پاکستانی کی سیاسی ہواؤں میں
آجکل افواہوں غیر سروپا لن ترانیوں اور کینفیوژن کی شوشہ آرائیوں اور کذب
بیانی کی فضاؤں کا زور شور ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن ایک دوسرے پر گند
اچھالنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتی جدھر آنکھیں پھیر کر دیکھو تو صدر کی
بیماری پر فریب کاری کی وردزبانی جاری ہے۔سیاسی منظر نامے پر غور کرنے سے
پتہ چلتا ہے کہ حالیہ قیاس آرائیوں اور صدر مملکت زرداری کی بیماری کا آپس
میں نہ تو کوئی تال مال ہے اور نہ ہی فوری طور پر ایوان صدر میں کسی تبدیلی
کا امکان ہے۔ صدر زرداری پولیٹیکل ہسٹری کے واحد سیاسی رہنما ضمیر کے قیدی
اور مضبوط اعصاب کے مرد حر ہیں جو بیک وقت نیک بخت اور بدقسمت دکھائی دیتے
ہیں ۔انکے خلاف پچھلی تین دہائیوں سے پروپگنڈہ وار تسلسل کے ساتھ جاری و
ساری ہے۔ کسی نے زرداری پر کرپشن کنگ کی ہانک ماری تو کوئی سرحے محلات کی
ڈھینگ مارنے میں غلطاں تھا کوئی احتساب الرحمن کی شکل میں بھٹوز اور زرداری
پر درجنوں مقدمات کی خاطرنیب کا کھلونا بنانے میں مگن تھا ۔کسی نے مسٹر 10
٪کی بے سری ٹھمری سنائی تو کسی نے مرتضی بھٹو کی ہلاکت میں زرداری کو ملوث
ٹھرایا۔ قانون نے تفتیش و تحقیق کے بغیر اسے زندان میں پھینک دیا۔۔ زرداری
نے ناقابل لغزش عزائم کی تاریخ رقم کردی ۔ وہ 11سالہ اسیری کے جبر و
استبداد اور تشدد کو چیونگم کی طرح چبا ڈالا۔زندان میں اسے سیاست سے تائب
ہونے بی بی کو چھوڑنے خود ساختہ جلاوطنی اور دیار غیر میں ٹھاٹھ باٹھ کی پر
کشش آفرز کا پیکج دیا گیا مگر وہ نہ توجھکنے بکنے معافیاں مانگنے پر راضی
ہوا اور نہ ہی اسکا ضمیر راہ فرار اور جلاوطنی پر آمادہ ہوا۔یوں ضمیر کے
قیدی نے شاہانہ افرز کو جوتے کی نوک پر دھتکار دیا۔ گیارہ سال بعد جب وہ
آزاد ہوا تو اسکے سر پر مرد حر کا ہما چمک دمک رہا تھا جو مسلم لیگ سے
روحانی وابستگی رکھنے والے مجید نظامی نے سجایا تھا۔27 دسمبر زرداری کے لئے
منحوس دن ثابت ہوا ایک طرف انکی شہرہ آفاق آئرن لیڈی اور شریکہ حیات بنظیر
بھٹو خود کش بمباروں کی بربریت کے سامنے زندگی کی بازی ہار گئیں تو دوسری
طرف انکے بچوں پر یتیمی کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ بی بی کی رحلت پر سندھیوں میں
نفرت اور علحیدگی کا لاوا پھوٹ پڑا ۔ شعلہ جوالہ آتش فشاں بننے کے سفر پر
تھا کہ زرداری کی وسیع القلبی اور محب وطنی نے آتش فشاں کو کھپے پاکستان کے
فلسفے نے گلستان میں بدل دیا۔ اسکی طلسماتی شخصیت وفاقی وحدت کے لئے شجر
سایہ دار بن گئی۔۔ مرد حر نے بی بی کو لحد نشین کیا اور پارٹی رہنماؤں کی
مشاورت اور شہید بیوی کی وصیت کی روشنی میں پارٹی قیادت کا علم بلند کیا
اور جئے بھٹو کا نعرہ مار کرانتخابی میدان میں بے خطر اتش نمرود میں کود
پڑا۔ زرداری کی قیادت میں جیالوں کا قافلہ جمہور حکومتی ایوانوں پر شاداں و
فرحاں چھا گیا ۔ غیر جمہوری عناصر نے روز اول سے منتخب حکومت اور صدر مملکت
کے خلاف خارجی اور داخلی سازشوں کا بازار گرم رکھا مگر سچ تو یہ ہے کہ صدر
نے آہنی عزائم اور خندہ پیشیانی سے سازشیوں کو ناک اوٹ کیا۔ مخالفین تو اب
انکی جان کے درپے ہوگئے۔ صدر نے رزیلوں اور فریبیوں پر واضح کردیا کہ
ایمبولینس ہی مجھے ایوان صدر سے نکال سکتی ہے۔ لاڑکانہ میں شہدا کا ایک
قبرستان ہے میرا ٹھکانہ بھی وہی ہوگا۔ وہ بیمار کیا ہوئے کہ نکتہ چینی اور
الزام تراشی کے اگلے پچھلے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ عقل کے اندھوں اور گانٹھ کے
پوروں کے فریبی مرض میں مبتلا دانشوروں نے تو خیالی پلاو اور خوش فہمی کی
نوید کا راگ گایاکہ صدر فرار ہوگئے۔ جھوٹ لغویات اورہواس باختہ بیانات کے
جام چھلکانے والے جغادری قلمکاروں اور دور کی کوڑی لانے کے شوقین اینکرز نے
چائے کی پیالی میں طوفان برپا کردیا کہ خدا کی پناہ لاف زنی کا ایسا منظر
دیکھنے کو ملا کہ سچائی اندھیروں میں ڈوب گئی۔ اینکرز کو خوف خدا کرنا
چاہئیے کیونکہ انکی راگنی ایک طرف سیاسی انتشار کا سبب بنتی ہے تو دوسری
جانب قومی و ملی یکجہتی پارہ پارہ ہوجاتی ہے۔ سورہ بقرہ میں رب العالمین کا
فرمان ہے سچ کو مت چھپاؤ شہادت دینے سے مت گھبراؤ جو سچ حق کو کو مصلحت
گوشی سے چھپاتا ہے اسکا دل گناہ الودہ بن جاتا ہے۔ سورہ نسا میں خدائے لم
یذل کا ارشاد ہے اے لوگوں جو ایمان لائے ہو تو گواہ بنو گواہی دو اگر تم نے
لگی لپٹی بات کہی یا سچ چھپانے کی غلطی کی تو جان رکھو کہ تمھارا رب دیکھ
رہا ہے۔ہمیں اپنے رب کی یہ آیات بیماری اور سیاسی صورتحال پر حکومتی قصیدہ
خوانوں اور لیگی وارثان نے ایک دوسرے پر بلیم شیم عائد کرنے زرداری کی دبئی
روانگی کے غلط حوالہ جات اور میٹھا میٹھا تھو تھو کڑوا کڑوا ہپ ہپ والی
سیاسی صورتحال کے کارن یاد آگئے۔ گو زرداری گو کی فلسفیانہ موشگافی کے
ایجاد کار سیاسی بہرو پیوں کا قومی فرض ہے کہ وہ فرامین خدا او رسول اور
ابن خلدون کے سبق آموز اور بصیرت افروز الفاظ کی روشنی میں ایوان صدر
جمہوریت پر الزام تراشیوں کی مشق ستم ڈھانے سے گریز کریں۔ابن خلدون نے کہا
تھا سچ کے پیروکار بنو سیاسی حریفوں کے ساتھ نیک سلوک کرو جان لو اگر ایسا
ہوا تو تم اپنے علاوہ سماج کے ساتھ انصاف و بھلائی کی مساعی جلیلہ کے ہیرو
بن جاؤ گے ۔ میمو گیٹ سیکنڈل کو مسئلہ کشمیر کی طرح قومی ایشو بنا نے والے
سیاسی در گزر اور سحر انگیز الفاظ سے سادہ لہو قوم کے جذبات میں نفرت کا
بیج بونے والے بقراط اور دانشور کسی حال میں جمہوریت کے خیر خواہ ہو ہی
نہیں سکتے۔ ہماری اخلاق باختگی و زہنی خلجان کا عالم بھی دیدنی ہے۔ دو کوڑی
کا بنارسی ٹھگ باہر بیٹھ کر خود ساختہ کالم میں چند متنازعہ فقروں کا
استعمال کرتا ہے اور ہم اپنی ذاتی خواہشات کی تسکین کے لئے ایک طرف خیبر سے
کراچی تک ہلچل مچادیتے ہیں تو دوسری طرف سیاسی قبیلے کے شعبدہ باز سیاسی
مفادات کو قومی مفادات پر اولیت دیکر حقائق کشی کی تمام حدیں پھلانگ جاتے
ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ان پر سیاسی مخاصمت لسانیت افروز انتشار اور
فرقہ پرستی کا دورہ پڑتا ہے کہ وہ عوامی مینڈیٹ کی ایسی درگت بناتے ہیں کہ
انکی شرانگیزی سے ریاست کا مقدس ترین ادارہ ایوان صدر بھی بچ نہیں پاتا۔
افواہ ساز ٹولہ ایوان صدر میں محو استراحت جلیل القدر شخصیت صدر مملکت پر
غداری کی تہمت لگانے سے باز نہیں آتا۔ ایسا عمل خطا بھی ہے اور اپنے لئے
سزا بھی۔ لگتا ہے ہم وہ بدقسمت نیشن ہیں جو 4 اپریل1979 کی ضیائی اور12
اکتوبر کی جرنیلی امریت کی شام غریباں پر محیط خطاوں زلت امیز سزاؤں کے
باوجود اپنے کرتوتوں سے سبق سیکھنے میں ناکام رہے۔ ہم سحر انگیز اور رنگین
و من گھڑت کہانیوں کے اگے کھلی آنکھوں سے بند کلیوں کا نظارہ کرنے میں
ناکام رہتے ہیں عوامی مصائب کے اندمال کی بجائے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام
شان و شوکت سے کرتے ہیں مگر عوامی جذبات میں اتحاد و یکجہتی کی شیرینی کی
بجائے احساس محرومی کے شرارے بھڑکانے میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ بھٹو
خاندان اور انکے روحانی پیش واہ صدر مملکت زرداری کی جمہوریت قوم اور آئین
کی سربلندی کی زریں خدمات کا موازانہ عہد رفتہ کے سیاسی بابووں سے کرنا قلم
کی توہین ہوگی۔ عمر بھر بھٹو کو قاتل ڈکٹیٹر اور سقوط ڈھاکہ کا مجرم اور
ppp کو بحیرہ ارب میں غرق کرنے کے اعلانات کرنے والے دو روز قبل گڑھی خدا
بخش میں شہدا جمہوریت نامی قبرستان میں فاتحہ خوانی کررہے تھے جو بھٹوز اور
زرداری کی اخلاقی فتح ہے۔ قوم زرداری کی مرہون منت ہے۔ دن کی روشنی میں تو
ہر کوئی راہ دیکھ سکتا ہے مزہ تو تب ہے جب امریت کی شب دیجور میں اپنے خون
مقدس و کردار و عمل کی شمع کے اجالوں سے مسافروں کو منزل مقصود تک پہنچانے
کا فریضہ انجام دے۔ اقتدار کے ہوس گیر امر جہازوں میں گل سڑ جاتے ہیں مگر
کرسی کا دامن چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ صدر کو ہدف تنقیدکیا یہ زرداری کا
لازوال کارنامہ نہیں کہ مشرف دور کی آئینی پیوندکاریوں سے مسخ ہوجانے والے
آئین کو مختصر عرصے میں دوبارہ اصلی حالت میں بحال کیا؟ سابقہ ادوار میں بے
توقیر بن جانے والے وزارت عظمی کو چپڑاسی کی بجائے ملک کا چیف ایگزیکٹو
بنادیا؟ پارلیمان کو آئینی حرمت سے مالا مال کرنے والہ کون ہے؟ عدلیہ کے
مہاراجوں کو زندان سے رہا کروانے اور افتخار پاکستان کو چیف جسٹس کے
سنگھاسن پر فائز کرنے کا فرمان جارے کرنے والہ کون ہے؟ صوبوں کے مابین کس
نےnfc ایوارڈ کا تنازعہ کب کیسے اور کس طرح سلجھایا ؟ ہم عمر بھر وائٹ ہاؤس
کے طفیلی دلال کا کردار ادا کرتے رہے ہیں پاک امریکہ حالیہ کشیدگی میں
گوروں کو اسکی اوقات کس نے دکھانے کی جرات رندانہ کا سنگ میل عبور کیا؟
نیٹو سپلائی کو معطل کرنے کی شجاعت کس نے دکھائی ؟ یہ بھی بتایا جائے کہ
کون اہل دل اکلوتے فرزند کو سیاست کی پرخار جھاڑیوں کے سپرد کرتا ہے جہاں
قدم قدم پر موت کے مہیب سائے اسکا پیچھا کرتے ہوں۔ن سوالات کی سچائی جانچنے
کے بعد غداروں سیاسی مینڈکوں اور سیاست کے سقراطوں کی حقیقت نوشتہ دیوار
بنکر منکشف ہوجاتی ہے۔ صدر مملکت نے دوبئی روانگی سے قبل bibiکے اکلوتے
فرزند بلاول بھٹو کو سقراط کی راہ کا مجاور بنادیا۔۔ سقراط کی راہ پر زہر
کا پیالہ تو الم نشرح ہوا کرتاہے مگر یہی زہر انتہاپسند سماج اور قوموں کی
خوشحالی ہریالی ائین جمہوریت کی پاسداری کا تریاق بن جاتا ہے۔ بلاول کو راہ
سقراط مبارک ہو۔ |