اِنکشاف ...!!مُلک میں پاورکمپنیاں
سالانہ91ارب کا خسارہ صارفین سے وصُول کررہی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آج ملک میں نازل ہونے والابجلی کا بحران کوئی نیانہیں ہے
مگر افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ اِس بحران کے خاتمے کے لئے کبھی بھی اور کسی
نے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیااور نہ صرف یہ بلکہ حد تویہ ہوئی کہ اگر
کبھی کوئی حکمران ملک میں بڑھتی ہوئی توانائی کی طلب کا احساس کرتے ہوئے
اِس معاملے کے حل کے لئے دیرپااقدامات کرتاتو شایدبہتری کی کوئی اُمیدیاکرن
نظرآتی مگر اِس معاملے میں کوئی یہ نہیں چاہتارہاکہ کوئی اِس معاملے میں
اُلجھے اور اپنا وقت برباد کرے بلکہ یہاں ہمیں یہ کہنے دیجئے کہ ہر کسی نے
اِس مسئلے سے دیدہ و دانستہ اپنادامن بچائے رکھااوراُلٹاوہ اپنی اُوٹ پٹانگ
حکمرانی کرکے چلتابنااورملک میں تونائی بحران کے حل کے حوالے سے نہ صرف یہ
خود جھوٹ بولتارہابلکہ عوام الناس کو بجلی کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لئے
عوام کے سامنے اُس سُچ کو بھی سامنے لانے سے کتراتارہاجس کی وجہ سے ملک میں
اندھیرے کا راج پھیلتارہااور ملک میں بجلی کے بحران کی شکل میں توانائی کا
مسئلہ بڑھتارہایعنی حکمرانوں نے اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنے کے لئے ایک سچ
کو چھپانے کے لئے سو جھوٹ کا سہارالیا۔اگر یہ ایک سّچ بول دیتے اور عوام کے
سامنے اپنی مجبوریاں رکھ دیتے تو شایدعوام کے مسائل کوئی نہ کوئی حل نکل
آتامگر افسوس کے ساتھ ہمیں یہ کہناپڑرہاہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی
حکمرانی کے لئے سّچ سے زیادہ جھوٹ پر اپنی حکمران قائم رکھی۔
خوش حال خان خٹک کا قول ہے کہ ” سّچے لوگوں کے چہروں پر بہارکی سی تازگی
اور جھوٹوں کے منہ پر خزاں کی سی پژمردگی چھائی رہتی ہے “آج اگر ہم اِس
نقطے نگاہ سے اپنے اردگرد نظریں دوڑائیں تو ہمارے مشاہدے میں یہ بات سو
فیصدآئے گی کہ ہمارے معاشرے میں موجود جھوٹا شخص اپنے منہ کی خزاں کی سی
پژمردگی کے باعث ہزاروں میں بھی باآسانی پہچان لیاجاتاہے اور یہی وجہ ہے کہ
اِنسانوں کو جھوٹ سے بچانے اور اِنسانی اقدار میں سّچ کی حوصلہ افزائی کے
خاطر ہرزمانے کی ہرتہذیب اور ہر معاشرے کےا ہلِ دانش ہر عمرکے اِنسانوں کو
اِس بات کی نصیحت کرتے رہے ہیں کہ سّچ بُولنا مشکل ضرورہے مگر اِس سے بہت
سی آسانیاں پیداہوجاتی ہیں اور سّچاانسان سّچائی کی وجہ سے اِس رتبے تک
پہنچ جاتاہے جِسے جھوٹامکروفریب سے نہیں پاسکتا اِس لئے تو کہاجاتاہے کہ
سّچائی کامیابی کا سبب اور جھوٹ رسوائی کا موجب ہے اور جھوٹ تمام گُناہوں
کی ماں اور سُچ سب بُرائیوں کا علاج ہے اور الحمدُللہ آج بھی ہرملک کا علم
و دانش طبقہ اپنے اپنے انداز سے اپنے ملک کے باسیوں کے لئے اپنایہ فریضہ
خوش اسلوبی سے اداکرتے ہوئے یہ بات ضرور کہتادِکھائی دیتاہے کہ سّچ بات
کہنے کی عادت ڈالوچاہے وہ کتنی ہی کڑوی ہوسّچ سُننے کی عادت ڈالو چاہئے وہ
تمہارے خلاف ہی کیوں نہ ہو اِس لئے سّچ بولوتاکہ تمہیں قسم کھانے کی ضرورت
نہ پڑے ۔
اِن ساری باتوں کے بعد ہمیں تسلی ہوئی ہے کہ آہ چلوسائیں....!! ملک میں
غریبوں کے لئے روٹی ، کپڑااور مکان کا نعرہ لگاکر اقتدار سنبھالنے والی
حکومت میں سے چار سال بعد بجلی کے ستائے لوگوں کے لئے کسی نے تو سُچ بولا...!!جس
سے بجلی کے ستائے ہوئے لوگوں میں ذراسی اُمیدکی کرن پیداہوئی ہے کہ جمہوری
حکومت نے اپنے اختتام سے ایک سال قبل سہی مگر ملک سے بجلی کے بحران کے
خاتمے کے لئے کچھ تو اقدامات کرنے شروع کردیئے ہیں اِس معاملے میں ہائی
پروفائل ایک وزیر نے سّچ کا پردہ اٹھادیاہے۔
تو بات یہ ہے کہ اَب وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی کی ہدایت پر ملک میں
توانائی بحران پر قائم 17رُکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس جوگزشتہ
دنوںچیئرمین انجینئر عثمان خان ترکئی کی زیرصدارت منعقد ہواجس میں خصوصی
طور پر کمیٹی کونیشنل ٹرانسمنشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی، سنٹرل پاورپرچیزنگ
ایجنسی، اورنیپراراکے نمائندوں نے بھی شرکت کی اورجس میں وزارت پانی وبجلی
کے حکام نے بریفنگ دی اِس اجلاس کی جو سب سے زیادہ خاص بات رہی وہ یہ تھی
کہ اِس اجلاس میں وفاقی وزیرپانی وبجلی سیدنویدقمرآخرکار وہ سّچ اپنی زبان
پرلے ہی آئے جِسے یہ اَب تک عوام سے چھپارہے تھے اور اُنہوں نے چارسالوں سے
ملک پرعذاب بن کر نازل رہنے والے بجلی کے بحران پر غیر سنجیدگی کامظاہرہ
کئے رکھاتھاآج اِن کا یہی وہ سچ ہے جِسے ہم اگلی سطور میں بیان کریں گے کہ
آخر اِن کا ایساوہ کون سا سّچ ہے...؟؟ جس نے ہمیں اپنایہ کالم لکھنے پر
مجبور کیا ۔
تو قارئین حضرات سُنیئے ....!ہمارے ملک کے وفاقی وزیر پانی وبجلی سید
نویدقمرنے اپنی نوعیت کے ایک اہم ترین اجلاس میں اِس بات کا کھل کر اعتراف
کرلیاہے کہ” پاورکمپنیاں سالانہ 91ارب کا خسارہ صارفین سے وصول کررہی ہیں
جس کی تفصیل بتاتے ہوئے وفاقی وزیرپانی و بجلی سیدنویدقمر نے کہاکہ بجلی کی
تقسیم ، ترسیل اور چوری کی مد میں سالانہ91ارب روپے کا نقصان اور اربوں کے
نادہندہ سرکاری وفاقی اور صوبائی اداروں کا بوجھ بھی عام صارفین پر
ڈالاجارہاہے(وزیر صاحب !یہ تو سراسر بجلی کے ستائے غریب اورمفلوک الحال
عوام کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے ایک طرف تو یہ مجبور عوام مہنگائی کے بوجھ
تلے دبے ہیں تو دوسری جانب بجلی کا اضافی بل بھی یہی اداکررہے ہیںاور اُس
بجلی کا بل جِسے اِنہوںنے استعمال ہی نہیں کی اُس کا بل یہ مجبوروبے کس
عوام اداکررہے ہیں) اور اِسی کے ساتھ ہی ساتھ اُنہوں نے اجلاس میں یہ بھی
کہاکہ بجلی کی تقسیم کارکمپنیاں اربوں کے نادہندہ سرکاری اداروں کا بوجھ
بھی صارفین پر ڈال رہی ہیں جس کے تدارک کے لئے آج پارلیمنٹرینز کی مداخلت
بھی کارگرثابت نہیں ہورہی ہے اور پارلیمنٹرینز کی کارکردگی متاثرہورہی ہے
نویدقمر کا سّچ کا یہ سلسلہ یہیںختم نہ ہوااُنہوںنے کہابجلی کی تقسیم اور
ترسیل کی کمپنیوں کے لئے نیپراکی طرف سے دیے گئے بجلی کے نقصانات کا ہدف سے
تجاوزکرگئےہیں اور اِس مد میں سالانہ اوسطاََ 54ارب روپے کا نقصان ہورہاہے
جبکہ بجلی کی تقسیم کارکمپنیوں کے سسٹم سے مجموعی طور پر سالانہ 37ارب روپے
کی بجلی چوری ہورہی ہے اربوں روپے بجلی چوری اور اربوں روپے کے نادہندہ
سرکاری وفاقی و صوبائی اداروں کا بوجھ بھی عام صارفین پر ڈالاجارہاہے
اطلاعات ہیں کہ چیئرمین نیپراخالدسعید نے اجلاس کے بتایاکہ بجلی چوری اور
نقصانات دنوں ہی تشویشناک ہیں مگر کمپنیوں کی ناقص کارکردگی کی سزاکم از کم
بجلی کے نرخ بے تحاشہ بڑھاکرعوام کو تو نہیں دے سکتے۔
جبکہ دوسری جانب افسوس کا مقام یہ ہے کہ اِسی اجلاس میں چیئرمین کمیٹی کے
استفسارپرسیکریٹری پانی وبجلی امتیازقاضی نے ملک میں 15سے 18گھنٹے تک ہونے
والی لوڈشیڈنگ کی بات کوردکرتے ہوئے کہاہے کہ یہ بات کہنی کچھ ٹھیک نہیں ہے
جِسے میں ماننے کوہرگزتیار نہیں ہو یعنی اِن کا یہ کہناہے کہ آج ملک کے کسی
بھی حصے میں اتنے گھنٹے کی لوڈشیڈنگ نہیں ہورہی ہے جتنے گھنٹے
کاشعورکیاجارہاہے ہاں البتہ! دوسری طرف یہ بات بجلی کے ستائے ہوئے عوام کے
لئے حوصلہ افزااور حقیقت پر مبنی ہے کہ چیئرمین کمیٹی نے اِس کا اعتراف
کرلیاہے کہ وزیراعظم سیدیوسف رضاگیلانی کی خصوصی ہدایت پرملک میں آئے ہوئے
توانائی بحران پرقائم کی گئی 17رُکنی پارلیمانی کمیٹی جن مقاصدکے لئے بنائی
گئی تھی وہ ملک میں بجلی بحران کاخاتمہ تو درکنار یہ کمیٹی اِسے کنٹرول
کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوئی ہے۔
اُدھرباخبرذرائع سے معلوم ہواہے کہ شاہدخاقان نے اجلاس میں کروڑپتی بااثر
لوگوں کو بھی سبسڈی دیئے جانے پر سخت برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ
کرورپتی اور بااثرلوگوں کو بھی سبسڈی دیناسمجھ سے بالاترہے جبکہ اجلاس میں
بشری گوہر نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے جس نقطے کا انکشاف کیااُس نے بجلی کی
تقسیم کارکمپنیوں کے کردار کا پردہ چاک کردیاہے اُنہوںنے کہاکہ بجلی
کمپنیوں کے اندربدانتظامی اور کرپشن عروج پر ہے نادہندگان کی فہرست ابھی تک
نہیں دی گئی ہے۔اگرچہ اجلاس میں بولے گئے وفاقی وزیرپانی وبجلی سید نوید
قمر سمیت شاہد خاقان کی تشویش اور بشری ٰ گوہر کے سّچ اور انکشاف کے بعد ہم
اِس نتیجے پرپہنچے ہیں کہ یہ سّچ جسے ہمارے وزیرموصوف نے آج بولاہے اگر یہی
ذراساسچ یہ بہت یعنی دویا تین سال پہلے ہی بول دیتے توآج بجلی سے ستائے
ہوئے عوام میںحکومت کے خلاف جوبدگمانی پیداہوئی ہے کم ازکم وہ توپیدانہ
ہوتی اور ایک ایسا سّچ جیسے نویدقمر اور دوسروںنے آج بولاہے کہ ملک میں
بجلی کا بحران اور اِس کے نرخ بڑھانے کی اصل ذمہ دار تقسیم کارکمپنیاں ہیں
یہی وہ کمپنیاں ہیں جوآج اپنی حد سے اتنی تجاوزکرگئی ہیںکہ اِن پر
پارلیمنٹرینز کی مداخلت بھی کارگرثابت نہیں ہورہی ہے ۔اِس ساری صُورت حال
میں اَب دیکھنایہ ہے کہ ہماری یہ حکومت جسے اپنی مدت پوری کرنے میں ابھی
صرف ایک ہی سال باقی رہ گیاہے اِس ایک سال کے عرصے میں یہ نویدقمر کے بولے
گئے سچ کی بنیاد پر ملک سے تقسیم کار کمپنیوں سے بجلی کا بحران ختم کرانے
اور اِ س کے بڑھے نرخ کوکتناکم کراپاتی ہے۔ |