بعض لوگ جشنِ میلاد النبی صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں مناتے۔ ان کا اعتراض ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد منانا ضروری نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی اِتباع ضروری ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دنیا میں
آمد کا بنیادی مقصد بھٹکے ہوئے لوگوں کی رہنمائی اور انہیں اسلامی شریعت و
تعلیمات سے بہرہ ور کرنا تھا، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پورا فرما
دیا۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی پیروی کریں اور قرآن و سنت کی روشنی میں
اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال کر اسلام کی تبلیغ اور
ترویج واشاعت میں اپنا کردار ادا کریں۔ میلاد منانے کی بجائے اپنے سامنے وہ
مقصد رکھیں جس کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا گیا۔
معترضین کا موقف یہ ہے کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جشن
منانا اور اس کے لیے تقریبات کا انعقاد وقت اور سرمائے کا ضیاع ہے۔ اس سے
ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔
آئیے ہم اِس اِعتراض کا تفصیلی جائزہ لیں :
اعتراض کا جواب اور ہمارا نقطہ نظرہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ لوگ جو کچھ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقصدِ بعثت کے بارے میں کہتے ہیں
ہمیں اس سے انکار نہیں، بلا شبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دنیا میں
تشریف آوری کا مقصد لوگوں کو ہدایت کے نور سے فیض یاب کرنا اور انہیں اپنی
سنتِ مطہرہ کی صورت میں اسلام کا ایک مکمل ضابطۂ حیات فراہم کرنا تھا۔ اس
پہلو پر ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے اسوۂ مبارکہ کی پیروی کرنا اور اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر
کرنا ہم پر لازم ہے۔ بحمد اﷲ تعالیٰ ہم اپنی متاعِ علم و عمل کو مصطفوی
انقلاب کے لیے وقف کیے ہوئے ہیں لیکن ہمیں ان کے اس نقطۂ نظر سے اختلاف ہے
جو وہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضرورت و اہمیت کے بارے میں
رکھتے ہیں، یہ ایک الگ معاملہ ہے۔
تمسک بالدین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر عمل
کرنے میں کسی کو کلام نہیں لیکن ایک اہم پہلو اور بھی ہے۔ وہ یہ کہ دین میں
اگر ایک عملی پہلو ہے تو دوسرا قلبی، حبی اور عشقی پہلو بھی ہے جو آمدِ
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عظمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کے ترانے گنگنانے کے تقاضے اپنے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ اللہ رب العزت نے
بنی نوع انسان کو ایک بہت بڑی نعمت اور رحمت عطا کی جب اس نے ان کے درمیان
اپنے محبوب ترین پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھیجا۔ وہ دن جس میں
نعمت خداوندی کو اپنے دامن میں لیے ہوئے اس دنیائے آب و گل میں آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی ہمارے لیے مسرت و شادمانی اور اظہارِ
تشکر و اِمتنان کا دن ہے۔ اس دن اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے وجود مسعود کی صورت میں اپنا فضل و رحمت ہم پر نچھاور کر دیا۔ اس
لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یومِ ولادت منانا اور اس کا
شایانِ شان طریقے سے شکر بجا لانا اَمرِ مستحسن ہے۔ یہ ایک بنیادی نکتہ ہے
جس سے ہم صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔
ہزاروں سال قبل ظہور پذیر ہونے والے واقعات میں ہمارے لیے ایک پیغام اور
مقصد مضمر ہے۔ مناسکِ حج ہی کو لیجیے، بادی النظر میں ان اعمال کو جاری
رکھنے میں کوئی عملی ربط پنہاں نہیں۔ بظاہر یہ مختلف واقعات تھے جو رونما
ہوئے اور گزر گئے۔ ان واقعات میں ہمارے لیے کیا عملی اور تعلیمی سبق ہے کہ
شریعت نے حج و عمرہ کے موقعوں پر مناسک کی صورت میں ان کا جاری رکھنا فرض
اور واجب قرار دیا ہے؟ اس حقیقت سے ہم یہی نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اسلام
دونوں باتوں کو تسلیم کرتا ہے۔ وہ دینی تعلیمات کے اس پہلو کو جو اَحکاماتِ
الٰہیہ سے متعلق ہے ضروری سمجھتا ہے کیونکہ ان کی تعمیل تقاضائے دین ہے۔ اس
کے ساتھ ہی بیک وقت وہ کسی واقعہ کے جذباتی پہلو اور تعلق کو بھی خصوصی
اہمیت دیتا ہے اور اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ پہلو مداومت کے ساتھ ہماری
زندگیوں میں جاگزیں رہے۔ ہم اس کے تاریخی پس منظر کو اپنے دل و دماغ سے بھی
اوجھل نہ ہونے دیں۔ ہمارے جذبات، احساسات اور تخیلات کی دنیا میں اس کی
گونج ہمیشہ سنائی دیتی رہے۔ درحقیقت اسلام ہر واقعہ سے دوگونہ تعلق کا
خواہاں ہے : ایک عملی وابستگی کا تعلق اور دوسرا جذباتی وابستگی کا تعلق
اول الذکر تعلیماتی پہلوؤں اور ثانی الذکر جذباتی پہلوؤں یعنی محبت، چاہت
اور اپنائیت کے عملی مظاہر سے عبارت ہے۔ محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے یوم ولادت پر والہانہ جذباتی وابستگی کا اظہار تاریخی، ثقافتی
اور روحانی پس منظر میں کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم اس واقعہ کو
کبھی نہ بھولیں اور یہ ہمارے قلب و باطن اور روح میں اس طرح پیوست ہو جائے
کہ امتدادِ وقت کی کوئی لہر اسے گزند نہ پہنچا سکے۔ اسلام اس یاد کو مداومت
سے زندہ رکھنے کا تقاضا کرتا ہے، اس لیے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے موقع پر جشن مسرت کا سماں پیدا کر دیا جاتا ہے تاکہ اس واقعے کو
اہتمام کے ساتھ منایا جائے۔
ہم گزشتہ صفحات میں واضح کر چکے ہیں کہ مناسکِ حج دراَصل اﷲ کے مقرب بندوں
سے متعلق واقعات ہی ہیں جنہیں شعائر اﷲ قرار دے کر ان کی یاد منائی جاتی
ہے۔ اگر اِس اَمر میں کوئی تنازعہ اور اِختلاف نہیں تو میلادِ مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات پر بھی کسی کو کوئی اِعتراض اور اِبہام
نہیں ہونا چاہئے۔
لنک:
https://www.minhajbooks.com/english/control/btext/cid/5/bid/79/btid/266/read/txt/باب%20اول.html |