پاکستان میں حالات روز بروز
تبدیل ہوتے جا رہے ہیں اور یہ تبدیلی حالات کی بہتری کی طرف نہیں بلکہ مزید
خرابی کی طرف بڑھ رہی ہے۔عوام،حکومت،فوج،عدلیہ اورسیاستدان ان سبھی کے بیچ
چلنے والی زورآزمائی سے نتیجہ تو فی الحال کُچھ بھی نہیں نکلا، مگر ایسا
ضرور محسوس ہورہا ہے کہ ان سبھی کی وجہ سے پاکستان مزید بدنام اور کرپٹ ملک
ضرور بن جائے گا۔اس ملک کی بدنامی اور ناکامی میں جس حد تک اس ملک کے
حکمران،سیاستدان،عدلیہ اور فوج ملوث ہیں اُسی قدر اس ملک کی عوام بھی اس
ملک کی بدنامی اور ناکامی کا سبب ہیں۔
آجکل حکومت،عدلیہ اور فوج کے درمیان گرما گرمی چل رہی ہے اور دیگر سبھی
سیاستدان یہ چاہتے ہیں کہ کُچھ ایسا ہو کہ اس حکومت سے جان چھڑالی جائے اور
ہماری باری آئے۔ملک کے سیاسی حالات پر تو سب کی نظر ہے مگر ملک میں ہونے
والی تباہیوں کی کسی کو پرواہ نہیں۔خودکش حملے اور خون خرابہ ہی صرف تباہی
نہیں بلکہ اس ملک کو معاشی طور پر سب سے کمزور ملک بنانا اس ملک کیلئے سب
سے بڑی تباہی ہے۔ملکی حالات کی وجہ سے سرمایہ دار اس ملک سے بھاگ رہے
ہیں،تاجروں کے کاروبار بند ہوتے جارہے ہیں،ہر کوئی اپنی جائیداد فروخت کر
کے بیرون ملک جا رہا ہے،ملک میں تعلیم کا نظام تباہ ہو رہا ہے،ہسپتالوں میں
ڈاکٹروں اور مریضوں کے درمیان آئے دن کشمکش جاری رہتی ہے،ایسے میں اگر ملک
کا وزیر اعظم یہ کہے کہ حالات بہتری کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ
وزیر اعظم فوج کے بارے میں ایسے بیان دے جس سے کشیدگی بڑھنے کا ڈر ہو تو اس
کا ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے کہ کرپشن اور لوٹ مار کے بعد یہ حکومت اب فرار
ہونا چاہتی ہے اور موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ اُنہیں خود نہ جانا پڑے بلکہ
اُنہیں فوج کی لفٹ میں جگہ مل جائے تاکہ عوام کو آئندہ یہ کہہ کر دوبارہ
دھوکہ دینے کےلئے واپس آئیں کہ فوج نے اُن کی حکومت کو تب راستہ سے ہٹایا
جب ملک ترقی کی جانب گامزن ہوا۔عین اُسی طرح جیسے میاں برادران اب بیان
دیتے ہیں۔شیخ رشید صاحب نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام میں فوج کے بارہ میں
کہا کہ” فوج نے تو سَتو پی رکھے ہیں“۔شیخ صاحب کا ڈائیلاگ اچھا تھا مگر جب
فوج حرکت میں آئی تو آنےو الے کُچھ عرصہ بعدعین ممکن ہے کہ شیخ صاحب یہ
کہیں کہ فوج نے تو ملک کا کباڑہ کیا ہے۔کُچھ اسی قسم کے سیاستدانوں کی وجہ
سے اس ملک کی عوام کو یہ سمجھ نہیں لگ رہی کہ” جانا کس طرف ہے“۔عدلیہ کی
بات کریںتو سیاستدانوں سے بڑے ڈرامے باز ہمارے ملک میں انصاف تقسیم کرنے
والے ہیں۔جس ملک میں لاقانونیت کا یہ حال ہو کہ اگر ایک عام آدمی توہین
عدالت کا مرتکب ہو تو اُسے فوری سزا دے دی جائے اور جب اعلیٰ حکومتی
عہدادار ایسا کریں تو اُن کے لئے چھوٹ یا کوئی آپشن بنا دیا جائے تو اُس
ملک کو سدھارنے کے لئے اُتنے ہی سال درکار ہوں گے جتنے سال اُسے آزاد ہوئے
گزرے ہوں۔فوج،عدلیہ اور حکومت کے الگ الگ راستے ہی ہیں جن کی وجہ سے عوام
بھٹکتی پھر رہی ہے۔ایسے موقع پر سیاستدانوں کو شیطان کہنا ہر گز غلط نہ
ہوگا کیونکہ جب بھی ملک میں تبدیلی آتی ہے تو سیاستدان ہی ہیں جو عوام کو
گمراہ کرنے کےلئے باہر سے آجاتے ہیں!!! |