فارمولے کی تلاش

صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی بیماری کے تناظر میں پاکستا نی میڈیا نے جس بانجھ پن کا ثبوت دیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔صدرِ پاکستان کی خرا بیِ صحت پر ہمارے میڈیا نے بے شرمی اور ڈ ھٹائی سے افواہ سازی کا جو فر یضہ سر انجام دیا ہے وہ فہم و ادراک سے بالا تر ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس غیر مصدقہ خبر کا منبہ ایک امریکی ویب سائٹ تھی لیکن اس خبر کو لے کر جسطرح سے پاکستانی میڈیا نے طوفان برپا کیا اور صدر کے استعفے کے حوالے سے جس ہذیانی کیفیت کا اظہار کیا وہ نا قابلِ فہم ہے ۔ بیماری اور تندرستی کا تعلق ہر انسانی جان کے ساتھ ہمیشہ سے رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا لیکن پاکستانی میڈیا نے اس میدان میں جس طرح اسلامی، اخلاقی اور آئینی اقدار کی پامالی کی وہ حیران کن ہے۔ یہ بات ساری دنیا کے علم میں ہے کہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو دل کے عارضے کا مرض ہے اور اسکی چیکنگ کےلئے وہ پہلے بھی تواتر سے اپنا طبی معائنہ کرواتے رہے ہیں لیکن اس دفعہ ان کی بیماری کے حوالے سے پاکستانی میڈیا پر جو گل افشانیاں دیکھنے کو ملیں وہ انتہائی شرم ناک تھیں۔الزام تراشیوں کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد کارفرما تھا اور وہ مقصد تھا پی پی پی کی حکومت کی رخصتی کا خواب لیکن افواہ ساز فیکٹریاں یہ بھول جاتی ہیں کہ ایوانِ اقتدار سے رخصتی کےلئے کچھ اصول و ضوابط ہیں اور ان سے ہٹ کر کوئی ایسی راہ نہیں جو کسی کو اقتدار کی مسند سے نیچے اتار سکے۔ ذاتی خو اہشات کی تکمیل کی خاطر پوری ریاستی مشینری کو داﺅ پر لگا دینا کھلی ملک دشمنی ہے جس کا مظاہرہ میڈیا نے بڑی ڈھٹائی سے کیا ہے لیکن پھر بھی اپنی پارسائی کا راگ الاپنے سے باز نہیں آرہا۔۔

یہ سچ ہے کہ کچھ لوگوں کی صدرِِ پاکستان آصف علی زرداری سے ذاتی پر خاش ہے جس کی وجہ سے وہ اسطرح کی ہوائیاں چھوڑتے رہتے ہیں لیکن ہربات کا کوئی موقعہ محل ہو تا ہے ہر وقت ایک ہی راگ الاپتے رہنا کبھی کبھی انتہائی مکروہ نظر آتا ہے لہذا احتیاط کا دامن تھامنا انتہائی ضروری ہو جاتا ہے ۔ صدرِِ پاکستان آصف علی زرداری بیماری کے کرب سے گزر رہے ہیں لیکن سازشی عناصر اپنی سازشوں میں مشغول ہیں انھیں اس بات کا رتی برابر بھی احساس نہیں کہ صدرِِ پاکستان آصف علی زرداری کی صحت ٹھیک نہیں لہذا ان حالات میں ان پر تنقید کے تیر برسانا اور ان کی ذات کے حوالے سے کہانیاں تخلیق کرنا انتہائی غیر مناسب حرکت ہے۔ میری ان متلون مزاج دوستوں سے التماس ہے کہ وہ چند دن مزید صبر کر لیں اور صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی صحت کی بحالی کا انتظار کر لیں وہ جیسے ہی رو بصحت ہو کر ایوانِ صدر وا پس آجائیں وہ صدرِ پاکستان پر الزامات لگا کر اور ان کی تضحیک کر کے اپنا شوق پورا کر لیں۔ صدرِ پاکستان بیمار ہیں لہذا یہ وقت دعاﺅں کا وقت ہے کیونکہ یہی اسلام کی تعلیم ہے جس پر ہمیں عمل پیرا ہونے کی تلقین کی گئی ہے لیکن ذاتی دشمنی میں کچھ لوگ ایسے مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں پر نفرت کی دیوی ان سے انکی بصارت اور بصیرت کو اچک کر لے جاتی ہے اور وہ محض انتقام کی علامت بن کر رہ جاتے ہیں -

صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کو مسندِ صدارت سے ہٹانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ان کے خلاف مواخذے کی تحریک لائی جائے اور مجوزہ تحریک کو دونوں ایوانوں میں دو تہائی ارکان کی حمائت حاصل ہو۔ جب ایسی کوئی تحریک پیش ہی نہیں کی گئی تو پھر میڈیا نے یہ کیسے تصور کر لیا کہ چند جھو ٹے الزامات کی بناءپر صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے اقتدار کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔کس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ آصف علی زرداری سے استعفے طلب کرے۔ آئینی طور پر کوئی بھی صدرِ پاکستان سے استعفے طلب نہیں کر سکتا۔ صدر سے استعفے کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو حاصل ہے اور وہ لوگ جو آصف علی زرداری کی اقتدار سے رخصتی کے خواب سجائے بیٹھے ہیں انھیں چائیے کہ وہ پارلیمنٹ کا رخ کریں اور اپنی قسمت کو آزمائیں شائد پارلیمنٹ ان کی تشنہ آرزوﺅں کی تکمیل میں ممدو معاون ثا بت ہو جائے۔خدا را فوجی جنتا کے کندھوں پر بندوق رکھ کر اپنی خواہشات کی تکمیل کے منصوبے مت بنائیے ۔ایسا سوچنا بھی غداری کے زمرے میں آتا ہے۔ یاد رکھیں کوئی ادارہ خواہ کتنا ہی طا قتو ر کیوں نہ ہو صدر سے استعفے کا اختیار نہیں رکھتالیکن اگر میڈیا یہ سمجھتا ہے کہ چند طالع آزما جرنیل صدارتی محل میں گھس کر اسلحے کے زور پر صدرِ پاکستان آصف علی زرداری سے استعفے طلب کر سکتے ہیں تو وہ غلطی پر ہیں۔ اسطرح کا ہر فعل آئین سے غداری کے زمرے میں آتا ہے اور ایسے شخص پر دفعہ چھ کا اطلاق کر کے اسے مثال بنا یا جا سکتا ہے۔ کوئی جمہوریت پسند پاکستانی اسطرح کے غیر آئینی اقدامات کی حمائت نہیں کر سکتا لہذا فی ا لحال شب خون ممکن نہیں ہے۔صدرِِ پاکستان آصف علی زرداری ہر طرح کے دباﺅ کا سامنا کرنا خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور ان کا ماضی اس بات کا گواہ ہے کہ انھوں نے جمہوریت کے لئے گیارہ سال زندانوں کی صعوبتوں کو برداشت کیا ہے لیکن آمریت کے سامنے سر نہیں جھکایا اور آج جب وہ آئینی طور پر پاکستان کے صدر ہیں تو کوئی انھیں ڈرا دھمکا کر استعفے پر مجبور نہیں کر سکتا اور اگر کسی نے ایسا کرنے کی کوشش کی تو پوری قوم ڈٹ کر مقابلہ کریگی ۔

یہ 2011 ہے لہذا عوام با شعور ہیں اور وہ ایسے کسی اقدام کی حمائت نہیں کر سکتے جس میں حکومت پر قبضے کےلئے کسی غیر آئینی راہ کا انتخاب کیا گیا ہو لہذا پاکستانی میڈیا کو ایسی بے سرو پا خبریں نشر کرنے سے قبل اتنا تو سوچ لینا چائیے کہ وہ ایک ایسی فضا کو ہوا د ینے میں ممدو معاون ہو رہے ہیں جو شب خون کی وکالت کر رہی ہے۔ یقین کیجئے اس طرح کی بے پر کی اڑانے پر ان کے خلاف آئین کو حرکت میں لا کر انھیں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چا ئیے اور انھیں عبرتناک سزا دی جانی چائیے تاکہ آئیندہ اس طرح کی بے پر کی اڑانے کی راہیں مسدود کی جا سکیں ۔ میڈیا کی اس طرح کی افواہوں سے ملکی معیشت کو جو اربوں روپوں کا نقصان ہوا ہے اس کا ذمہ دار کون ہو گا۔میڈیا تو اپنی تجوریوں کے منہ بھرنے کے شوق میں ملکی سالمیت اور اس کے وقار کی کوئی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اپنی ر یٹنگ کےلئے ایسی سنسنی خیز خبریں لاتا ہے کہ عام پاکستانی کا دماغ چکرا جائے۔وہ مفادات کی جنگ میں یہ تک بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کی لن ترانیوں کی وجہ سے پاکستان کا بحثیتِ ملک کیا امیج ابھر رہا ہے اور دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہے؟۔

پچھلے کئی دنوں سے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے حوالے سے سنسنی خبریں ٹی وی چیلنز کی زینت بنی ہوئی ہیں لیکن میں نے پاکستانی میڈیا پر کسی اینکر کی زبان سے یہ نہیں سنا کہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری ایک منتخب صدر ہیں لہذا ان کے استعفے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ان سے کوئی بھی شخص بزور استعفے لینے کا مجاز نہیں ہے اور اگر کسی نے ایسی غیر آئینی حرکت کرنے کی کوشش کی تو میڈیاا س غیر آئینی حرکت کی بھر پور مزاحمت کرے گا ، اس کے خلاف بھر پور جنگ لڑےگا اور جمہوری روایات کی پاسداری کےلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرےگا لیکن یہاں پر تو میڈیا فوجی جنتا کو اقتدار پر قبضہ کر لینے کی کھلی دعوت دے رہا تھا اور انھیں یہ باور کروا رہا تھا کہ اگر انھوں نے ایسا کارنامہ سر انجام دے دیا تو یہ ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔سچ تو یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا ان لوگوں کے زیرِاثر ہے جو پی پی پی دشمنی میں اپنی شہرت رکھتے ہیں۔لہذا انکی دلی خواہش ہے کہ پی پی پی کے اقتدار کا کسی نہ کسی طرح سے خاتمہ ہو جائے تا کہ انکی چاندی ہو جائے۔ اپنی اسی خواہش کی تکمیل کی خاطر وہ ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کر رہے ہیں اورصدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے ا ستعفے کا شورو غوغہ بھی اسی دلی خوہش کا برملا اظہارتھا جس میں ان عناصر کو منہ کی کھانی پڑی۔ لیکن ان کے ساتھ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا اسطرح کی ذلت و رسوائی انھوں نے پہلے بھی بہت دیکھی ہے لیکن یہ پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ جب من میںٹیڑھا پن ہوتا ہے تو پھر ہر چیز ٹیڑھی نظر آتی ہے اور ایسے انسانوں کے اندر واقعات کو اسکے حقیقی تناظر میں دیکھنے کی صلا حیت مفقود ہو جاتی ہے۔ سازشیں اور بس سازشیں ہی ان کی پہلی اور آخری ترجیح ہو تی ہیں اور سازشوں کے زہر میں وہ سچائی کو دیکھنے کے وصف سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔

صدرِ پاکستان آصف علی زرداری چند دنوں کے علاج معالجے کے بعد صحت یاب ہو کر پاکستان واپس چلے جائیں گئے اور اپنی معمول کی ذمہ داریاں شروع کر دیں گئے۔صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کا صحت یاب ہو نا بھی کچھ حلقوں کے سینوں پر سانپ بن کر لوٹ رہا ہے۔ان کا بس نہیں چل رہا نہیں وگرنہ وہ تو ایوانِ صدر میں گھس کر صدرِ پاکستان آصف علی زرداری سے بزور استعفے لے لیں۔ میں پاکستان کے جمہوریت پسند حلقوں سے عرض کرناچا ہتا ہوں کہ پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل تم ان کی قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔انھیں ہی آگے بڑھکراس شجر کی حفاظت کافریضہ سر انجام دینا ہو گا۔وقت بہت کٹھن ہے اور سازشیں اپنے عروج پر ہیں اور ایسے وقت میں جمہوریت کی جنگ لڑ ناجوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ یادرکھئے اس ملک کی بقا جمہوری نظام میںپنہاں ہے ۔پاکستان میں سیاسی اداکاروں او ر جوکروں کی کوئی کمی نہیں ہے انکی سیاست کا دارو مدار اسٹیبلشمنٹ کی بیساکھیاں ہیں لہذا ان بیساکھیوں کے بغیر ان کا سیاست میں سرگرمِ عمل رہنا ممکن نہیں ہے حکومتوں کی کارکردگی جمہوری بساط لپیٹنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتی اور نہ ہی ایسا کرنے کی کسی کو اجازت ہو تی ہے۔بہت سے اندرونی اور بیرونی عوامل کی وجہ سے کبھی حکومتیں بہت بڑے بڑے کارنامے سر انجام دے دیتی ہیں اور کبھی انکی کارکردگی اوسط درجے کی ہوتی ہے لیکن حکومت کی پرفارمنس اور کارکردگی جمہوریت کی گاڑی کو پٹری سے اتارنے کا پیمانہ نہیں ہوا کرتی بلکہ انتخابات میں عوام اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ انھوں نے اقتدار کس کے حوالے کرنا ہے ۔ دنیا جمہو ری سفر کی جانب تیزی سے پیشقدمی کر رہی ہے لیکن ہم ہیں کہ ہمہ وقت جمہوری سفر سے آمریت کی جانب مائلِ پرواز رہتے ہیں اور جمہوری حکومت کی رخصتی کے خواب دیکھتے اور سازشیں کرتے ہیں۔۔

ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حکومت کے خاتمے کی افواہیں ایک تواتر کے ساتھ منظرِ عام پر لائی جا رہی ہیں اوراسکی رخصتی کےلئے کو ئی ایسا نیا فارمولا تلاش کیا جا رہا ہے جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ آئینی طور پر یہ ممکن نہیں ہے کہ منتخب حکومت کو رخصت کیا جا سکے لہذا کسی ایسی راہ کی تلاش جا ری ہے جو اس کام کو ممکن بنا سکے لیکن فی ا لحا ل وہ راہ نہیں مل رہی۔ پنجاب کے عظیم سپوت میاں محمد نواز شریف اور انکی جماعت کے سر کردہ افراد کی جانب سے سپریم کورٹ میں چند درخواستیں اسی مقصد کےلئے زیرِِ سماعت ہیں دیکھئے کیا نتیجہ بر آمد ہو تا ہے۔اسٹیبلشمنٹ نے آصف علی زرداری کو نشانے پر رکھا ہوا ہے اور اسے وطن سے غداری کے تمغے سے سرفراز کرنے کی تیاری کررہی ہے اب یہ کہانی کب اور کیسے اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی پوری قوم کی نظروں کی توجہ کا مرکز بنی ہو ئی ہے۔ پنجاب کی اشرافیہ ایک دفعہ پھر اپنے ماضی کا کردار دہرانے کی مثال قائم کر رہی ہے لیکن شائد اس دفعہ نتائج وہ نہ نکل سکیں جن کی تو قعات اسٹیبلشمنٹ نے ایک مخصو ص ادارے سے وابستہ کر رکھی ہیں۔پچھلے ستاسٹھ سالوں سے بلی اور چوہے کا جو کھیل جاری ہے اسے اب اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاناچا ئیے اورپوری قوم کو یہ فیصلہ کر لینا چائیے کہ جمہوری نظام کے علاوہ ہم کسی بھی نظام کو قبول کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔باعثِ حیرت ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جہاں پر جمہوریت اپنی جڑ یں نہیں رکھتی وہ تو جمہوری رویوں کی بحا لی کےلئے جمہوری نظام کی جانب محوِ سفر ہیں لیکن وہ دھرتی جس کے خمیر ممیں جمہوریت رچی بسی ہے اور جس کی تخلیق جمہوری جدو جہد کا عظیم تحفہ ہے وہاں پر اب بھی شب خون مارا جاتا ہے اور منتخب صدر اور وزیرِ اعظم کو استعفے دینے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ فوجی جنتا اب بھی پاکستان کے مقدر کا فیصلہ کرنے میں بالکل شرمند گی محسوس نہیں کرتی حالانکہ دنیا میں فوجی جنتا کا جو عبرت انگیز حشر ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔فوجی جنتا کو شائد احساس نہیں کہ کہ ان کی انہی غیر جمہوری حرکات نے پاکستان کو دو لخت کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا ۔کا ش کوئی فوجی جنتا کو یہ بتا سکے کہ وہ جس آگ سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ آگ کسی وقت انھیں بھی جلا کر راکھ کر سکتی ہے ۔۔۔۔۔۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.