آج پاکستان کی طرف نظر اٹھا کر
دیکھا جائے تو بے اختیار منہ سے نکلے گا کہ یہ تو مسائلستان ہے اور حکومت
کو دیکھیں تو وہ بھی لڑاؤ لڑو اور حکومت کرو کی پالیسی پرپوری طرح عمل پیرا
ہے جبکہ دور دور تک اس مملکت خداداد کے مسائل کو حل کرنے میں مخلص کوئی بھی
نظر نہیں آتا ۔کوئی بات کرتا ہے تو صرف پنجاب کی اورکسی نے اپنا نعرہ روٹی
،کپڑااور مکان لگا رکھاہے ۔دوسری طرف انقلاب کے لئے نوجوانوں کو دعوت دی
جارہی ہے اور کوئی غربت کے خاتمہ کے لئے جاگیردار کو للکار رہا ہے ۔غربت ،مہنگائی
،بے روزگاری ،کرپشن،گیس وبجلی کا بحران ، ان مسائل میں سے کچھ مسائل گزشتہ
کئی دھائیوں سے حل طلب ہیں مگر حکومت ان کے حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں
آتی۔ غریب پہلے بھی کسمپرسی کی زندگی گزار رہا تھا اور آج بھی اس کی فریاد
کہیں سنی جارہی ۔مومن نے کہا تھا
کیوں سنے عرض ِ مضطر اے مومن
صنم آخر خد ا نہیں ہوتا
بلکل درست کہا تھا کیوں کہ خدا کے سوا مضطر کی بھلا سنتا بھی کون ہے ۔علاقائی
سطح کے مسائل سے لے کر ملکی سطح تک کے چیلنجز تک ان مسائلوں کی ایک فہرست
بنائی جا سکتی ہے مگر ان سب میں سے ایک اہم ترین مسئلہ صوبہ بلوچستان کا ہے۔
یہ صوبہ اور خاص کر پسماندہ علاقوں کے مسائل وطن عزیز کے وجود میں آنے سے
لے کر آج تک حل نہیں کیے جاسکے اور یہی وجہ ہے کہ اب تک اس صوبے میں بلوچ
علاقے کی علیحدگی کےلیے کل ۵ تحریکیں وجود میں آئیں ان میں سے پہلی تحریک
جو 1947ءمیں میر احمد یار خان اور اس کے بھائی نے چلائی اس تحریک کو
قائداعظم اور ان کے رفقاءنے افہام و تفہیم سے حل کر دیا مگر اس کے بعد جو
چار تحریکیں مختلف ادوار میں چلیں ان کو یا تو طاقت کے بل بوتے پر دبایا
گیا یا صرف بلوچ سرداروں کو بھاری رقم ادا کر کے خاموش کر دیا گیا اور کبھی
اس امر کی طرف توجہ نہیں دی گئی کہ آیا وہ کون سی وجوہات اور مسائل ہیں جن
کی بنیاد پر یہ تحریکیں اٹھیں۔ ان کی پشت پر وہ کون سا ہاتھ ہے جو ان کو
علیحدگی پر ابھار رہا ہے۔
اب اگر ہم ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوئے غور کریں تو ذہن میں کئی قسم
کے سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا حکومت نے غریب بلوچ عوام کے مسائل کی طرف
توجہ دی ہے؟ آیا بلوچستان کے دور دراز دیہاتوں میں سکول، ہسپتال، تھانہ،
عدالت اور کوئی رفاہی ادارہ موجود ہیں ؟آیا وہاں پر پانی، بجلی اور سڑک کی
بنیادی سہولیات موجود ہیں ؟آیا کبھی بلوچ عوام کو سرکاری کوٹے میں سے ان کا
حق دیا گیا ہے؟ حکومت نے وہاں رائج ظالمانہ سرداری نظام کی بیخ کنی کے لیے
سنجیدہ کوشش کی ہے؟ آیا صوبہ بلوچستان کے لیے مختص فنڈ اس کے ہر ہر علاقے
میں صحیح طور پر خرچ کیا گیا ہے؟ جب ان حالات کے باوجود ان کی نہیں سنی
جارہی آخر کب تک تغافل سے ان کے حالات پر ہی ان کو چھوڑاجائے گا ۔بے جا صبر
کا امتحان آخر لاوا بن کر ابلتا ہی ہے ۔حسرت موہانی بھی اسی طرف اشارہ کر
کے گئے ہیں ۔
کب تک کسی کے نازِ تغافل اٹھائے دل
کیا امتحانِ صبر کی کچھ انتہا نہیں
ان سوالات کے جوابات نفی میں ہوں تو وہاں سے علیحدگی کی تحریکوں کا اٹھنا
لازمی امر ہے۔ اگر صوبہ بلوچستان کے بارے میں غور کیا جائے تو اس صوبے کی
آبادی کا 82 فیصد حصہ بلوچ قوم پر مشتمل ہے اور ان میں کئی گروپ ہیں اور ہر
ایک گروپ کا نظریہ دوسرے گروپ سے الگ ہے اس کے ساتھ ساتھ بلوچ قوم میں لیڈر
شپ کا بھی فقدان ہے۔ مگر اس کے باوجود اس علاقے میں کوئی سرکاری اہل کار،
دوسری قوم یا دوسرے علاقے کا انسان محفوظ نہیں اور یہ امر بھی قابل غور ہے
کہ اس کے پس پردہ حقائق کیا ہیں ذرا غور کیجئے کہ پسماندہ علاقہ ہونے کے
باوجود اس قوم کے پاس اتنا جدید اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟ کیوں نہ پانی سرسے
گزر جانے سے پہلے سوچ لیا جائے کہ بلوچستان کا بلوچی کیا چاہتا ہے۔آخر وہ
ہم سے ناراض کیوں ہے ؟ اس قوم کو پاک فوج سے لڑنے کی تربیت کون دیتا ہے؟ ان
لوگوں کو اقوام اور افواج پاکستان کے خلاف کون اکساتا اور ابھارتا ہے؟ وہ
پاک فوج اور سرکاری اہل کاروں سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟ وہ پاکستانی قوم
کو اپنی قوم اور پاکستانی فوج کو اپنی فوج تسلیم کرنے سے کیوں انکاری ہیں؟
درحقیقت صوبہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس کے
ساتھ ایران اور افغانستان کی سرحدیں ملتی ہیں اور اس صوبے کے کنارے ساحل
سمندر بھی موجود ہے جو کہ ایک کامیاب بندرگاہ بن سکتی ہے اس صوبے میں قدرتی
گیس اور پٹرول کے ذخیرہ وافر مقدار میں ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ صوبہ ہمارے
تینوں پڑوسی ممالک کے لیے نہایت اہمیت کا حامل ہے اور ان ممالک کی نظریں اس
صوبے پر جمی ہوئی ہیں۔ اب تک کی جانے والی تحقیقات کے مطابق اس قوم کو
اسلحہ ایران اور بھارت فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ بلوچ سرداروں کو وافر
مقدار میں رقم بھی دی جاتی ہے جو کہ وہ اپنی فوج پر تقسیم کرتے ہیں۔
مگر ہماری بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اب تک اس طرف توجہ نہیں دی گئی کہ احساس
محرومی کا شکار بلوچ قوم کے مسائل حل کیے جائیں۔ ان کے احساس محرومی کو ختم
کیا جائے۔ ظاہراً حالات کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان پاکستان
کا صوبہ ہی نہیں ہے اور نہ ہی بلوچ قوم پاکستانی قوم ہے نہ ہی پاکستان میں
کوئی انٹیلی جنس ادارہ ہے جو پس پردہ حقائق کو معلوم کرسکے اب موجودہ حکومت
کو چاہیے کہ وہ اس اہم مسئلے کی طرف توجہ دے اور بلوچ قوم کے احساس محرومی
کو دور کر کے اور ان کو درپیش تمام مسائل سنجیدگی سے حل کرے۔ ان کو زندگی
کی بنیادی سہولیات فراہم کرے اور ان پس پردہ محرک ہاتھوں کا پتہ لگائے کہ
یہ کون سے ہاتھ ہیں جو کہ ان کو علیحدگی پر ابھار رہے ہیں تاکہ دشمن کے ان
ہاتھوں کی بیخ کنی کی جاسکے اور صوبہ بلوچستان امن کا گہوارہ بن جائے۔اگر
اب بھی سنجیدگی سے اس کا حل نہ سوچا گیا تو پھر بادل ِ نا خواستہ کہ ایسا
وقت نہ دیکھنا پڑے کہ لمحوں نے خطا کی تو صدیوں نے سزا پائی ۔ |