ن لیگ کی سیاسی بدحواسیاں

جوں جوں طبل الیکشن بجنے کا وقت قریب آرہا ہے ملک کی سیاسی جماعتوں میں جمع و تفریق کا عمل تیز تر ہو گیا ہے جس کے نتیجے میں زبردست سیاسی عدم توازن پیدا ہوتا جارہا ہے، اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی صف اول کی سیاسی جماعتوں کے نامور رہنما اور سیاسی کارکنان اپنے سیاسی مستقبل کو بہتر بنانے یا دیگر وجوہات کی بنا پر جماعتوں کی تبدیلی کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ اس سلسلے کاایک نہ رکنے والا سلسلہ اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ آئندہ الیکشن کے نتیجے میں ایک ایسی معلق حکومت تشکیل پاسکتی ہے کہ جس کا کنٹرول کرنا کسی ایک دو سیاسی جماعتوں کے بس سے باہر ہوگا اور غیر جمہوری قوتوں کے لیے صورتحال انتہائی موزوں اور سہل ثابت ہوگی، اور دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کا خواب کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیے اب ایک خواب ہی رہے گا۔ ن لیگ کی روائتی ہٹ دھرمی اور نتیجے میں ن لیگ کی سیاسی تنہائی کی کئی بڑی وجوہات میں بڑے میاں صاحب کی ذاتی کوششوں کا بڑا دخل ہے، اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) جو گزرے وقتوں ملک کے پارلیمانی نظام میں دو تہائی اکثریت رکھتی تھی اپنے انتہائی غیر زمہ دارانہ طرز حکومت و دیگر کئی وجوہات کی بنا پر ایک ایک کرکے اپنے اتحادیوں کو کھوتی رہی مگر مسلم لیگ (ن) کی اعلی قیادت نے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کا سلسلہ جاری رکھا اور کسی قسم کا معقول یا معتدل رویہ اختیار کے بجائے اپنے دور حکومت میں بھی اتحادیوں کے بعد ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ پر جارحانہ حملہ کیا اور بعدازاں افواج پاکستان پر شب خون مارنے کی کوشش کی اور یہ مسلم لیگ (ن)کی مہم جوئیوں کا سلسلہ اپنے منطقی انجام پر پہنچا ، اس کے بعد جو کچھ ہوا اس سے ہر شخص بخوبی آگاہ ہے، اپنی سیاسی پوزیشن کو ن لیگ جس موڑ تک لے آئی ہے اس کا الزام وہ کسی اور کو نہیں دے سکتے بلکہ ان کی اس حالت پر امجد اسلام امجد کا یہ شعر بڑا موزوں معلوم ہوتا ہے

نہ آسماں سے، نہ دشمن کے زور و زر سے ہوا
یہ معجزہ تو مرے دست بے ہنر سے ہوا

مسلم لیگ (ن) کی اعلٰی قیادت کی گرفتاری ، مقدمات اسکے نتیجے میں ہونے والی سزاؤں کی قید و بند و دیگر سختیوں سے گھبرا کر ملکی و غیر ملکی ضامنوں کی طفیل معاہدے کے نتیجے میں ن لیگ کی صرف اعلٰی ترین قیادت کی قید و بند سے رہائی اورباہمی رضامندی کے بعد بیرون ملک رہائش اور سیاست سے عملی طور پر کنارہ کشی نے مسلم لیگ (ن) کے کئی عوامی رہنماؤں اور کارکنوں کو اپنی پارٹی اور اعلٰی قیادت سے انتہائی بدظن کردیا جسکے نتیجے میں مسلم لیگ (ق) کا قیام عمل میں آیا کہ جس کی سربراہی کی قرعہ فال بہت عرصے تک چوہدری برادران کے نام نکلتی رہی جس دوران ان کے اور جنرل پرویز مشرف صاحب کے تعلقات انتہائی خوشگوار رہے ۔ مگر مشرف صاحب کے بیرون ملک روانہ ہونے کے بعد چوہدری برادراننے پھر وہی عمل دہرایا جو انہوں نے اپنے پہلے قائدین یعنی میاں صاحبان کے ساتھ کیا تھا یعنی مشرف صاحب کی مخالفت ۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 532880 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.