آج جب ہم عالمی پیمانہ پر نظر
دوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں مجموعی طور پر مغرب
کی جس الحادی تہذیب کا غلبہ ہے اس میں یونان کی مادیت ،مسیحی مریضانہ
مذہبیت اور جدید سائنسی الحادو دہریت کا خوف پوری شدت سے دوڑ رہا ہے ۔یہ
چیز صدیوں کی کشمکش اور گمراہی کے بعد ہوئی،مسلمانوں کے زوال کے بعد
اٹھارہویں صدی عیسوی اگرعقلیت پرستی کے لئے مشہور تھی تو انیسویں صدی میں
جذبات پرستی کا غلبہ ہوا ،اس دور کو اس طور سے بھی پیچیدہ کہا جا سکتا ہے
کہ یہ دور نہ تو محض عقل جزوی (جس کا اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں زور
تھا )کا دور ہے اور نہ محض سائنس کا ،نہ اشتراکیت کا اورنہ ہی بے دینی کا ۔اس
دور کی حقیقت یہ ہے کہ سارے رجحانات اور سارے افکار اپنے تضادات کے باوجود
بیک وقت موجود ہیں اور ان کے اندر کسی قسم کی درجہ بندی نہیں ہے ۔ بلکہ سب
کو ایک ہی سطح پر عمل کرنے کی آزادی ہے مثلا کرسٹو فرکاڈویلکے لفظوں
میں”جارج برناڈشاکی برژوائی فینزم اور سارتر کی وجودیت اور اشتراکیت کے لئے
ایسا ہونا اگرکہا جائے کہ یہ بالکل فطری تھا تو بے جا نہ ہوگا کیونکہ وحی ،الہام
اور خدا کی ہدایت کے بغیر کئی صدیوں تک مغربی مفکرین نے اپنے ذاتی رجحانات
کے زیر اثر اپنی اپنی کلیسا سازی کوصرف حقیقت حیات سے تعبیر کیا“۔ڈارون نے
”انسان کو حیوان “ثابت کیا تو میکڈوگل نے اسے ”حیوانی جبلتوں کا غلام“
بتایا ۔فرائڈنے اسے ”مغلوب الشہوات حیوان“ قرار دیا تو ایڈلرنے اسے ”خود
پرست حیوان “کہا ۔نیگ نے اسے” توہماتی انسان “ثابت کیا اور مارکس اسے” شکم
پرست انسان “سمجھنے پر مصر رہا ۔ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی تہذیب اور
اس کے زیر اثر ادب ،آرٹ ،تمدن و معاشرت ،سیاست و معیشت غرض زندگی کے ہر
شعبہ میں شہوت رانی ،لذت پرستی ،ابن الوقتی،مکاری ،مادہ پرستی ،بد کرداری
اور درندگی عام ہوتی گئی اس وجہ سے ڈرسےکہتا ہے کہ ”ہماری تہذیب اپنے
قومی،معاشی ،عائلی ،اخلاقی ،مذہبی اور ذہنی نظام کے ہر شعبہ میں حماقت ،فریب
اور ظلم کا مظہر ہے “۔اس کا یہ قول بجا ہے کیونکہ موجودہ مادہ پرستانہ
تہذیبوں نے جہاں کمپیوٹر،ہوائی جہازٹیلی فون ،انٹرنیٹ اوراس قبیل کی حیرت
انگیز ایجادیں کی ہیں وہیںایٹم بم ہائیڈروجن بم کے بعدمیگالن بم ایسٹرائڈ
بم بالسٹک میزائل بم اور ان سے بھی زیادہ تباہ کن ہتھیار تیار کئے ہیں ۔کہا
جاتا ہے کہ ان دنوں انسانی صلاحیت ،دولت اور وقت کا کم از کم ستر فیصد حصہ
تباہ کن آلات کی تیاری میں صرف ہورہا ہے بڑی طاقتیں شاید کسی ایسے ہتھیار
کے لئے کوشاں ہیں کہ جس کی ایک ہی ضرب سے وہ پوری دنیا کو فنا کے گھاٹ
اتاردیں اس میں ان کو کسی حد تک کامیاب بھی کہا جاسکتاہے۔
آئندہ صدی کو اگر اس مادہ پر ستانہ نظام فکر و عمل سے نہ نکالا گیا تو کوئی
نہیں کہہ سکتا کہ یہ طلسم آب و گل کس طور پر ختم ہوجائے گا ۔
یہ بڑا اہم سوال ہے کہ دنیا اور بنی نوع انسانی کو اگر زندہ رہنا ہے تو وہ
کون سے مطالبے ہیں جن کی ہمہ گیر تکمیل کے ذریعہ انسانی مستقبل کی بشارت دی
جاسکتی ہے اس سلسلے میں جب ہم جائزہ لیتے ہیںتودنیا کے ماہرین اور دانشور
وں کی تیارکردہ اصولوں کی روشنی میں جو مختصر سی فہرست ابھرکر سامنے آتی ہے
وہ کچھ اس طرح سے ہے ۔
۔آفاقی اصول قانون سازی۔1
2۔عام انسانی مساوات اور وحدت آدم کا تصور۔
3 ۔مذہبی رواداری ۔
4۔آزاد تحقیق و تجربہ اور تسخیر کائنات۔
5 ۔عورت اور مرد، فرد اور جماعت ،جسم اور روح نیز حق اور فرض کا مثالی
توازن ۔
6۔جسمانی محنت کا وقار۔
7۔ ہر قسم کی غلامی سے آزادی وغیرہ ۔
اور یہ تما م چیزیں دنیا کے کسی افکار و نظریات میں نہیںبلکہ محمد کی ذاتی
زندگی اور ان کے ذریعہ لائے گئے پیغام میں پوری آب و تاب کے ساتھ دکھائی
دیتی ہےں۔اس لئے کہ فی زمانہ دنیا میں جو رسہ کشی ہے اور ایک دوسرے کو غلط
ٹھہرانے وان پر غاصبانہ قبضہ کرنے (خواہ وہ چین کا ارونا چل کے علاقہ میں
پانی کے راستہ کا روکنا ہو،یا کشمیر کے علاقوں میں دراندازی،ہند و پاک کے
جھگڑے ہوں ،ایران اور امریکہ کی چپقلش،اسرائیل کا فلسطینی عوام کو بے دریغ
قتل کرنا،افغانستان میں امریکی فوجوں کی اسے تخت و تاراج کرنے کی کوشش یا
عراق کو ظالم بتا کر اس کے معدنیات یا قدرتی ذخائر پر قبضہ کرنا ،یا پھر
تبت کا اپنی آزدی کے لئے جد و جہد کرنا )کی کوشش گویا سبھی اپنے مفاد کی
خاطر ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں ۔ایسے میں حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم کی تعلیمات میں ان سب کا حل موجود ہے ۔لیکن اس وقت پوری دنیا میں ان
کے ذریعہ لائے گئے پیغام کو ایک عجیب سوالیہ نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ۔اس
وجہ سے نہیں کہ لوگوں نے اس کو جانا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ میڈیا اور جدید
ذرائع ابلاغ نے ان کے خلاف اس قدر پرو پگنڈہ کیا کہ لوگوں کو کبھی ان کے
بارے میں پڑھنے اور سمجھنے کا موقع ہی نہیں ملا ۔حالانکہ نبی کریم محمد صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم محسن انسانیت تھے اوران کا پیغام بھی ابدی تھا آپ ﷺنے
دنیا میں امن کے قیام کے لئے کوشش کی اور فرمایا: ”تم میں سے جو کوئی اس
حال میں صبح کرے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ امن سے ہو ،اپنے جسم کے
اعتبار سے صحت مند ہو ۔اس کے پاس ایک دن کا کھانا پانی موجود ہو تو سمجھو
اسے ساری دنیا کی دولت حاصل ہو گئی “(مشکواہ)
اسی طرح ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا ؛ ”لوگوں کے درمیان قیامت کے دن جس
چیز کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائیگا وہ نا حق بہایا گیا خون ہوگا“ ۔(بخاری)
اور حجہ الوداع کے موقع پر آپ نے جو کچھ فرمایا وہ عالمی امن کے منشور کی
حثیت رکھتا ہے ا ٓپ کے مطابق : کسی بھی عربی کو عجمی پر ،کالے کو گورے پر
کوئی امتیازحاصل نہیں ،تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بنے ہیں
“یہ خطبہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ مخالفین اسلام کی نگاہ میں بھی انسانیت کی
بقا اور عالمی امن و اخوت کی ایک اہم مثال رکھتا ہے اس کی ایک مثال ایچ جی
ویلزکا اعتراف ہے ۔ویلز نے رسول محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ازدواجی
زندگی پر نہایت رکیک حملہ کئے ہیں ،لیکن جہاں تک اس خطبہ کا تعلق ہے اس نے
اپنی کتاب” اے کنسائز ہسٹری آف دی ورلڈ “میں لکھا ہے کہ ”انسانی حریت ،اخوت
اور مساوات کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کہے گئے تھے چنانچہ مسیح ناصری
کے یہاں بھی وہ بکثرت موجود ہیں لیکن اس حقیقت کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں
ہے کہ ان اصولوں پر بالفعل ایک معاشرہ تاریخ انسانی میں پہلی بار محمد صلی
اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے قائم کیا “۔
عالمی تناظر میں بھی اس وقت عام طور پر جنگ کا مفہوم لوٹ مار ،قتل و غارت
گری ،تباہ کاری کے سوا دنیا نے کچھ نہیں سمجھا اور امن کے نام پر لوگوں نے
مزید خونریزی برپا کی مگر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعلیمات
میں فی سبیل اللہ کی قید لگائی اور فرمایا :”تلوار اٹھاؤ مگر بدی کے انسداد
کے لئے ،معاصیت ،ظلم و طغیان اور فتنہ و فساد مٹانے کے لئے نیز سر کش لوگوں
سے خلق خدا اور معابد و مساجد کی بے حرمتی سے بچانے کے لئے اور جب فتنہ و
فساد مٹ جائے تو ہاتھ روک لو حتٰی کے عین میدان جنگ میں دشمن صلح کی
درخواست کرے تو اسے رد نہ کرو، عورتوں بچوں ،گرجوں میں عبادت کرنے والوں
اورصو معہ کے راہبوں ۔سن رسیدہ لوگوں ،اپاہجوں بیماروں اور ان لوگوں کو
جنھوں نے جنگ میں کوئی حصہ نہیں لیاان کو قتل کرنا کسی بھی حال میں جائز نہ
ہوگا ۔غلاموں نوکروں ،تیمارداروںاور سفیروں کے ساتھ مداہنت کا رویہ اختیار
کرو ،دھوکہ دہی اور مقتولین کا مثلہ بنانا ممنوع قرار دیا اسی طرح زندہ
جلانا ،پھلوں کو خراب کرنا ؛کھیتیوں کو برباد کرنا گھروں کو آگ لگانا
،درختوں کو کاٹنا ؛پانی میں زہر ملانا اس کے علاوہ کوئی نازیبا ہلاکت انگیز
کام کرنے سے سختی سے روکا “۔(السیاسہ والشرعیہ بعہد الوہاب الخلافہ ،ص
89.90)
دنیا کے تمام لوگ جو امن کا دعویٰ کرتے ہیں کیا اگر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ
وآلہ وسلم کا یہ پیغام نافذ العمل ہو تو امن میں خلل واقع ہو سکتی ہے ؟کیا
فلسطینی عوام کا خون بہ سکتا ہے؟کیا گجرات میں بسنے والی ماؤں کی کوکھ کو
نظر بد لگ سکتی ہے؟
آج ساری دنیا اخوت و محبت کو قائم کرنے کے لئے نہ جانے کیا کیا جتن کر رہی
ہے پھر بھی اس میں ناکام ہے لیکن نبی کریم ﷺکی زندگی میں یہ ساری چیزیں ایک
ہالہ کی سی دکھائی دیتی ہیں آپ نے اس شخص کی بھی خیریت دریافت کی جس نے آپ
پر مسلسل کوڑے پھینکے آپ اس بوڑھی عورت کے بار بردار بنے جس نے خود محمد
صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بچنے کی تلقین کی ،طائف والوں کی زیادتی سے جب آپ
ﷺکا جسم لہو لہان ہو گیا تو اسکے باوجود انکے حق میں آپ نے جو کلمات کہے ،
تاریخ نے اس کو محفوظ کر لیا آپ نے فرمایا: ”خدایا میری قوم نادان ہے وہ
مجھے نہیں جانتی اگر وہ ایمان نہیں لاتے تو نہ سہی ان کی آنے والی نسل شاید
ایمان لے آئے“ ۔حضرت زید بن حارثہ جو آپ کے ساتھ تھے انھوں نے بد دعا کے
لئے آپ سے کہا تو آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایامیں دنیا کے لئے
رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔(الرحیق المختوم ،ص199)
ایک اور روایت میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت اسماءؓکے والدین جنھوں نے ابھی
اسلام قبول نہیں کیا تھا ان سے ملنے مدینہ تشریف لائے ۔حضرت اسماءنے آپﷺسے
پوچھا میں ان سے ملوں یا نہ ملوں آپ نے فرمایا ان سے ملو بھی اور ان کے
ساتھ محبت اور حسن سلوک بھی کرو ۔(سیرةالنبی ،ج 2ص 234,)
اس وقت گوانتنامو اور اس طرح کی دوسری جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ جس ظلم اور
بر بریت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ،ان کو نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم کی زندگی
سے سبق لینا ہوگا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیدیوں کو با عزت رہا کیا
اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی اور ان پر ظلم و زیادتی کو سختی سے
منع کیا اور وعید بھی سنائی ”کسی نبی کے لئے درست نہیں کہ اس کے پاس قیدی
ہوں یہاں تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح خونریزی کر لے ۔تم لوگ دنیا کا سامان
چاہتے ہو اور اللہ آخرت چاہتا ہے ۔اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے ۔اگر
اللہ کی طرف سے نوشتہ سبقت نہ کر چکا ہوتا تو تم لوگوں نے جو کچھ لیا ہے اس
پرتم کو سخت عذاب پکڑ لیتا “ (سورہ الانفال آیت 67,68)
عالمی پیمانہ پر ایسی زندہ دلی کی مثالیں کہاں دیکھنے کو ملتی ہیں یہ نبی
کریم کا ہی اعجاز تھا کہ آپ نے دنیا کو ایسی نظیر دی ،جسکی کوئی مثال نہیں
۔
آج پوری دنیا میں مال و زر کی لڑائیاں ،فرقوں کی باہمی جنگیں ،ملکوں کی
آپسی دشمنی ،خاندانی جھگڑے ،کرسی کی لڑائیاں ،اتحاد و امن کی سالمیت کے لئے
خطرہ ثابت ہو رہی ہیں ۔اس پس منظر میں محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پوری
زندگی لوگوں کو جوڑنے اور متحد کرنے میں صرف ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
مثلا:نبوت سے قبل ہی حجر اسود کے رکھنے کے مسئلہ کو اتنی خوبصورتی سے رفع
دفع کیا کہ نیام سے نکلی ہوئی تلواریں نیام میں واپس لوٹ گئیں ۔آخری خطاب
میں لوگوں کو مساوات انسانی کی تعلیم دیکر جوڑ ااور پر امن بقائے باہمی کے
تحت سماجی رشتوں کو متحد کیا اور سماج کو توڑنے والی تمام برائیوں کاقلع
قمع کیا ۔حلف الفضول میں آپ نے لوگوں کو اس بات پر متحد کیا کہ وہ تاجروں
پر ہو نے والے مظالم کی مخالفت کریں ۔مدینہ میں تشریف لے گئے تو یہودی
قبائل کے ساتھ امن و امان کا ایک معاہدہ کیا جسے میثاق مدینہ کے نام سے
جانا جاتا ہے۔اس میں یہودی قوم کو جو درجہ دیا وہ قابل دید ہے آپ نے فرمایا
:
٭بنو عوف کے یہودی مومنوں کے ساتھ ایک قوم ہیں ۔
٭اس معاہدہ میں شریک اقوام مل کر کسی بھی جنگ کرنے والے کے خلاف ایک دوسرے
کی مدد کریں گی ۔
٭آپس میں خیر خواہی اور ہر طرح کی بھلائی کے تعلقات رکھیں گی گناہ کے
معاملہ سے اجتناب کریں گی ۔
٭یہودیوں کے حلیفوں کے حقوق بھی ایسے ہی مانے جائ ¾یںگے ۔
٭مظلوم کی یقینا مدد کی جائیگی ۔
(سیرت ابن ہشام،ج 1ص،178)
اسی طرح صلح حدیبیہ میں آپ نے بظاہر دب کر صلح کی تھی آپ کا مقصدلو گوں سے
جنگ و جدا ل نہیںتھا بلکہ ان کو اتحا د کی ایک ایسی کڑی میں پرونا تھا جس
میں ان کے لیے نجا ت تھی۔آپ نے تما م انسانوں کو خدا کا بند ہ اور مخلو ق
اورایک کنبہ قرا ر دیا۔
مسلمان اور عیسائی ملکر دنیا کی نصف آبادی کو تشکیل کرتے ہیں ۔اگران دونوں
میں اتحاد پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا نے امن و اتحاد کا
نصف سفر طے کر لیا ۔اس کے لئے ضروری ہے کہ دونوں فرقہ ایک دوسرے کو مطعون
کرنے کے بجائے مثبت رویہ اختیار کریں اور ماضی کی مثبت حقیقتوں کو یاد کریں
جیسا کہ مشہور مشتشرق مسٹر جیسن نے لکھا ہے کہ ”اسلام اور مسلمانوں کے عروج
کی تاریخ رواداری اور ان کی اعلٰی قدروں کو اجاگر کرنے کی تاریخ ہے ۔اس دور
کی مسلمانوں کی سلطنتیں ستم رسیدہ یہودیوں اور نسطوری ،یعقوبی اور دوسرے
عقائد رکھنے والے عیسائیوں کی پناہ گاہ تھیں اور ان کے مذہبی عقائد سے
اختلاف رکھنے کے با وجود مسلم ممالک میں انھیں پناہ لینے کی کھلی آزادی تھی
بلکہ انھیں مذہبی فرائض کی ادائیگی اور اپنی عبادت گاہوں کو تعمیر کرنے کی
بھی آزادی حاصل تھی اور یہ سب محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا
نتیجہ تھا “(سہ روزہ دعوت دہلی،13ستمبر1983ئ)
اسپر ٹ آ ف اسلا م میں جو نی لال کے بقول :
”رسول نے عیسائیوں کو ایسی مراعات عطا کیں جو انھیں اپنے مذہب کے بادشاہوں
کے زیر حکومت بھی حاصل نہیں تھیں “
اور رسالہ وشال بھارت میں شری سندر لال جی نے اسی کاکچھ ان الفاظ میں
اعتراف کیا ہے :
”محمد صاحب نے غیر مسلموں کو یہاں تک کہ بت پرستوں کو بھی اپنی حکومت کے
اندر رہ کر مذہبی مراسم ادا کرنے کی پوری پوری آزادی بخشی اور ان کی عبادت
گاہوں کی حفاظت ہر مسلمان کا فرض قرار دیا “
(رسالہ وشال بھارت کلکتہ نومبر 1933۔ص،517)
آپ کی یہ اور اس طرح کی بے شمار اخلاق حسنہ نے مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ
دنیا کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا ۔اور آپ کے اسی جزبہ محبت ،امن ،اتحاد
اور رواداری نے ”شام ستم “میں ڈوبی ہوئی انسانیت کو ”صبح امن“کا پیغام
دیا۔آج اگر دنیا چاہتی ہے کہ ایک پاکیزہ سماج اور ایک پاکیزہ ماحول کے اندر
زندگی بسر کرے تو اسے محمد کی تعلیمات سے بہتر کوئی پیغام نہیں مل سکتاکہ:
بلغ العلی بکمالہ
کشف الدجی بجمالہ |