امیرالمومنین حضرت علی ؓ قاضی کی
عدالت میں کھڑے تھے ،ایک یہودی نے ان کیخلاف زرہ کی ملکیت کے سلسلہ میں
دعویٰ کرتے ہوئے انصاف مانگا تھا جس پرقاضی نے عدل کاتقاضا پوراکرتے ہوئے
خلیفہ وقت امیرالمومنین حضرت علیؓ کوعدالت میں طلب کرلیا ۔آپ ؓ قاضی کی
عدالت میں پیش ہوئے توقاضی آپؓ کے احترام میں کھڑاہوگیا مگرآپ ؓ نے اسے
ناپسندفرمایا اورقاضی کوفریقین کے ساتھ مساوی سلوک کرنے کی تلقین کی ۔کاروائی
شروع ہوئی توقاضی نے آپ ؓ سے زرہ کی ملکیت کے حق میں گواہ پیش کرنے کیلئے
کہا توآپ ؓ نے اپنے دونوں شہزادوں حضرت امام حسن ؑ اورحضرت امام حسین ؑ
کوبطورگواہ پیش کیا مگرقاضی نے باپ کے حق میں بیٹوں کی شہادت کومستردکرتے
ہوئے فیصلہ یہودی کے حق میں کردیا،وہ یہودی اسلام کے نظام عدل وانصاف سے
بیحد متاثرہوااور فوراً دائرہ اسلام میں داخل ہوگیا ۔
سلطان شمس الدین الشمس برصغیر کا ایک بڑابا کردار،انصاف پسنداورنیک بادشاہ
تھا ۔ایک باربادشاہ کواپنے شاہی محل میں توسیع کی ضرورت محسوس ہوئی تواس کے
حکم پراردگردکی زمین مالکان سے خریدلی گئی مگرایک غریب بڑھیا نے اپنا
جھونپڑافروخت کرنے سے صاف انکار کردیا جس پرسرکاری ہرکاروں نے زبردستی
بڑھیا کواس کے جھونپڑے سے بیدخل کردیا ۔بڑھیا انصاف کیلئے قاضی کی عدالت
میں چلی گئی جس پرقاضی نے ایک عدالتی ہرکارے کوبادشاہ کی طلبی کاپروانہ دے
کرمحل کی طرف روانہ کردیا ۔محل کے دربانوں اورمحافظوں نے اس ہرکارے کومحل
کے اندرجانے کی اجازت نہ دی تواس نے محل کے باہرکھڑے ہوکراذان دیناشروع
کردی اندربادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا جب اس نے یہ بے وقت کی اذان سنی تو
محافظوں کو فوری طورپرموذن کواپنے روبروپیش کرنے کاحکم دیا ۔محافظ فوری
طورپر گئے اور موذن کودربار میں لے آئے تواس نے اپنے آنے کاسبب بیان کرتے
ہوئے قاضی کی طرف سے طلبی کاپروانہ بادشاہ کی خدمت میں پیش کردیا جس
پربادشاہ نے بخوشی حاضری کی حامی بھرلی ۔اگلے روزبادشاہ مقررہ وقت پرعدالت
پہنچا توقاضی نے اپنے مخصوص انداز میں اسے درخواست گزاربڑھیا کے ساتھ کھڑے
ہونے کاحکم دیا ۔مقدمہ کی سماعت کے بعدقاضی نے بڑھیا کے حق میں فیصلہ دیتے
ہوئے اسے بادشاہ سے اس کاحق دلانے کے بعدرخصت کیا اورخودبادشاہ کی تعظیم
کرتے ہوئے اسے بیٹھنے کیلئے اپنی نشست پیش کی۔بادشاہ نے قاضی کواپنے لباس
میں چھپائی ہوئی تلوار دیکھاتے ہوئے کہا کہ اگرآج تم انصاف نہ کرتے تومیں
تمہاری گردن اڑادیتا ، اس پرقاضی نے بھی بادشاہ کواپنے تکیے کے نیچے پڑا
ہنٹر نکال کردیکھایااورکہا کہ اگرآج آپ عدالت میں بادشاہ بننے کی کوشش کرتے
تومیں اس ہنٹرسے سزادیتا۔
اگراتحادی حکمرانوں کا یہ سمجھنا کہ وزیراعظم کی عدالت عظمیٰ میں حاضری سے
انصاف کاپرچم بلندہوگیاہے اورلوگ ان کی واہ واہ کررہے ہیں توان کایہ خیال
اور تاثر درست نہیں ۔عدالت کے طلب کرنے پروزیراعظم کاوہاں جانا نہ صرف ایک
آئینی وقانونی تقاضا بلکہ ان کافرض منصبی بھی تھا۔اس ایشوپرسیاست چمکانے
یااحسان جتانے کاکوئی جوازنہیں ہے۔تاہم اس مرحلے میں بابراعوان کاآﺅٹ جبکہ
عتزازاحسن کااچانک اِن ہوناایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔بابراعوان تومسلسل کئی
ماہ سے عدالتی فیصلوں پرجارحانہ تبصرے کررہے تھے پھراچانک ان کیخلاف توہین
عدالت کی کاروائی کرتے ہوئے ان کالائسنس کیوں معطل کردیا گیا اوراعتزازاحسن
جواس سارے معاملے سے بہت دورتھے اچانک منظرعام پر آئے اورہیروبن گئے جبکہ
وزیراعظم کوعدالت میں حاضری سے مستثنیٰ قراردے دیا گیاہے۔کیا سینیٹ کی ٹکٹ
کی صورت میں اعتزازاحسن کو فیس دی گئی ہے ۔اعتزازاحسن کوجونیک نامی ملی وہ
ان کی عدلیہ بحالی تحریک کیلئے گرانقدرخدمات کانتیجہ تھی مگراب وہ ان کی
وکالت کررہے ہیں جوعدالتی فیصلوں کو نہیں مانتے ۔اس روزعدالت عظمیٰ میں
وکلاءکے ایک گروپ نے اعتزازاحسن کیخلاف نعرے لگاتے ہوئے اپنے غم وغصہ
کااظہار کیا مگراعتزازاحسن نے اپنے حامیوں کوجواباً نعرے لگانے سے روک
دیا۔اب اچانک جسٹس (ر)خلیل الرحمن رمدے اوراعتزازاحسن کے ایک دوسرے کیخلاف
بیانات غورطلب ہیں۔منصوراعجازنے پاکستان آنے سے انکار کردیا ،حکومت نے
جوسوچااورجوچاہاوہ ہوگیا۔
اگرغلطیوں پراترانااورانہیں سیاسی رنگ دینا فن ہے تو حکمران اتحادوالے اس
فن میں کافی ماہرہیں۔عدالتی احکامات کی مسلسل دھجیاں بکھیرنے کے بعدتوہین
عدالت کانوٹس ملنے پرجب وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کوناچارعدالت جاناپڑا توان
کے حامیوں اوراتحادیوں نے انہیں ایک قومی ہیروکے درجے پرفائزکرتے ہوئے
دادوتحسین کی انتہا کردی۔بعض مورخین نماوزیر اورمشیر اسے تاریخی دن قراردے
رہے ہیں۔حکمران اوران کے حامی اس قسم کاتاثر دے رہے ہیں گویاوزیراعظم نے
عدالت میں جاکرملک وقوم اورقومی ادارے پربہت بڑااحسان کیا ہے۔بدقسمتی سے
ہمارے ہاں کرپشن اورناجائزاثاثوں کے مقدمات میں جیل جانے کوکریڈٹ سمجھا
جاتاہے ۔صدراوروزیراعظم دونوںنے کئی برس جیل میں گزارے اوریہ بھی کہا جاتا
ہے کہ یوسف رضاگیلانی کوجیل جانے کے انعام میں وزیراعظم بنایا گیا یعنی اس
کے سوا ان میں دوسری کوئی قابلیت نہیں تھی جبکہ دوسری طرف جاویدہاشمی کوجیل
کاٹنے کی پاداش میںمسلم لیگ (ن)میں کارنرکردیا گیا جس پر وہ دلبرداشتہ
ہوکرتحریک انصاف کے ساتھ جاملے ہیں ۔ہمارے ہاں اگرقانون کے پاس مجرم کی
گرفت کیلئے ایک ہزارآپشن ہیں توایک مجرم اپنے بچاﺅکیلئے دس ہزارآپشن
استعمال کرتا ہے۔جس طرح لوہالوہے کوکاٹتاہے اسی طرح ہمارا قانون قانون شکنی
میں ملوث عناصر کوسزاسے بچاتا ہے۔ایک قاتل کوسیشن جج کئی ماہ یاکئی برس تک
سماعت کرنے کے بعد سزائے موت کاحکم سناتا ہے ، مجرم کے اپیل کرنے پر عدالت
عالیہ اورعدالت عظمیٰ بھی سزائے موت کی سزابرقراررکھتی ہیں۔ مقتول کے ورثا
نے انصاف کیلئے اپنا پیسہ پانی کی طرح بہایااوروہ بھاری رقم کے عوض بھی
قاتل کومعاف کرنے کیلئے راضی نہیں ہوتے مگرصدرمملکت اپناآئینی اورصوابدیدی
اختیاراستعمال کرتے ہوئے اس قاتل کی سزائے موت معاف کردیتا ہے ۔ایک عام
آدمی کاچیک باﺅنس ہوجائے تواسے گرفتارکرکے جیل بھجوادیا جاتا ہے جبکہ سنگین
ترین الزامات کے باوجودایک شخص کوہرقسم کی قانونی کاروائی سے استثنیٰ حاصل
ہے کیونکہ وہ اس ملک کاآئینی سربراہ ہے۔کیا یہ قانون دین فطرت اسلام سے
مطابقت رکھتا ہے ،کیا حکمران اپنے موقف کے حق میں قرآن مجیدفرقان حمید کی
کوئی آیت پیش کرسکتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی پیغمبر کوبھی استثنیٰ نہیں دیا۔اللہ تعالیٰ کی حکم
عدولی پرحضرت باباآدم ؑ کو سزاکی غرض سے جنت سے نکال دیا گیاتھا۔اوربھی
پیغمبروں کے حوالے سے واقعات تاریخ میں رقم ہیں ۔اسلام کی روسے صدارتی
استثنیٰ کی کوئی اہمیت اورحیثیت نہیں ہے ۔سرورکونین حضرت محمد کافرمان
ذیشان ہے''اللہ کی قسم تم سے پہلی امتیں صرف اس لئے ہلاک کردی گئیں کہ ان
کے ہاں کمزوروں کوجرم کی سزادی جاتی تھی جبکہ طاقتورکوچھوڑدیا جاتا تھا۔ایک
چوری کے واقعہ میں سرورکونین حضرت محمد نے خاتون چورکے ہاتھ کاٹنے کی
سزاسنائی توکسی نے اس کیلئے معافی کی سفارش کی جس پر آپ نے فرمایا ''اللہ
کی قسم اگرفاطمہ ؓ بنت محمد بھی چوری کرتیں توان کے بھی ہاتھ کاٹ دیے جاتے
''۔یہ احادیث اس بات کااعلان ہیں کہ قانون کی روسے کسی خاص یاعام کواستثنیٰ
حاصل نہیں ۔ہمارے ہاں معمولی چوری چکاری میں ملوث افراد توسالہاسال جیل میں
سڑتے ہیں اوربھاری جرمانہ اداکرنے کے بعدانہیں رہائی نصیب ہوتی ہے مگراربوں
روپے قرض لے کرڈکارنے یاکرپشن کرنیوالے قانون کی گرفت میں نہیں آتے اور صاف
بچ جاتے ہیں۔جہاں قانون زورآوراورکمزورمیں فرق کرتاہے وہ معاشرے
طاقتوراوربااثراشرافیہ کی چراگاہ بن جاتے ہیں اوروہ اللہ تعالیٰ کی زمین
پرفسادبرپاکرتے ہیں۔اگرپاکستان کے آئین میں استثنیٰ کاکوئی معاملہ ہے تویہ
قانون کاسقم ہے جوپارلیمنٹ میں بحث اوررائے شماری کے بعددورکیاجاسکتا
ہے۔دنیا بھرمیں قانون ڈرقائم کرنے اوراحتساب کیلئے استعمال ہوتا ہے جبکہ
ہمارے ہاں الٹارواج ہے،ملک میں رائج قانون چوری کامال ہضم کرنیوالی اشرافیہ
کامحافظ بن جاتا ہے۔صدرآصف علی زرداری کوان معاملات میں استثنیٰ دیا جارہا
ہے جس میں سے بیشتران کے صدرمنتخب ہونے سے پہلے کے ہیں۔
وفاقی حکومت نے پس وپیش کامظاہرہ کرتے ہوئے کافی وقت نکال لیا ہے ، جو مدت
باقی رہ گئی ہے وہ بھی کسی نہ کسی طرح پوری ہوجائے گی۔ارباب اقتدارنے بڑی
مہارت سے عدلیہ کوالجھانے کیلئے ذوالفقاربھٹوکی سزائے موت کاکیس ری اوپن
کراناچاہامگردوسری طرف بینظیر بھٹو کے قاتلوں کوبے نقاب یاگرفتارکرنے
اورانہیں کیفرکردارتک پہنچانے کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی
مگرغیرضروری معاملات میںوقت بربادکرکے سلگتے ہوئے قومی ایشوزسے مسلسل
پہلوتہی کی جارہی ہے ۔وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی عدالت میں پیشی سے
معاملات عارضی طورپرتودب گئے ہیں تاہم ان کی سنگینی میں کمی نہیں آئی ۔آگے
جاکریہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس کیلئے محض چندروزانتظارکرناہوگا،دیکھئے
پردہ غیب سے کیا ظہورمیں آتا ہے۔ |