سال 2011ءکے آخری مہینے میں
کولیاں خاندان کی طرف سے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کے اعلان نے
انتخابی سیاست کے افق پر نئی ہلچل پیدا کر دی سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب
اور تجربہ کار پارلیمنٹرین میاں محمد افضل حیات اور ان کے خاندان کی طرف سے
کئے گئے اس فیصلے کے حلقہ این اے106اور پی پی113 کی سیاست پر یقینا گہرے
اثرات مرتب ہوں گے سیاسی اعتبار سے سال2011ءکو نئی صف بندیوں کا سال قرار
دیا جا سکتا ہے،اس سال کے آغاز پر این اے106 کے منتخب قومی اسمبلی قمر زمان
کائرہ وزارت اطلاعات سے سکبدوش ہو گئے انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ
وزارت ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی انہوں نے قیادت کی ہدایت پر پارٹی
کے بہترین مفاد میں قربانی دی ہے، ادھر ان کے مخالفین میں سے قریب ترین
حریف سید نور الحسن شاہ آف کلیوال سیداں نے اسی سال میں چوہدری برادران اور
ق لیگ کو خدا حافظ کہہ کر مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کر لی جس کے بعد
سیاسی پنڈت دونوں کو قومی اسمبلی کے الیکشن میں مقابل قرار دے رہے
تھے،اگرچہ پورا سال مسلم لیگ ن کے ساتھ گزارنے کے باوجود سید نور الحسن شاہ
مسلم لیگ ن کی قیادت سے شاکی رہے اور انہوں نے میڈیا کو جاری بیانات میں
ایک سے زائد بار شکوہ کیا کہ تھانیدار تک ان کی بات نہیں مانتے،انہوں نے
یہاں تک کہہ دیا کہ ان کو پارٹی ٹکٹ نہ بھی ملا تو وہ ایم این اے کا الیکشن
ضرور لڑیں گے، اسی سال 2011ءکے آخری تین ماہ میں معتبر ترین ذرائع کی طرف
سے خبریں گردش کرتی رہیں کہ حلقہ پی پی113 سے پانچ بار کامیابی حاصل کرنے
والے ایم پی اے میاں طارق محمود جو اپنے انتخاب کے چند ماہ بعد مسلم لیگ ق
سے کنارہ کشی کر کے یونیفکیشن بلاک کی صورت میں مسلم لیگ ن سے مل گئے تھے
حلقہ این اے106سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑیں گے انہوں نے اپنے اخباری بیان
میں اس بات کا اعتراف بھی کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے ان کو
یہ پیش کش کی تھی۔۔۔انہوں نے کبھی ان غیر مصدقہ قیاس آرائیوں کی کھل کر
تردید نہیں کی تاہم وہ یہ ضرورکہتے ہیں کہ وہ ایم این اے کا الیکشن لڑنے کو
تیار ہیں تاہم اس شرط پر کہ مسلم لیگ ن پی پی113کا ٹکٹ بھی انکو دے کیونکہ
انہوں نے لگ بھگ پچیس برس تک اس حلقہ کی تعمیر و ترقی کے لیے بے حد کاوشیں
کی ہیں اس لئے وہ یہ حلقہ چھوڑنے کو تیار نہیں،اس طرح اس سال کے آخری تین
ماہ میں سید نور الحسن شاہ ،قمر زمان کائرہ اور میاں طارق محمود کو ایم این
اے کے لیے امیدوار تصور کیا جا رہا تھا لیکن آخری عشرہ میں طویل سیاسی
خاموشی کے بعد سابق امیدوار صوبائی اسمبلی میاں محمد افضل حیات ایک دھماکے
سے عملی سیاست میں پھر سے لوٹ آئے ہیں تحریک انصاف میں ان کی شمولیت سے
سیاسی تجزیہ نگار اب اس حلقہ سے چار قائدین کوایک دوسرے کے مقابل دیکھ رہے
ہیں ادھر تجزیہ نگاروں کا یہ کہنا بھی ہے کہ سید نور الحسن شاہ اور میاں
طارق محمود کے درمیان ٹکٹ کا فیصلہ ہو جانے پر صورتحال تبدیلی ہو گی دوسری
طرف ایسے ہی حالات پی پی113میں میاں طارق محمود اور چوہدری جعفر اقبال کے
درمیان بے یقینی پیدا کرتے نظر آتے ہیں چوہدر ی جعفر اقبال نے2002
ءاور2008ءمیں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر پی پی 113سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑ
ا اگرچہ وہ جیت نہیں پائے مگر2008ءمیں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل
کر کے ایک بمشکل ترین وقت میں مسلم لیگ ن کی پنجاب حکومت کو بچانے کے لیے
یونیفکیشن گروپ میں شامل ہونے والے میاں طارق محمود کا دعویٰ ہے کہ ان کے
میاں برادران سے گھریلو تعلقات ہیں اور یہ کہہ کر یونیفکیشن گروپ نے یہ چار
سال بغیر کسی مطلب کے ڈٹ کر وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا ساتھ دیا اس لئے
پی پی 113کا ٹکٹ انہیں ملے گا،دونوں حریف جو اب ایک ہی جماعت اور ایک ہی
قیادت سے وابستگی کا اعلان کرتے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ ٹکٹ ان کو ملے
گا،2011ءمیں پورا سال دونوں کے مابین مقدمہ بازی اور بیان بازی جاری رہی
دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت ٹکٹ کے لیے کس کا انتخاب کرتی ہے،بعض
ذرائع بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ سال2013ءکے الیکشن میں میاں طارق محمود ایم
این اے اور چوہدری جعفر اقبال ایم پی اے کا الیکشن مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم
سے اکٹھے لڑیں گے اور پارٹی قیادت قمر زمان کائرہ کے مقابلے میں بہتر صف
بندی کرے گی،تاہم دونوں امیدواروں کی طرف سے اس کی تصدیق نہیں کی گئی،حلقہ
پی پی113سے مسلم لیگ ق کے راہنما چوہدری اعجاز احمد رنیاں جن کا اسی سال
میں کشمیر الیکشن کے دوران میاں طارق محمود سے پولنگ اسٹیشن پر تصادم پوری
دنیا می شہرت حاصل کر گیا تھا ق لیگ کی طرف سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن
لڑنے کا کئی بار اعلان کر چکے ہیں۔
چوہدری اعجاز احمدآف رنیاں نے اسی سال 2011 میں خود کو بطور حریف امیدوار
منوایا ہے،انہوں نے حلقہ میں مسلسل محنت کر کے اپنا دھڑا بنانے میں کامیابی
حاصل کی ہے ق لیگ سے وابستہ کولیاں خاندان کی تحریک انصاف میں شمولیت کے
بعد اب ان کی راہ میں ق لیگ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں
تاہم سیاسی تجزیہ نگارق لیگ اور پی پی پی کے مابین انتخابی اتحاد برقرار
رکھنے کی صورت میں یہ قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ کیا کائرہ خاندان رنیاں
خاندان کے ساتھ مل کر اکٹھا الیکشن لڑنے پر تیار ہو گا کیا وہ اتحاد کی
صورت میں کوئی نیا امیدوار ساتھ لینے کے لئے چوہدری برادران کو مجبور تو
نہیںکریں گے تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر پی پی اور ق لیگ میں
اتحاد ختم ہو گیا اور مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے میں ضم نہ ہوئیں
تو مسلم لیگ ق پی پی113میں ان سے بہتر امیدوار تلاش نہیں کرے سکے گی،اس طرح
اس وقت میں میاں طارق محمود،چوہدری جعفر اقبال اور چوہدری اعجا ز احمدرنیاں
حلقہ پی پی113کے امیدوار کے طور پر سامنے آچکے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ کولیاں
خاندان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن خود لڑتا ہے
یا پھر وہ مبینہ طور پر الحاج محمدصادق بٹ سابق ناظم ڈنگہ یا محمد حبیب
بسوی سابق ناظم ڈنگہ میں سے کسی ایک کو ایم پی اے کا الیکشن لڑنے یا تحریک
انصاف میں شمولیت پر راضی کر سکتے ہیں حلقہ این اے106اور پی پی113میں ٹکٹ
کے لئے مشکل فیصلے صرف ن لیگ کو کرنا ہو ں گے جن کے پاس ایم این اے اور ایم
پی اے کے دو دو امیدوار ہیں،تجزیہ نگار یہ پہلو بھی دیکھ رہے ہیں کہ ق لیگ
پی پی اتحاد برقرار نہ رہ سکنے کی صورت میں پیپلز پارٹی صوبائی اسمبلی کے
لیے کس امیدوار کو میدان میں اتارتی ہے یہ بات طے ہے یہ بات طے ہے کہ اسی
صورت میں کائرہ خاندان کی رائے کو پارٹی ضرور اہمیت دے گی،بعض سیاسی تجزیہ
نگارزور دے کر کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں سابق تحصیل ناظم اور متحرک شخصیت
چوہدر ی ندیم اصغر کائرہ بہترین امیدوار ہو سکتے ہیں تاہم پی پی113سے پیپلز
پارٹی کے سابق ٹکٹ ہولڈرمیاں خالد رفیق کی طرف سے میڈیا سے دوری اور پارٹی
بیانات میں عدم دلچسپی کے باوجود ان کا میدان میں اترنا بھی بعید از قیاس
نہیں ہے سال2012ءانتخابات کا سال ہوگا جس کے آخر تک تمام سیاسی پارٹیاں
اپنے اپنے پتے شو کر دیں گیں دیکھنا یہ ہو گا کہ اگر میاںطارق محمود جو
موجودہ ایم پی اے ہیں ان کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ نہ مل سکا تو ان سے کون کون
سے فیصلے متوقع ہیں اور اگر مشکل ترین حالات میں مسلم لیگ ن کے لیے
قربانیاں دینے والے چوہدری جعفر اقبال کی حق تلفی کی گئی تو ان کا ردعمل
کیا ہوگا،اگرچہ چوہدری جعفر اقبال نے عید ملن پارٹی کے موقع پر میڈیاکے ان
سوالات کا جواب یہ کہہ کر دیا تھا کہ وہ پارٹی کے ساتھ ہر حال میں وابستہ
رہیں گے اور یہ بھی کہ پارٹی قیادت ان کی قربانیوں سے آگاہ ہے،اور ابھی وہ
وقت نہیں آیا کہ کوئی فیصلہ کر لیاجائے،تاہم تجزیہ نگار یہ سوچنے پرمجبور
ہیں کہ دس سال تک مسلسل پارٹی کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے والے چوہدری
جعفر اقبال کو ٹکٹ نہ ملا تو کیا وہ سیاست کے میدان میں رہ سکیں گے؟یا اگر
سید نور الحسن شاہ کے مقابلہ میںNA-106 کا ٹکٹ میاں طارق محمود کو دے دیا
گیا تو وہ کس نوعیت کا فیصلہ کر سکتے ہیں،اگر سیدنور الحسن شاہ اور ان کے
ترجمان بدستور زور دیتے نظر آتے ہیں کہ این اے106کاٹکٹ انہیں بھی دیا جائے
گا لیکن سخت حریف کو گرانے کے لیے ن لیگ کسی وقت بھی بڑا فیصلہ کرسکتی
ہے،2008ءمیں مسلم لیگ ن کے امیدوار برائے قومی اسمبلی کرنل محمداکرم آف
برنالی بھی ابھی تک خاموش ہیں ایک آدھ نیم دلانہ بیان کے علاوہ انہوں نے
کہیں یہ عندیہ نہیں دیا کہ ن لیگ کے ٹکٹ کے دور میں وہ بھی شامل ہیں،تاہم
حلقوں کا خیال ہے کہ وہ این اے106سے مسلم لیگ ن کا ٹکٹ لینے کےلئے پارٹی کو
درخواست ضرو ر دیں گے،اسی طرح اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کی جدوجہد میں
مصروف چوہدری نصر اقبال سکھ چیناں جو لالہ موسیٰ میںڈیرہ لگا کر مسلسل عوام
رابطہ مہم میں مصروف ہیں، این اے106سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے امیدوار بحرحال
ضرور ہیں،میاں محمد افضل حیات جنہوں نے2002ءکے جنرل الیکشن میں70 ہزار سے
زائد ووٹ لیتے تھے پاکستان میں تیزی سے مقبول ہوتی ہوئی جماعت پاکستان
تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں یقینی طور پر وہ این اے106 سے تحریک انصاف
کا ٹکٹ ضرور لیں گے اس طرح ایک عمومی جائزہ کے مطابق سال2011میں انتخابات
کے لیے تیزی سے نئی صف بندیاں کی گئی ہیں مسلم لیگ ن کی طرف سے این
اے106میں میاں طارق محمود،سید نورالحسن شاہ اور چوہدری نصر آف سکھ
چیناں،چوہدر ی کرنل اکرم برنالی پیپلز پارٹ کی طرف سے واحد امیدوار قمر
زمان کائرہ جبکہ تحریک انصاف کی طرف سے میاںمحمدافضل حیات آئندہ الیکشن میں
ٹکٹ کے حصول کے لئے درخواستیں دیں گے سنی تحریک،جو یو آئی اور جماعت اسلامی
بھی اپنے امیدوار میدان میں لا سکتی ہے جبکہ پی پی 113سے میاں طارق
محمود،چوہدری جعفر اقبال ،چوہدری اجاز احمدرنیاں،میاں خالد رفیق سیکریالی
اور تحریک انصاف کا امیدوار درخواستیں دیں گے سیاسی تجزیہ نگار
الیکشن2013کو کانٹے دارقرار دیتے ہی جس میںمقابلہ میں سخت امیدوار میدان
میں اتریں گے۔ |