صحابہ کرام ؓ کے واقعات میں
تحریر ہے کہ صبح کا وقت تھا اورامیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ ایک اونٹ پر
سوا ر ہو کر وادی کی طرف چلے جارہے تھے۔حضرت علی ؓ نے اُنہیں دیکھ کر آواز
دی اور دریافت فرمایا اے امیر المومنین آپ صبح صبح کہاں تشریف لے جا رہے
ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا۔’اے علیؓ صدقہ کے اونٹوں میں سے ایک اونٹ کہیں
گم ہو گیا ہے اُس کی تلاش کر رہا ہوں‘۔
حضرت علیؓ نے فرمایا ۔ اے امیر المومنین آپ نے اپنے بعد میں آنے والے
خلفاءکو بڑی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے ارشاد فرمایا۔” اے ابوالحسنؓ
مجھے ملامت نہ کرو۔ رب تعالیٰ کی قسم جس نے حضرت محمدﷺ کو رسولِ برحق بنا
کر مبعوث فرمایا۔ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک سالہ بھیڑ کا بچہ بھی مر
جائے تو قیامت کے دن اُس کے متعلق بھی مواخذہ ہو گا۔کیونکہ اُس امیر کی
کوئی عزت نہیں جس نے مسلمانوں کو ہلاک کر دیا اور نہ ہی اُس بدبخت کا کوئی
مقام ہے جس نے مسلمانوں کو خوفزدہ کیا۔“
قارئین!اس روشن واقعہ کی روشنی میں ذرا آج کے حالات تو دیکھئے۔ کراچی میں
صرف سیاسی اختلافات اور ”ڈان شپ“ کے چکر میں تین سیاسی اتحادی جماعتوں نے
قتل و غارت گری کا وہ طوفان برپا کیا کہ جس نے ہزاروں انسانوں کی زندگیاں
چھین لیں۔ٹارگٹ کلنگ،فائرنگ، بم دھماکوں اور مختلف کارروائیوں کے ذریعے
اُردو بولنے والوں، پشتوبولنے والوں اور سندھی بولنے والوں نے علاقائیت کی
بنیاد پر بوری بند لاشوں کی ایک قطار بنا دی ہے۔آج کراچی کسی حد تک سکون
میں ہے اور اُس سکون کی وجہ ڈاکٹر ذو الفقار مرزا کی طرف سے برطانیہ جا کر
لارڈ نذیر احمد کی مدد سے سکاٹ لینڈ یارڈ اور دیگر اداروں کو ٹھوس ثبوت
فراہم کرنا کہا جاتا ہے کہ جن میں فردِ جرم براہِ راست الطاف حسین کے خلاف
کاٹی جاسکتی ہے۔کراچی کی موجودہ پُر اسرار خاموشی کسی بہت بڑے طوفان کا پتہ
بھی دے رہی ہے۔
تازہ ترین واقعہ یہ بھی ہوا ہے کہ آفاق احمد کو رہا کر دیا گیا۔MQMحقیقی کے
سربراہ کی رہائی کے پیچھے بعض لوگ فرشتوں کا ہاتھ بھی قرار دیتے ہیں اور یہ
بھی کہا جاتا ہے کہ اس طرح کراچی میں طاقت کا توازن قائم کرنے کی کوشش کی
جارہی ہے۔بوجوہ ابھی تک MQMالطاف حسین کا کوئی بھی لیڈر ڈاکٹر ذو الفقار
مرزا کے الزامات کا جواب نہیں دے سکایا اگر کسی نے جواب دیا بھی ہے تو وہ
تسلی بخش نہیں ہے۔
قارئین! کراچی کے عوام اس وقت ایک زخمی پرندے کی طرح حکمرا نوں اور
سیاستدانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔آگ اور بارود سے تپتی زمین پر غریب نہتے
عوام”رقصِ بسمل“میںمبتلا ہیں۔ابتلا کے اس دور میں کہ جب قوم کے حاکموں اور
خادموں کو ملک کے اندر ہونا چاہےے تھا وہ خود بےمار ہو کر پہلے تو دبئی چلے
گئے اور جب واپس آئے تو بلاول ہاﺅس میں محصور ہو گئے جبکہ آج کا بیان کردہ
سنہری واقعہ بتاتا ہے کہ اگر فرات کے کنارے بھیڑ کا بچہ بھی مرتا ہے تو
پوچھ حاکموں سے ہو گی۔جناب آصف علی زرداری صاحب آپ نے کبھی سوچا کہ آپ سے
کیا کیا پوچھ ہو سکتی ہے ۔کراچی میں گرنے والی ہزاروں لاشیں، سیلاب کے
دوران جان ہار دینے والے بے گور و کفن پاکستانی، بلوچستان میں پر اسرار
اغواءکے بعد گلیوں کوچوں میں ملنے والے متشدد بے جان جسم اور کشمیر میں ایک
لاکھ سے زائد کشمیری شہدا.... آپ کس کس کا جواب دیں گے....؟
قارئین!وہ قومیں مٹ جاتی ہیں جن میں انصاف نہیں ہو تا۔آج پاکستانی عدالتیں
خوش قسمتی سے آزاد ہیں اور آزادی کے ساتھ فیصلے کر رہی ہیں لیکن ان فیصلوں
پر عمل در آمد کون کروائے گا۔کیا وہ لوگ کہ جو حاکم ہیں اور NROکی پیداوار
ہیں وہ اپنے خلاف آنے والے فیصلوں پر عمل در آمد کروانے والا دل اور جگر
کہاں سے لائیں گے۔ اس وقت عدالتی فیصلوں کی کھل کر تضحیک کی جارہی ہے اور
سپریم کورٹ کو عضوِ معطل بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔پاکستانی قوم کے صبر کا
امتحان مہنگائی ، دہشت گردی، بے روزگاری اور دیگر تمام ابتلاﺅں سے لیا
جارہا ہے۔بقول غالب
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارہِ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خط و خال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصور سے
اب وہ رعنائی خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت، جگر میں حال کہاں
قارئین! نیٹو فورسز افواجِ پاکستان پر حملہ کر کے26مجاہدوں کو شہید کر دیتی
ہیں ، میمو گیٹ سکینڈل کے مطابق پاکستانی سیاسی حکومت کی طرف سے امریکی
افواج کے سربراہ کو پاکستانی فوجوں کے خلاف کاروائی کرنے کی دعوت دی جاتی
ہے، پاکستان کے سب سے بڑے دشمن اورایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کے قاتل بھارت
کو پسندیدہ ترین ملک ہونے کے سرٹیفیکیٹ ایشو کیے جاتے ہیں، پاکستان اور
کشمیر کی سب سے موثر آواز لارڈ نذیر احمد کو ناپسندیدگی کی مہر رسید کی
جاتی ہے اور ان تمام واقعات اور حادثات میں ہمارے نگہبان ہمارے حکمران میر
جعفر اور میر صادق کی چادر اوڑھے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں خلفائے
راشدینؓ کے پیروکار نظر نہیں آتے
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
تھے تو آباءوہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو
قارئین اگر حکمران بے حمیت ہیں، اپوزیشن مصلحت اندیش ہے، مذہبی جماعتیں
مفاد پرست ہیں، مساجد اور مدارس سے مجاہدو ں کی جگہ روٹی مانگنے والے درویش
پیدا ہو رہے ہیں تو اس تمام کے باوجود یقین رکھئےے کہ مملکت خدادادِ
پاکستان کی بنیادوں میں لاکھوں مخلص شہیدوں کا لہو ہے۔اٹھارہ کروڑ پاکستانی
عوام جلد جاگیں گے اور ”رقصِ بسمل“ انقلاب کے مارچ میں تبدیل ہو جائے
گا۔شائد عمران خان سے قدرت کوئی بڑا کام لینا چاہ رہی ہے۔قوم کو بھی چاہیے
کہ وہ وینا ملک کا پیچھا کرنے کے بجائے رحمان ملک سے احتساب کرے۔
آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
فائن آرٹ سے نا آشنا ایک صاحب تصویری نمائش میں ایک پردے پر بنی تصویر کی
تعریف کرنے لگے ۔ واہ کیا شاہکار ہے۔ کسی پردے پر ایسی بہترین تجریدی تصویر
میں نے کبھی نہیں دیکھی۔اس پر مصور بولا۔
”جناب یہ کوئی تصویر نہیں ہے بلکہ میرا برش صاف کرنے والا کپڑا ہے۔“
قارئین آزادکشمیر کی شاہ سے بڑھ کر شاہ کی وفادار مجاور حکومت ہو یا
پاکستان میں بابر اعوان سے لے کر رحمان ملک تک لوگ ہوں یہ سب بھی امورِ
جہانگیری و جہانبانی سے نا آشنا اور نابلد لوگ ہیںجو ”کھپے والی سرکار“ کی
ہر کاروائی کو واہ واہ کہہ کر داد دیتے ہیں اور بعد میں خود ہی شرمندہ ہوتے
ہیں۔ |