دیگ سے گرم ، دیگ کا چمچہ ۔۔۔یہ
محاورہ آپ نے کئی بار سنا ہوگا، لیکن ہمارے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال
پربا لکل صادق آتاہے۔پاکستان کے سیاسی خاندانوں کے نئے چشم وچراغ بھی سیاست
میں آنے کے لیے اپنے بڑوں کے مقابلے میں زیادہ پرجوش نظر آتے ہیں اور سیاسی
ٹاک شوز میں چھوٹے بڑے کی تمیز اور اَدب آداب سے عاری نظر آنے والی ”بچہ
پارٹی“آئندہ دنوں میں کیا گُل کھلائے گی سامنے نظر آرہا ہے۔پاکستان کی
سیاست کے خار زار میںویسے تو آج کل کھلبلی مچی ہوئی ہے ،پرانی آزمودہ سیاسی
جماعتوں کے کئی ”سیانے پرندے “ہوا کا رُخ دیکھتے ہوئے اُڑ اُڑ کر تحریکِ
اِنصاف کے آشیانے میں پناہ لے رہے ہیں تو دوسری طرف پیپلز پارٹی،ن اور ق
لیگ سمیت دیگر پارٹیوں نے حالیہ دنوں میں آئندہ نسل پر حکمرانی کیلئے اپنے
”ہونہارجانشین“ میدان میں اتار دیئے ہیں۔مسلم لیگ ن کی جانب سے سابق وزیر
اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے عملی سیاست کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے
جبکہ حکمراں جماعت کی جانب سے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سیاسی
ایوانوں میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں، 23 سالہ بلاول بھٹو زرداری نے شاید بے
نظیر بھٹو کی وفات سے قبل یہ سوچا بھی نہ ہو گا کہ وہ اتنی بڑی جماعت کے
اِس طرح قائد بن جائیں گے ۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف کے
صاحبزادے حمزہ شہباز شریف پہلے ہی سیاست کے داؤ پیچ سیکھنے کے لئے میدان
میں موجود ہیں جبکہ ان کے چھوٹے بھائی سلمان شہباز بھی پنجاب کی سیاست میں
اِن ہیں۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی اپنے بڑے صاجزادے عبدالقادر گیلانی کو
اسمبلی میں پہنچانے کے بعد توجہ اب اپنے چھوٹے بیٹے موسیٰ گیلانی پر ہے،
وزیر اعظم آج کل سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی جانب سے خالی کی گئی
قومی اسمبلی کی نشست پر موسیٰ رضا کو کامیاب بنانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے فرزند زین قریشی بھی ملکی سیاست کے
نومولود ہیں،اس کے علاوہ مرتضی بھٹو کی بیٹی فاطمہ بھٹو سیاست میں عملی طور
پر نہیں آئی ہیں لیکن وہ اپنی والدہ غنویٰ بھٹو کے ساتھ سیاست میں دخل
اندازی کرتی رہتی ہیں۔اگر بھٹو خاندان کی موروثی سیاست کی روایت جاری رہی
تومرتضی بھٹو کے بیٹے ذوالفقار بھٹو جو دیار غیر میں ”علم کے موتی “سمیٹنے
میں مشغول ہیں وطن واپسی پر جمہوریت کے نام پران موتیوں کوعوام پرنچھاور
کرسکتے ہیں۔اسٹیل مل کے سابق چیئرمین اور صدر زرداری کے قریبی ساتھی سلمان
فاروقی کی بیٹی شرمیلا فاروقی موجودہ حکومت میں وزیر اعلٰی سند ھ کی
مشیربرائے میڈیا افیئرز رہ چکی ہیں۔وزیر اطلا عات سندہ شازیہ مری کے
داداعلی محمد مری سندہ کے رکن صوبائی اسمبلی ، جبکہ ان کے والد عطا محمد
مری سندہ اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہ چکے ہیں۔پاکستان میں موروثی سیاست کی
روایت نئی نہیں، آمر اپنی اولادوں تک کو سیاست میں لے آتے ہیں، کیونکہ عزت
ماب اسٹیبلشمنٹ آمرین کی اولادوں پر خاص کرم فرماتے ہوئے انہیں باآسانی
الیکشن جتوادیتی ہے، مثلاً صدر ایوب کے بیٹے گوہر ایوب پانچ مرتبہ قومی
اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں،اس کے علاوہ وہ اسپیکر قومی اسمبلی بھی رہ
چکے ہیں۔ صدر ضیاءالحق کے بیٹے اعجاز الحق کا بھی ملک کی سیا ست میں اہم
کردار رہا ہے وہ وزیرمذہبی امور اور اقلیت رہ چکے ہیں اِن کے دوسرے بھائی
ڈاکٹرانوار الحق بھی صوبائی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔مرحوم سابق صدر فاروق
لغاری کے بیٹے اویس لغاری سابق وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنا لوجی رہ چکے ہیں،
جبکہ ان کے بڑے بھائی سردار جمال لغاری بھی ایک” کامیاب“ سیاست دان ہیں اور
آج کل تحریکِ انصاف کی صفوں میں رونق افروز ہیں۔ سابق وزیر داخلہ سندھ
ذوالفقار مرزا اور اسپیکر قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کے صاحب زادے بھی
بدین سے عملی سیاست کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔ وہ بدین سے اپنے والد کی جانب
سے خالی کردہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر ضمنی انتخابات میں کامیابی کے لئے
میدان میں اتریں ہیں۔اس سے قبل 1999 میں نواز شریف کی بیگم کلثوم نواز بھی
ن لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد شریف برادران کی قید اور ملک بدری کے دنوں
میں سیاست میں آئیں۔ انہوں نے لاہور سے قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ
لینے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع بھی کرائے لیکن بعد میں واپس لے لیے تھے۔اگر
آپ چاروں صوبائی اسمبلیوں،سینٹ اور قومی اسمبلی کے ممبران کا جائزہ لیں تو
چند ایک کو چھوڑ کر تمام چہرے ہی آ پ کو ایسے ملیں گے جس میں کسی کا باپ
اسمبلی ممبر تھا ،چچا یا ماموں اور یا پھر کسی کا سسر یا ہم زُلف اسمبلی کا
رکن تھا اور اَب موصوف اُس کی جگہ براجمان ہے۔ تجزیہ نگار موروثی سیا ست کو
نئے چہروں کی پرانی سیاست قرار دیتے ہیں۔ ملک میں شفاف جمہوری نظام کے قیام
میں موجودہ سیاسی خاندان ایک بڑی روکاوٹ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں
سیاسی خاندانوں کے نوجوانوں کا آنا خوش آئند ہے مگر کیا سیاسی گدی نشین بھی
وطن عزیز کی غریب عوام کو کچھ فیض پہنچاپائینگے ؟ موروثی سیاست کا سب سے
بڑا نقصان یہ ہے کہ موروثی سیاست دان جب بھی برسرا قتدار آتے ہیں مہنگائی ،امن
و امان کی صورتحال اورکرپشن جیسے مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں لیکن پاکستان میں
ان نقصانات پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی جس کے سبب موروثی سیاست تیزی سے
فروغ پا رہی ہے۔یہ موروثی سیاست کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک کی زیادہ تر جماعتوں
میں ’ون مین شو‘ نظر آتا ہے جن میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن) ، مسلم لیگ
(ق) ،مسلم لیگ (ف) جمعیت علماءاسلام (ف) ، جمعیت علمائ(س) ، متحدہ قومی
موومنٹ ، عوامی نیشنل پارٹی ، پیپلزپارٹی غنویٰ بھٹو ، پیپلزپارٹی شیر پاو
بھی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان جماعتوں کی قیادت شروع سے آخر تک ایک
ہی ہے ، سوائے پیپلزپارٹی کے جس کے دو رہنما ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر
بھٹو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔اس تمام تر صورتحال میں تحریک انصاف اور
متحدہ قومی موومنٹ سب سے زیادہ موروثی سیاست کی مخالفت کرتی نظر آ تی ہیں
اور نظام کی تبدیلی کی بات کرتی ہیں تاہم ملک کی تینوں بڑی جماعتوں یعنی
پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) نے آئندہ نسلوں پر حکمرانی
کیلئے اپنے جانشین سامنے لاکھڑے کئے ہیں۔تجزیہ نگار موروثی سیا ست کو نئے
چہروں کی پرانی سیاست قرار دیتے ہیں۔ ملک میں شفاف جمہوری نظام کے قیام میں
موجودہ سیاسی خاندان ایک بڑی روکاوٹ ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں سیاسی
خاندانوں کے نوجوانوں کا آنا خوش آئند ہے مگر کیا سیاسی گدی نشین بھی وطن
عزیز کی غریب عوام کو کچھ فیض پہنچاپائینگے ؟یہ ہی وہ وجوہات ہیں جس کے
بناءپر پاکستان میں ہمیشہ الیکشن میں عام آدمی کو ہر سطح پر نظر انداز کیا
جاتا ہے۔ لگ تو ایسا رہا ہے کہ ملک میں موروثی سیا ست کا سلسلہ جاری رہے گا۔
عمران خان نے چند روز قبل کہا تھا کہ موجودہ سیاست میں سیاست دانوں کے بچوں
کا آ نا پاکستانی عوام سے ان کاحق چھیننے کے مترادف ہے۔ عمران خان نے کہا
کہ ان ”بچوں “کو سیاست کی کچھ سمجھ نہیں ہے یہ بھی وہ ہی کریں گے جو ان کے
آباو اجداد نے کیا۔ سردست گھسے پٹے سیاستدانوں کی نو مولود باقیات سے آپ
کوئی توقع نہیں کرسکتے ، البتہ اتنا ضرور اخذ کرنا لازمی ہے کہ جب تک وطن
عزیز کی سیاسی باگ ڈور سبھالنے کے لیے غریب عوام کمر بستہ نہیں ہونگے حقیقی
تبدیلی نہیں آسکتی۔ |