حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی کا فقہی مزاج

تحریر: مولانا عتیق احمد بستوی

پس منظر
حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ( ولادت1248 ھ مطابق1833ء وفات1297ھ مطابق1879ء) برصغیر کی ان عظیم شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے اپنے دوراور بعد کے ادوار پر بڑے گہرے، دیرپا اثرات چھوڑے ہیں۔ انیسویں صدی عیسوی اور تیرہویں صدی ہجری کی ممتاز ترین شخصیات کی مختصر سی مختصر فہرست بنائی جائے تو اس میں حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی کا اسم گرامی نمایاں ترین جگہ پائے گا۔ برصغیر ہندوپاک میں مغلیہ سلطنت کے بکھراؤ کے بعد ہندوستان کے اندلس بن جانے کا پورا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اسلام دشمن طاقتوں نے پوری منصوبہ بندی کر لی تھی کہ برصغیر کے مسلمان اپنا دین وایمان، تہذیب وثقافت سب کچھ بھول کر یا تو عیسائیت کی گود میں چلے جائیں یا ہند ومذہب اختیار کر لیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی حکومت ہند کی سرگرم پشت پناہی میں پادریوں کی فوج کی فوج یورپ کے مختلف ممالک سے آکر پورے ہندوستان میں پھیل گئی تھی ۔ اور پوری مشنری اسپرٹ کے ساتھ سر گرم عمل تھی ، پادریوں کی کوششوں کا خاص نشانہ مسلمان تھے ، مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لیے دباؤ اور لالچ کا ہر طریقہ اختیار کیا جارہا تھا، پادریوں نے مناظرے کا بازار گرم کرکے اسلام کے بنیادی عقائد کے خلاف تشکیکی مہم چھیڑ رکھی تھی، تاکہ اسلام کے بنیادی عقائد اور تعلیمات سے مسلمانوں کا اعتماد اٹھ جائے او ران پر تثلیث کا رنگ چڑھایا جاسکے۔ دوسری طرف آریہ سماج تحریک اپنے شباب پر تھی اور آریہ سماجی مبلغین اسلام کے خلاف بیہودہ اعتراضات کا بازار گرم کیے ہوئے تھے، اسلامی عقائد وتعلیمات کے خلاف اعتراضات پر مشتمل چھوٹی بڑی کتابیں لکھ کر مفت تقسیم کی جارہی تھیں ، کوچہ وبازار میں مسلمانوں کو مناظروں کا چیلنج دیا جارہا تھا، مسلمانوں کو بہکانے اور بھڑکانے کی ہر کوشش کی جارہی تھی۔

برطانوی سامراج کی آہنی بیڑیوں کو توڑنے کی ایک کوشش 1857ء میں کی گئی، لیکن مختلف اسباب سے اس میں ناکامی ہوئی ، اس کے بعد برطانوی حکومت ہند نے اپنے حلقے مزید تنگ کر دیے۔ مسلمانوں کو سیاسی اور معاشی طور پر کچلنے اور فنا کرنے کی کوششیں تیز تر کردی گئیں، ہزاروں علما اور مجاہدین آزادی تہ تیغ کر دیے گئے ۔ بڑی بڑی املاک اور جاگیریں ضبط کر لی گئیں۔ مسلمانوں کے قیمتی اوقاف برباد کر دیے گئے۔ قدیم مدارس جو مسلم نوابوں اور امرا کی اعانت سے یا وقف کی آمدنی سے چلتے تھے، رفتہ رفتہ موقوف ہو گئے او رمسلمانوں کا مستحکم نظام تعلیم وتربیت ،جو نئی نسل کی تربیت اور تیاری کا ضامن تھا، درہم برہم ہو گیا۔

حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی نے اپنے نور بصیرت اور فراست ایمانی سے محسوس کر لیا تھا کہ مغلیہ سلطنت کا ٹمٹماتا چراغ گل ہونے والا اور اس سلطنت سے وابستہ منظم ملت کا نظام درہم برہم ہونے والا ہے ۔ انہوں نے برصغیر کے حالات کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا۔ مسلمانوں کے مختلف طبقات میں پائی جانے والی خامیوں، ان کی نفسیاتی کمزوریوں کا جائزہ لیا اور کتاب وسنت کی روشنی میں ان کی بیماریوں کا مداوا تجویز کیا۔ اپنی دعوت، اصلاحی، علمی وفکری اور تدریسی کوششوں کے ذریعہ مسلم سماج کو سنبھالنے، اس کے علمی وفکری معیار کو بلند کرنے اور مسلمانوں کو سچا اور پکا مسلمان بنانے کی سعی پیہم کی ، حضرت شاہ صاحب نے اپنی تصنیفی اور تدریسی کوششوں کے ذریعہ علما اور خواص امت کے دل ودماغ میں ایک خاموش انقلاب برپا کر دیا۔

فکر قاسمی اور فکر ولی اللہی
حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی کی تحریک کا امتداد تھے ، فکر قاسمی کے بنیادی عناصر فکر ولی اللہی سے مستفاد وماخوذ ہیں۔ فقہ اسلامی کے بارے میں حضرت مولانا نانوتوی کے رویہ وموقف میں فکر ولی اللہی کا عکس بہت صاف نظر آتا ہے۔

الامام النانوتوی حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی کی طرح محسوس کر رہے تھے کہ فقہائے ہند کے ایک بڑے طبقے کا علمی رشتہ کتاب وسنت سے بہت کمزور پڑ چکا ہے ۔ وہ لوگ اگرچہ نظریاتی طور پر اس بات کو مانتے ہیں کہ فقہ اسلامی کا ماخذ قرآن وحدیث ہے، لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ ان کی عمر کا تقریباً تمام تر حصہ اصول فقہ کی فنی بحثوں اور فقہی جزئیات کے مطالعہ میں گزرتا ہے ۔ کتاب وسنت کے فہم وتدبر پر ان کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے ، فقہ کا قرآن و حدیث سے ربط کمزور پڑتا جارہا ہے ، فقہی مجتہدات کو کتاب وسنت پر پیش کرنے کا سلسلہ ختم ہوتا جارہا ہے ، صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ بعض کم نظر متعصب فقہا فقہی جزئیہ کے مقابلہ میں صحیح حدیث نبوی کو برملا مسترد کرنے لگے ہیں ۔ اس کا مظاہرہ حضرت نظام الدین اولیا کے دور سے ہونے لگا تھا، جب سماع کے موضوع پر برپا مجلس مناظرہ میں اس دور کے بعض نمایاں فقہا نے دوران بحث کہہ دیا تھا کہ ہمیں حدیث نبوی سے سروکار نہیں ، ہم امام ابوحنیفہ کے مقلد ہیں، ہمارے سامنے امام صاحب کا قول پیش کیجیے، اس صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی فرماتے ہیں ” قاضی ضیاء الدین برنی اپنی کتاب” مسرت نامہ“ میں لکھتے ہیں کہ: ” جب حضرت خواجہ اس مجلس سے فارغ ہو کر مکان پر تشریف لائے تو آپ نے نماز ظہر کے وقت مولانا محی الدین کاشانی او رامیر خسرو کو طلب فرمایا ارشاد ہوا کہ دہلی کے علما عداوت وحسد سے بھرے ہوئے ہیں ، انہوں نے وسیع میدان پایا اور دشمنی کی بہت سی باتیں کی ، عجیب بات یہ دیکھی کہ صحیح احادیث نبویہ کو سننا ان کو گوارا نہیں تھا ، ان کے جواب میں یہی کہتے تھے کہ ہمارے شہر میں فقہ پر عمل حدیث پر مقدم ہے ، یہ باتیں وہی کہہ سکتے ہیں جن کا احادیث نبویہ پر اعتقاد نہ ہو ،میں جب کوئی حدیث پڑھتا تو وہ ناراض ہوتے اور کہتے تھے کہ اس حدیث سے امام شافعی استدلال کرتے ہیں اور وہ ہمارے علما کے دشمن ہیں، ہم نہیں سنیں گے ۔ معلوم نہیں کہ یا با اعتقاد ہیں یا نہیں ؟ اولوالامر کے سامنے ایسی زبردستی سے کام لیتے ہیں اور احادیث صحیحہ کو روکتے ہیں ، میں نے کوئی عالم ایسا دیکھا نہ سنا کہ اس کے سامنے احادیث صحیحہ پڑھی جائیں اور وہ کہے کہ میں نہیں سنتا ،میں نہیں سمجھتا کہ یہ کیا قصہ ہے اور وہ شہر جہاں ایسی جرات اور زبردستی کی جاتی ہے وہ کیسے آباد رہ سکتا ہے؟ …“ (تاریخ دعوت وعزیمت جلد سوم ،ص:93,92 بحوالہ سیرالاولیا ص:532,527)

فقہ کو کتاب وسنت سے مربوط کرنے کی کوشش
حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی او ران کی اولاد احفاد نیز حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی او ران کے صاحبزادگان او رخانوادہٴ علمی کی کوششوں سے اگرچہ ہندوستان کے بہت سے علمی حلقوں میں احادیث نبویہ کی گرم بازاری ہو گئی تھی، فن حدیث کے ساتھ اعتنا بڑھ گیا تھا، معتبر کتب احادیث کے درس وتدریس کا سلسلہ جاری ہوگیا تھا، لیکن ایسے علمی حلقے موجود تھے، جن میں علوم عقلیہ کے بعد سب سے زیادہ توجہ فقہ اور اصول فقہ پر دی جاتی تھی اور ان کے نصاب درس میں قرآن وحدیث کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا۔

حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی نے اپنی تعلیمی تحریک میں کتاب وسنت کی تعلیم کو ان کے شایان شان مقام دیا۔ صحاح ستہ اور حدیث کی دوسری معتبر کتابوں کو نصاب درس میں شامل کیا ، درس کا وہ انداز اختیار کیا کہ کتاب وسنت سے فقہ اسلامی کا ربط ورشتہ کھل کر لوگوں کے سامنے آجائے اور قرآن وحدیث سے علما کا رشتہ محض تلاوت اور تبرک کا نہ رہ جائے، بلکہ کار راز حیات میں کتاب وسنت قندیل ہدایت کا کام دیں اور ان کی روشنی میں الجھے ہوئے مسائل کی گرہیں سلجھائی جائیں، خلافی مسائل پر الامام النانوتوی کے مکتوبات اور تحریریں اپنے اندر اجتہادی شان رکھتی ہیں ، کتاب وسنت کی عطر بیزیاں قدم قدم پر نمایاں ہیں اور ایسے لطیف استنباط پائے جاتے ہیں، جن کی نظیر فقہائے متاخرین کے یہاں نہیں ملتی۔

اختلافی مسائل میں الامام النانوتوی کا موقف الامام النانوتوی جن کو بجا طور پر حجة الاسلام کا لقب دیا گیا ہے ان کی توجہات خارجی محاذ پر زیادہ ہیں۔ عیسائی پادریوں اور آریہ سماجیوں کا مقابلہ علم واستدلال، بحث ومناظرہ کی سطح پر انہوں نے بڑی مستعدی اور بے جگری کے ساتھ کیا اور اپنی تمام تر توانائیاں ان محاذوں پر صرف کیں۔ خارجی محاذ پر لڑنے والا کوشش کرتا ہے کہ داخلی لڑائی نہ لڑنی پڑے، اس لیے الامام النانوتوی مسلمانوں کے اندرونی اختلاف وانتشار کے سخت مخالفت تھے۔ اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے ، رفع یدین، قرأة فاتحہ خلف الامام، آمین بالجہر وغیرہ کے بارے میں مقلدین اور غیر مقلدین کے جھگڑوں کی خبروں سے ان کے دل پر جو قیامت گزرتی تھی اس کا کچھ اندازہ ان کے بعض مکتوبات او رتحریروں سے ہوتا ہے۔ ایک خط کے جواب میں، جس میں چند اختلافی مسائل کے بارے میں دریافت کیا گیا تھا، لکھتے ہیں: ” مخدوم من میاں جی گھیسا صاحب سلامت ، بعد سلام یہ گذارش ہے کہ میں پرسوں تیسرے روز پیر کے دن دیوبند سے یہاں اپنے وطن پہنچا، آپ کا خط ملا ، دیکھ کر رنج ہوا ، کیا خدا کی قدرت ہے کہ آج کل جس طرف سے صدا آتی ہے یہی آتی ہے کہ وہاں مسلمانوں میں اختلاف ہے ، وہاں نزاع ہے ، کہیں سے اتفاق کی خبریں نہیں آتی، ہاں کفار کے جتنے افسانے سنے جاتے ہیں کہ یوں اتفاق ہے ، اس طرح اتحاد ہے ، خیر بجزا نا لله واناالیہ راجعون کے اورکیا کہیے، آپ کی خوشنودی خاطر منظور ہے، اس لیے جواب لکھتا ہوں اور نہ ایسے جھگڑوں میں دخل دینا محض فضول سمجھتا ہوں…“ (رسالہ در ثبوت تقلید وبست رکعت تراویح ملحق بہ الدلیل المحکم ص:18)

الامام النانو توی کے مذکورہ بالا الفاظ پڑھ کر شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعر یاد آتا ہے #
دیکھ مسجد میں شکست رشتہٴ تسبیح شیخ
بتکدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

حضرت نانوتوی اور عدم تقلید
الامام النانوتوی ہی کے دور میں اجتہاد اور عدم تقلید کے نام پر مقلدین کو مشرک قرار دینے، فقہ کو کتاب وسنت کے مخالف اور متوازی شریعت قرار دینے کی مہم چل رہی تھی، بعض اہل قلم اور اہل زبان کی دریدہ دہنی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ فقہائے مجتہدین کو سب وشتم کر رہے تھے اور فقہ اسلامی کو کوک شاتر قرار دے رہے تھے، برملا لکھا اور کہا جارہا تھا کہ فقہ حنفی امام ابوحنیفہ او ران کے شاگردوں کی ذاتی آرا کا مجموعہ ہے۔ اس کا کتاب وسنت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس موضوع پر لٹریچر کا ایک سیلاب سا آگیا تھا۔ تقلید کو مطلقا حرام اور ہر کس وناکس کے لیے اجتہاد کے لازم ہونے کی بات کہی جارہی تھی۔

صورت حال کی نزاکت سے مجبور ہو کر الامام النانوتوی نے بھی اپنے مخصوص انداز میں ان موضوعات پر قلم اٹھایا اور حق یہ ہے کہ تحقیق واستدلال کا حق ادا کر دیا۔

امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کا مسئلہ
امام کی اقتدا کرتے ہوئے مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنے نہ پڑھنے کا مسئلہ عہد صحابہ سے معرکة الآرا چلا آرہا ہے، ایک فریق مقتدی کے لیے سورہ فاتحہ پڑھنے کو واجب کہتا ہے تو دوسرا ممنوع قرار دیتا ہے۔ اس موضوع پر ہزاروں صفحات لکھے جاچکے ہیں ، الامام النانوتوی کے زمانہ میں بھی یہ مسئلہ اختلاف ونزاع کا باعث بنا ہوا تھا ، غالی غیر مقلدین کا دعوی تھا کہ اس مسئلہ میں احناف کا دامن کتاب وسنت کے دلائل سے خالی ہے او رمقتدی نے اگر سورہ فاتحہ نہ پڑھی تواس کی نماز ہر گز درست نہیں ہو گی ۔ الامام النانوتوی نے اس مسئلہ پر البیلے انداز سے قلم اٹھایا او رکتاب وسنت نیز عقلی دلائل سے ثابت کر دیا کہ مقتدی کو قرات فاتحہ سے منع کرنے والوں کا موقف نہ صرف کتاب وسنت سے ثابت ہے، بلکہ زیادہ مضبوط اور راجح یہی موقف ہے۔ حضرت نانوتوی نے پوری علمی متانت کے ساتھ بحث کرنے کے بعد رسالہ کے آخر میں جو کچھ لکھا ہے وہ ان اختلافی مسائل میں ان کے معتدل نقطہٴ نظر کی غمازی کرتا ہے۔

”اس پر بھی امام ابوحنیفہ پر طعن کیے جائیں اور تارکین قرات پر عدم جواز صلوٰة کا الزام ہوا کرے تو کیا کیجیے ، زبان قلم کے آگے کوئی آڑ نہیں ، دیوار نہیں ، پہاڑ نہیں۔ ہم کو دیکھیے باوجود توجیہات مذکورہ اور استماع تشنیعات معلومہ فاتحہ پڑھنے والوں سے دست وگریباں نہیں ہوتے، بلکہ یوں سمجھ کر کہ ہم تو کس حساب میں ہیں امام اعظم بھی باوجود عظمت وشان امکان خطا سے منزہ نہیں ، کیا عجب ہے کہ امام شافعی علیہ الرحمہ ہی صحیح فرماتے ہوں اور ہم ہنوزان کے قول کی وجہ نہ سمجھے ہوں ، اس امر میں زیادہ تعصب کو پسند نہیں کرتے ، پر جس وقت امام علیہ الرحمہ کی توہین سنی جاتی ہے دل جل کر خاک ہو جاتا ہے اور یوں جی میں آتا ہے کہ ان زبان درازیوں کے مقابلہ میں ہم بھی لن ترانیوں پر آجائیں اور دو چار ہم بھی سنائیں، پر آیت ﴿واذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلاما﴾ اور ﴿واذا مروا باللغو مروا کراما﴾ اور احادیث منع نزاع مانع ہیں۔“ ( توثیق الکلام فی الانصات خلف الامام، ص:23 ۔الدلیل المحکم علی قراء ة الفاتحہ للمؤتم، ص:17)

مسئلہ تراویح
الامام النانوتوی کے دور میں تراویح کا مسئلہ بھی جدال ونزاع کا باعث بنا ہوا تھا، امت مسلمہ کا عمل بیس رکعت تراویح پر چلا آرہا تھا، لیکن تیرہویں صدی ہجری میں عمل بالحدیث کا مدعی گروہ اسے بدعت قرار دے رہا تھا اور اس کا اصرار تھا کہ8 رکعت تراویح ہی سنت ہے۔ حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی کی متعدد تحریروں میں اس پر اظہار خیال کیا گیا ہے ، یہ تحریریں سائلین کے جواب میں لکھی گئی ہیں، مولانا موصوف نے پوری تحقیق ودیانت سے اس مسئلہ پر روشنی ڈالی ہے۔ اس بات کا بھی شکوہ کیا ہے کہ کتابیں پاس میں نہیں ہیں کہ بھرپور روایتی تحقیق کی جائے۔

” لطائف قاسمیہ“ کا دوسرا خط جناب عبدالرحیم خاں صاحب کے نام تراویح کے مسئلہ پر ہے، عبدالرحیم خاں صاحب کی طرف سے جو خط آیا تھا اس میں بیس رکعت تراویح کے خلاف دلائل دیے گئے تھے او رکٹ حجتی کے انداز کی بحثیں کی گئی تھیں، مولانا نانوتوی کا خیال ہے کہ اس خط کے مشتملات کسی ” مدعی اجتہاد“ کے تحریر کردہ ہیں ، خط فارسی زبان میں ہے ۔ خط کے آخری حصہ میں تحریر فرماتے ہیں: ” ایک عرض یہ ہے کہ بندہ کمترین عاملان حدیث کو اگر ان میں فہم ہو برا نہیں سمجھتا، بلکہ عمل بالحدیث کو ایمان کا شعار جانتا ہے ۔ لیکن آپ کے گرامی نامہ کے مضامین جن لوگوں کے تحریر کردہ ہیں ایسے بدفہموں کے لیے ہر گز عمل بالحدیث کو جائز نہیں سمجھتا، ایسے لوگ تو ”یضل بہ کثیرا“ کے زمرہ میں آتے ہیں ۔ عقل مند کے لیے اشارہ کافی ہے ۔ غرض کہ ایسی راہ اختیار کرنی چاہیے جس سے اکابر صحابہ پر طعن نہ ہو، دین برہم نہ ہو ، مختلف احادیث آپس میں اور قرآن شریف کے ساتھ منسجم ہو جائیں۔ جس طریقہ کو اختیار کرنے سے صحابہ کرام مطعون ہو جائیں، احادیث میں تعارض واقع ہو جائے اور قرآنی روش اس کی تکذیب کرے ایسا طریقہ ہر گز الله اور رسول کا پسند کردہ نہیں ہو سکتا۔ مجتہد صاحب نے جو طریقہ ایجاد کیا ہے وہ اسی طرح کا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔“ (لطائف قاسمیہ ص:14)

عبدالرحیم خاں کے خط میں یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ بیس رکعت تراویح والی مؤطا کی روایت مرسل ہے او رحدیث مرسل محدثین کے یہاں مقبول نہیں ہے ، اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے الامام النانوتوی لکھتے ہیں: ” موطا کی روایت پر طعن کی بنیاد یہ ہے کہ یزیدبن رومان نے حضرت عمر رضی الله عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔ سبحان الله! کیا دلیل ہے او رکیا دعوی ہے؟! طعن کا خلاصہ یہ نکلا کہ تابعین کی مرسل روایات کا اعتبار نہیں ہونا چاہیے۔ پہلے اس کو ثابت کرنا چاہیے، پھر یزیدبن رومان کی روایت کو مسترد کرنا چاہیے، تابعین کی مرسل روایات کے معتبر نہ ہونے کا اصول اگر خود تراشیدہ ہے تو اسے کون پوچھتا ہے؟ اور اگر دوسروں کی تقلید ہے تو امام شافعی  کے علاوہ کون اس طرف گیا ہے ؟ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک مراسیل صحابہ کی طرح مراسیل تابعین بھی معتبر ہیں، بلکہ مسند سے زیادہ مرسل کا اعتبار ہے ، کیوں کہ اسناد کو ترک کرنا روایت پر اپنے اعتماد کی دلیل ہے او راسناد کا ذکر کرنا سننے والے کے فہم پر چھوڑنا ہے، گویا یہ کہہ دیا گیا کہ ذمہ داری راوی پر ہے ۔ اگر تقلید سے عار ہے تو امام ابن صلاح کا قول دیوار پر مارنا چاہیے اور اگر ابن صلاح کی تقلید جائز ہے۔ تو امام ابوحنیفہ اور امام مالک نے کیا قصور کیا ہے؟… “ (لطائف قاسمیہ ص:9)

اس مکتوب میں الامام النانوتوی نے اصول حدیث کے بعض مسائل پر بھی بڑی قیمتی بحثیں کی ہیں۔

حضرت نانوتوی کاطریقہٴ استدلال
حجة الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی ان اختلافی مسائل میں زیادہ قیل وقال او ربحث وتمحیص کرنا پسند نہیں فرماتے تھے او راگر ان موضوعات پر انہیں کبھی لکھنا پڑا تو بڑی نرمی، سنجیدگی کے ساتھ قلم اٹھایا۔ طعن وتشنیع کے بجائے حکمت وموعظت کا اسلوب اپنایا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی تحریر فرماتے ہیں: ” الغرض نئے نئے عنوانات سے معمولی معمولی جزئی باتوں کا مسلمانوں میں چرچا کرکے افتراق وشقاق پیدا کرنے کی عام مولویانہ عادت سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا الامام الکبیر فطرة کارہ تھے او راس کو سخت ناپسند فرماتے تھے ، اس طرح فرعیات میں ایسے اختلافی مسائل، جن میں سلفا عن خلف نقطہٴ نظر کا اختلاف علما میں رہا ہے، ان کے متعلق آپ کا خیال تھا اور کتنا پاکیزہ خیال تھا، اس قسم کے ایک مسئلہ کا ذکر کرتے ہوئے اور یہ فرماتے ہوئے کہ :” طرفین میں بڑے بڑے اکابر ہیں “ اور اپنے اسی خیال کو ان الفاظ میں پیش کرتے ہوئے کہ : ” اگر ایک طرف ہو رہیے تو کسی نہ کسی طرف والوں کو برا سمجھنا پڑے “ آگے ارقام فرماتے ہیں : ” اس لیے اہل اسلام کو یہ ضروری ہے کہ ایسے مسائل میں خواہ مخواہ ایسے پکے نہ ہو بیٹھیں کہ دوسری طرف کو بالکل باطل سمجھ لیں۔“ (جمال قاسمی ص:9)

آپ کا طرز عمل اس نوعیت کے مسائل میں عمومایہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولا ان پر بمشکل قلم اٹھاتے تھے، پوچھنے اور دریافت کرنے پر کسی نے زیادہ اصرار کیا تب مجبورا جو ترجیحی نقطہٴ نظر اس خاص مسئلہ میں آپ کا ہوتا اس کو ظاہر تو کر دیا کرتے تھے، لیکن اسی کے ساتھ ایک جگہ نہیں، متعدد مقامات میں تقریباً بالالتزام اسی قسم کے الفاظ فرماتے چلے گئے ہیں۔“ (سوانح قاسمی جلد 2 ص:39)

الامام النانوتوی کا مذکورہ بالا طرز عمل صرف فرعی مسائل کے بارے میں نہیں تھا، بلکہ بعض ایسے مسائل جن کا تعلق کسی نہ کسی درجہ میں اعتقادیات سے ہے ان کے بارے میں بھی اپنی یہی روش بیان فرماتے ہیں، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اسی جسم ناسوتی کے ساتھ اپنی قبر اطہر میں زندہ ہیں یا نہیں ، یہ دور قدیم سے بڑا معرکة الآرا مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلہ کو حیات النبی کے عنوان سے جانا جاتا ہے ۔ الامام النانوتوی نے اس مسئلہ پر ” آب حیات“ جیسی فکر انگیز ایمان افروز کتاب تصنیف فرمائی ہے، لیکن وہ حیات النبی کے عقیدہ کو ضروریات دین میں شامل نہیں سمجھتے، اس لیے اس کے بارے میں زیادہ بحث واصرار کو پسند نہیں فرماتے ۔ حیات النبی کے موضوع پر اپنے ایک مکتوب کے آخر میں رقم طراز ہیں:
” زیادہ کیا عرض کروں ، ہاں اتنا عرض کیے دیتا ہوں کہ گو عقیدہ یہی ہے اور میں جانتا ہوں ان شاء الله تعالیٰ ایسا ہی رہے گا۔ مگر اس عقیدہ کو عقائد ضروریہ میں سے نہیں سمجھتا۔ نہ تعلیم ایسی باتوں کی کرتا ہوں ، نہ منکروں سے دست وگریباں ہوتا ہوں، خود کسی سے کہتا نہیں پھرتا، کوئی پوچھتا ہے اور اندیشہٴ فساد نہیں ہوتا تو اظہار میں دریغ بھی نہیں کرتا۔ آپ بھی اس امر کو ملحوظ رکھیں تو بہتر ہے۔ فقط“ ( لطائف قاسمیہ ص:5)

فقہی ذوق ومزاج
الامام النانوتوی فقہی امور میں بڑا معتدل نقطہ نظر رکھتے تھے، درساً اور عملاً حنفی تھے، بحث وتحقیق کی روشنی میں مذہب حنفی کو راجح سمجھتے تھے، لیکن دوسرے ائمہ مسالک اور فقہی مسائل پر ان کا قلم بڑی احتیاط اور متانت کے ساتھ چلتا ہے۔ ان کے شاگرد رشید مولانا حکیم محمد منصور العلی مراد آبادی رقم طراز ہیں: ” عمل ان کا حنفی تھا، مگر ہر سنت کے اتباع میں بہت خیال رکھتے تھے اورکبھی کبھی خلافی مسائل پر بھی عمل کر لیتے تھے ۔“ ( مذہب منصور جلد2 ص:192)

نرے مقلد اور لکیر کے فقیر نہیں تھے۔ احکام کے دلائل اور مصالح وحکم پر گہری نظر تھی۔احکام شریعت کے مدارج ومراتب سے بخوبی واقف تھے، اس لیے طبیعت ومزاج میں کافی تو سع تھا، بعض مسائل میں ان کا نقطہٴ نظر فقہ حنفی کے عمومی نقطہٴ نظر سے مختلف تھا۔ دیہات میں نماز جمعہ کے مسئلہ میں ان کے یہاں عام علمائے احناف کی سی شدت نہیں تھی ، اس مسئلہ پر ان کاایک مکتوب بڑا مجتہدانہ او رانتہائی فکر انگیز ہے، نماز جمعہ کے لیے شہر ہونے کی شرط پر انہوں نے تفصیلی کلام کیا ہے ۔ ان کا یہ مکتوب اپنے ایک معاصر بزرگ مولانا شاہ عبدالسلام ہمسری کے استفتا کے جواب میں ہے ۔ الامام النانوتوی نے اپنے ایک معاصر مولانا عبدالسلام کو جن بلند الفاظ میں یاد کیا ہے اس سے ان کے اخلاص، تواضع، بلند اخلاقی کی پھواریں پھوٹتی ہیں۔ لکھتے ہیں: ” حضرت مجمع البحرین شریعت وطریقت ، مخدوم ومطاع خاص وعام، جناب مخدومنا مولانا سید عبدالسلام صاحب دامت برکاتہ۔“ ( لطائف قاسمیہ ص:26)

خلاصہٴ بحث
الامام النانوتوی کی خدمات کا اصل میدان علم کلام تھا، انہوں نے اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق نئے علم کلام کی بساط بچھائی۔ آریہ سماجیوں اور عیسائی پادریوں کی تشکیکات اور دسیسہ کاریوں کا مقابلہ کیا، اسلام کی حقانیت عالم پر آشکارا کی، شیعی فتنہ کا علمی سطح پر بھرپورمقابلہ کیا، فقہ اسلامی کے موضوع پر ان کی تحریریں چند رسائل اور چند مکتوبات تک محدود ہیں۔ لیکن ان کی یہ فقہی تحریریں بھی کافی قدروقیمت کی حامل ہیں اور فقہ کے اختلافی موضوعات پر اظہار رائے کا ایک خاص معتدل ومتوازن طریقہ سکھاتی ہیں۔

الامام النانوتوی نے دارالعلوم دیوبند کا نصاب مرتب کرنے میں اس بات کا خیال رکھا کہ فقہ اسلامی کا رشتہ کتاب وسنت سے خوب مضبوط ہو او ر اجتہادی مسائل کو کتاب وسنت پر پیش کرنے کا مزاج پیدا ہو۔ فقہ کا علم محض جزئیات یاد کرنے تک محدود نہ رہ جائے، بلکہ اجتہاد کے سرچشموں تک پہنچا جائے اور فقہ اسلامی کے کارواں کو آگے بڑھایا جائے۔
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 343653 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.