1952ء میں میانوالی کے علاقے میں
اکرام اللہ خان نیازی کے گھرجنم لینے والے عمران احمدخان نیازی نے اعلیٰ
تعلیم کے حصول کے بعدکرکٹ کواپناذریعہ معاش بنایا اوراپنی محنت اورلگن سے
پاکستان کی کرکٹ ٹیم کاکپتان بن گیا،جوایک پسماندہ گاؤں کے شیرمانخیل قبیلے
ہی کے لیے نہیں ،تمام اہل پنجاب وسرحدکے لیے ایک بڑااعزازتھا۔1971ء سے شروع
ہونے والاس نوجوان کاکرکٹ کیریئربلاشبہ اپنی ابتداسے انتہاتک کامیابیوں سے
عبارت ہے۔1992ء میں ورلڈ کپ وطن عزیزکی گودمیں ڈال کرعمران خان نے کرکٹ سے
علیحدگی کااعلان کیا۔اس کے بعداس کی تمام ترتگ وتازکامحوراپنی مرحومہ والدہ
کے نام پرایک کینسرہسپتال قائم کرنے پرمرکوزرہی،جس میں اس نے جلدہی کامیابی
حاصل کی،جس میں عوام وخواص میں اس کوحاصل مقبولیت کے ساتھ ساتھ اس کے انتھک
جذبے کابھی بڑادخل تھا۔اپنے قیام سے لے کراب تک شوکت خانم میموریل ہاسپٹل
سے صحت یاب ہونے والے کینسر کے مریضوں کی تعدادیقیناہزاروں میں ہے۔
عمران خان نے جوبراڈفورڈ یونیورسٹی کے بانی اورچانسلر بھی ہیںاور پولیٹیکل
سائنس، اکنامکس اور فلسفہ میں ماسٹرز کی ڈگریاں رکھتے ہیں،اپریل 1996ء میں
پاکستان تحریک انصاف کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیادرکھی،جس کے اساسی
ارکان میں حامد خان،اعجاز چوہدری،ایڈمرل جاوید اقبال،شاہد ذوالفقار
علی،یوسف ملک گبول،فوزیہ قصوری اورعمر سرفراز چیمہ شامل تھے،یہ تمام نام
بساط سیاست کے لیے اجنبی تھے،جس کی بناپرمیدان سیاست کے برزجمہروں
کاکہناتھاکہ یہ جماعت ''ون مین شو''ثابت ہوگی،جوکسی حدتک غلط بھی نہیں
تھا۔اکتوبر 2002 ء کے قانون سازی اسمبلی کے انتخابات میں اس پارٹی کو 0.8
فیصد ووٹ ملے،یوں کل 272 ممبران میں سے ایک ممبر تحریک انصاف کی طرف سے
منتخب ہوا۔ اسی طرح صوبائی انتخابات میں صوبہ سرحد کی طرف سے بھی تحریک
انصاف کا ایک رکن منتخب ہوا۔
عمران خان مختلف وقتوں میں مختلف جماعتوں اورافرادکے ساتھ رہے۔ایک وقت میں
وہ بدنام زمانہ آمرپرویزمشرف کے بھی خاص لوگوں میں شامل سمجھے جاتے تھے،جب
وزارت عظمیٰ کی منزل انتہائی قریب تھی توراستے بدل دیا۔کسی دورمیں وہ
طالبان کی بولی بھی بولتے رہے۔کبھی انہوں نے ڈاکٹر مہاتیر محمد کو
اپناآئیڈیل کہا،توایک دورمیں''بناسپتی شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہرالقادری'' کی
زلف گرہ گیرکے بھی اسیرہوئے۔بنیادی طورپروہ اپنے ماضی کے برعکس اسلام کی
طرف مائل دیکھے گئے،اس حوالے سے انہیں عوام میں کافی پذیرائی بھی حاصل
ہوئی۔قصہ کوتاہ ان کاکوئی انقلابی اقدام سامنے آسکااورنہ ہی ان کی سمت
کاواضح طورپرتعیین کیاجاسکا۔کہنے والوں نے انہیں بساط سیاست کا ایک ناکام
کھلاڑی تک قراردے ڈالا،جس کی اپنی کوئی واضح سوچ اورمنزل نہیں ہوتی اوروہ
اپناقداونچاکرنے کے لیے اپناوزن کبھی کسی کے پلڑے میں ڈالتاہے تو کبھی کسی
کے۔اس صورت حال کودیکھ کرنہیں لگتاتھاکہ آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف
کوئی مقام حاصل کرسکے گی۔
حال ہی میں ،جبکہ انتخابات کاموسم قریب آگیاہے،عمران خان نے اچانک تبدیلی
اورانقلاب کی بات کی۔اس مقصدکے لیے انہوں نے عوامی جلسے کیے
اوراپنامنشورعوام کے سامنے رکھاکہ تحریک کا منشورقوم کی عزت نفس کو برقرار
رکھتے ہوئے ایک ایسا منصف معاشرہ تشکیل دینا کہ جس کی بنیاد میں انسانی
اقدار شامل ہوں۔ تحریک انصاف حقیقی اقتدار اور لوگوں کو ان کی مرضی کے
سیاسی اور معاشی مقاصد کو معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی اقدار کے مطابق چننے
کا اصل حق دے گی۔ ہم ایک ایسی تحریک کے داعی ہیں جس کا مقصد انصاف پر مبنی
آزاد معاشرہ ہو۔ ایک آزاد اور مستحکم جدید اسلامی ریاست بنائی جا
سکے،پاکستان کے وسائل کوبروئے کارلاتے ہوئے امریکہ سمیت تمام طاقتوں کی
غلامی سے نجات حاصل کی جائے،عوام کوان کی دہلیزپرانصاف فراہم کیاجائے،بے
روزگاری،مہنگائی اورجہالت وناخواندگی سے نجات حاصل کی جائے۔ان کے جلسوں
کوناقابل یقین حدتک پذیرائی حاصل ہوئی۔اس کے ساتھ ساتھ بساط سیاست کے بہت
سے آزمودہ کھلاڑی بھی اس کے ہم رکاب ہوئے،جن میں شاہ محمودقریشی،میاں
محمداظہر،خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر
آبپاشی پرویز خٹک اوراعظم خان ہوتی وغیرہ بطورخاص قابل ذکرہیں۔عمران خان نے
اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی،بلکہ ان کاکہناہے کہ تحریک انصاف میں
جوبھی آئے گا،اسے خوش آمدیدکہاجائے گا،تاہم پارٹی کا پارلیمانی بورڈ ایسے
لوگوں کو ٹکٹ نہیں دیگا جو کسی بھی قسم کی مالیاتی کرپشن میں ملوث ہوں
گے۔یہ تووقت بتائے گاکہ پارلیمانی بورڈ اس بات پرکس حدتک عمل پیراہوسکے
گا،بادی النظرمیںیہ بات تقریباًناممکن نظرآتی ہے،کیونکہ کوئی بعیدنہیں کہ
اس وقت ''کلین سویپ''کرنے کے لیے خان صاحب ارشادفرمادیں کہ کوئی فرشتہ نہیں
ہے،جوجس علاقے سے جیت سکتاہے اسیوہاں سے ٹکٹ دیے
دیاجائے۔اگرایساہوگیاتوخاکم بدہن یہ تمام نعرے ،خلافت راشدہ کانظام لانے کی
باتیں اورعوام کوریلیف دینے کے ارادے وعزائم خاک میں مل جائیں گے،جواس
بھولی بھالی قوم کے ساتھ ایک اورسنگین مذاق ہوگا۔
خیبرپختونخوا اورپنجاب میں ''کلین سویپ''کرنے کے بعداب خان صاحب کراچی
تشریف لارہے ہیں ،ان کاکہناہے پچیس دسمبر کے تاریخی جلسے میں نئے پاکستان
کا پروگرام پیش کیا جائے گا،کراچی میں نفرتوں کی سیاست ختم کرنے کیلئے جا
رہے ہیں۔اللہ کرے ایساہی ہو،ورنہ اب تک تویہی ہوتاآیاہے کہ جس نے نفرتوںکی
خلیج کوپاٹنے کے جتنے زیادہ باغ دکھائے ہیں وہ اتناہی بڑانفرتوں
کاسوداگرثابت ہواہے۔کراچی کے عوام کوخان صاحب کی آمداورآفاق احمدکی رہائی
کی خوشی سے زیادہ یہ خوف کھائے جارہاہے کہ کہیں پھرسے لاشیں گرانے کامکروہ
سلسلہ شروگ نہ ہوجائے۔بعض علاقوں میں مہاجرحقوق کے متحارب فریقوں کی جانب
سے ''پہرے''کے آغازکی خبریں اس خوف میں اوراضافہ کررہی ہیں۔کاش خان صاحب
واقعی نفرتوں کی خلیج کوپاٹنے کاذریعہ بن جائیں۔ |