مجلس عمل سے مجلس بے عمل تک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

گذشتہ کچھ عرصے سے مولانا فضل الرحمن متحدہ مجلس عمل( ایم ایم اے )کی بحالی کیلئے ایک بار پھر متحرک ہیں،انہیں اچانک ایم ایم اے کی بحالی کےلئے فعال کردار ادا کرنے کی فکر لاحق ہو گئی ہے اور ذاتی طور پر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے غیر فعال اتحاد کی بحالی میں خصوصی دلچسپی پیدا ہوگئی ہے،جس کی وجہ سے دینی جماعتوں کے اتحاد میں شامل جماعتوں کے سر براہان کا اجلاس بلانے کیلئے کوششیں آخری مرحلے میں داخل ہوگئیں ہیں،اس حوالے سے جے یو آئی( ف) کے مرکزی رہنما حافظ حسین احمد ایم ایم اے کی بحالی کے سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں،اطلاعات کے مطابق گذشتہ دنوں لاہور میں ایم ایم اے میں شامل اہم جماعتوں کے ذمہ داران جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن،جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ اور جمعیت علمائے پاکستان کے سیکرٹری جنرل پیر اعجاز ہاشمی کے درمیان اہم ملاقاتیں ہوئیں،جس میں متحدہ مجلس عمل کی بحالی اور ملک کی مجموعی سیاسی صور تحال پر غور اورایم ایم اے کی بحالی کیلئے کوششیں تیز کرنے،ملاقاتوں کاسلسلہ جاری رکھنے اوردوسری جماعتوں سے بھی رابطہ کرنے پر اتفاق کیا ہے ۔

قارئین محترم !آپ کو یاد ہوگا کہ جولائی 2001 میں پاکستان کی چھ بڑی دینی جماعتوں نے ایک نئے اتحاد ”متحدہ مجلس عمل“کے قیام کی منظوری دی تھی،جس کا مقصد ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے اسلامی نظام کے قیام اور لادینی عناصر کی یلغار کا مقابلہ کرنا تھا،قاضی حسین احمد کی رہائش گاہ پر ہونے والے اِس اجلاس میں جمعیت علماءپاکستان کے سربراہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی،جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد،جمعیت علمائے اسلام(ف) کے مولانا فضل الرحمن،تحریک جعفریہ کے علامہ ساجد نقوی،جمعیت اہلحدیث کے علامہ ساجد میر اور جے یو آئی (س) کے مولانا سمیع الحق شامل تھے،بعد ازاں علامہ شاہ احمد نورانی کو متحدہ مجلس عمل کا چیئرمین منتخب کیا گیا،ابتداءمیں متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں نے بڑی سرگرمی کا ثبوت دیا اور ایسے تمام خدشات کو در کردیا کہ یہ اتحاد بیرونی طاقتوں یا ملکی ایجنسیوں کی سرپرستی میں بنایا گیا ہے،چنانچہ2002کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل نے قومی اسمبلی کی 68 اور بعد میں سینٹ میں 20 نشستیں جیت کر بھاری کامیابی حاصل کی،سرحد اور بلوچستان میں بھی ایم ایم اے کی حمایت یافتہ حکومتیں قائم ہوئیں،یوں مرکز میں ایک مضبوط حزب اختلاف وجود میں آئی،علامہ نورانی کی قیادت میں مجلس عمل نے جمہوری اداروں کی سلامتی اور بقاءکیلئے بھرپور تعمیری کردار ادا کیا،لیکن اِس کے ساتھ ہی مجلس عمل نے لیگل فریم ورک آرڈر،58ٹوبی،نیشنل سیکورٹی کونسل اور باوردی صدر کو مسترد کرتے ہوئے 1973کے آئین کو اصل شکل میں بحالی کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں سے آئین کے تحت دوبارہ حلف لینے کا بھی مطالبہ کیا،ساتھ ہی متحدہ مجلس عمل کا نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں امریکیوں کو آپریشن کرنے اجازت نہیں دی جائے گی،یہ صورتحال ظفر اللہ جمالی کی حکومت کیلئے پریشانی کا باعث تھی ۔

مولانا نورانی کے دو ٹوک موقف نے حکومت کی نیندیں حرام کردیں،حکومت کی کوشش تھی کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل متحدہ مجلس عمل کو قائل کرلیا جائے،چنانچہ مزاکرات کے دور شروع ہوئے،اِس دوران حکومت اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان 7میں 6نکات پر زبانی اتفاق رائے بھی ہوا،لیکن صدر کی وردی کا معاملہ ابھی تک لٹکا ہوا تھا،جسے منوانے کیلئے مجلس عمل مسلسل دباو بڑھاتی رہی،امریکہ کے دورے سے واپسی پر وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی نے ایم ایم اے کوایک بار پھر ایل ایف او کے تین متنازعہ امور پر مزاکرات کی دعوت دی،جسے مجلس عمل کے قائد علامہ شاہ احمد نورانی نے رد کرتے ہوئے عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا عندیہ دیا اور مطالبات کی منظوری کیلئے 17دسمبر 2003کی ڈیڈ لائین دی،جس کے اگلے دن حکومت مخالف تحریک شروع ہونا تھی،لیکن شومئی قسمت کہ کسی بھی احتجاجی تحریک کی نوبت نہ آسکی،اِس دوران پاکستانی سیاست اور مجلس عمل 11دسمبر 2003کو مولانا شاہ احمد نورانی کی اصولی قیادت سے محروم ہونے کی وجہ سے ایک ایسے عظیم سانحہ سے دوچار ہوئی،جس نے ایم ایم اے کی کمر توڑ کر رکھ دی،اُس کے بعدپاکستان کی سیاسی تاریخ نے وہ موڑ لیا کہ ایم ایم اے بطور سیاسی جماعت اور تحریک اپنے اصولی مقاصد سے دور ہٹتی چلی گئی اور پھر کبھی سنبھل نہ سکی بلکہ مولانا نورانی کے بعد ایم ایم اے پاکستانی سیاست میں ”ملا ملٹری الائنس“ کے نام سے پہچانا جانے لگا ۔

دراصل مولانا نورانی مجلس عمل کیلئے جہاں اتحاد کی علامت تھے،وہاں اُن کی بے باکی اور حق گوئی نے ایم ایم اے کو حکومت کے ساتھ کسی بھی شرمناک معاہدے سے بھی محفوظ ومامون رکھا ہوا تھا،یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب تک مولانا نورانی کی نہ بکنے اور نہ جھکنے والی قیادت مجلس عمل کی صدارت پر فائز رہی،حکومت اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی،اِس کی وجہ یہ تھی کہ مولانا نورانی کی سیاسی ترجحات میں حصول اقتدار آخری نمبر پر آتا تھا،وہ خود فرماتے تھے کہ ”اگر ممبری چلی گئی تو کیا ہوگا،منبری تو ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔“مولانا زندگی بھر اپنے انہی اصولوں پر کامیابی سے گامزن رہے،مگر مولانا نورانی کی وفات کے بعد مجلس عمل بڑے کرّوفر کے ساتھ میدان عمل میں اتری،اُس نے مولانا نورانی کے مشن کو جاری رکھنے اور اُس پر چلنے کا اعلان بھی کیا،لیکن افسوس کہ ابھی مولانا کا کفن بھی میلا نہیں ہوا کہ مجلس عمل نے اُن کی وفات کے دو ہفتوں کے اندر اندر یعنی 19دسمبر 2003 کو حکومت سے تمام معاملات طے کرکے سودے بازی کرلی، اِس طرح متحدہ مجلس عمل مولانا نورانی کی وفات کے بعد ” مجلس بے عمل“ بن گئی،اُس کے اِس طرز عمل کو دیکھ کر ایسا لگا کہ حکومت اور مجلس عمل کے درمیان معاہدے کی راہ میں مولانا نورانی آخری کانٹا تھے،جس کے نکل جانے سے فریقین کو حد درجہ اطمینان ہوا تھا،یوں محض پانچ دنوں کے اندر اندر مجلس عمل نے وہ شرمناک سمجھوتہ کرلیا جسے مولانا نورانی اپنی زندگی میں ہمیشہ مسترد کرتے رہے اور28دسمبر 2003کوقاضی حسین،مولانا فضل الرحمن و دیگر قائدین کی موجودگی میں مجلس عمل نے آئین میں 17ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کرکے پرویز مشرف کی حکمرانی کو آئینی و قانونی جواز فراہم کردیا ۔

قارئین محترم ! یہ وہی مجلس عمل تھی جو مولانا نورانی کی زندگی میں ایل ایف او پر کسی سمجھوتے کی روادار نہ تھی،لیکن مولانا نورانی کی اصولی اور بے باک قیادت کی آنکھیں بند ہوتے ہی مجلس عمل جھاگ کی طرح بیٹھ گئی،جس مجلس عمل کو مولانا نورانی نے اپنی سچائی،اصول پرستی اور بے داغ قیادت کے خون سے سینچا تھا،بعد میں اُسی مجلس عمل کے قائدین بالخصوص مولانا فضل الرحمن نے اپنے سیاسی و ذاتی مقاصد کیلئے بھر پور استعمال کیا اور ایل ایف او کی منظوری وحقوق نسواں بل سمیت کیا کیا شرمناک معاہدے کئے،آپ بخوبی واقف ہیں،آج ایک بار پھر مولانا فضل الرحمن کے پیٹ میں مجلس عمل کی بحالی کی مروڑ اُٹھ رہی اور وہ بحالی کیلئے بہت مضطرب اور بے چین ہیں،آخرکیوں ؟ اِس کی کیا وجہ ہے؟ وہ کیا مقاصد ہیں جو مولانا فضل الرحمن مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے پھر حاصل کرنا چاہتے ہیں،سب جانتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن مجلس عمل کی بحالی کی آڑ میں اپنا سیاسی وزن بڑھاکر حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں،علامہ نورانی کی وفات کے بعدمولانا فضل الرحمن نے مجلس عمل کو وزن بڑھانے کی مشین بنادیا ہے،جب انہیں حکومت سے کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے،وہ ایم ایم اے کی بحالی کا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں،خوداُن کا ماضی کا طرز عمل اِس بات کا گواہ ہے،کیا یہ درست نہیں کہ مولانا کی کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی سے لے کر محمد خان شیرانی کی اسلامی نظریاتی کونسل میں تقرری تک کی ساری منازل مولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے کی بحالی کی دھمکی سے حاصل کیں،دراصل مولانا لمحہ موجود سے انجوائے کرنے اور فائدہ اٹھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے،اُن کی یہی سیاسی بصیرت،حکمت عملی اور صلاحیت انہیں دیگر دینی جماعتوں کے قائدین سے جدا کرتی ہے ۔

بقول جناب عرفان صدیقی مولانا فضل الرحمن کبھی بھی دینی تقاضوں اور سیاسی اہداف میں ٹکراؤ پیدا نہیں ہونے دیتے،وہ ہمیشہ سیاسی اہداف کو ترجیح دیتے ہیں اور دینی تقاضوں کو مصلحت کی پوٹلی میں باندھ کر ایک طرف رکھ دیتے ہیں،یہ بھی مولانا کی خوبی ہے کہ وہ سیاسی ہدف کی اہمیت اور افادیت کےلئے ایسے ایمان پرور دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں کہ ان کا ہر اقدام تقاضائے دین دکھائی دینے لگتا ہے اور ہم جیسے عامیوں کو بھی یہ یقین ہوجاتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن اگراس وقت سیاسی کروٹ نہ لیتے تو دین کی فوز و فلاح کا ایک بڑا موقع ضائع ہوجاتا،پرویز مشرف کی سترہویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیتے وقت بھی مولانا نے ایسا سماں باندھا تھا کہ بہت سے لوگ اسے دنیوی اور اخروی نجات کا ذریعہ سمجھنے لگے تھے،بہت سو کو تو اِس کے کارخیر اور تقاضائے اسلام ہونے کا ایسا یقین ہوگیا تھا کہ شاید روز محشر اللہ تعالیٰ سب سے پہلا سوال ہی یہی پوچھے گا کہ ”تم نے سترہویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا یا نہیں؟“ قوم کو ایسی ہی روحانی کیفیت کا تجربہ 1993میں اُس وقت بھی ہوا تھا ،جب مولانا نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت سے تعاون کو تو شہ دین و ایمان بنا دیا تھا،مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ایم ایم اے پانچ برس تک سرحد پر بلاشرکت غیرے حکومت کرتی رہی،دوران اقتدار اُس نے اسلام کے چہرے کو کتنا نکھارا؟ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے نفوذ و عروج کےلئے کیا کچھ کیا؟ لوگوں کی زندگیوں میں کتنی تبدیلی لائی۔؟

زیر اقتدار صوبے کے خدوخال باقی تین صوبوں سے کس قدر مختلف تھے؟اور کس اعتبار سے ایم ایم اے کے عہد حکمرانی کو دوسروں سے جدا تھا،قوم اچھی طرح جانتی ہے،اِس دوران پانچ سال تک صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ امریکی کروسیڈی جنگ کے میدان کا رزار بنے رہے،لیکن ایم ایم اے کی حکومت کہیں مزاحم نہ ہوئی،کبھی حدوں سے تجاوز نہ کیا اور کبھی امریکہ کی اطاعت گزار مشرف حکومت کیلئے کوئی مسئلہ کھڑا نہ کیا،یہاں تک کہ رسوائے زمانہ سترہویں ترمیم بھی وارثان منبر و محراب اور صاحبان جبہ و دستار نے قبول کرلی اور پرویز مشرف کے 12اکتوبر 1999 کے ماورائے آئین اقدام کو جامہ تقدس بھی پہنا دیا،سب سے افسوس ناک پہلو یہ تھا کہ خیبر پختون خواہ پر علمائے کرام کی بلاشرکت غیرے حکمرانی،وہاں کے عوام کے لئے کوئی نیا،اچھوتا اور ثمر آور تجربہ ثابت نہ ہوئی،یہ ویسی ہی حکمرانی تھی جیسی دینی تعلیمات و اسناد سے بے بہرہ دنیاداروں کی ہوتی ہے،کرپشن کی داستانیں بھی چلتی رہیں،ووٹ خریدے اور بیچے جاتے رہے،اقربا پروری عروج پر رہی اور اسلام پہاڑوں سے اتر کر بستیوں تک نہ آ سکا،اس سارے عرصے میں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی جسے ایم ایم اے کا امتیاز قرار دیا جاسکے ۔

کل تک مولانا پرویزمشرف کے ہمراہ لیلائے اقتدار سے لطف اندوز ہو رہے تھے،آج صدر آصف زرداری کے ہم رکاب اور مرکز میں پیپلز پارٹی سے ہاتھ ملایا ہوا ہے،اپنے حصے سے زیادہ وزارتیں اور چیئرمینیاں حاصل کی ہوئیں ہیں،دراصل وہ تمام سیاسی راستے کھلے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت کسی بھی طرف جاسکیں،عجیب بات ہے کہ آج وہ ایم ایم اے(جسے توڑنے میں ان کا سب سے بڑا حصہ ہے)کو بحال بھی کرنا چاہتے ہیں اور لیلیٰ اقتدار کی غلام گردش سے نکلنا بھی نہیں چاہتے ہیں،یعنی ایک ہی وقت میں دو مختلف چاہتیں،حیرت کی بات ہے،دراصل مولانا انتہائی زیرک اور معاملہ فہم سیاستدان ہیں،وہ جانتے ہیں کہ انتخابات نزدیک آرہے ہیں،جس میں کامیابی مذہبی جماعتوں کے اتحاد کے بغیر مشکل ہے،اکثر سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ مولانا ایک بار پھر مجلس عمل کی فعالیت کی آڑ میں جمعیت علمائے پاکستان اوردیگر مذہبی جماعتوں کو بطور چارہ استعمال کر نا چاہتے ہیں،یہی ان کا طریقہ واردات ہے،انہیں تو بس اقتدار کی کرسی ملنی چاہیے،اسی وجہ سے مولانا آج پھر وہیں آگئے ہیں جہاں وہ ہمیشہ آیا کرتے تھے،اُن کے دل و دماغ میں بہار کے انہی روٹھے ہوئے دنوں کی یاد انگڑائی لے رہی ہے جو 2002 میں سرحد اور بلوچستان تو اُن کے پاوں تلے تھے اورگئے دنوں کو آواز دینے اور سہانے موسموں کی بساط بچھانے کےلئے ضروری ہے کہ پھر سے ایک ایم ایم اے کو بحال کیا جائے،پھر سے وہی کھیل کھیلا جائے ۔

باخبر ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ مولانا نے جوڑ توڑ شروع کردیا ہے،اس سلسلے میں انہوں نے 10دسمبر کو جماعت اسلامی کے ساتھ ایک خفیہ ملاقات میں سرحد اور بلوچستان میں انتخابی ایڈجسمنٹ کرلی ہے،مجلس عمل کی بحالی اجلاس سے پہلے مولانا کا یہ اقدام صریحاً بددیانتی ہے،شاید اسی وجہ سے 13دسمبر کومجلس عمل کی بحالی کیلئے ہونے والا اجلاس منعقد نہ ہوسکا،اِس تناظر میں ہماری دیگر جماعتوں کے قائدین اور بالخصوص جمعیت علماءپاکستان کے اکابرین سے گزارش ہے کہ وہ مولانا کی چالبازیوں اور اُن کے مفاد پرستانہ طرز عمل کو سامنے رکھتے ہوئے مجلس عمل سے دور ہی رہیں،ویسے بھی مجلس عمل اِس وقت مولانا نورانی جیسی قدآور اور اصولی قیادت سے محروم ہے،دوسرے مولانا نورانی کے لگائے ہوئے اِس درخت کے پھل فضل الرحمن اور جماعت اسلامی نے ہی کھائے ہیں،JUP اور دیگرجماعتوں کے حصے میں بدنامی اور جگ ہنسائی کے سوا اور کچھ نہ آیا،اِس لحاظ سے مجلس عمل میں اِن جماعتوں کی شمولیت کا فیصلہ فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کیلئے تو سیاسی فائدے کا سبب بن سکتا ہے،مگر خود اِن جماعتوں کیلئے نہیں،پھر مولانا کی سیاسی بازیگری اور جوڑ توڑ کی وجہ سے ایم ایم اے پہلے ہی اِس قدر بدنام ہوچکی ہے کہ اب قوم اِس پر اعتبار کرنے کو اِس لیے تیار نہیں کہ وہ اچھی طرح جانتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں اور وہ ہمیشہ بادشاہ گروں کی خواہشات پر ہی متحرک ہوتے ہیں ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313495 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More