قارئین !قلم کی سعادت و عظمت کہ
اسے ایک ایسے عنوان پر چند سطریں تحریر کرنے کا موقع مل رہا ہے جولائقِ صد
عقیدت بھی ہے اور باعث عزت بھی۔
عارف باللہ،باقی باللہ،واقف اسرار حق پیر سید مہر علی شاہؒ کی شخصیت کی
اسلامی دینی خدمات کو پورے عالم اسلام میں مانا جاتا ہے، گولڑہ شریف اسلام
آباد میں انکا مزار اقدس ہے گولڑہ شریف اسلام آباد میں انکا مزار اقدس
ہے۔گولڑہ شریف کی پاک سرزمین میں طلوع ہونے والا وارث علوم پیر مہر علی شاہؒ
ولی کامل،عالم باعمل،بے باک حق گو،صوفی باصفا،نڈر بے باک خطیب ،ثابت قدم
مستقل مزاج نقیب،پرجوش مقرر ،پیر روشن ضمیر،خوش گفتار انسان،خوش اطوار
انسان،زینت القراء،عاشق رسول و آل رسول شاعر ہفت زبان حضرت علامہ پیر سید
نصیر الدین نصیر شاہؒ جو آسمان رشدو ہدایت پر آفتاب و مہتاب بن کر چمکے۔
ان کی مذہبی روحانی،ملی علمی،ادبی،خدمات ،ناقابل فراموش ہیں آپ کو تمام
مکاتب فکر اپنارہنما مانتے تھے،پیر نصیر الدین نصیرؒ پیر سید مہر علی
شاہؒاور اپنے دادا قبلہ بابو جی کا عکس جمیل تھے۔آپ کے خطاب ،انداز بیان
مصالحانہ اورواعظانہ تھے۔آپؒ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔
اس تاریخ ساز شخصیت کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کا رخ
بذریعہ قرآن ،صاحب قرآن،علیہ الصلوٰة و السلام من الرحمن کی طرف موڑ دیا
اور اپنی ساری زندگی معرفت الٰہی اور محبت و عشق مصطفوی کیلئے وقف رکھی،آپ
کے ہمہ گیر نظریات میںنظریہ عشق رسول علیہ الصلوٰة والسلام من اہل القبول
نمایاں ہے آپؒ کی شاعری دور حاضر کے مسلمانوں کے خیالات و افکار کو اسلامی
رنگ میںڈھالنے اور حب الٰہی و رسول کا جذبہ دلوں میں اجاگر کرتی ہے مندرجہ
ذیل شعر ملاحظہ ہو۔
حب دین،عشق نبیخوف خدا جس دل میں نہ ہو
ہم تو باز آئے نصیرؒ ایسی مسلمانی سے
پیر صاحب نہایت خوش الحان قاری بھی تھے،جب قاریوں کی محفل میں بیٹھ جاتے تو
سب پر چھا جاتے تجوید و قرآت کے قواعد اور ترنم و لہجا ت کے اعتبار سے پیر
صاحب کا کوئی ہم پلہ نہ ہوتا تھا ایک دفعہ بغداد شریف(عراق)میں حضرت سیدنا
عبدالقادر جیلانیؒ کی مسجد میں آپؒ نے آٹھ لہجوں میں سورة الرحمن کی تلاوت
فرمائی تو مشہور مصری قاری عبدالباسط اس قدر متاثر ہوئے کہ جتنے دن آپؒ نے
وہاں قیام فرمایا وہ روزانہ آپؒ کی رہائش گاہ پر آئے اور فرمائش کر کے
تلاوت سنتے اور محظوظ ہوتے تھے۔
آپؒ نے اپنے دور میں ولولہ انگیز خطابات کا انقلاب برپا کیا ہے ہزاروں
لاکھوں لوگ راہ راست پر آگئے،آپؒ کے خطابات کے حوالے سے آپؒ کی ذات کا چیدہ
چیدہ خوبیاں ملاحظہ ہوں!آپ ؒ کا نام اشتہارات میں دیکھ کر لوگ جلسہ گاہ
میںجوق در جوق آنا شروع ہو جاتے آپؒ کی تقریر شروع ہوتی تو عام لوگ
احتراماً و ادباً بالکل خاموش ہو جاتے عوام پر رعب طاری ہو جاتا آپؒ کا
سینہ مبارک علوم شریعت و روحانیت سے بھرا ہوا تھا،طویل خطابات فرماتے۔دوران
خطاب قرآن و حدیث، فقہ، فلسفہ، نحو، صرف،منطق،تاریخ،تصوف، من شاعری تمام
علوم کی خوشبوئیں لوگوں کے قلوب و اذہان تک پہنچاتے،ہر مکتبہ فکر کا آدمی
روحانیت اور عشقِ رسول کی خوشبوﺅں سے اپنے دامن اور جھولیاں بھر کر
اٹھتا،آپؒ کے انداز خطابت میں بجلی کی تیز روی ،شبنم کی ٹھنڈک،گلاب کی
مہک،بلبل کی چہک، دلنوازی، دلآویزی، دلنشینی،مترادفات کا
سمندر،بلندآہنگی،اصلاح پسندی،نگاہ کی بلندی،رنگ لغزل،سازآشنائی،موزوں
الفاظ، مناسب ادائیگی،مضامین کی رنگا رنگی،بلاغت کی چاشنی،رعب دار شخصیت
اور مثنوی طرز آپؒ کو دوسرے تمام خطباءکرام سے منفرد و ممتاز بناتی ہے۔
آپؒ صوفی ازم کے معلم بھی تھے،اور وارث بھی،آپؒ مولاناروم کی طرح فلسفہ پر
گفتگو کرنے والے تھے،آپؒ بایزید بسطامی کی سی روشن ضمیری رکھنے والے
تھے۔آپؒ مامون عباسی کی طرح برکتیں بانٹنے والے تھے آپؒ شہنشاہ اورنگزیب کا
سا جاہ و جلال رکھنے والے تھے۔آپؒ حق گئی،حق شناسی،حق نگری،حق نمائی کے
مالک تھے،آپؒ حق بیانی ،حق پرستی ،جذبہ عشق و مستی میں تیغ بے نیام تھے آپ
کے چہرہ مبارک کو دیکھ کر اللہ یاد آجاتا،یہ ولی کامل کی علامت ہے۔
پیر نصیر الدین نصیرؒ کو سورج سے تشبہیہ دی جا سکتی ہے کیوں؟اس لیے کہ
انہوں نے روایتی خانقاہی نظام سے منسلک رہتے ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کی
انہیں سورج سے اس لیے تشبیہہ دی جا سکتی ہے کہ ان کی کرنیں ہر سو پڑیں،وہ
ایک پیرزادے تھے،چاہیے تو یہ تھا کہ اس نظام میں رہ کر زندگی گزار دیتے
لیکن انہوں نے سوچا کہ میں پیر تو ہوں لیکن ذرا منفرد انداز کا پیر بننے
میں کیا حرج ہے؟اس کے لیے انہوں نے اپنے جد امجد پیر مہر علی شاہ ؒ سے
پوچھا ہو گا تو انہیں کی جانب لازماً رہنمائی ملی ہو گی،پیر مہر علی شاہ
بھی تو منفرد تھے،پیر مہر علی شاہ نے بھی تو روایتی نظام سے ہٹ کر سفرکیا
تھا،انہوں نے بھی تو اپنے وقت کے سب سے بڑے فتنے جس کی زد براہ راست ختم
نبوت پر پڑتی تھی کا بھر پور محاسبہ کیا تھا،پیر مہر علی شاہ نے بھی تو
شاعری کا سہارا لیا تھا اور اپنے پیغام کو لافانی بنا دیا تھا اور پیر نصیر
الدین نصیر نے بھی شعوری طور پر اسی راہ پر سفر کیا،پیر سید نصیر الدین
نصیر کی نظر نے اچھی طرح دیکھ لیا تھا کہ ان کے زمانےکا ایک فتنہ امت مسلمہ
میں اختراق کا ہے۔ان کے زمانے کا دوسرا بڑا فتنہ امت کے دلوں سے حب رسول کو
ختم کرنا ہے۔پیر نصیر الدین نصیر نے اپنی زندگی انہی دو فتنوں کے سدباب
کیلئے صرف کر دی،انہوںنے اس کیلئے تقریر و تحریرکا بھی بھر پور استعمال
کیا،اللہ تعالیٰ نے انہیں جو وجاہت عطا فرمائی تھی اس کا استعمال کیا اور
بھر پور انداز میں امت کے اتحاد کی بات کی،انہوں نے حب رسول کو مزید پختہ
کرنے کیلئے اپنی زبان اور قلم کا خوب خوب استعمال کیا آپؒ نے متعدد کتابیں
رقم کی ہیں جن کا منصہ مشہود پر آنا تشنگان علم و عرفان کی پیاس بجھانے کا
سبب بنا،آپ نے حقیقی اسلام کے رخ درخشاں سے سب غلط افکار نظریات کے پردے
نوچ پھینکے اور اسلام کو اسکی حقیقی آب و تاب کے ساتھ پیش کیا۔
تحفظ ناموس رسالت اور تحریک ختم نبوت کے مقدس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے
کیلئے آپؒ نے جامعہ مہریہ نصیریہ گولڑہ شریف کے قیام کا فیصلہ کیا اس مقدس
مشن کی تکمیل کا آغاز آپؒ کی حیات میں شروع ہو گیاتھا۔
یہ بھی تو کرامت ہے کہ وصال سے بہت پہلے دنیا والوں کو بتا گئے کہ
اک قیامت ڈھائے گا دنیا سے اٹھ جانا میرا
یاد کر کے روئیں گے یاران میخانہ مجھے
اور آپؒ کے پروردگار نے سچ کر دکھایا کہ دنیا سے آپؒ کا اٹھنا قیامت ہی ڈھا
گیا اور یاران میخانہ روئے بھی بہت اور روتے رہیں گے ،یاد ہی کرتے رہیں گے۔
آپ تقریباً بارہ سال گولڑہ شریف کی مسند ارشاد پر جلوہ فگن رہنے کے
بعد17صفر1430بمطابق تیرہ فروری2009ءبروز جمعتہ المبارک بوقت نماز جمعہ اس
دار فانی سے عالم بقاءکی طرف روانہ ہو گئے۔اس وقت آپ ؒ کی عمر تقریباً59سال
تھی آپ کو اپنے والد محترم کے قدموں کی جانب دفن کیا گیا آپؒ کا عرس
مبارک17,18صفر کوہر سال گولڑہ شریف میں عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے
اور لاکھوں کی تعداد میں آپ ؒ کے مریدین جوق در جوق عرس مبارک میں شرکت کے
لیے آتے ہیں۔
وہی بزم ہے وہی دھوم ہے وہی عاشقوں کا ہجوم ہے
ہے کمی تو بس اس چاند کی جو تہہ مزار چلا گیا |