میں ساکت و جامد اُس مقام کی
زیارت کرنے لگا، میں نے جان لیا کہ میرے عمرہ کی تکمیل عروج کے زینے عبور
کر گئی ہے، وہ مقام کیا تھا، اِک الگ ہی جہاں تھا جس کے سامنے کرنیں ماند
پڑ رہی تھیں، نور چھلک رہا تھا اور زمین سے آسماں تک اِک عجب ہی سماں تھا،
دراصل یہ جگہ میرے آقائے کریم علیہ التحےة و الثناء کی جائے ولادت باسعادت
تھی۔ میں نے جی بھر کر زیارت کی۔ سعی کرنے کے بعد جب مروہ سے باہر نکلیں تو
یہ مقام بالکل سامنے دکھائی دیتا ہے۔
اِک کیف و بے خودی کے عالم میں نظروں سے اُس مرکز ِ دیار ِ حبیب کو چومتا
ہوا حرم شریف کی عمارت کے بیرونی صحن میں مروہ سے صفاء والی جانب چل پڑا۔
آگے جا کر سیدھے ہاتھ مڑا تو سامنے مکة المکرمہ کی بلند ترین عمارت اور
دنیا کا سب سے بڑا کلاک دکھائی دیا۔ یہ کلاک برطانیہ میں نصب بگ بین سے بھی
بڑا اور اونچائی میں چھ گنا زیادہ ہے۔ یہ حرم شریف کے سامنے کبوتر چوک سے
نزدیک واقع ہے۔
دھوپ تیز ہو چکی تھی اور تمازت بھی محسوس ہونے لگی تھی۔ میں آہستہ آہستہ
چلتا ہوا اپنی رہائش کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ ہوٹل میں پہنچا تو اہلیہ اور
فارِد حسنین میرے انتظار میں تھے۔ اُن کے چہروں سے بے چینی کی کیفیت صاف
پڑھی جا سکتی تھی تاہم میرا صاف شفاف سر دیکھ کردونوں بڑے محظوظ ہوئے۔
اہلیہ نے تومبارک باد دی مگر فارِد حسنین توتلے پن کے ساتھ اٹک اٹک کر بولا،
''بابا جان! آپ مجھے خانہ کعبہ شریف کیوں نہیں لے کر گئے؟ میں نے خانہ کعبہ
شریف کی پیاری (بوسہ) لینی تھی''۔
عمرہ شریف کے تمام ارکان پورے ہو چکے تھے لہذا میں نے غسل کر کے احرام کھول
دیا اور کپڑے پہن لیے۔ میں نے احرام سنبھال کر رکھ لیا تاکہ دوبارہ عمرہ
شریف کرنے کے لیے اِسی احرام کو استعمال کر سکوں۔ غسل کرنے کے بعد فی الفور
ناشتہ کیا اوربستر پر لیٹ گیا، تھکاوٹ نے جلد ہی نیند کی وادی میں پہنچا
دیا۔
یہ منگل کا دن تھا اور میں نے سوچا کہ آئندہ جمعہ، مکة المکرمہ میں ہی ادا
کیا جائے۔ اِسی دوران مختلف دوست احباب سے بھی ملاقات ہوئی۔ پیر بابالعل
دین کے صاحبزادے طارق حسین طیّبی کی مہمان نوازی قابل ِ تعریف تھی۔میرے پاس
ماہنامہ ''مجلہ حضرت کرماں والا'' کا تازہ شمارہ موجود تھا۔ صحنِ حرم میں
بیٹھ کر طارق حسین طیّبی نے رسالہ دیکھا تو اداریہ'' زمیں کھا گئی نوجواں
کیسے کیسے'' پڑھنا شروع کیا مگر نم آنکھوں کے ساتھ جلد ہی رسالہ بند کر دیا
اور کہا، مجھ سے آگے نہیں پڑھا جا رہا،واقعی ساجد بھائی کی رحلت بہت بڑا
حادثہ ہے۔ ہمارے لبوں سے بے اختیار ساجد بھائی اور جام پور والے افتخار
بھائی کے لیے دعائے مغفرت نکلنے لگی۔
فارِد حسنین کو اچھی طرح یاد تھا کہ اُس نے خانہ کعبہ شریف کو چومنا ہے اِس
لیے مجھے بار بار یہی اصرار کرتا رہتا۔ بدھ کی شب میں فارِد حسنین کو نمازِ
عشاء کے بعد مطاف میں ساتھ لے کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر کے بعد اہلیہ بھی آ گئی
اور ہم اکٹھے بیٹھ کر خانہ کعبہ شریف کی زیارت کرنے لگے۔ اِسی دوران چند
مصری بچے فارِد حسنین کے ساتھ کھیلنے لگے اور مجھے موقع مل گیا کہ اپنے
معمولات سے فارغ ہو جاؤں۔ کچھ دیر کے بعد مصری بچوں کے والدین آ گئے ،
اُنکے بچوں نے اپنے والدین کو فارِد حسنین کے بارے میں بتایا تو اُنہوں نے
بھی فارِد حسنین کو پیار کیا۔ پھر وہ چلے گئے تو فارِدحسنین میری طرف آ
گیا۔ میں نے اُس کے کہنے سے پہلے ہی اُسے اُٹھایا اور طواف کرنے والوں کے
ساتھ شامل ہو کر خانہ کعبہ شریف کی طرف بڑھتا گیا۔ بالآخر میں دیوارِ خانہ
کعبہ شریف کے بالکل قریب پہنچ گیا تو میں نے فارِد حسنین سے کہا کہ وہ بوسہ
دے تو فارِد حسنین نے بے تابی کے ساتھ خانہ کعبہ شریف کی دیوار کو بوسہ دیا
اور اپنے رخسار غلاف ِ کعبہ کے ساتھ ملنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد میں اُسے لے
کر واپس ہوا اور پہلے کی طرح آہستہ آہستہ طواف کرنے والوں کے ساتھ مل کر
چلتا ہوا باہر کی طرف نکل آیا اور پھر واپس اُسی جگہ پہنچ گیا جہاں اہلیہ
بیٹھی ہوئی تھی۔ میں نے فارِد حسنین سے کہا کہ بھئی جس طرح میں نے آ پ کو
خانہ کعبہ شریف کی دیوار کا بوسہ دلوایا ہے اب آ پ نے بھی مجھے طواف کروانا
ہے تو وہ فی الفور کہنے لگا ، لیکن میں تو چھوٹا ہوں اور آپ بڑے ہیں، اچھا
جب میں بڑا ہو جاؤں گا اور آپ چھوٹے ہو جائیں گے تو میں آپ کو طواف کروا
دوں گا۔ میں نے اور اہلیہ نے اِس بات پر اُسے پیار کیا اور پھر ہم سب نے
اکٹھے مل کر طواف کیا۔
جمعة المبارک کی رات ہم تنعیم (حدودِ حرم) پر واقع مسجد ِ عائشہ(رضی اللہ
عنہا) گئے اور وہاں سے ایک مرتبہ پھر احرام باندھ کر واپس آ گئے۔ عمرہ شریف
کی ادائیگی کے بعد کچھ دیر آرام کیا۔
حرم شریف میں نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے لیے جتنا جلد ممکن ہو پہنچ جانا
چاہیے کیونکہ تمام عمارت جمعہ سے ایک ڈیڑھ گھنٹہ قبل ہی پُر ہو جاتی ہے۔
جمعة المبارک کی نماز کے بعد طارق حسین طیّبی کے ساتھ نظام دین بھائی سے
ملاقات ہوئی۔ نظام دین نے مکة المکرمہ کی زیارات کروانے کا ذمہ لے لیا اور
بتایا کہ اُن کے بڑے بھائی محمد الیاس اِس سلسلہ میں زیادہ بہتر ہیں۔
نمازِ جمعہ کے بعد میں نے ہوٹل کی انتظامیہ کو مطلع کر دیا کہ اگلے دن بروز
ہفتہ ہم لوگ مدینہ طیبہ روانہ ہوں گے۔ یہ اطلاع دینی انتہائی ضروری تھی
کیونکہ انتظامیہ نے شرکة (کمپنی) کو بتانا ہوتا ہے۔ ہفتہ والے دن فجر کے
بعد ہم غسل کر کے مدینہ طیبہ روانگی کے لیے تیار ہو گئے ۔ سامان ہوٹل کے
استقبالیہ پر پہنچا دیا جہاں کچھ دیگر مسافر پہلے ہی موجود تھے۔ یہ سب
عازمین سفر ِ مدینہ طیبہ تھے۔
مکة المکرمہ سے روانہ ہوتے ہوئے تقریباً ٩ بج گئے ، آخر کار بس روانہ ہو
گئی اور مقدر بام ِ عروج کی طرف چڑھنے لگا۔ جس گھڑی کا انتظار کرتے ہوئے
لمحہ لمحہ گذارا تھا، وہ وقت نزدیک آ رہا تھا۔ چین کیسے آتا؟ دل کی دھڑکنیں
بے ترتیب، سانس کبھی آ جاتا تو کئی بار لینا بھول جاتے، پلکیں ساکت اور
آنکھیں جیسے جھپکنے سے ڈرتی ہوں کہ راہِ مدینہ طےّبہ کا کوئی منظر محو نہ
ہو جائے،یہی سوچ کر زیارت کرتے رہے۔ فارِد حسنین ''ہم مدینہ شریف جا رہے
ہیں'' کی صدائیں لگاتا ہوا جلد ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گیا مگر اہلیہ
میرے ساتھ باتیں کرتی رہی۔ خدایا! یہ راستہ وہی ہے جس پر میرے آقا اپنے
رفیقِ غار ص کے ساتھ تشریف لے گئے! کیسا مقام و مرتبہ حاصل ہے اِن چٹانوں
کو اور اِس راہ گزر کو؟ ہمیں پتہ ہی نہ چلا اور لبوں سے خودبخود نعتیہ
اشعار نکلنے لگے بالخصوص ''خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی''، ''ہم
فقیروں کو مدینے کی گلی اچھی لگی'' بار بار پڑھتے رہے۔ درودِ پاک کا وِرد
بھی ہوتا رہا اور بس تیزی سے زندگی و کائنات کی سب سے بہترین منزل کی طرف
رواں دواں تھی۔
کچھ دیر ہم دونوں اپنی اپنی سوچوں میں غرق رہے پھر اہلیہ پوچھنے لگی کہ
ہجرت ِ مدینہ کی کوئی بات سنائیں تو میرے ذہن میں جناب ِ سراقہ ص کا واقعہ
تازہ ہو گیا، سراقہ اپنی مشہور برق رفتار گھوڑی ''عوذ'' پر سوار تھا۔ نبی
کریم کا تعاقب کرتے ہوئے جب قریب پہنچا تو عجیب واقعہ پیش آیا، گھوڑی
گھٹنوں کے بل زمین پر آگری۔ سراقہ نے گھوڑی کو اٹھایااور اس کی گردن پہ
تھپکی دی، پھر اس پر سوار ہو گیا۔ سیّد نا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ یہ
منظر دیکھ رہے تھے اور حضور ِ انور سے سراقہ کے خطرناک عزائم کا تذکرہ بھی
کررہے تھے۔ نبی کریم نے اپنی زبانِ اطہر سے فرمایا: اے اللہ! ہمیں اس کے شر
سے محفوظ فرما۔ یہ مبارک الفاظ زبانِ رسالت مآب سے نکلے ہی تھے کہ ایک بار
پھر سراقہ کی گھوڑی کے چاروں پاؤں زمین میں دھنس گئے اور وہ بھی زمین پر
آگرا۔ اب سراقہ کی آنکھیں کھلیں۔ دماغ پر دل غالب آ گیا اور وہ بے بسی سے
پکار اٹھا: اے ابن عبدالمطلب! مجھے معاف کر دیجیے اور جان کی امان عطا کر
دیجیے۔کیا خوب مقام ہے کہ اس عالم میں بھی آپ کا ہاتھ اوپر ہے۔پروانہ ء
امان عطا کرنے کے موقع پر نبی کریم نے سراقہ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
''اے سراقہ!اس روز تیری کیا شان ہو گی ، جب کسریٰ کے سنہری کنگن تیرے
ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے''۔ سراقہ یہ الفاظ سن کر حیرت سے سکتے میں آگیا
اور متعجب ہو کر عرض کیا''کسریٰ کے کنگن میرے ہاتھوں میں؟ ''آپ نے فرمایا:
ہاں!سراقہ یہ ہو کر رہے گا۔اور پھر کیسے نہ ہوتا؟ حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کے دور میں یہ ہو گیا۔ ابن ِ حجر جیسے جید مؤرخین نے لکھا کہ جب حضرت
عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے کنگن جناب ِ سراقہ کے ہاتھوں میں پہنائے تو مدینہ
طیبہ کی فضاء اللہ کی کبریائی کے نعروں سے گونج اُٹھی۔
نمازِ ظہر کا وقت ہوا تو راستے میں ایک جگہ بس رُکی جہاں تمام مسافروں نے
اپنی مرضی سے کھانا کھایا اور پھر نمازِ ظہر ادا کی۔ نماز کے بعد ایک مرتبہ
پھر بس روانہ ہو گئی۔تھوڑی دیر کے بعد آہستگی کے ساتھ منظر تبدیل ہونے لگا،
ہوا کا رُخ بدلا اور فضاء کی کیفیت تبدیل ہو گئی، وادیء بے آب و گیاہ کی
جگہ سرسبز پودوں اور درختوں نے لے لی۔ کھجوروں کے باغات کا سلسلہ شروع ہو
گیاتو دل سینے میں اُچھلنے لگا جیسے باہر نکل کر بس سے بھی آگے بھاگنے کے
چکر میں ہو۔ یوں محسوس ہوا کہ اِسے قابو کرنا مشکل ہے اِسی لیے توجہ
گردونواحِ مدینہ طیّبہ کی زیارت پر مرکوز کر دی۔
کچھ دیر کے بعد عمارات و مکانات کا سلسلہ بھی شروع ہونے لگا۔ ایک جگہ پر جا
کر بس رُکی تو سڑک کنارے بورڈ آویزاں تھا جس پر '' لا تعرفعوا اصواتکم فوق
صوت النبی۔۔۔۔الخ'' قرآنی آیت تحریر تھی۔ دل کانپ کر رہ گیا، بے اختیار ہو
کر بارگاہِ رب ِ قدوس میں دست بہ دعا ہو گیا۔ مولا! یہ تیرے حبیب ِ لبیب کی
عظیم و پاک بارگاہ ہے، اِس ذرئہ حقیر و خطاکار کو بجز تیرے کرم کوئی آسراء
نہیں کہ ادب و احترام ملحوظِ خاطر رکھ سکے، بس تو مجھ پر رحم فرما اور مجھے
اپنے محبوب نبی کی بارگاہ میں رسوائی سے بچا لے، مجھے حاضری کا قرینہ سکھا
دے اور میری قسمت جگا دے۔ ساتھ ہی ساتھ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے اشعار
ذہن و دل پر تازیانے لگانے لگے،
تو غنی از ھر دو عالم من فقیر
روزِ محشر عذر ہائے من پذیر
گر حسابم را تو بینی نا گزیر
از نگاہِ مصطفی ۖ پنہاں بگیر
یعنی اے میرے مولا! میں تیرے پاک دَر کا فقیرہوں اور تُودو عالم کو عطا
کرنے والا ہے۔ روزِ محشر میرا عذر قبول فرمانا اگر میرے نامہ ء اعمال کا
حساب نا گزیر ہے تو پھر اے میرے مولیٰ! اسے میرے آقا محمد مصطفی کی نگاہوں
سے پوشیدہ رکھنا۔
کیونکہ باعث ِ شرم یہ پیکر گناہ و خطا اپنے آقا و مولیٰ کے حضور کیسے حاضر
ہو گا، سرکار کو کیا منہ دکھائے گا، میرے آقا کیا چاہتے ہیں، میں جانتا بھی
ہوں مگر عمل نہیں کرتا تو اِس وجودِ نافرمان کو کیسے پیش ِ بارگاہ ِ اقدس
کروں؟
یہی سوچ سوچ کر آنسوؤں کی لڑی بنتی رہی جبکہ بس چلتے رُکتے شہر ِ محبوب ِ
خدا ۖمیں داخل ہو گئی۔ طریق اِلیٰ مسجد النبوی کا بورڈ دیکھا تو فرط ِ
جذبات سے وجود بالکل ہلکا پھلکا ہو گیا، دل کی بے ترتیب دھڑکن اِک نظم و
ربط کے ساتھ درود و سلام کے گجرے پروتی رہی، ہونٹ ہلنا اور پلکیں جھپکنا تو
کب سے بھول گئے۔ ذہن و دل پر ایک ہی کیفیت وارِد تھی، یہ وہ شہر مقدس ہے جس
کی زیارت سے دل کبھی نہیں بھرتے، یہ وہ گلیاں اور بازار ہیں جہاں شاہانِ
جہاں گداگری کرتے ہیں، یہ وہ فضاء ہے جس کے بارے میں جھوم جھوم کر نعتیں
پڑھتے تھے، ''ہم نے تو جدھر دیکھا ، سرکار ۖ نظر آئے'' ، یہ وہ کوچہ ء
محبوب ۖ ہے جس کی سرد ہوا دیارِ غیر میں بھی روح و قلب کی تسکین کا باعث
بنتی تھی، ابھی کچھ دیر کی بات ہے ، یہ غلام ہوں گے اور اونچی سرکار کی
بارگاہ ہوگی، اچانک بس کے تمام مسافروں کی سرگوشیاں صداؤں میں بدلتی چلی
گئیں، وہ دیکھو آقا علیہ الصلوٰة و السلام کی مسجد کے مینار! بس پھر کیا
تھا، نظر پڑی، آنکھ بھیگی، دل کی دھڑکن تھمی، سانس رُکا اور اُس ایک لمحے
میں بہت کچھ ہو گیا، واہ میرے مولیٰ! کبھی صرف تصاویر کی حد تک زیارت ِ
مسجد ِ نبوی کیا کرتے تھے، آج ہم خود سامنے ہیں، میں نے محسوس کیا کہ پوری
بس کے مسافروں کی حالت ِ ناگفتہ بہ تھی، کوئی حیرت سے گنگ تو کسی کی اوپر
والی سانس اوپر اور نیچے والی نیچے، کسی کے ہونٹوں پر درودِ پاک کے نذرانے
تو کسی کی آنکھوں میں اشکوں کی برسات، پھر اچانک بس نے ایک موڑ کاٹا تو
ہمارے سامنے روضة الرسول ، گنبد ِ خضریٰ، محبوب ِ پاک کی آرام گاہِ اطہر و
اقدس نظر آ رہی تھی، یہاں کچھ اور نہیں کہا جا سکتا، بس ایک ہی بات ہے
الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اللہ
الصلوٰة والسلام علیک یا حبیب اللہ
اور
گنبد ِ خضریٰ خدا تجھ کو سلامت رکھے
دیکھ لیتے ہیں تجھے پیاس بجھا لیتے ہیں |