اس کرپٹ نظام کے حمایتی دانش ور
جمہوریت کی خوبیاں بیان کر کے دراصل پاکستانی عوام کو ورغلاتے ہیں۔ وہ
جمہوریت کے ثمرات کے حوالے سے ترقی یافتہ ملکوں کی مثالیں دیتے ہیں۔ یاد
رکھیں! یہ ان کی بدنیتی ہے۔ ورنہ جن ملکوں کی وہ مثالیں دیتے ہیں اُن میں
امریکہ کو لیں تو وہاں دو پارٹیز سسٹم ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی جو اس وقت حکومت
کر رہی اور ری پبلکن پارٹی۔ ایک کے پاس 240 سیٹیں ہیں اور دوسرے کے پاس
192۔ بلیک میلنگ کے امکانات نہیں ہیں۔ اسی طرح برطانیہ کی پوری تاریخ میں
دو پارٹیز رہی ہیں : کنزرویٹو پارٹی اور لیبر پارٹی۔ ایک حکومت میں جبکہ
دوسری اپوزیشن میں ہوتی ہے۔ اب پہلی دفعہ لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی 57 سیٹیں
لے کر سیاست میں آئی ہے تو کنزویٹو اور لبرل دونوں نے مل کر حکومت بنائی ہے۔
ان ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں کبھی 10، 15 جماعتوں اور دھڑوں کو ملاکر
حکومت بنانے کی نوبت نہیں آتی۔ لہٰذا ان کی جمہوریت پائداری کے ساتھ چلتی
رہتی ہے۔
کینیڈا کو لے لیں تو وہاں تین بھی پارٹیاں ہیں : کنزویٹو پارٹی، ڈیموکریٹک
پارٹی اور لبرل پارٹی آف کینیڈا۔ بالعموم دو پارٹیوں سے کام چل جاتا ہے
لیکن ضرورت پڑے توتیسری چھوٹی پارٹی کو ساتھ ملا لیا جاتا ہے، کوئی جوڑ توڑ
نہیں کیا جاتا، عموماً ایک پارٹی ہی حکومت بناتی ہے۔
جرمنی میں اگرچہ زیادہ پارٹیاں ہیں مگر بڑی پارٹیاں دو ہی ہیں ان میں کبھی
ایک پارٹی تنہا یا ایک آدھ پارٹی کو ملا کر حکومت بناتی ہے۔
اِسی طرح اٹلی میں دو بڑی پارٹیاں ہیں، 276 سیٹیں ایک کے پاس ہیں اور 217
دوسری کے پاس۔ کسی دوسری پارٹی کو ملانے کی ضرورت نہیں۔ اگر کبھی ساتھ
ملانے کی ضرورت ہو جائے تو صرف ایک پارٹی کا اِضافہ ہوتا ہے اور کوئی بلیک
میلنگ کے امکانات نہیں ہوتے۔
اسپین میں دو پارٹیز سسٹم ہے : Spanish Socialist Worker اور پیپلز پارٹی۔
ایک کی 169 سیٹیں ہیں، دوسری کی152۔ تیسری پارٹی 10 سیٹوں کے ساتھ ہے لیکن
اُسے ملانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
اب جنوبی کوریا کو لیں۔ اس میں گرینڈ نیشنل پارٹی کی 171 سیٹیں ہیں جبکہ
ڈیموکریٹک پارٹی کی 87 سیٹیں ہیں۔ تیسری پارٹی کی 16 سیٹیں ہیں اس کو ساتھ
ملانے کی ضرورت نہیں۔
ان ممالک میں عموماً مجموعی طور پر two پارٹیز سسٹم ملتا ہے جس سے مجموعی
طور پر کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ یہ چند مثالیں اس لیے دیں تاکہ آپ کو معلوم
ہو سکے کہ جہاں حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے عوام مستفید ہوتے ہیں وہاں
عموماً دو پارٹیز سسٹم ہے، اس لیے وہاں بلیک میلنگ کے امکانات نہ ہونے کے
برابر ہوتے ہیں۔
اِس کے برعکس پاکستان کی سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے، یہاں کئی سیاسی
جماعتیں اور سیاسی دھڑے ہیں۔ ہر دھڑا چند سیٹیں لے کر حکومت میں شامل ہونے
کے لیے کوشش کرتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بسا اوقات 10، 12 سیٹوں والے سودے
بازی کر کے صوبے کے وزیر اَعلیٰ کے عہدے کو حاصل کرنے میں کام یاب ہوئے ہیں
کیونکہ وہ جس کے ساتھ ملتے تھے حکومت اُسی کی بنتی تھی۔ کبھی یوں بھی ہوتا
ہے کہ حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت کی ضرورت ہوتی ہے اور سادہ اکثریت کے
لیے کسی پارٹی کو 5 یا 7 سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا 5 یا 7 سیٹوں والے
بھی اسے بلیک میل کرتے ہیں اور اپنی پسند کی وزارتوں اور مفادات کے لیے
سودے بازی کرتے ہیں، وہ کبھی حکومت چھوڑ دیتے ہیں اور کبھی پھر حکومت میں
شامل ہو جاتے ہیں۔ ان سے کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ گئے کیوں تھے اور اب آئے
کیوں ہیں؟ یہ ساری بلیک میلنگ کی سیاست ہے۔ اس میں قوم کے لیے کوئی پلاننگ
نہیں ہے۔ جو شخص اور جو پارٹی تبدیلی کے لیے اس کرپٹ نظام کا حصہ بنے گی وہ
بھی اِسی میں مل کر خاک ہو جائے گی اور تبدیلی کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی۔
نوجوان نسل پھر مایوس ہوگی۔ اس نظامِ اِنتخاب نے نہ پہلے اس قوم کو کچھ دیا
ہے نہ آئندہ دے گا۔ جو تباہی اور بربادی فوجی آمروں نے پیدا کی ہے، وہی
تباہی اور بربادی مختلف شکلوں میں ان دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی پیدا کی
ہے، نتائج ملے جلے ہیں اگرچہ دونوں کی خرابیوں کی نوعیت جدا جدا ہے لیکن اس
میں ذرہ بھر شک نہیں کہ ملک و قوم کو برباد کرنے میں دونوں برابر کے حصے
دار ہیں۔
ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں جمہوریت کی گاڑی کیوں ٹریک سے نہیں اُترتی؟ یہ
ایک اہم سوال ہے۔ جمہوریت کے ثمرات کے باعث وہاں عوام خوش حال ہیں اور
جمہوری سسٹم مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہاں جمہوریت مقدم ہے،
شعور کی بیداری مقدم ہے۔ ان ممالک میں اسکول جانے والے چھوٹے بچوں کو بھی
اپنی سیاسی پارٹیوں کے منشورات اور ترجیحات کا پتہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ووٹ
ڈالنے کی عمر میں پہنچنے تک ان میں مناسب آگہی پیدا ہوچکی ہوتی ہے۔ انہیں
یہ علم ہوتا ہے کہ کس کو ووٹ دینا ہے اور کس کو نہیں دینا۔ میرے ووٹ سے کیا
change آئے گی اور کیا نقصان ہوگا؟ مغربی دنیا میں ووٹرز کو پتہ ہے کہ اُس
پارٹی کی ہیلتھ پالیسی کیا ہے؟ اسی طرح ان کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے جس پارٹی
کو وہ ووٹ دے رہے ہیں، اس کے آنے سے immigration پالیسیز میں کیا فرق آئے
گا؟ ووٹرز کو پتہ ہوتا ہے کہ jobs پر کیا فرق پڑے گا؟ دہشت گردی یا inland
security کی پالیسیوں میں کتنا فرق آئے گا؟ سوشل انکم سپورٹ کی کیا پالیسی
بنے گی؟ ٹیکسز اور محصولات کی مدّ میں کیا فرق آئے گا؟ الغرض جمہوریت کی
تعریف ہی یہ ہے کہ ووٹ ڈالتے ہوئے ایک ایک ووٹر کو یہ پتہ ہو کہ میرا ووٹ
ایک change لائے گا اور میں اپنا ووٹ کس پالیسی کے لیے دے رہا ہوں۔ وہ
زرداری صاحب کو، نواز شریف صاحب، اسفند یار ولی صاحب، الطاف حسین صاحب کو
ووٹ نہیں دیتے؛ وہ چوہدری صاحب کو، خان صاحب کو بلوچستان کی جماعتوں کو یا
علماء کو ووٹ نہیں دیتے۔ وہ فقط ایک نعرے کو سارا منشور سمجھ کر کبھی دھوکہ
نہیں کھاتے۔ انہیں اپنے حقوق کے بارے میں سو فیصد clarity ہوتی ہے۔ اُن کی
پالیسز، ان کی ترجیحات میں واضح فرق ہوتا ہے، ان کے واضح نظریات ہوتے ہیں۔
بھلے سو فی صد کامیاب ہوں یا نہ ہوں، مگر کچھ نہ کچھ results آتے ہیں۔ |