ڈاکٹرمصطفى يوسف اللداوي
ترجمہ:اشتیاق عالم فلاحی
پارلیمانی تجربات کی ممانعت تھی ، اسلامی تحریک کی قیادت کی طرف سے اجازت
اور موافقت کے بغیر انفرادی طور پر افراد حکومتوں میں شامل ہوتے تھے۔ کیا
اس دور کے بعد اب اسلامی تحریکات کی حکومت کا دور شروع ہو چکا ہے؟ حکمرانی
میں ان کی شرکت کے دن آچکے ہیں؟ اسلامی تحریکات پہلے حکومتوں میں شرکت، یا
حکومت میں حصّہ داری کی اجازت نہیں دیتی تھیں، ان کے خیال میں موجودہ
حکومتی نظام غلط، لا مذہبی، یا آمرانہ اور ظالمانہ، یا خائن اور دوسروں کا
آلہٴ کاراور دسروں کے اشاروں پر چلنے والا کمزور نظام تھا۔ چنانچہ اس
تنظیمی فیصلے کی خلاف ورزی کرکے حکومتی وزارت میں شامل ہونے والے ہر فرد کو
تنظیم سے علٰحدہ یا معطّل قرار دیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ سے جن افراد نے بھی
حکومت میں شرکت کی، ان کی حیثیت انفرادی اور اپنی اسلامی تحریک و تنظیم کی
آراء و افکار کی ترجمانی کرنے کے بجائے ان کی ذاتی آراء و افکار کی آئینہ
دار تھی۔
البتّہ آج صورتِ حال یہ ہے کہ انتخابات میں کامیابی سے انہوں نے ثابت کر
دیا ہے کہ اپنی کارکردگی اور نظامِ تنظیم میں یہ سب سے مستحکم ہیں، ان کی
جڑیں انتہائی مضبوط ہیں، ان کی اپنی تاریخ ہے، ان کے ممبران اور دست و بازو
انتہائی متحرّک ہیں، اور ان کی سرگرمیاں دوسروں سے بہت بڑھ کر ہیں۔ اب
اسلامی قوتیں حکومت کی تشکیل کر رہی ہیں، پالیسیاں بنا رہی ہیں، اپنے ملک
کے لئے عمومی لائحہٴ عمل طئے کر رہی ہیں، اور معاشیاتی، ترقّیاتی، اور
تعلیمی منصوبے بنا رہی ہیں۔
ان تحریکات کو سب سے زیادہ ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ پارلیمنٹ اور ایوانوں میں ان
کی نشستیں اکثریت میں ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں عوام کا
اعتماد اور قوم کی تائید حاصل ہے۔
آخر کیا بدل گیا کہ اسلامی قوتوں نے سیاسی زندگی میں قدم رکھا۔ گزشتہ سیاست
سے کنارہ کشی اور لاتعلّقی کو چھوڑ کر سیاسی زندگی میں پیش رفت اور حکمرانی
کے لئے مسابقت میں یہ لگ گئی ہیں۔ کیا سیاست کا مفہوم بدل گیااور سیاسی
افکار بدل گئے کہ اب یہ سیاست قابلِ قبول بن گئی اور یہ قوتیں تمدّنی حکومت
اور عصری زندگی کے لئے پیغام رساں بن گئی ہیں؟ بہت سے علماء اور دین کے
حاملین ان تحریکات کے لئے یہ جائز سمجھنے لگے ہیں کہ یہ ایسی حکومتوں اور
وزارتوں میں شامل ہو جائیں جو اسلام کو اپنا نظام اور طریقہٴ زندگی نہیں
تسلیم کرتیں۔ کیا یہ تحریکات اس بات سے اُکتا گئی ہیں کہ زندگی کے حاشیہ پر
دوسروں کی محتاج اور دستِ نگر بن کر رہیں،اپنا کوئی نقطہٴ نظر نہ پیش کر
سکیں، نہ وہ حکومت میں شامل رہیں نہ حزبِ اختلاف بن کر رہیں۔ یا عوام اپنے
پرانے حکمرانوں سے گھبرا چکی ہے، ان کی شخصی، خون آشام، استبدادی اور گروہی
پالیسیوں سے تھک چُکی ہے اور نظامِ حکمرانی میں تبدیلی چاہتی ہے، اس لئے
انہوں نے اُن کی جگہ پر اچّھے لوگوں کو لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
یا پھر بین الاقوامی سطح پر ان کی راہ میں حائل بڑے کھلاڑیوں کو یہ اطمینان
ہو گیا کہ اسلامی تحریکات کے افکار صحیح ہیں، ان کی پالیسیاں مبنی بر
اعتدال ہیں، انہوں نے تشدّد اور دہشت گردی کا راستہ چھوڑ دیا ہے، اب یہ
دوسروں کو قبول کرنے کے لئے تیّار ہیں، دوسروں کی رعایت کے پیشِ نظر اب ان
میں معنوی تبدیلی آچکی ہے، انہوں نے بہت سی فکری میراث اور اعتقادی مسلّمات
سے دوری اختیار کر لی ہے، اور ان سےاب کوئی خطرہ باقی نہیں رہا، یہ ویسے ہی
ہیں جیسے دوسرے ہیں، دوسروں اور ان میں کوئی فرق نہیں رہا، اُن ہی کی طرح
یہ بھی عہد و میثاق کی پابندی کریں گی، یہ بھی پہلے سے طئے پائے بین
الاقوامی معاہدوں کی پابندی کریں گی، اور آج جو صورتِ حال ہے اس کو باقی
رکھنے میں ان کے نزدیک کوئی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ اسے بدلنے کا نہ اُن میں
ارادہ ہے اور نہ ہی طاقت چنانچہ اُن پر کوئی اعتراض باقی نہیں رہا اور اُن
پر سے عائد پابندی اٹھا لی گئی۔
بڑی غلطی پر ہے وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ امریکہ ، مغربی و یورپی ممالک اور
عالمی استعمار کے قدیم و جدید کُوچہ گرد اسلامی قوتوں کے ستارہٴ اقبال کی
بلندی، اسلامی تحریکات کی کامیابی، ان کی طرف سے تشکیلِ حکومت کی کوشش،
وزارتوں کی تقسیم اور پالیسی سازی سے خوش ہوں گے، یا وہ اس بات سے خوش ہوں
گے کہ عرب عوام اس لئے انتخابی صندوق کا رخ کریں کہ آزاد اور شفّاف
انتخابات میں حصّہ لے کر اسلامی قوتوں اور ایسی آزاد شخصیّات کو منتخب کریں
جو مغرب مخالف پالیسیوں اور امریکہ سے متصادم حکمتِ عملی کے حامل ہوں۔ مغرب
خوش نہیں ہے۔ وہ اس وقت بھڑک رہا ہے، اس بیداری سے متنفّرہے بلکہ وہ
انتہائی کرب، تکلیف اور رنج میں ہے۔ وہ یہ محسوس کر رہا ہے کہ گویا کوئی
بھیانک خواب دیکھ رہا ہو، وہ ابھی نیند اور غفلت میں ہے جس سے وہ جلد ہی
بیدار ہوگا۔ لیکن اسے یہ بھی پتہ ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہ ایک حقیقت
ہے واہمہ نہیں۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے۔ عملاً ایسا ہونا کل تک محال تھا پر
آج نہیں ہے، اور اس کے سامنے بس یہی راستہ ہے کہ اس صورتِ حال کو قبول کرے
یا اس پر خاموشی اختیار کرے یا جھوٹ اور نفاق کا راستہ اختیار کرتے ہوئے
دھوکہ دہی اور سازش کا جال پھیلانے کے لئے منصوبے بنائے۔
بڑی غلطی پر ہے وہ جو یہ سمجھتا ہے کہ مغرب نئی حکومتوں کو ان کی حکمرانی
کے تجربہ میں کامیاب کرنے کے لئے اس کی طرف دستِ تعاون دراز کرے گا۔ ان کے
لئے تعاون کے ایسے دروازے کھولے گا جن سے وہ کامیابی اور امتیازی شناخت
حاصل کر سکیں گے۔ اپنے ملک کو ترقّی، خوشحالی، اور شادابی کے راستے پر لے
جا سکیں گے۔ ان کی عوام کو آزادی، امن و امان اور کشادگی حاصل ہوگی۔
حکمرانی کے اسلامی تجربہ سے مغرب کبھی بھی خوش نہ ہوگا۔ اسلام پسندوں سے
ملتے وقت یا کیمرہ کے سامنے آتے وقت ان کے ہونٹوں پر نظر آنے والا تبسّم
محض ایک فریب ہے، یہاں پر وہ ہنسنے کے لئے مجبور ہیں۔ اسلامی تحریکات کے
قائدین حکومتی وزیر اور مملکت کے سربراہ بن جائیں تو اس وقت ان سے ہاتھ
ملاتے ہوئے مغربی قائدین کو کوئی خوشی نہ ہوگی۔ اگر مغرب کو اپنا فیصلہ
نافذ کرنے کا اختیار دیا جائے تو وہ الجزائر کی مثال کو دہرائے گا خواہ اس
کے لئے خونی کھیل ہی کیوں نہ کھیلنا پڑے۔ اس کے لئے قابلِ ترجیح یہ ہوگا کہ
انتخابات کے نتائج میں الٹ پھیر کر دے، اور حکمرانی کے تاج پر اسلامی قوتوں
کے ہاتھ جو جمہورت سجائی جا ئے گی وہ اُسے اتار پھینکے، اس لئے کہ عالم ِ
عرب کی کوئی ایسی جمہورت انہیں پسند نہیں جو ان کے مفادات کی قیمت پر ہو،
جو ان کی پالیسیوں کے خلاف ہو، جو ان کے منصوبوں کو تہہ و بالا کر دے، جو
ان کے ارادوں سے مزاحم ہو، جو عربوں کے وقار اور عرب شناخت کے تحفّط کی
کوشش کرے، جواس بات کو نامنظور کرے کہ عرب کے قیمتی اثاثے اور ان کے بہترین
وسائل لُٹیں اور مغرب کا مالِ غنیمت بنیں، معمولی قیمت کے عوض وہ ان پر
مسلّط ہو جائے، ان کو اور ان کی مارکیٹ کو کنڑول کرے، اور عربوں کو ان کے
اپنے خزانوں اور زمینی معدنیات سے محروم کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ عرب عوام اپنے ان حکمرانوں کے خلاف ہوچکی ہے جنہیں مغرب نے
ہمارے ملک پر مسلّط کیا تھا، جنہیں اپنے اہداف کا امین بنایا تھا، جنہیں
اپنی پالیسیوں کے نفاذ کا پابند بنایا تھا، اور جنہیں اپنے منصوبوں کا
نگہبان اور اپنے مفادات کا خدمت گزار بناکر ان کے منصب کو تحفّظ فراہم کیا
تھا، اور انہیں ایسی کھونٹیوں سے باندھ دیا تھا جس نے انہیں ذلّت و رسوائی
کا خوگر بنا دیا، وہ ہر رسوائی پر راضی رہے۔ بس ایک ہی شرط ان کے لئے کافی
تھی کہ وہ حکمرانی کے منصب سے چمٹے رہیں۔ لیکن عرب مردوں، عورتوں اور
جوانوں نے ظلم و استبداد کے خلاف آواز اٹھا کر پیچھے چلنے سے انکار کر دیا۔
یہ اُن چور، جلاد، دوسروں کے آلہٴ کار ، خائن، غلام، مغرب زدہ اور غیر
عربوں کے دلدادہ حکمرانوں سے اکتا چکے تھے، چنانچہ پوری عرب عوام نے ان کے
خلاف انقلاب کا تہیّہ کر لیا۔ زمین سے اُن کی جڑوں کو نکالنے، اورہماری
زمین میں گھُس آئے خود رَو پودوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے یہ نکل پڑے۔
انقلاب نے ان کا صفایا کر دیا، انتخابات نے انہیں دور پھینکا اور قانونی
طریقے سے یہ اپنے مناصب سے نکال پھینکے گئے۔ عوام نے اپنی خوشی اور پسند سے
دوسروں کو منتخب کیا، ان کا انتخاب کرتے وقت عوام ان کی حقیقت سے آگاہ ہے،
ان کے منصوبوں سے بھی واقف ہے، ان سے وابستہ افراد کے کرداروں کو وہ جانتی
ہے، ان کے حوصلے اور ان کی سچّی غیرت بھی ان کے سامنے ہے۔ چنانچہ عوام نے
انہیں اپنا حکمراں تسلیم کیا، اپنے اداروں کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں دی،
انہیں اپنے مستقبل کا امین بنا کر انہیں اپنے وسائل کا نگہبان قرار دیا۔
اسلامی تحریکات نے خیر کے جو بیج بوئے تھے یہ اُس کا نتیجہ ہے۔ جس پاکیزہ
ثمر کی انہوں نے نگہداشت کی تھی، جس کی حفاظت کی تھی اور سالہا سال تک جس
کی آبیاری کی تھی آج وہی پھل ان کے ہاتھوں میں ہے۔ آج یہ قوم کی آرزو اور
ان کے اعتماد کا مرکز ہیں۔ انہیں اپنے چاہنے والوں اور پچھلے حکمرانوں سے
نفرت کرنے والوں کے ووٹ ملے ہیں۔ عوام نے یہ جانتے ہوئے ان کا انتخاب کیا
ہے کہ یہ مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے ہیں اور اس کے
ارادوں کو خاک میں ملانے والے ہیں۔ عوام نے حرّیّت، شرف، اور آزادی حاصل
کرنے کے بعد کسی خوف کے بغیر پوری گھن گرج کے ساتھ اپنی بات کہی تاکہ وہ
نئی حکومتیں جن سے وابستہ افراد نے بڑی تکلیفیں برداشت کی ہیں، قید و بند
کی سزائیں سہی ہیں، قتل کئے گئے ہیں اور وطن بدر کئے گئے ہیں، اپنی ذمہ
داری کو سمجھیں گی۔ بہتر طریقے سے امانت کا حق ادا کریں گی۔ عوام کی خدمت
کے لئے اقتدار کا استعمال کریں گی، حکومت کی چمک دمک اور اس کے فتنے ان کے
قدم نہ ہلا سکیں گے، یہ دوبارہ اپنی عوام کو تکلیف اور عذاب میں مبتلا نہیں
کریں گی کہ عوام ان سے بھی چھٹکارے کے لئے دعا کرے۔ |