یادِ رفتگان
بابا رحمت اللہ پیر آف دھنکہ شریف
برصغیر پاک وہند میں ایسے ایسے جلیل القدر روحانی پیشوا پیدا ہوئے جنہوں نے
اسلام کی روشنی کو منور کئے رکھا۔ جنہوں نے اس خطے میں تاریکی اور مایوسی
کے خلاف طبلِ جنگ بجایا اور اصلاح معاشرہ میں کامیابی حاصل کی۔ پاکستان کو
جب ہم مملکتِ خداداد کہتے ہیں تو بہت ساری کہانیاں، بہت سارے کرداراور بہت
سارے واقعات جو بقا اور استحکام کے ضامن ہوتے ہیں ، اپنے گردوپیش میں بیش
بہا معاندانہ رویوں کے باوجود جنم لے لیتے ہیں۔اپنی اپنی ڈیوٹی پر ماموریہ
لوگ تاریخ کا حصہ اور تشکیل کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ایساہی ایک کردار حضرت
بابارحمت اللہ المعروف بابا دھنکہ کا ہے۔ جنہوں نے اسلام کی اشاعت، تبلیغ
اور روحانیت میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ تقریباََ نصف صدی تک مانسہرہ سے
50کلو میٹر دورساں نواب کے نواح میں ایک پہاڑی چوٹی پر مقیم رہے۔ آپ کا عرس
ہرسال ماہِ صفر( 6تا8جنوری2012ء) کو بڑی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے
جس میں ملک کے طول و عرض سے سینکڑوں عقیدت مند شرکت کرتے ہیں۔
بابا رحمت اللہ ایک ایسی روحانی شخصیت تھے جن سے بہت سے لوگ فیضیاب ہوئے۔
میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جنہوں نے روحانیت کے اس چشمے سے اپنی بے چین
روح کی تسکین کی۔ یہ 1992 کے تپتے ہوئے دنوں کی بات ہے۔ رات دو بجے میں
اپنے دفتر سے نکلا، پیدل اپنے مستقر کی طرف جاتے ہوئے دفتر کے ہی ایک ساتھی
کے ساتھ صوفی بابوں کا ذکر چھڑگیا۔باتوں باتوں میں اس نے مانسہرہ کے نواح
میں موجود ایک روحانی شخصیت ،حضرت بابارحمت اللہ، المعروف بابا دھنکہ، کا
ذکر کیا۔ اور کہا آپ بزرگوں کے پاس جانے کے لئے مضطر رہتے ہیں، ایک دفعہ
وہاں جاکے بھی دیکھ لیں۔اس نے بتایا کہ” پچھلے کئی سال سے وہ بابا جی ایک
ہی پتھر پر براجمان ہیں، نہ وہاں سے اٹھتے ہیں، نہ کھاتے ہیں، نہ پیتے ہیں،
کوئی حاجت ہے نہ طلب“۔میں نے کہا کہ یہ کوئی حیرت میں گم کرنے والی بات
نہیں۔تاہم اس کی بات نے میرے تجسس کو ضرور ہوا دی۔وہ چلا گیا لیکن میرا
تجسس اضطراب میں بدل گیا۔ گھر آیاتو اپنے ماموں(مرحوم)،کوسارا ماجراکہہ
سنایا۔انہوں نے پوچھا’تو پھر کیا ارادہ ہے؟‘ میں نے فوراََ جواب دیا’ ’اس
میں سوچناکیا، ہمیں جانا ہے اور ابھی جاناہے“۔ تمام رستہ باباکا تصور میرے
دل و دماغ پر چھایا رہا۔علی الصبح ہم مانسہرہ پہنچ گئے جہاں سے لساں نواب
اور پھرپیدل ہی دھنہکہ گاﺅں جانے کا ارادہ کیا۔ دھنکہ شریف سے لساں نواب کا
فاصلہ تقریباََ سات کلومیٹر کے قریب ہے ۔ راستے میں موجود دو قدرتی چشموں
کے پانی اور دلکشا وادیوں کے حسن اور بابا کی تسلسل سے حاوی شخصیت نے کسی
تھکن کا احساس تک نہ ہونے دیا۔پھروہ پہاڑی چوٹی بھی آگئی جہاں سبزلہراتے
جھنڈے اور مسجد کے مینار باباجی کے مسکن کا پتہ دے رہے تھے۔ سامنے چوپال
میں کافی لوگ بیٹھے تھے۔سبھی باباجی کی طرف نظریں جمائے ہوئے تھے۔ دوفٹ
چوڑے اور چارساڑھے چار فٹ لمبے پتھر پر سبز چغے میں بیٹھاہوا نحیف و لاغر
مگر پرجلال شخص بے نیازتھا، دنیاو مافیہاسے گویا بے خبرتھا۔ پورے ماحول پر
سناٹاچھایا ہوا تھا۔ ہم بھی دوزانوہوکربیٹھ گئے۔ میری باری آئی توانہوں نے
پوچھا”ہاں کتھوں آیاںایں؟“میراپہلاسوال یہ تھا”باباجی، مجھے بتائیںمیرا
استاد کون ہے؟“
انہوں نے فرمایا”تے ڈھونڈ“۔استادیہ نہیں کہتا کہ میں استاد ہوں۔سکوت، ہیبت
میں بدلاہواتھاکہ کسی نے ’لنگرتیارہے ‘ کی صدالگائی اور مجھے حواس مجتمع
کرنے کا موقع مل گیا۔دوسرے روز نمازفجر کے بعد پھر ملاقات شروع ہوئی۔
باباجی اہل ِ مجمع کے سامنے ہاتھ اٹھا کر بارگاہ خداوندی میں دعا کررہے تھے
۔دعا میں میرے ہر سوال کا جواب تھا۔ یوں لگ رہاتھا جیسے وہ میرے ہی لئے
نہیں، ساری امت مسلمہ اور خاص طور پر پاکستان کی سلامتی اور سربلندی کے لئے
دعا کررہے ہوں۔ ان کی دعا میں کچھ بھی اپنی ذات کے لیے نہ تھا۔ کچھ بھی کسی
ایک فرد کے لئے نہ تھا۔ یوں لگتاتھاجیسے اس دورافتادہ جگہ پربیٹھایہ مردِ
درویش اپنے سامنے پوری دنیاکانقشہ، اقوامِ عالم اور بالخصوصِ امتِ مسلمہ کی
زبوں حالی کا منظردیکھ کر رنجیدہ ہے۔ اپنے ملک کی خوشحالی کے لئے فکر مند
ہے۔ لوگوں کو نمازروزے کی پابندی کرنے کی تلقین کررہاہے، نیک کاموں کی
ترغیب اور برے کاموں سے اجتناب کا حکم دے رہاہے، حتی کہ ایک ایک فقرے میں
حقوق العباد، حقوق اللہ اور عائلی فرائض اور سوسائٹی میں رہنے کے اصول
سمجھارہاہے۔ اپنے بڑے بوڑھوں، ماں باپ اور اساتذہ کی خدمت کا درس اور بچوں
کے ساتھ شفقت سے پیش آنے کی نصیحت کررہاہے۔ میںایک ساتھ آرزو اور تربیت کا
عملی مظاہرہ دیکھ رہا تھا۔
حضرت بابا رحمت اللہ ایک صاحبِ نظر،ولیِ کامل اور قلندرِ دوراں تھے۔ان کا
تعلق مانسہرہ کے ایک ایسے زمیندار گھرانے سے تعلق تھا جس کا کوئی صوفیانہ
پس منظر نہیں ہے۔ نابغہ کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ روحانی پس منظر یا
پیش منظر کا محتاج ہو۔ اس عطا ئے ربانی کے پیچھے نسل در نسل کسی پختہ ہوتی
ہوئی سوچ کا البتہ ضرور ہاتھ ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے نابغہ کا ظہور
غیر متوقع حالات اورزمینی حقائق کا محتاج ہوتا ہے۔ایسا انسان پیدا ہوتے ہی
اپنے اندر وہ تمام خصوصیات لیے ہوئے ہوتا ہے جو اس کے مستقبل کی نشاندہی
کررہی ہوتی ہیں۔ایسے انسان کی زندگی میں واقعات بھی اسی طرح کے جنم لیتے
ہیں، جو اس کی منزل کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔ باباجی اپنی اولین منزل کا
کریڈٹ اپنی والدہ ماجدہؒ کو دیتے تھے، جن کے علاج کی غرض سے آپ ان کو کئی
کئی کوس کندھوں پر اٹھا کر ہسپتال لے جاتے رہے۔ اس خدمت کا صلہ تھا کی اس
عظیم المرتبت ماں کی یہ دعا تھی کہ” خدایا میرے بیٹے کی زندگی کو اس پھول
کی مانند بنا دے جس کی خوشبو چار دانگ ِعالم میں پھیل جائے، اور کبھی ختم
نہ ہو“۔پھر یوں ہوا کہ پھر خوشبوﺅں نے بیٹے کو اپنے جلومیں لے لیا۔لذتِ
آشنائی میں آپ داتاکی نگری لاہور آئے ، حضرت بڑے میاں ؒ سرکار کے ہاں
زانوئے تلمذتہہ کیا اور قریباََ دس سال تک حضرت داتاگنج بخشؒ سے فیضان کی
جھولیاں بھرتے رہے۔ کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی ؒ سے بھی برکات سمیٹیں
۔ توفیق و تربیت اس مقام تک پہنچ چکی تھی کہ حضرت خضر علیہ السلام، جنابِ
غوث پاکؒ، حضرت دادا گنج بخشؒ اور ان کے اولین استاد ِمکرمؒ نے بیک وقت آپ
کو خرقہِ ولایت عطافرمایا۔ جس کے بعد آپ اپنی والدہ ماجدہ کے گاﺅں دھنہکہ
شریف میں آکر جلوہ گر ہوگئے۔ آپ نے اپنے گھٹنے رسی سے باندھ لئے کہ مبادا
اضطرارمیں بھی مرشد ؒ کی حکم عدولی نہ ہونے پائے۔21فروری 2008ءمیں ان کا
انتقال ہوا اور ان کا مزار اسی پہاڑی چوٹی پر واقع ہے جہاں وہ تقریباََ نصف
صدی سے براجمان تھے۔ ان کے فیض کی بدولت جنگل میں آج منگل کا سماں ہے۔ اللہ
کی ساری نعمتیں یہاں سمٹ کر آگئیں ہیں۔ وسائلِ رسد و نقل خود پہنچ گئے
ہیں۔عقیدت مندوں ، ارادت مندوں اور زائرین کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا
چلاجارہاہے۔ ان میں بادشاہ بھی ہیں، اور وزیر بھی۔ امیر بھی ہیں اور غریب
بھی۔ خاص بھی اور عامی بھی۔دیکھتے ہی دیکھتے وہاں وسیع و عریض مسجد اور اس
سے ملحقہ بچوں اور بچیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ جدید طریقہ ہائے تعلیم سے
آراستہ مدرسے بن گئے ہیں۔ لنگر خانے اور ہوٹل کھل چکے ہیں۔ آنے والوں کے
لئے مفت قیام و طعام کا ذمہ آستانے کے مہتممِ اعلیٰ صاحبزادہ عبدالستار کے
سپرد ہے جو بابا جی کے خلیفہِ مجاز بھی ہیں۔(ختم شد) |