برف کے آنسو

امام غزالی ؒ سے منسوب ایک حکایت میں تحریر ہے کہ ایک بزرگ اپنے ایک مرید پر بہت مہربان تھے۔دوسرے مریدوں کو یہ بات ناگوار گزرتی تھی کہ وہ اُس سے اتنی محبت کیوں کرتے ہیں۔ایک دن بزرگ نے مریدوں کو اس محبت کی وجہ بتانے کے لیے ہر مرید کو ایک مرغی دی اور اسے ایسی جگہ جا کر ذبح کرو جہاں کوئی نہ دیکھتا ہو۔ ہر مرید اپنی مرغی ذبح کر کے لے آیا اور وہ مرید جس سے وہ سب سے زیادہ محبت کرتے تھے مرغی ذبح کئے بغیر آگیا۔ انہوں نے پوچھا تم اسے کیوں ذبح کر کے نہیں لائے تو وہ مرید بولا مجھے کوئی ایسی جگہ نہیں ملی جہاں کوئی نہ دیکھتا ہوں۔ کیونکہ اللہ تو ہر جگہ دیکھ رہا ہے۔بزرگ نے مریدو ں سے کہا میں اسی لیے اس سے زیادہ محبت کرتا ہوں کہ یہ ہر وقت اللہ کا دھیان رکھتا ہے۔

قارئین! جنوری کے اس مہینے میں موسم کی کروٹیں انتہاﺅں کو چھو رہی ہیں۔پہاڑوں پر برف کی چادر تن چکی ہے اور میدانوں میں بھی اس وقت آسمان سے پانی برس رہا ہے۔پہاڑوں پر موجود برف کی سفیدی کی خوبصورتی اپنی جگہ لیکن یہ سفیدی ہمیں دو واقعات کی یاد دلا رہی ہے۔ 6جنوری1993ءکو مقبوضہ کشمیر کے ایک علاقے سو پور میں بھارتی فوجیوں نے 50سے زائد کشمیریوں کو گولیاں مار کر اور جلا کر شہید کر دیا تھا، 200سے زائد دوکانیں اور50سے زائد رہائشی مکان بھی خاکستر کر دیئے گئے تھے۔ برفیلی سفیدی کی اس خوبصورتی میں”سوپور کا صدمہ “نہیں بھولتا۔اسی طرح8اکتوبر 2005ءکے زلزلہ کے بعد متاثرین نے پہلا موسم سرما ، اُس موسمِ سرما کی پہلی برف اور موسم کی شدت کا سامنا کس طرح کیا تھا وہ مناظر بھی ہماری آنکھوں کے سامنے گھومتے ہیں۔ زلزلے کے بعد جب پہلی برف باری ہوئی تو پہاڑوں پر مقیم یہ معصوم لوگ اپنے بیوی بچو ں کے ساتھ خیموں میں مقیم تھے اور لکڑیاں جلا جلا کر سفید برف اور موسمِ سرما کی سفاک سردی کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ہمیں یاد ہے کہ اُس دوران کئی خیموں میں آگ لگنے سے لا تعداد معصوم زندگیا ں موت کی وادی میں اُتر گئی تھیں۔ان واقعات پر کسی انسان کا دل پسیجے یا نہ پسیجے ہم نے برف کے آنسو گرتے دیکھے ہیں۔

قارئین! حیرت ناک بات ہے کہ آج زلزلے کا طوفان گزرتے 6برس سے زائد وقت گزر چکا ہے۔ زلزلہ متاثرین کی مدد کے لیے پوری دنیا نے 500ارب روپے کے قریب رقم عطیات کی شکل میں دی۔ نقصانات کا تخمینہ350ارب کے قریب تھا۔ وہ ساری رقم خرچ ہو چکی ہے لیکن بحالی کا کام 40فیصد سے زیادہ نہیں ہو سکا۔ اور اب ایرا اور سیرا کا یہ کہنا ہے کہ اُنہیں فنڈز کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے۔”برف نے تو آنسو بہانے ہی ہیں“۔

قارئین! راقم نے چند روز قبل آزادکشمیر کے اُس وقت کے وزیر اعظم جب زلزلہ آیا تھا تو وہ وہاں موجود تھے اُن کے تاثرات پوچھے تو FM93ریڈیو میرپور کے پروگرام ”فورم93وِد جنید انصاری“میں گفتگو کرتے ہوئے سردار سکندر حیات خان نے کہا کہ جب میں ہیلی کاپٹر پر راولپنڈی سے مظفر آباد پہنچا تو میں نے زمین پر تباہی کے مناظر اور دھواں اُٹھتا ہوا دیکھا۔رات کے وقت میں ایک خیمے میں مقیم تھا ۔ بین الاقوامی میڈیا نے رابطہ کرتے ہوئے میرے تاثرات اور حالات پوچھے تو میرے منہ سے نکلا”میں ایک قبرستان کا وزیر اعظم ہوں“ اس جملے میں اتنی بے چارگی اور درد تھا کہ پوری دنیا کشمیریوں کی مدد کے لیے اکٹھی ہو گئی۔سیرا نے اگرچہ بہت محنت کی ہے لیکن بہت سا کا م کرنا ابھی باقی ہے۔پروگرام میں سیکرٹری و ڈی جی سیر ا ڈاکٹر آصف نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بڑی حد تک مقاصد اور نتائج حاصل کر لیے ہیں۔ متاثرینِ زلزلہ کو 90فیصد سے زائد رقم کی ادائیگی کی جا چکی ہے۔ تباہ شدہ مکان ، سکولز ، کالجز ، یونیورسٹی، ہاسپٹلز90فیصد سے زائد مکمل ہو چکے ہیں۔ بے روزگار ہونے والے لوگوں کو روزگار مہیا کرنے کے لیے ہُنر سکیمیں جاری ہیں۔ تخریب کے نتیجے میںپیدا ہونے والے راکھ کے ڈھیر سے تعمیر کی کونپلیں نکل رہی ہیں وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔

ڈاکٹر آصف ہمیں ایک انتہائی پروفیشنل ، دیانتدار او ر کمیٹیڈ آفیسر دکھائی دیئے لیکن ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ برف آج بھی آنسو کیوں بہا رہی ہے۔آج بھی پہاڑوں پر لوگ خیموں میں کیوں مقیم ہیں۔ آج بھی بھوک اور افلاس اُن خوددار لوگوں کا مقدر کیوں بنے ہوئے ہیںجو زلزلے سے متاثرہوئے۔”برف کیوں رو رہی ہے“بقول غالب
درد سے میرے ہے تجھ کو بےقراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے
کیوں میری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دشمنی اپنی تھی میری دوستداری ہائے ہائے
عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا؟
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائیداری ہائے ہائے

قارئین! زندہ قوموں اور مردہ قوموں میں فرق جاننے کے لیے کوئی زیادہ محنت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔اک نگاہ میں ہم یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ موت کی سردی کن قوموں کا مقدر ہے اور زندگی کی حرارت سے آشنا دل قول اور عمل کن لوگو ں ہوتے ہیں۔جاپان میں گزشتہ برس سونامی کے نتیجے میں زلزلہ آیا تو فوکوشیما سے لے کر جاپان کے درجنوں شہر اور قصبے مِٹ گئے۔ ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اُتر گئے لیکن اُن کا جذبہ تعمیر زندہ رہا اور دستِ عمل کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج جاپان ایک سال کی قلیل مدت میں اُن تباہ حال علاقوں کو زندگی کے دھارے میں واپس لے آیاہے۔ اسی طرح چلّی میں زلزلے معمول کا حصہ ہیں۔ برستی آگ اور لرزتی زمین پر وہ صدیوں سے رہ رہے ہیں۔ اُنہوں نے بھی بڑے بڑے حادثات کا سامنا کیا ہے لیکن ہر تخریب کے بعد وہ ایک نئے جذبے کے ساتھ تعمیر کی طرف بڑھے ہیں۔اسی طرح ایران، چائنہ اور ترقی بھی زلزلے کا سامنا کرنے والی اُن مثالوں میں شامل ہیں جہاں کئی بڑے حادثوں کے بعد موت کی وادیوں سے زندگی ایک نئی شوخی کے ساتھ جھوم کر برآمد ہوئی ہے۔کیا وجہ ہے کہ وہاں موسم اور برف ہنستے رہتے ہیں اور پاکستان اور آزادکشمیر میں آج بھی ”برف آنسو بہا رہی ہے“ قارئین رہی بات سو پور کی تو اس حوالے سے ہم نے FM93ریڈیو آزادکشمیر کے حالیہ پروگرام ”لائیو ٹاک وِد جنید انصاری “میں صدر آزادکشمیر سردار یعقوب احمد خان سے مقبوضہ وادی کے بارے میں جب سوالات کئے تو سردار یعقوب خان نے انتہائی جذباتی اور دل گرفتہ زبان میں کہا کہ بھارت بہت بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے۔مقبوضہ وادی میں گمنام قبریں ، ریاستی تشدد کے نتیجہ میں شہید ہونے والے کشمیری، معذور ہونے والے ہزاروں لوگ، ماورائے عدالت قتل اور گمشدہ افراد سے لے کر ماﺅں بہنوں کی بے عزتی اور بے حرمتی بھارت کے مکروہ چہرے کی کچھ جھلکیاں ہیں۔اُس پر بھارتی صدر مزید زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ آزادکشمیر میں مجاہدین کے ٹریننگ کیمپس ہیں۔ وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ 2005ءکے زلزلہ کے بعد دنیا بھر سے ہزاروں این جی اوز آزادکشمیر آئیں اُنہیں تو ایک بھی کیمپ نظر نہ آیا ۔ بھارتی صدر تحریکِ آزادی کشمیر کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹ بولنے سے گریز کریں۔

قارئین! برف کے آنسو دیکھ کر ہم یہ ضرور کہیں گے کہ آزادکشمیر میں دہشت گردی کی تربیت دینے والے مجاہدین کے کیمپس نہیں ہوں گے لیکن ہم نے عملاً برفزاروں میں رہنے والے متاثرینِ زلزلہ کی درست اور بروقت امداد نہ کر کے ”برفیلی دہشت گردی اور سفاکی“ کی وہ مثالیں قائم کی ہیں کہ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ شائد پاکستان اور آزادکشمیر ”سماجی دہشت گردی اور انسانیت کے قتلِ عام“ کے سب سے بڑے ٹریننگ کیمپس ہیں۔

خدارا ان معصوموں کی مدد کیجئے۔برف کی سردی اور موسم کی شدت ایک مرتبہ پھر انسان کا دشمن بن کر زمین پر اُتر آئے ہیں۔ جذبہ تعمیر کے ساتھ ہی ان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔

آخر میں حسبِ روایت لطیفہ پیشِ خدمت ہے۔
ایک صاحب اپنے دوست سے کہنے لگے کہ میرا بال بال قرض میںجکڑا ہوا ہے۔ کوئی ترکیب بتاﺅ کہ جان چھوٹ جائے۔
دوست نے انتہائی اطمینان سے کہا۔”ایسا کرو کہ گنجے ہو جاﺅ“

قارئین!حکمران اور سیاستدان بھی روٹی کو رونے والے متاثرین کو ڈبل روٹی کھانے کا مشورہ دیتے ہیں۔قیادت کی تبدیلی کے بغیر شائد تعمیر کا کوئی بھی کام نہیں ہو سکتا۔
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 338957 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More