دنیائے نظم وتضمین کا ہیرو

آسمانِ منظوم وتضمین پر بے شمار شخصیات آفتاب عالم تاب کی طرح جلوہ گرہوئیں ، ان میں سید محمد علاءالدین کاظمی کانام نامی بھی نمایاں ہے ۔ جنہوں نے 1913یا 14میں سرزمین اعظم گڑھ موضع کوٹھیا معافی میں آنکھیں کھولیں ۔ اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی اور عربی مقامی مدارس میں ۔ اعلٰی تحصیل علم کی خاطر اخلاص کا تاج محل دارالعلوم دیوبندکے لئے رخت سفر باندھا اوروہاں سے سند فراغت پائی ۔ ان کے اساتذہ میں سیدقاری طیب ؒاور مولانا حسین احمد مدنیؒ نمایاں ہیں ۔ دینی علوم کی فراغت کے بعد دنیوی علوم کی تحصیل پر متوجہ ہوئے اورمنشی ، مولوی ، عالم اور فاضل انگریزی کی اسناد یونیور سیٹیز لکھنو ، الہ آبا اورعلی گڑھ سے حاصل کیں ، اسی طرح طب رجسٹریشن کلاس اے لکھنو میڈیسن بورڈ یوپی سے ۔

جہاں تک ان کے شغل ومشغلہ کا تعلق ہے تو طبابت سے گہرا رشتہ تھا ۔ہاؤس جاب گورکھپور میں حکیم وجیہہ اللہ صاحب کے مطب محلہ گھاسی کٹرہ میں کئی برس رہے ۔ علمی ، ادبی ، سیاسی ، قومی اورسماجی مجالس اورمشاعروں سے خاص تعلق رکھتے تھے ۔ مولانا موصوف بردبار ، راست گو ، خوش پوش ، خوش خور ، مہمان نواز ، سخی اورایثار وقربانی کے پیکراور مجسم نمونہ تھے ۔خداترسی اورشریں مقالی میں اپنی مثال آپ تھے ۔ ان کے قلم ِگہر بار سے موضوعِ طب پر کئی ایک کتابیں منصہ شہود پرآئیں ۔ درودِ اعلٰی غیرمنقوط بھی ان کی شاہکارہے اور منظوم میں ”تجلیات رحمت عالم منظو م “ان کی ہی دین ہے ۔ 1970سے 1973تک اے ایم یو کے اجمل خان طبیہ کالج کے شعبہ ریسرچ میں کیلی گرافر کے فرائض بحسن وخوبی انجام دیتے رہے ۔ مارچ 1973میں مرض الوفات میں مبتلاءہوئے اور 7جون کو بعمر تقریباً 60برس صبح کے وقت ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۔

یوں تو نظمیہ شاعری بالخصوص نعت ومنقبت پر بے شمار شعراءعظام نے طبع آزمائی کی ہیں اور دربارِ رسالت میں نذرانہ عقیدت پیش کرکے فدائیان محمد اورعشاق نبی ﷺ کی فہرست میں جگہ پائی ہے ۔ مگر اندرونی جذبات اورذات نبوی سے شیفتگی کی بنا پر محسن کاکوروی کو جومقام ملاہے و ہ بہت سے شعراءکو نصیب نہیں ہوا ۔ ان کے ہی خوشہ چیں یاان کے نقش قدم پر چل سید محمد علاءالدین کاظمی نے بھی فخر موجودات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے ، جو کہ افراط وتفریط سے دور ہے ۔ بہت سے شعر اءنے آقاءدوجہاں کے سراپا یا آپ ﷺ کے اوصاف حمیدہ کو منظوم کرتے ہیں تو مبالغہ آرائی کے سمندر کو عبور کرکے افراط وتفریط کے بھول بھلیوں میں سرگرداں ہوجاتے ہیں ۔ بسا اوقات ان کلام سے شرک کی بو آنے لگتی ہے ۔ مگر صاحب تجلیات رحمت عالم منظوم نے شرکیہ کلام کی آلودگی سے اپنے دامن ِ کلام کو منزہ اور مصفی رکھا اورشہنشاہ بطحاءکی پوری زندگی پر بے کم وکاست نظمیہ اشعار کہے ہیں ۔ بعثت کے پس منظر سے لے کر ولادت باسعادت ، سراپائے رخ زیبا ، مقدس اعضا و جوارح ، ملبوسات اطہر ، رفتار وگفتار ، نشست وبرخاست ، خورد ونوش ، عادات واطوار ،فضائل و مناقب ، خصائل وشمائل اور عبادات وریاضت کے واقعات کو بڑے اچھوتے انداز میں منطوم کیا ہے ۔ ان کے منظوم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ متنازع فیہ روایات سے کلی طور پر قطع نظر کرتے ہوئے قرآن واحادیث اورمستند حوالہ جات سے واقعات کے مدنظر اشعار کہے ہیں اورتمام تر اشعار کی تضمین ”فصل علیہ وبارک وسلم“پرہی کی ہے ، جوکہ تمام صاحبان ِ ایمان اورعاشقان رسول ﷺکے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ۔

شاعرموصوف کے تئیں مولانا معین الدین احمدندوی یوں رقمطراز ہیں :
ہمارے شہر اعظم گڈھ کے نامور طبیب حکم سید علاءالدین کاظمی شعر وسخن کا فطری ذوق رکھتے ہیں اوران کا کلام محض شاعری نہیں بلکہ ان کے فن کے نسبت سے حکیمانہ ہوتا ہے ، وہ متعدد نظموں کے مصنف ہیں ۔

دوسری جگہ یوںلکھتے ہیں :
اس میدان(نعت ونظم )میں اورشعراءنے بھی اپنی شاعری کے جوہر دکھائے ہیں لیکن ان میں حقیت کم اورشاعری زیادہ ہے ، حکیم صاحب عالم بھی ہیں اورشمائل نبوی کی صحیح کی روشنی میں لکھا ہے ۔(تجلیات عالم منظوم :صفحہ ۲۱)

آئیے ! ان کی شاعری کے نمونہ دیکھتے ہیں ، آپ ﷺ کے وجود مبارک پر چند اشعار کچھ یوں ہیں :
وجود آپ کا تخلیق ِ خلقت
بہ باطن مقدم بہ ظاہر موخر
وہ تفریق موسی ؑ وہ تبشیر عیسی ٰ
مواعد ، مشاھد ، مبارک ، مبشر
فصل علیہ وبارک وسلم
وہ انموذج ِ خلق حسن حقیقی
وہ تخلیق لاہوت کا فرد ِ جوہر
وہ لولاک باعث و شہکار فطرت
محمد ، ممدح ، مقد س ، مطہر
فصل علیہ وبارک وسلم
ولادت ِ باسعادت با بعثت محمدی پر یوں نغمہ سنج ہیں :
ولادتِ جناب حبیب ِ خدا
ہے لاریب فضل ِخدا دوجہاں پر
ہے قرآن میں خود یہ ارشاد ِ باری
کہ ہے مومنوں پر احسان ِ داور
فصل علیہ وبارک وسلم
کہ اس نے انہیں میں سے اک ذات چن کے
ہدایت کو ان کی بنایاپیمبر
جوپڑھ کر سناتا ہے آیات اس کی
بناتا ہے ان کومزکیٰ مطہر
فصل علیہ وبارک وسلم
اور
نہ خالق کو انسان پہچان پاتا
نہ معبود کی شان ہوتی اجاگر
بغاوت کااک دور چلتا مسلسل
عبادت خدات کی نہ آتی میسر
فصل علیہ وبارک وسلم
اور
نہ قرآن اترتا نہ جبرئیل آتے
نہ احکام ِ اسلام ہوتے مقرر
نہ تعلیم ِ حکمت نہ حکمت کے جوہر
فصل علیہ وبارک وسلم
نہ خالق کو مخلوق پہچانتی
بناتے تھے معبود لالاکر پتھر
نہ مان باپ کا کوئی حق جانتا
نہ تھی زیست کی مستحق کوئی دختر

درج بالااشعار میں موصوف نے ولادت بابعثت محمدی پرجو حقائق ومقاصد بیان کئے ہیں وہ دراصل قرآنی تناظر میں ہی ہیں ۔سورة آل عمران کی آیت 164میں بعثت رسول کے تئیں جو فرمان ِالہی ہے اسی کو شاعر عاشقِ رسول نے منطوم کیا ہے۔ تلاوت ِ قرآن ، تزکیہ و تقوی اورتعلیم ِ کتاب و حکمت کاراز ہی فی الواقع بعثت نبوی میں مضمر ہے ۔

آپ کے چشم مبارک پر کچھ یوں کہتے ہیں ،جیسے ان کے چشم نے آپ ﷺ کے چشم مقدس کے سمندر میں ڈوب کرغواصی کی ہو:
وہ سرچشمہ رشد چشم رسالت
وہ آنکھیں قرارِقلوب مکسر
وہ عین مروت کہ محبوب آنکھیں
مدعج ،مسود ، مبیض ، محمر
فصل علیہ وبارک وسلم
جسے دیکھ کر دشمن دیں کادل بھی
بہ چشم زدن ہوہی جاتا مسخر
وہ آنکھیں تھیں یارشک ِ حورانِ عین تھیں
مشفی ، مشکل ، مشرف ،مبصر
فصل علیہ وبارک وسلم
سفیدی میں شامل لطیف ایک سرخی
پھران میں حسین لال ڈور کا منظر
وہ جس طرح کچھ مچھلیاں سرخ باہم
کلیلیں کریں صاف چشمہ کے اندر
فصل علیہ وبارک وسلم

جن الفاظ کے ربط و نظم سے آپ ﷺ کے چشم مبارک کی حقیقت بیانی یا منظر نگاری کی گئی وہ احادیث میں مذکور ہیں ۔ متعدد اصحاب ِ رسول ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ کی آنکھیں سرمگی تھیں ۔

شہنشاہ بطحاءکے اعضاءوجوارح کے علاوہ عدل گستری ، گداگری ، امانتداری ، قرابتداری اورہمسائیگی سے لے کر اخلاق جاودانی کو شاعرِ عاشق ِ رسول نے انتہائی حسین اندازمیں منظوم کیا ہے ،اخلاق مبارک پر کچھ اس طرح کہتے کلام کرتے ہیں :
صفات حمیدہ ہیں جتنے جہاں میں
حبیب خدا سب کے تنہاتھے پیکر
ہیں اخلاق انسان کے جتنے بھی افضل
ہواہے نہ کوئی بھی حضرت کا ہم سر
فصل علیہ وبارک وسلم
اور
وہ اخلاق علیا بیاں ہوں گے کیسے
کہ تھا متصف جس سے خلق پیمبر
وہ خلق مجسم نبی مکرم
مخلق بہ اخلاق ِ خلاق ِاکبر
فصل علیہ وبارک وسلم
اور
جو دیکھوبیاں حضرت عائشہ کا
توکھل جائےں اخلاق حضرت کے تم پر
جہاںصاف الفاظ میں ہے یہ مروی
کہ قرآن قرا تھا خلق ذات پیمبر
فصل علیہ وبارک وسلم
جب ایک شخص نے عائشہ سے یہ پوچھا
کہ تھا شغل کیا آپ کا گھر کے اندر
توفرمایا گھر کے سبھی کام کرتے
کبھی دیتے جھاڑو بھی خود ہی پیمبر

وصال نبوی کا دن ومہینہ اورسال و ہجری کو بھی بڑے ہی حسین اور انتہائی دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہوئے یوں نغمہ سرائی کرتے ہیں :
ہواجب غروب آفتاب نبوت
سن وماہ کیا تھے بتادوں یہاں پر
مگر پہلے اتنا سمجھ لوکہ اس میں
روایات ہیں مختلف ان میں اکثر
فصل علیہ وبارک وسلم
مہینہ برس اور دن متفق ہیں
نہیں ہے کوئی اختلاف ان کے اندر
سنہ یازدہ کا ربیع نخستین
دوشنبہ کادن سب نے مانا ہے مل کر
فصل علیہ وبارک وسلم
مگر گفتگو صرف تاریخ میں ہے
کہ ہے ایک ، دو یا کہ بارہ اصح تر
روایت جو مشہور ہے واقدی کی
ہے تاریخ بارہ اسی میں مقر ر
فادعوک بارب بلغ سلامی
فصل علیہ وبارک وسلم

آقاءدوجہاں کی وفات کی تاریخ کے تئیں مختلف النوع اقوال ہیں ، مگر سن وفات اورماہ میں محققین ومورخین باہم متفق ہیں کہ آپ کی وفات ربیع الاول 11ہجری میں ہوئی ہے ۔تاریخ کے سلسلہ میں ابن السیر کی روایت 2ربیع الاول اور واقدی کی 12ربیع الاول کی ہے ، بیشتر لوگوںنے موخرالذکر روایت کو معتبر کہا ہے، اسی اختلاف کو بڑے اچھے انداز میں منظوم کیا ہے ۔ (آزاد فیچر)
Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 100851 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More