان
قلتِ تعداد اور سامانِ جنگ نہ ہونے کے باوجود فتح مند ہو کر کفار کے لشکروں
کو تہس نہس کر کے فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے
دو شرطیں رکھی ہیں، ایک صبر اور دوسرا تقویٰ۔ اگر مسلمان صبر و تقویٰ کے
دامن کو تھامے ہوئے خدا کی مدد پر بھروسہ کر کے جنگ میں اَڑ جائیں تو ان
شاء اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر محاذ پر فتح مبین مسلمانوں کے قدم چومے گی
اور کفار شکست کھا کر راہ فرار اختیار کریں گے یا مسلمانوں کی مار سے فنا
ہو کر فی النار ہوجائیں گے۔ بس ضرورت ہے کہ مسلمان صبر و تقویٰ کے ہتھیاروں
سے لیس ہو کر خدا کی مدد کا بھروسہ کر کے کفار کے حملوں کا مقابلہ کرنے کے
لئے میدانِ جنگ میں استقامت کا پہاڑ بن کر کھڑے رہیں اور ہرگز ہرگز تعداد
کی کمی اور سامانِ جنگ کی قلت و کثرت کی پرواہ نہ کریں کیونکہ فرمانِ
خداوندی ہے کہ
وَمَا النَّصْرُ اِلاَّ مِنْ عِنْدِ اللہِ کہ مدد فرمانے والا تو بس اللہ
ہی ہے۔
سچ کہا ہے کہنے والے نے ؎
کافر ہو تو تلوار پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی |