داد دینی چاہئے صدر زرداری اور
وزیر اعظم گیلانی سمیت پیپلز پارٹی کے ان تمام راہنماﺅں کوجو موجودہ حکومت
کے پہلے دن سے یہ فہم و ادراک رکھتے تھے کہ وہ درپیش مسائل و مشکلات کا حل
نکالنے کا کوئی فارمولا نہ اپنی جیب میں رکھتے ہیں اور نہ ضرورت محسوس کرتے
ہیں لیکن تمامتر مشکلات اور چیلنجز کے باوجود نہ صرف انہوں نے چاروں صوبوں
میں حکومتیں بنائیں (2008 میں پیپلز پارٹی پنجاب حکومت میں بھی موجود تھی)
بلکہ اب تک چلا بھی رہے ہیں اور ”اندھی کامیابیاں“ بھی سمیٹ رہے ہیں۔ چونکہ
صرف حکومت سازی کے لئے اور ووٹو ں پر ٹھپے لگوانے کے لئے عوام کی ضرورت
ہوتی ہے اس لئے جب پانچ سال کے لئے ٹھپے لگ جاتے ہیں تو راوی حکومت کے لئے
چین چین ہی لکھتا ہے کہ حکومتی زعماءجیسے چاہیں اور جہاں سے چاہیں اور جتنی
چاہیں اپنی جیبیں، تھیلے، بوریاں اور زنبیلیں بھر لیں، یہاں رکھ لیں یا
باہر لے جائیں، کیونکہ ان کو پانچ سال کا مینڈیٹ جو مل چکا ہوتا ہے چنانچہ
موجودہ حکومت کی اعلیٰ ترین کرپشن کی جتنی مثالیں موجود ہیں، اگر انہی پر
لکھا جائے تو شائد ہزاروں صفحات سیاہ ہوجائیں، سینکڑوں کتابیں مرتب ہوجائیں
لیکن سیاہ کارناموں کا سنہرا پن ختم نہ ہو۔ لیکن آج اتنی بے چینی کیوں پائی
جاتی ہے، ہاہاکار کیوں مچی ہے، وہ اعتزاز احسن جو موجودہ پیپلز پارٹی کی
قیادت کو چیف جسٹس صاحب کی وجہ سے پسند نہیں رہ گیا تھا، اسے این آر او
جیسے کیس میں وکیل کیوں مقرر کر دیا گیا ہے اور وہ کیونکر تیار ہوئے؟
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مشرف کی رخصتی کے بعد عوام قدرتی طور پر کچھ
امیدیں رکھتے تھے کہ جمہوریت بہرحال آمریت سے بہتر ہوتی ہے اور اس میں
مسائل کے حل کے لئے زیادہ بہتر اور سنجیدہ کوششیں کی جاسکتی ہیں لیکن یہ
عوام کی بھول اور بچپنا تھا۔ آج کے پاکستان میں جمہوریت صرف حکومت اور
پارلیمنٹ کا نام ہے، عوام کس چڑیا کو کہتے ہیں، جمہوری راہنماﺅں کو اس سے
کیا غرض؟لیکن اگر صحیح معنوں میں غور کریں تو جمہوریت تو قربانی کو کہتے
ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری روایات کی پاسداری میں لوگوں کو اپنے خیالات، اپنے
جذبات اور بعض اوقات تو اپنی جان و مال اور گھر والوں کی قربانی بھی دینا
پڑتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے قائدین اکثر کہا کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ایک ایسی
جماعت ہے جس کی تاریخ قربانیوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔ اس جماعت سے
تعلق رکھنے والوں نے ہر دور میں قربانی دی ہے۔ ان کے بقول ذوالفقار علی
بھٹو نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنادیا ،ملک اور اس کے عوام کے لئے انہوں نے
اپنی جان کی قربانی پیش کردی، ان کے بیٹوں شاہنواز بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو نے
بھی جان کی قربانیاں پیش کیں اور آخر میں محترمہ بینظیر بھٹو بھی اس ملک
اور عوام پر قربان ہوگئیں۔
مجھے یوں لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے نعروں کے مطابق پارٹی اب بھی قربانیاں
دینے کو تیار ہے لیکن اب کی بار ، آصف زرداری کے پارٹی سنبھالنے کے بعد
ترتیب ذرا بدل دی گئی ہے۔ پہلے پارٹی کی سپریم لیڈر شپ قربانیاں دیا کرتی
تھی یعنی وہ لوگ جو بھٹو خاندان کے ارکان ہوا کرتے تھے لیکن اب سوچ تبدیل
ہوچکی ہے، اب تھوڑی سی نیچے والی لیڈر شپ قربانیوں کے لئے تیار کی گئی ہے،
انہیں یقینا قربانیوں کا ”صلہ“ بھی مل رہا ہے اور آنے والے وقتوں میں ملتا
رہے گااور مزے کی بات ہے کہ ان سے جان و مال کی قربانی نہیں بلکہ اپنی
حیثیتوں کی قربانی طلب کی جارہی ہے اور تمام شخصیات کی قربانی کا مرکز و
محور صرف صدر زرداری کی ذات ہے۔ آپ دیکھ لیں بابر اعوان نے توہین عدالت کا
الزام اپنے سر لے لیا، ان کے ساتھ فردوس عاشق اعوان اور قمر الزمان کائرہ
جیسے لوگ بھی زد میں آگئے، بابر اعوان جو مبینہ طور پر بھٹو کی پھانسی پر
خوشیوں کے شادیانے بجا رہے تھے، مٹھائیاں تقسیم کررہے تھے، زرداری کے سحر
میں ایسے گرفتار ہوئے کہ اپنا وکالت کا لائسنس معطل کرا لیا، چاہے عارضی
طور پر ہی سہی، یہ بھی سپریم کورٹ کی مہربانی ہے کہ ابھی عارضی معطلی ہے۔
اکثر سینئر وکلاءسے سنا ہے کہ ایک وکیل کو اگر جان سے مار دیا جائے تو وہ
برداشت کر جاتا ہے لیکن اگر اس سے اس کا لائسنس لے لیا جائے یا معطل و
منسوخ کردیا جائے تو اس کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ بابر اعوان وغیرہ سے
پہلے ایک چیئرمین نیب اور ایک اٹارنی جنرل بھی این آر او کیس میں قربانی دے
چکے ہیں اور اس قربانی سیریز میں تازہ ترین قسط کے طور پر وزیر اعظم گیلانی
شامل ہورہے ہیں جب وہ انیس جنوری کو توہین عدالت کیس میں سپریم کورٹ میں
پیش ہوں گے۔ وزیر اعظم کے سامنے دو راستے ہیں کہ یا تو سپریم کورٹ کے
احکامات کی روشنی میں ”خط“ لکھ دیں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے جس کا غالب
امکان ہے تو دوسری صورت یہ ہے کہ وہ توہین عدالت کے مجرم بن جائیں یا
استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں۔ لگتا ہے کہ وزیر اعظم قربانی کی مکمل تیاری
کرچکے ہیں اور وہ خط لکھنے کی بجائے توہین عدالت کا مجرم بننا پسند کریں گے
یا استعفیٰ دیدیں گے۔ قربانی سے پہلے وہ ایک آخری کوشش کے طور پر سپریم
کورٹ کو ”اخلاقی مار“مارنے اور ”گندا“ کرنے کی بھی بھرپور کوشش کرتے اگر
اعتزاز احسن کو وکالت کے لئے راضی نہ کرپاتے ، اعتزاز احسن کی بطور وکیل
سپریم کورٹ میں پیش ہونے کو یار لوگ اس طرح لے رہے ہیں کہ وزیر اعظم شائد
اس قربانی کے لئے دل سے تیار نہیں ہیں۔ بہرحال اگر صدر زرداری کو بچانے کی
کوششیں جاری رکھنا ہیں تو قربانی تو دینا پڑے گی، دیکھنا یہ ہے کہ اعتزاز
احسن کیا قربان کرتے ہیں، کیونکہ عام تاثر یہی ہے کہ اعتزاز احسن جتنے مرضی
جیالے بن جائیں اپنے ضمیر کے خلاف نہیں جاسکتے اور کوئی بھی شخص کم از کم
اعتزاز احسن سے ضمیر کی قربانی دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
پیپلزپارٹی کے جیالے، چاہے وہ وزیر ہوں یا وزیر اعظم، کیوں بسر و چشم اس
قربانی کے لئے تیار ہیں؟ وہ اس لئے کہ وہ سبھی سمجھتے ہیں کہ جس طرح کے کام
ہم کرچکے ہیں ان کی بدولت اب کوئی سیاسی شہادت ہی ان کا مستقبل کسی حد تک
بہتر کرسکتی ہے، اس لئے جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کس طرح سپریم کورٹ، فوج اور
اپوزیشن نے سر توڑ کوششیں کیں کہ کسی طریقہ سے پیپلز پارٹی کو سیاسی شہادت
سے دور رکھ سکیں۔ سپریم کورٹ انتہائی سست رفتاری سے این آر او کیس کو آگے
بڑھاتی رہی، فوج نے بھی بہت سے معاملات میں چشم پوشی سے کام لیا، میاں نواز
شریف آج تک فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سن رہے ہیں لیکن سب کی کوششیں دھری کی
دھری رہ گئیں اور زرداری صاحب نے سب پہ بھاری ہونے کا اپنا تاثر نہ صرف
قائم رکھا بلکہ اس کو اور بھی وسیع و عریض کرلیا۔ یہ ان کی پالیسیوں کی
بدولت ہی ہو پایا کہ آج پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت سیاسی شہادت سے زیادہ
دور نہیں رہ گئی، تو کیوں نہ سب ”قربان جاﺅں“ کا تیر بہدف نسخہ استعمال
کرکے اپنا مستقبل تابناک کرلیں کیونکہ اب عملی طور پر بھٹو اور زرداری
خاندان ایک ہوچکے ہیں اور پیپلز پارٹی میں سے اگر بھٹو کا نام نکال دیا
جائے تو باقی بچتا کیا ہے؟ |