ن لیگ کی سیاسی بدحواسیاں اور انتخابات

یوں تو مسلم لیگ کے کئی رہنما اپنے طور پر کئی دھڑوں میں بٹنے میں مصروف ہیں اور ق لیگ کی نئی شکل کا تعین کرنا کوئی آسان نہیں ہے لیکن اس سے زیادہ مسائل مسلم لیگ (ن) کو درپیش نظر آتے ہیں کہ جس کے حلقہ انتخاب یعنی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی پوزیشن کو جس طرح متواتر نقصان پہنچ رہا ہے اس سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ موجودہ پارٹیوں میں جو سیاسی جماعت اپنی حماقتوں کے سبب جس تیز رفتاری سے اپنا حلقہ انتخاب اور اپنے ووٹرز تقسیم ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے وہ بلاشبہ ن لیگ ہے اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ پہلے مسلم لیگ (ن) کا مقابلہ صرف پیپلز پارٹی کے ساتھ تھا یا کسی حد تک مسلم لیگ (ق) کے ساتھ بھی مگر اب مسلم لیگ (ن) ایک اور انتخابی حریف کے نشانوں کا مرکز و محور ہے اور وہ سیاسی حریف بظاہر ایک نوآزمودہ سیاسی جماعت تحریک انصاف ہے کہ جس کا فوکس پنجاب ہے اور جس تیزی سے تحریک انصاف کا سیاسی قد و کاٹھ بڑھتا جارہا ہے اور سیاسی بصیرت اور افہام و تفہیم کا جو مظاہرہ تحریک انصاف کی جانب سے ہو رہا ہے اس نے عملی طور پر ن لیگ کے چھکے ہی چھڑا دیے ہیں، کیونکہ کرکٹ کے دلدادہ میاں صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ عمران خان اور ان کا مقابلہ کسی بھی عملی میدان میں اس طرح کا ہوسکتا ہے۔

یوں تو مسلم لیگ (ن)کے لیے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے ہی جارہے تھے ، مگر پہلے ملتان کی ایک مشہور و معروف سیاسی قدآور شخصیت مخدوم شاہ محمود قریشی کا مسلم لیگ (ن) میں آتے آتے تحریک انصاف میں جاٹہرنا اور پھرمسلم لیگ (ن) ہی کے نہیں بلکہ سیاسی حلقوں میں انتہائی عزت و قدر کی نظر سے دیکھے جانے والے اور بڑی بڑی آزمائشوں میں مسلم لیگ (ن) کا ساتھ نا چھوڑنے والے مخدوم جاوید ہاشمی کا بھی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ 26سالہ داغ مفارت اور تحریک انصاف میں شمولیت نے گویا مسلم لیگ (ن) کے سیاسی تابوت میں آخری کیل بھی ٹھونک دی۔ مگر روائتی ہٹ دھرمی اور ناعاقبت اندیشی لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی اعلٰی قیادت کی گھٹی میں ہی پڑی ہوئی ہے اور وہ اپنے حالات کا جائزہ لینے اور ماضی سے سبق سیکھنے کے بجائے تاریخ دہرانے والی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے وہی سیاسی تاریخ کہ جس کے زخم ن لیگ نے ایسے سہے کہ سالوں ان کی زبان سیاسی الف ب پڑھنے کے لائق ہی نا رہی، وہ تو شکر ادا کریں کہ بی بی صاحبہ کی سیاسی پیشقدمیوں اور ان کے اصرار کے سبب ن لیگ کے لیے بھی عملی سیاست کے دروازے وا ہوپائے، قصہ مختصر اپنے دور حکومت میں جمہوریت کا لبادہ اوڑھے ن لیگ نے جس مطلق العنانیت کے ساتھ حکومت کی اور ریاست کے ہر ستون کو اپنے زیر نگیں کرنے کی کوششیں کیں ، کہ جس کی داغ بیل ان کے سیاسی آباؤ اجداد یعنی جنرل ضیاء الحق اور جنرل جیلانی نے ڈالی تھی اب مسلم لیگ ن نام کی سیاسی جماعت اپنے منطقی انجام یعنی عروج سے زوال کے جاری سفر کی طرف سرعت سے سفر کر رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) نامعلوم اس حقیقت سے کیوں نظریں چراتی ہے کہ وہ ایک وقت ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت تھی اور اس کے ساتھ کئی سیاسی جماعتوں نے مختلف اوقات میں الائنس قائم کیے مگر ایک ایک کر کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ جو ہاتھ مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت نے کیے ان کے نتائج سب کے سامنے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کرنے کا سوچنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ن لیگ کی حالت کچھ اس طرح ہوگئی ہے کہ وہ اپنے سیاسی حریف یعنی پی پی پی کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں بالکل نہیں اور صرف دشنام طرازی پر انحصار کر رہی ہے، دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کی اسمبلی میں 20 ویں ترمیم نے گویا مسلم لیگ ن کے تن بدن میں آگ ہی لگادی ہے او ر اس کی توپوں کا رخ ایم کیو ایم کی جانب ہو چلا ہے، اور وہ ماضی کی طرح ن لیگ پھر ایم کیو ایم کو مٹانے کے لیے اول فول بکنے میں مصروف ہوگئی ہے مگر نامعلوم ن لیگ یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ معاملہ انتہائی نوعیت کا ہو چلا ہے، سمندر کے سینوں میں پلنے والے خوفناک طوفان سطح آب کے اوپر وقت سے پہلے نظر نہیں آتے مگر معاملہ فہم اور اہل نظر سمندر وں میں پلے والے طوفانوں کو بھانپ جاتے ہیں، اور اہل نظر جس طرح جاوید ہاشمی کی صورت میں ن لیگ کی ڈوبتی کشتی چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں اس سے یہ بات بالکل واضع ہے کہ اگر ن لیگ میں تحمل، دانش، حکمت و تدبر اور معاملہ فہمی ہوتی تو اس کا یہ انجام نہ ہوتا ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ن لیگ کی تمام تر توجہ صرف اسی بات پر مرکوز رہتی ہے کہ کس طرح اقتدار مکمل طور پر حاصل کر لیا جائے اور یہی وجہ ہے کہ ن لیگ اپنے ان غداروں کو بھی اپنے دامن میں سمیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہے کہ جنہیں خود مسلم لیگ ن لوٹے اور ناقابل قبول قرار دے چکی تھی اور اب وہی کبھی ہم خیال اور کبھی معقول خیال نامی گروپوں کی صورت میں ن لیگ کے لیے قابل قبول ہوتے جارہے ہیں۔

سیاسی صورتحال میں مسلم لیگ (ن) آنے والے حالات کو بھانپتے ہوئے ممکنہ کوشش یہ کرسکتی ہے کہ روائتی سیاسی نظام سے بولڈ آؤٹ ہونے کے بجائے اپنے روائتی حریف پیپلز پارٹی کے ساتھ کچھ اس طرح مفاہمت کی جائے کہ تحریک انصاف کے تیز و تند باؤنسرز سے بچتے ہوئے اپنے انتخابی حلقوں کی حصار بندی میں مصروف ہے، مگر یہ بات کچھ اس لیے بعیدالقیاس معلوم ہوتی ہے کہ پی پی پی کی کوشش یہی ہوگی کہ موجودہ گیند پر ن لیگ کی وکٹ لے لی جائے اور آنے والے کھلاڑی کو آؤٹ کرنے کا فیصلہ اگلی گیند پر کرلیا جائے۔
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 495714 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.