انسانی زندگی بھی بڑی عجیب و
غریب شے ہے جو نئے نئے تجربات کرنے اور طوفانوں سے کھیلنے کےلئے ہمہ وقت
مچلتی رہتی ہے۔ یہ ہمیشہ اپنے لئے مشکل راہوں کا انتخاب بھی کرتی ہے اور ان
مشکلات کے سامنے ڈٹ جانے کا عزم بھی رکھتی ہے ۔ ہر انسان کو بخوبی علم ہوتا
ہے کہ اس نے جس جان لیوا راہ پر چلنے کا قصد کیا ہے اسکا ا نجام موت کے
علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے لیکن وہ پھر بھی موت سے خو فزدہ نہیں ہو
تاکیونکہ وہ بزعمِ خویش یہ سمجھتا ہے کہ وہ جس شہ کو گلے لگانے جا رہا ہے
وہ ایسی موت ہو گی جس پر زمانہ سدا فخر و ناز کرتا رہےگا ۔علامہ اقبال نے
اسی موت کو مرگِ باشرف کے نام سے موسوم کیاہے اور شائدیہی وجہ ہے کہ انسانی
زندگی موت کی اس ڈگر پر قدم اٹھانے سے باز نہیں آتی ۔ ذولفقار علی بھٹو کی
موت کے بعد کیا محترمہ بے نظیر بھٹو کو علم نہیں تھا کہ وہ جس راہ پر چلنے
کا عزم لے کر نکلی ہے اسکا انجام موت کے سوا کچھ نہیں ہے لیکن اس نے پھر
بھی اس راہ پر قدم اٹھا کر جراتوں کی نئی داستان رقم کی ۔میری ذاتی رائے ہے
کہ ایسے ہی نابغہ روزگار اور باہمت لوگ اس کرہِ ارض کاحقیقی حسن ہیں جنکی
جراتیں آنے والے انسانوں کےلئے مینارہ نور کا کام دیتی ہیں اور انھیں ظلم و
جبر سے لڑنے کا حوصلہ عطا کرتی ہیں۔ تاریخِ انسانی میں اگر ان باجرات افراد
کے کارناموں اور بسالتوں کو کھرچ کر باہر پھینک دیا جائے تو پھر پوری
انسانی تاریخ بانجھ ہو کر رہ جائے۔سچ تو یہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ اسطرح
کے جری افراد کے سہاروں پر قائم ہے جو آنے والی نسلوں کو نشانِ منزل بھی
دکھاتے ہیں اور اپنے مقصد کی حقانیت پر جان نچھاور کرنے کا جذبہ بھی عطا
کرتے ہیں۔۔
پاکستان کا کوئی بھی ذی شعور انسان اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ
پاکستان میں خفیہ ایجنسیوں کے سامنے حکمران طبقے اور پارلیمنٹ بے بس ہیں
اور ا ن ا یجنسیوں نے ریاست کے اندر ریاست قائم کر رکھی ہے۔ دنیائے اسلام
کی پہلی خاتون منتخب وزیرِ اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایٹمی پلانٹ دیکھنے
کی اجازت نہیں تھی ۔ اسے عمارت کے دروازے پر روک دیا گیا تھا کہ وہ ایٹمی
پلانٹ کو دیکھنے کی مجاز نہیں ہے اور یوں ایک منتخب وزیرِ اعظم ایٹمی پلانٹ
کو دیکھنے سے محروم کر دی گئی تھی اور یہ سب کچھ خفیہ ایجنسیوں کے حکم پر
ہوا تھا ۔ بظاہر یہ خفیہ ایجنسیاں وزیرِ اعظم کے ماتحت ہوتی ہیں لیکن ان پر
وزیرِ اعظم کا حکم نہیں چلتا۔ باعثِ حیرت ہے کہ عوام نے اپنے ووٹ سے جس
شخصیت کو حقِ حکمرانی تفویض کیا تھا خفیہ ایجنسیوں کے چند اہل کار ایٹمی
پلانٹ تک اسی کی رسائی نہیں ہونے دے رہے تھے اور یوں عوامی مینڈہیٹ کی کھلی
توہین ہو رہی تھی لیکن کس میں اتنی قوت تھی جو خفیہ ایجنسیوں سے جواب طلبی
کر سکتا ۔ ہمارے میڈیا کو سب علم ہے کہ ایجنسیاں کیا ہیں اور ان کی طاقت
کتنی زیادہ ہے لیکن وہ بھی اپنی زندگی کے خوف سے ان کے بارے میں کوئی بھی
لفظ زبان سے ادا نہیں کر پاتے کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ ان کی لب کشائی
کی بدولت ان کا حشر بھی اپنے صحافی دوست ولی بابر جیسا ہو گا اور انھیں موت
کے اندھے کنویں میں پھینک دیا جائے گا ۔ صحافیوں کی سیاست دانوں کے خلاف
کرپشن اور دوسرے افعال کے بارے میں کہانیاں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں
لیکن کسی ایک جنرل اور خفیہ ایجنسی کے بارے میں انکا اظہارِ خیال ان کےلئے
موت کا پروانہ ثابت ہو سکتا ہے اس لئے وہ اس گلی کا رخ نہیں کرتے۔وہ سیاست
دانوں پر کیچڑ اچھال کر خود کو طفل تسلیاں دے لیتے ہیں کہ وہ آزادیِ اظہار
کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں حالانکہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ آزادیِ
اظہار کے فریضے کا کما حقہ فرض پورا نہیں کر رہے کیونکہ بہت سے پسِ پردہ
چہرے جنھیں بے نقاب کیا جانا ضروری ہے وہ ان چہروں کو بے نقاب نہیں کر پاتے
کیونکہ انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔۔
پاکستان کی 67سالوں کی زندگی میں آدھی سے زیادہ زندگی مارشل لاﺅں کے زیرِ
اقتدار گزری ہے اور جو باقی گزری ہے وہ اس خوف میں گزری ہے کہ فوجی جنتا
کسی بھی وقت قتدار پر قبضہ کر کے سیاست دانوں کا حلیہ بگاڑ دےگی لہذا سیاست
دان ہمیشہ فوجی جنتا کی خوشنودی کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔جس کسی نے بھی اس
خوشنودی سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کی اسے عبرت کا نشان بنا دیا گیا ۔
میاں محمد نواز شریف نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں یہی غلطی کی تھی۔ انھوں
نے جنرل جہانگیر کرامت کو سلامتی کونسل کے قیام کی تجویز دینے پر فوج سے
سبکدوش کر کے جنرل پرویز مشرف کو نیا آرمی چیف مقرر کیا تھا کیونکہ سیاسی
بیان بازی کرنا فوجی جنتا کا کام نہیں ہے لیکن انھیں کیا خبر تھی کہ یہی
جنرل پرویز مشرف اان کی حکومت کا خاتمہ کر کے انھیں دس سالہ جلا وطنی پر
مجبور کر دے گا ۔ طیارہ اغوا کیس کا مقدمہ ملک کے وزیرِ اعظم کے خلاف قائم
کیا گیا اور اسے اس مقدمے میں سزا بھی سنائی گئی ۔ آئینِ پاکستان کی رو سے
ایک منتخب وزیرِ اعظم کا ایک ایک لفظ قانون کا درجہ رکھتا ہے لہذا وزیرِ
اعظم کو اپنے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے طیارے کا اغوا کرنے کی کیا ضرورت
تھی۔ وہ جنرل پرویز مشرف کو کسی بھی وقت سبکدوش کر سکتا تھا اور اس کے حکم
کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں تھی کیونکہ اسے یہ طاقت آئین نے عطا
کی تھی لیکن دنیا نے دیکھا کہ ایک فوجی جنرل نے کس طرح اپنے وزیرِ اعظم سے
بد تمیزی کی اسے گرفتار کیا، اسے جلا وطن کیا اور پھر دس سال تک بلا شر کتِ
غیرے پاکستان پر حکمرانی کے مزے لو ٹتا رہا۔۔
یہ 1999 کے ابتدائی ٰ دنوں کی بات ہے جب جنرل پرویز مشرف اپنے چند ساتھیوں
کے ساتھ شب خو ن کا منصوبہ بنا رہا تھا اور اس منصوبے کی بھنک مسلم لیگ
(ن)کے کانوں میں بھی پڑ گئی تھی لیکن وہ بے بس تھی اور کچھ نہیں کر سکتی
تھی لہذا پنجاب کے وزیرِ اعلٰی میاں محمد شہباز شریف نے امریکہ کا خصوصی
دورہ کیا اور سی آئی اے اور وائٹ ہاﺅس کے کلیدی عہد یداروں سے ملاقا تیں
کیں تاکہ جنرل پرویز مشرف کو کسی طرح سے حکومت کا تختہ الٹنے سے باز رکھا
جا سکے۔ دو تہائی اکثریت سے انتخاب جیتنے والے پنجابی وزیرِ اعظم کی حالت
یہ تھی کہ وہ بھی فوجی جنتا کی بے پناہ قوت سے چھپتا پھر رہا تھا اور
امریکہ سے منتیں کرتا پھر رہا تھا کہ خدا را میری حکومت کو جرنیلی مہم جوئی
سے روکنے میں میری مدد کرو۔ اس بات کی گواہی امریکہ کی خفیہ ایجنسی سی آئی
اے اور وائٹ ہاﺅس کے ایک اہم اہلکار بروس ریڈل نے دی ہے وہ کہتا ہے کہ 1999
میں نواز شریف کے بھائی میا ں شہباز شریف نے بھی امریکہ کے دورے پر اس وقت
کی سیاسی حکومت کو لاحق خطرات اور ممکنہ فوجی شب خون پر اپنے تحفطات کا
اظہار کیا تھا ۔رائٹر کے مطابق بروس ریڈل نے ۹۹۹۱ میں دلر ڈ ہوٹل میں میاں
شہباز شریف کو سنتے ہوئے پورا دن گزار جو ممکنہ فوجی بغاوت پر تحفطات کا
اظہار کر رہے تھے اور اسے رکوانے کےلئے امریکی امداد کی درخواست کر رہے تھے
۔ انھوں نے کہا کہ یہ باکل و یسا ہی الزام ہے جو اس وقت حسین ھقانی پر
لگایا جا رہا ہے۔سزا اس وقت بھی دی گئی تھی اور سزا اب بھی دی جانی ہے لیکن
طر یقہ واردات میں تھوڑا سا فرق ہو گا ۔ہو کر وہی رہنا ہے جسکا فو جی جنتا
نے فیصلہ کر رکھا ہے ۔ میمو گیٹ سازش کے ڈانڈے بھی اسی طرح کی فوجی بغا وت
سے ملتے ہیں جہاں پر طیارہ اغوا کیس کے ڈانڈے ملتے تھے۔ سپریم کورٹ میں
پٹیشن دائر کرنے کا مقصد سوائے اسکے اور کچھ نہیں ہے کہ صدرِ پاکستان آصف
علی زرداری کو ا س سازش میں ملوث کر کے ایونِ صدر سے باہر پھینکا جائے ۔ وہ
لوگ جو پاکستان کی تاریخ سے واقف ہیں انھیں علم ہونا چائیے کہ سارے اہم
فیصلے قبل از وقت کر لئے جاتے ہیں اور پھر ان فیصلوں کے نفاز کےلئے کچھ
کہانیاں تخلیق کی جاتی ہیں تاکہ عوام کو باور کروایا جا سکے کہ یہ سارے
اقدامات پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لئے اٹھائے گئے ہیں ۔
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کا ایٹمی اثا ثو ں سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن
آصف علی زرداری کوا سی جرم میں سزا دینے کا منصوبہ بن رہا ہے ۔ ایٹمی اثاثو
ں کی نگرانی کی ذمہ داری ایک ایسے ادارے کے ذمے ہے جس کے سربراہ وزیرِ اعظم
سید یوسف ر ضا گیلانی ہیں اور جس کے ممبران تینوں مسلح افواج کے سربراہ ہیں
لہذا یہ کیسے ممکن ہے کہ صدرِ پاکستان آصف علی زرداری ایٹمی اثاثو ں کے
بارے میں کسی کو کوئی یقین دہانی کروا سکیں ۔ سات ماہ قبل تراشی گئی داستان
پر نہ کہیں پر کوئی عملدر آمد ہونے کے شواہد ملے ہیں نہ ہی کہیں پر کوئی
عملدر آمد ہونے کی جھلک نظر آئی ہے اور نہ ہی کسی نے اس معاملے پر کہیں پر
کوئی ہلچل شروع کی ہے لیکن پھر بھی ضد ہے کہ یہ میمو ملکی سلامتی کےلئے
خطرناک ہے۔ مائک مولن کی ر یٹا ئر منٹ کے بعد میمو ایشو سمجھ سے بالا تر ہے
۔ مائک مولن کے دورانِ سروس جب اس پر کو ئی کاروائی نہیں ہو ئی تو ا سکا
واضح مطلب یہ تھا کہ منصو اعجاز کی لکھی گئی تحریرکی کوئی اہمیت نہیں ۔
دنیا جانتی ہے کہایٹمی اثا ثو ں کے بارے میں صدرِ پاکستان آصف علی زرداری
کو کوئی اختیار نہیں ہے اور جب اسے اختیار ہی نہیں ہے تو پھر صدر آصف علی
زرداری کی یقین دہانی پر اثاثے غیر محفوظ کیسے ہو گئے ؟ یقین کیجئے کہ
پاکستانی اثاثے مضبوط ہاتھوں میں ہیں لہذا ا ن کو بنیاد پر کسی مخصوص شخصیت
کو نشانہ بنانے کی کوششیں جمہوریت پر ایک اور تازہ حملہ ہیں ۔ ساری دنیا کو
علم ہے کہ یہ کہانی تخلیق کی گئی ہے با لکل ان کہانیوں کی طرح جو ذولفقار
علی بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے خلاف تخلیق کی گئی تھیں۔ ذولفقار علی
بھٹو کے خلاف سزا کو ساری دنیا عدالتی قتل سے تعبیر کرتی ہے جبکہ میاں محمد
نواز شریف کے خلاف طیا رہ اغوا کا کیس پہلے ہی جھوٹ کا پلند ہ قرار دیا جا
چکا ہے لیکن اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ذولفقار علی بھٹو اور میاں
محمد نواز شریف جھوٹے مقدمات پر سزائیں بھگت کر نا کرہ گناہوں کی سزا پا
چکے ہیں ۔اب ایک نئے جھوٹ پر صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی باری ہے
دیکھتے ہیں وہ اس وار سے بچ پاتے ہیں یا کہ ان کی زندگی کا چراغ ملک سے
غداری کے الزام پر گل کر دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں رٹ اور پھر فوجی جنتا
کا اعلان کہ میمو ایک حقیقت ہے اور اسمیں ایسے شواہد موجود ہیں جو جو اس
میمو کی حقانیت کو ثابت کرتے ہیں باعثِ تشویش ہے ۔ آرمی چیف کا حالیہ بیان
کہ فوج اقتدار پر قبضے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتی لیکن ملکی سلامتی پر کوئی
سمجھوتہ نہیں کرےگی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ پسِ پردہ بہت کچھ طے پا چکا
ہے جس کا فیصلہ وقت آنے پر کیا جائےگا۔۔
بے خودی بے سبب نہیں ہے غالب۔۔کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،، |