ہاجرہ مسرور-کریدتے 'کیوں' ہو اب راکھ؟

17 جنوری 2012 - ہاجرہ مسرور کی 82 ویں سالگرہ کا دن

اتوار کا دن اور 15 جنوری، 2012 کی تاریخ، جناب معراج جامی کی معیت میں دو گھنٹے اس گھر میں گزارنے کا موقع ملا جہاں اردو کی ایک رجحان ساز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور مقیم ہیں، جامعہ دہلی سے پروفیسر عمیر منظر نے اطلاع فراہم کی کہ "جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ہاجرہ مسرور صاحبہ کے فکر و فن پر تحقیقی کام ہورہا ہے۔ان کے فن پارے تو مل گئے البتہ ان کی شخصیت اور سوانح کا گوشہ نامکمل ہے۔ صبا خانم دہلی کی رہنے والی ہیں یہی کام کررہی ہیں۔ امید ہے آپ کے تعاون سے یہ کام مکمل ہوجائے گا۔"

اکادمی ادبیات نے سو کے لگ بھگ ادباء و شعراء کے بارے میں کتابیں شائع کی ہیں لیکن حیرت انگیز طور پر ان میں ہاجرہ مسرور شامل نہیں ہیں لہذا سوانحی حالات کو حصول کی خاطر رابطہ لازمی ٹھہرا تھا۔ پروفیسر عمیر کی اس امید کو یقین میں بدلنے کی غرض سے ہاجرہ مسرور کا پتہ بدقت ڈھونڈ، وہاں کا قصد کیا۔ میرے کرم فرما جناب عقیل عباس جعفری کی آنکھیں چہار اطراف نگراں رہتی ہیں، آپ نے منجانب منزل راہنمائی ‘آسان لفظوں‘ میں کردی اور وہاں تک پہنچنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ ہماری میزبان ہاجرہ مسرور کی صاحبزادی نوید احمد طاہر تھیں.

ہم دو گھنٹے میں ہاجرہ مسرور کی ایک جھلک بھی نہ دیکھ پائے!

ہاجرہ مسرور نہیں چاہتیں کہ لوگ انہیں موجودہ حال میں دیکھیں۔ بیاسی برس کی ہوگئی ہیں، بیماری انسان کے مزاج پر بھی تو خوفناک طریقے سے حملہ آور ہوتی ہے۔ ابھی چند روز قبل ہی ہاجرہ مسرور اسپتال سے واپس آئی ہیں۔
 

image

ہاجرہ مسرور-حالیہ تصویر

کچھ عرصہ قبل کشور ناہید نے اپنے کالم میں لکھا تھا:
" ادا جعفری، زندگی کی اس منزل پر ہیں کہ انہیں خبر بھی نہیں کہ کب دن ہوتا ہے اور کب رات ہوتی ہے۔ یہ عجب طرح کی تنہائی اور بے خودی ہے جس نے بیگم نصرت بھٹو (اب مرحومہ) کو بھی جکڑ رکھا ہے کہ دنیا سے ماؤف بھی ہیں مگر موجود بھی ہیں۔ ہاجرہ مسرور تو ذہنی طور پر بھی، تنہائی لپیٹے بیٹھی ہیں نہ کسی سے ملتی ہیں، نہ کسی کو اپنا دکھ سناتی ہیں بالکل مہاتما بدھ والی تنہائی کے ریگزار میں چل رہی ہیں"۔

ہاجرہ مسرور کی صاحبزادی نے ہمیں بتایا کہ قریب آٹھ برس قبل کشور ناہید ٹی وی کیمرہ لیے آئی تھیں، ہاجرہ مسرور انٹرویو دینے سے انکار کردیں گی، اس کی انہیں امید نہ تھی، مایوس لوٹ گئیں۔

"کیمرہ کو ایک طرف رکھتا ہوں، کیا ہم ہاجرہ مسرور کو دیکھ سکتے ہیں" ؟ میرا سوال تھا
"یہ بھی ممکن نہیں ہے" ان کی بیٹی کی جانب سے جواب ملا

ایک لمحے کو تو قیامت گزر گئی، بھلا دیکھنے میں کیا قباحت ہوسکتی ہے ؟ پر تاب لائے ہی بنی۔ ہاجرہ مسرور کی صاحبزادی نوید احمد طاہر سے ملاقات کے اختتام پر اس انکار کی وجہ بھی سمجھ میں آچکی تھی۔

خیر صاحب, گفتگو شروع کی، تہمید باندھی، لفظوں کی بساط جمائی تو کچھ برف بھی پگھلی، خاتون کو یہ باور کرایا کہ اس ملاقات کا کوئی تجارتی پہلو نہیں ہے، ہم تو ہزاروں میل دور بیٹھے کسی انسان کی غرض پوری کرنے کی نیت سے آئے ہیں، چلیے اردو کے نام پر نہیں، انسانیت کے نام پر مدد کیجیے، ہماری نہ سہی، ہمارے ممدوح کی سہی۔ اس کوشش کا نتیجہ قدرے مایوس کن رہا لیکن خالی ہاتھ نہیں لوٹا، سوانحی معلومات اور چند یادگار تصاویر تو مل ہی گئیں۔
 

image
image
ایک تقریب میں شاہد احمد دہلوی اظہار خیال کررہے، ہاجرہ مسرور براجماں ہیں -----------ہاجرہ مسرور

ہاجرہ مسرور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جنس کے ذریعے معاشرے میں پلنے والی برائیوں کو بیان کیا۔ ان کے ہاں دو حوالے ہیں ایک جنسی اور دوسرا پیٹ کی بھوک ، اُن کے ہاں کئی جگہ ایسے مواقع آتے ہیں جہاں ان کا تصادم شروع ہوجاتا ہے۔ اور ان کے ہاں ایک خاص قسم کا امتزاجی رنگ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے ان کا افسانہ ”کتے “ قابلِ ذکر ہے۔ ہاجرہ سے عورت کے حوالے سے اس معاشرے کو دیکھاہے۔ اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ معاشرے میں سماجی ، معاشرتی اور تہذیبی اقدار کی وجہ سے عورت گھٹن کا شکار ہے۔ وہ جو چاہتی ہے وہ ویسا نہیں کر سکتی ایک معاشرتی جبر اُن پر مسلط ہے اُن کے ہاں بہت سے افسانے ایسے ہیں جو جنسی استحصال پر انحصار کرتے ہیں۔ افسانہ ”خرمن “ اُن کے شہرہ آفاق افسانوں میں سے ایک ہے۔

ہاجرہ مسرور کی تاریخ پیدائش بمطابق شناختی کارڈ، 17 جنوری 1930 ہے، دبستانوں کا دبستان جلد اول میں احمد حسین صدیقی نے 1929 لکھا ہے اور مختلف مضامین میں یہی سن پیدائش مستعمل ہوا۔ آبائی تعلق لکھنؤ سے ہے، ان کے والد ڈاکٹر تہور احمد خان برٹش آرمی میں ڈاکٹر تھے۔ ڈاکٹر تہور نے زیادہ عمر نہیں پائی، عید کی ایک سرد صبح غسل کر اجلا لباس زیب تن کیے گھر سے نکلے اور مسجد کا رخ کیا، ٹھنڈ ایسی لگی کہ نمونیا کا مرض جان لے کر ٹلا۔ ڈاکٹر تہور کے انتقال کے وقت ان کی چھ بیٹیاں اور ایک کم عمر بیٹا تھا۔ ہاجرہ مسرور کی والدہ باہمت خاتون تھیں، تمام بچوں کو رکھ رکھاؤ سے پالا۔ ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور کو اوائل عمر ہی سے ادب سے لگاؤ تھا۔ افسانے شائع ہونا شروع ہوئے تو شہرت نے گھر کا رستہ دیکھا۔ ہاجرہ مسرور نوعمری میں ساحر لدھیانوی کی محبت میں گرفتار ہوئیں۔ اس ضمن میں رفعت سروش مرحوم لکھتے ہیں:

"1946 میں لکھنؤ سے خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور(دونوں بہنیں) بھی آئیں، کچھ دن بمبئی رہیں۔ ان دونوں کو احمد ندیم قاسمی سے بہنوں کی سی قربت تھی۔ ہاجرہ مسرور ساحر لدھیانوی کی نا پختہ محبت کا زخم کھا کر عازمِ لاہور ہوئیں اور کچھ دن بعد اس دور کے رسائل میں خط چھپتے تھے، ہجو بہن (یعنی ہاجرہ مسرور) اور ندو بھیا (یعنی احمد ندیم قاسمی)۔ احمد ندیم قاسمی نے ان دونوں بہنوں کو بہت سہارا دیا۔ خدیجہ مستور کی تو شادی کرادی اپنے ایک بھانجے بابر سے اور ہاجرہ مسرور کی شادی اس کے بعد ہوئی مہوال کے احمد علی سے جو ’’ڈان‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔"
 

image

ہاجرہ مسرور کے شوہر احمد علی خان دونوں بیٹیوں کے ہمراہ

پاکستان بن گیا اور اس خاندان نے لاہور کا رخ کیا۔ ہاجرہ مسرور سن ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں کراچی منتقل ہوئی تھیں۔ ان کے بہن بھائیوں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:

عائشہ جمال - بڑی بہن تھیں
خدیجہ مستور - مشہور افسانہ نگار، احمد ندیم قاسمی کے بھانجے ظہیر بابر سے بیاہی تھیں
ہاجرہ مسرور - مقیم کراچی
طاہرہ عابدی - بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے صحافی، شاعر حسن عابدی کی اہلیہ
شاہدہ خیری - حبیب وہاب الخیری کی اہلیہ
توصیف احمد خان - بھائی - صحافی، حریت کے کالم نگار
خالد احمد - سوتیلے بھائی - شاعر و کالم نگار - لاہور میں مقیم ہیں

خالد احمد اور ہاجرہ مسرور کے علاوہ چھوڑ کر تمام بہنوں اور بھائی کا انتقال ہوچکا ہے۔

image

دائیں جانب: ہاجرہ مسرور اپنے اہل خانہ کے ہمراہ

امریکہ میں مقیم صحافی و ادیب اکمل علیمی لکھتے ہیں:
"آزادی کے بعد ہندوستان سے جن اہل قلم نے ہجرت کی ان میں سے کچھ سیدھے ندیم صاحب کے پاس آئے اور ان کی امداد سے لاہور اور نوزائیدہ پاکستان کے دوسرے حصوں میں آباد ہوئے۔ ان میں ایک خاندان عائشہ جمال، خدیجہ مستور، ہاجرہ مسرور اور ان کی دو اور بہنوں اور دو بھائیوں پر مشتمل تھا جو نسبت روڈ پر ندیم صاحب کے گھر پر مہمان رہا۔ پھر رفتہ رفتہ ندیم صاحب نے جواں سال لڑکیوں کے رشتے تلاش کئے۔ عائشہ ابھرتے ہوئے صنعت کار رحمٰن سے، خدیجہ، ندیم صاحب کے بھانجے ظہیر بابر سے، ہاجرہ پاکستان ٹائمز کے مدیر معاون احمد علی خان سے، تیسری بہن ہفت روزہ لیل و نہار کے حسن عابدی اور چوتھی نوجوان وکیل وہاب الاخیری سے بیاہی گئیں اور اپنے اپنے گھروں میں آباد و شاد ہوئیں۔"

ہاجرہ مسرور کے شوہر احمد علی خان ابتدا میں پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے۔ 1973 میں معاصر ڈان کے ایڈیٹر بنے اور اس عہدے پر پورے اٹھائیس برس یعنی 2000 تک فائز رہے۔ احمد علی خان کا انتقال 27 مارچ 2007 کو ہوا۔ ان کی ادھوری خودنوشت ان کی بیٹی نوید احمد طاہر شائع کروانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ ہاجرہ مسرور کی اولاد میں دو بیٹیاں ہیں، نوید احمد طاہر (راقم کی میزبان) اور نوشین احمد۔ نوشین احمد کینیڈا میں مقیم ہیں۔

ہاجرہ مسرور کے افسانوں پر مشتمل کتابوں کے نام یہ ہیں:

چاند کے دوسری طرف: آٹھ افسانے
تیسری منزل: پندرہ افسانے
اندھیرے اجالے: سات افسانے
چوری چھپے: سات افسانے
ہائے اللہ: گیارہ افسانے
چرکے: تیرہ افسانے

ان تمام افسانوں کا ایک مجموعہ لاہور کے ادارے مقبول اکیڈمی سے 1991 میں "سب افسانے میرے" کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ افسانوں کے علاوہ ہاجرہ مسرور نے ڈرامے بھی تحریر کیے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی نے ہاجرہ مسرور کی بچوں کے لیے تحریر کردہ کہانیاں شائع کیں۔

ہاجرہ مسرور 1965 میں بننے والی پاکستانی فلم آخری اسٹیشن کی کہانی نویس بھی ہیں۔ آخری اسٹیشن سرور بارہ بنکوی نے بنائی تھی۔
 

image

ہاجرہ مسرور

ہاجرہ مسرور اپنے شوہر احمد علی خان کے انتقال (2007) کے بعد عملا" گوشہ نشین ہوگئی ہیں۔ دو برس قبل تک وہ شہر کراچی میں ہونے والی ادبی تقریبات میں کبھی کبھار شرکت کرلیا کرتی تھیں لیکن اب یہ سلسلہ بھی موقوف ہوچکا ہے۔ ہاجرہ مسرور کے قریبی دوستوں میں فرزانہ رضوی (بی سی سی آئی بینک والے آغا حسن عابدی کی بہن)، نثار عزیز بٹ (پاکستان کے سابق وزیر خانہ سرتاج عزیز کی بہن)، حبیب اللہ شہاب (قدرت اللہ شہاب کے بھائی) اور ان کی اہلیہ زبیدہ شہاب شامل ہیں۔ زبیدہ شہاب اکتوبر 2005 کے زلزلے کے دوران اسلام آباد کے مارگلہ ٹاوز کے سانحے میں جاں بحق ہوگئی تھیں۔ اپنی اس سہیلی کے انتقال پر ہاجرہ مسرور بہت عرصے تک بیحد رنجیدہ رہیں۔

ہاجرہ مسرور اپنے دن پورے کررہی ہیں، رخسار جاناں پر نہ تو رنگ باقی رہا ہے اور نہ ہی دیوار گلستاں پر دھوپ باقی رہی ہے۔ خدا سے دعا ہے کہ ان کی صحت بحال رہے۔

ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے، ساغر چلے

ہاجرہ مسرور سے ملاقات نہ ہوسکی، ہم ان کو دیکھنے سے بھی قاصر رہے، لیکن بالفرض ایسا ہوجاتا تو شاید وہ یہی کہتیں:

اس وقت کہاں سے آگئے ہو تم
اس وقت میں اپنے روبرو ہوں
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 300406 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.