کوئی شک نہیں کہ انتخابات جمہوریت کی ایک
گاڑی ہے، قوم اِس میں اس لیے بیٹھتی ہے کہ یہ جمہوریت کی منزل تک لے جائے۔
لیکن اگر گاڑی میں خطرناک قسم کی خرابیاں آجائیں، انجن فیل ہو جائے، یا اس
سے تیل بہہ کر آگ لگ جائے، یا گاڑی کی بریکس فیل ہو جائیں تو اس سے مہلک
حادثہ ہو سکتا ہے اور سواریوں کی ہلاکت اور جان کے تلف ہونے کا ڈر ہے۔ اس
کے لیے ضروری ہے کہ جب گاڑی میں خرابی واقع ہو تو اس کے چلانے پر اصرار نہ
کیا جائے بلکہ اسے ورکشاپ بھیجا جاتا ہے تاکہ جو جو خرابیاں موجود ہیں
انہیں دور کرکے محفوظ سفر کے لیے تیار کیا جاسکے۔ چنانچہ مرمت کرا کے اس
گاڑی کو پھر track پہ ڈالتے ہیں اور سفر پر روانہ کرتے ہیں، تب سلامتی کے
ساتھ منزل تک پہنچنے کا امکان ہوتا ہے۔
نظامِ انتخاب کی جس گاڑی کے ذریعے آپ جمہوریت کی آئیڈیل منزل تک پہنچنا
چاہتے ہیں اس میں بڑی خطرناک خرابیاں آچکی ہیں۔ یہ خرابیاں موجودہ دور سے
نہیں بلکہ پچھلے چالیس پچاس برس سے مسلسل بڑھتی جارہی ہیں اور اب انتہا پر
جا چکی ہیں۔ بنابریں اس گاڑی کے اب مزید سلامتی کے ساتھ چلنے اور منزل تک
پہنچنے کے کوئی امکانات نہیں رہے۔
اس سیاسی نظام میں شراکت داری کی مثال ان مسافروں کی مانند ہے جو کراچی
جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوتے ہیں مگر بدقسمتی سے اس ٹرین کا رُخ پشاور
کی طرف ہوتا ہے۔ اب اگر وہ سالوں تک اس پر سوار رہیں مگر منزل پر نہیں پہنچ
سکیں گے۔
پاکستان میں موجود نظام انتخاب کے ذریعے قائم ہونے والی اسمبلیوں کی مثال
نمک کی کان کی طرح ہے ہر کہ در کان نمک می رود نمک می شود (جو اس میں گیا
وہ نمک بن کر رہ گیا)۔ اب اگر 20 یا 25 منتخب افراد حقیقی تبدیلی کے خواہاں
بھی ہوں تو چار سو کی اسمبلی میں ان کی آواز کون سنے گا! نتیجہ یہ ہوگا کہ
گندے انڈوں میں رہ کر وہ بھی گندے ہو کر غیر مؤثر ہو جائیں گے۔ ان کو یقینا
دو میں سے کسی ایک پلڑے میں جانا ہوگا؛ اپنے سیاسی وجود کو قائم رکھنے کے
لیے گورنمنٹ میں شامل ہونا ہو گا یا اپوزیشن میں۔ اگر حکومت میں شامل ہوئے
تو بس اقتدار تمام تر برائیوں سمیت ان کی منزل ہوگی اور 5 سال اقتدار بچانے
پر صرف ہوں گے اور قوم کو کچھ نہیں ملے گا اور اگر اپوزیشن میں ہوں گے تو 5
سال اقتدار پر بیٹھی حکومت کو گرانے پر صرف ہوں گے ۔ اس کے سوا اس اسمبلیوں
نے کچھ نہیں دینا۔ میں خود اسمبلی ممبر رہا مگر جب یہ اَمر مجھ پر روزِ
روشن کی طرح عیاں ہو گیا تو میں نے اس کو چھوڑنے میں ایک لمحے کا توقف نہیں
کیا۔ اگر کوئی جماعت یہ سوچے کہ 400 کی اسمبلی میں وہ دو سو سیٹیں یا سوا
دو سو سیٹیں لے کے آجائے تو اِس وقت سہانے خواب کے سوا اس کی کوئی حقیقت
نہیں۔ |