ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست
منی پور میں اسمبلی انتخابات کیلئے ووٹنگ کے دوران ایک پولنگ بوتھ پر مبینہ
علیحدگی پسند شدت پسندوں کی جانب سے حملے میں سات افراد ہلاک ہوگئے ہیں
جبکہ پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں سی آر پی ایف کا ایک جوان اورایک
شدت پسند بھی شامل ہے۔یہ واقعہ چانڈیل ضلع کے ایک پولنگ بوتھ پر پیش آیا
ہے۔چراچان پور ضلع میں بھی دو پولنگ بوتھ پر ہنگامہ ہوا ہے اور وہاں پولنگ
روک دی گئی ہے۔تپائی مکھ اور سائیٹومیں بعض افراد نے پولنگ سٹیشن پر ہنگامہ
کرنے کی کوشش کی تھی۔یہ خطہ ایک عرصے سے احساس محرومی کا شکار ہے جو بنگلہ
دیش اورنیپال کے درمیان اکیس سے چالس کلومیٹرچوڑے مختصر سے راستے کے ذریعے
ملک سے ملتاہے۔اس خطے میں سات ریاستیں ہیں جو تاریخی طور پر سات بہنیں بھی
کہلاتی ہیں؛آسام،میگھالیہ،تری پورہ،اروناچل پردیش،میزورم،منی پوراور
ناگالینڈ۔یہ وہ ریاستیں ہیں جہاں باہمی کشیدگی بہت زیادہ ہے۔ان علاقوں کی
بعض تنظیمیں اور گروہ داخلی خودمختاری چاہتی ہیں ،کچھ علیحدہ ریاست کی
حیثیت کا مطالبہ رکھتی ہیں اور کچھ ایسی بھی ہیں جو ہندوستان سے علیحدگی کی
خواہاں ہیں ۔ان گروہوں میں اکثر نے اب ہتھیار بھی اٹھا رکھے ہیں اور ملکی
افواج اور نیم فوجی دستوں سے نبرد آزما ہیں۔
منی پور میں کل سترہ لاکھ چالیس ہزار رائے دہندگان ہیں جنہیں کانگریس ،
راشٹروادی کانگریس پارٹی ، کمیونسٹ پارٹیاں اور ترنمول کانگریس کے درمیان
اپنے اسمبلی رکن کو انتخاب کرنا ہے۔منی پوربدامنی کی شکاروہ ریاست ہے
جہاںناگااور کوکی قبائل کی اکثریت یہاں آباد ہے جبکہ ایک بہت بڑی مسلم
آبادی بھی یہاں صدیوں سے قیام پذیر ہے۔یہاں ’پیپلزلبریشن آرمی منی
پور‘Peoples Liberation Army Manipur اپنے حقوق کی مسلح جدوجہد میں مصروف
ہے۔25ستمبر1978کو اس گروہ کا اجتماعی آغاز ہوا۔1989میں اس گروہ نے اپنا
سیاسی پلیٹ فارم بھی تشکیل دیا جس کانام ریلولوشنری پیپلزفرنٹRevolutionary
People Frontیا آر پی ایف رکھاگیا۔بعض اطلاعات کے مطابق ان لوگوں نے اپنی
متوازی ریاست بھی قائم کررکھی ہے جس میں ان کا صدر نائب صدر اور متعدد
وزارتوں سمیت دفاع کے طور پر ان کا عسکری گروہ بھی متحرک ہے جبکہ چالام کی
وادیوں میں ان کا ہیڈ کوارٹربتایا جاتا ہے۔منی پور کی ہی ایک اور عسکری
تنظیم یونائٹد نیشنل لبریشن فرنٹUnited National Liberation Frontہے جو منی
پور کو’سوشلسٹ ریاست‘ بنانا چاہتی ہے۔24نومبر1964کو اس تنظیم کا آغاز ہوا
جب سرخ اقتدار ایشیا کے متعدد علاقوں پرطاری تھالیکن تاریخ گواہ ہے کہ اسے
افغانستان پر تسلط راس نہ آیا۔ستراور اسی کی دہائیوں میں اس تنظیم نے افراد
کو اپنے اندر جذب کرکے تو اپنی تنظیم کو مضبوط تر کیااور 1990میں منی پور
پیپلزآرمی کے نام سے انہوں نے گویا’اعلان جنگ‘ کرتے ہوئے میدان میں اترنے
کا فیصلہ کرلیا۔وادی جری بام اور آسام کا ضلع کاچران کی سرگرمیوں کا مرکزو
محورہے۔یہ عسکری تنظیم دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر اپنے مشترکہ دشمن کے
خلاف کاروائیاں کرتی ہے۔
آسام کا علاقہ علیحدگی پسندوں کا گڑھ ہے،یونائٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسامUnited
Liberation Front of Asom یا الفاULFAیہاں کا سب سے بڑا منظم گروہ ہے جس کی
تاسیس ’رنگ گھر‘کے مقام پر 1979میں ہوئی،1998سے حکومت ہند نے اس گروہ پر
پابندی لگاکر اسے دہشت گرد گروہ قرار دے رکھاہے۔1990میں اس گروہ نے اپنی
گوریلا کاروائیوں کا باقاعدہ آغاز کیا۔ ان کے خلاف فوجی آپریشن جاری
ہے۔بوڈوقبائلوں نے آسام کے اندر ایک اور گروہ منظم کررکھاہے جسے ’نیشنل
ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ‘National Democratic Front of Bodolandکانام
دیاگیاہے۔3اکتوبر19865کو’اوڈلا خاصی بای‘کے مقام پر اس گروہ کی تشکیل عمل
میں آئی جسے مقامی طور پربوڈو سیکورٹی فورس کے نام سے بھی یادکیاجاتاہے۔کہا
جاتا ہے کہ ہندوستان اور بھوٹان کے سرحدی علاقوں میں اس عسکری گروہ آزادی
کے تربیتی کیمپ قائم ہیں۔دسمبر2003میں ہندوستانی اور بھوٹانی افواج نے
مشترکہ آپریشن کے ذریعے ان تربیتی کیمپوں کو ختم کرنے کوشش کی لیکن عوامی
حمایت کی وجہ سے یہ کوشش ناکام رہی۔24مئی 2005کو حکومت ہند نے اس گروہ کے
ساتھ صلح کی ۔آسام کے مسلمانوں نے بھی ’مسلم یونائٹڈ لبریشن ٹائگرزآف
آسام‘Muslim United Liberation Tigers of Assamکے نام سے اپنی علیحدہ تنظیم
بنارکھی ہے۔1996میں بننے والی یہ مسلم تنظیم اس وقت دیگر علیحدگی
پسندتنظیموں کے ساتھ مل کربرہمن راج کے خلاف اپنی کاروائیاں کرتی ہے۔
نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈNational Socialist Council of Nagaland
ناگاؤں کا ایک گروہ ہے۔ناگالینڈ تقسیم ہند سے قبل کی ایک ریاست تھی جو
ہندوستان میں ضم ہوگئی تھی۔31جنوری1980کو اس تنظیم کا آغاز ہواجس کے مقاصد
میں عوامی جمہوریہ ناگالینڈ‘کاقیام شامل ہے۔یہ گروہ جمہوریہ چین کے راہنما
ماوزے تنگ کے افکار سے متاثر ہے اور انہیں خطوط پراپنی آزادریاست کا مطالبہ
رکھتی ہے،اخبارات میں انہیں ’ماؤنوازباغی‘لکھااورپڑھاجاتاہے۔ان کے اثرات
آسام اور ارونچل پردیش تک بھی پہنچ چکے ہیں جبکہ منی پور کے چار اضلاع پر
ان کا گہرا تسلط قائم ہے۔30اپریل 1988سے اس گروہ کے مذاکرات بھی ہوئے ہیں۔
تری پورہ یہاں کی ایک اور ریاست ہے جہاں نیشنل لبریشن فرنٹ آف تری
پورہNational Liberation Front of Tripuraکے نام سے تحریک اپنی منزل کی طرف
رواں دواں ہے۔اس تحریک کے مقاصد کے باعث حال ہی میں مرکزی حکومت کی طرف سے
دہشت گرد قراردے دیاگیا۔ایک اطلاع کے مطابق اس گروہ میں زیادہ تر عیسائی
افرادشامل ہیں اور انہیں اپنے مذہبی رہنماؤں کا مکمل اعتماداور سرپرستی
حاصل ہے۔12مارچ1989کو اس گروہ کی تاسیس ہوئی ،1993میں اس گروہ نے اپنی فوج
بھی تشکیل دے دی لیکن 1997میں اس فوج نے ہتھیار ڈال دئے لیکن ہندوستانی
سرحدی علاقوں میں ان کے تربیتی کیمپ اور ہیڈ کوارٹر قائم ہیں۔آل تری پورہ
ٹائگرفورسAll Tripura Tiger Forceکے نام سے ایک عسکری گروہ بھی اس وادی میں
موجود ہے۔11جولائی 1990میں اس گروہ کی بنیاد رکھی گئی،اس میں بھی اکثریت
مسیحیوں کی ہی ہے اور یہ مقامی افرادکے حقوق کے تحفظ کیلئے اور باہر سے آکر
مستقل سکونت اختیارکرنے والوں کو نکالنے کیلئے برسرپیکارہیں۔
میگھالیہ میں ہنی ویترپ نیشنل لبریشن کونسلHynniewtrep National Liberation
Council تحریک پنپ رہی ہے،1992میں اس تنظیم کی تشکیل ہوئی اور2000میں اسے
غیرقانونی قرار دے دیاگیاکیونکہ ان کے خیال کے مطابق باہر سے آئے لوگ ان کے
نوجوانوں کا حق مارتے ہیں اور الگ صوبائی انتظامیہ کے تحت ان کے حقوق کا
تحفظ ممکن ہو سکے گا۔اروناچل ڈریگن فورسArunachal Dragon Force کا دوسرانام
’ایسٹ انڈیالبریشن فرنٹ ‘بھی ہے۔یہ تنظیم اروناچل پردیش کی تحریک کے طور پر
جاری ہے۔اسکا وجود 1996کا مرہون منت ہے جب دیگر بھی بہت سی علیحدگی
پسندتنظیموں نے جنم لیا۔ان کا مقصد اپنے علاقے کو تقسیم ہند سے پہلے والی
صورتحال ’تیولا‘مملکت پر دوبارہ قائم کرنا ہے۔اروناچل پردیش کے طیرپ اور
چنگلانگ کے اضلاع اس تنظیم کا مرکز بتائے جاتے ہیں۔ان کے علاوہ شمال مشرقی
ہندوستان میں بے شمارآزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں ،بنتی ہیں ٹوٹ جاتی ہیں ۔
جس طرح دنیاکی سب سے بڑی پارلیمانی جمہوریت ہندوستان ہے‘ اسی طرح دنیا کی
سب سے بڑی ریاست ہے جہاں کی اقلیتیں بے شمار مسائل سے دوچار ہیں۔ملک کے
مشرق و مغرب میں اقلیتی اقوام اور مذاہب کے لوگ اکثریتی طبقہ کی پالیسیوں
سے نبرد آزما ہیں ۔کہیں آئین کے دائرے میں توکہیں تنگ آمد بجنگ آمد کے
مصداق آئین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہتھیاراٹھا رکھے ہیں۔881کی مردم شماری
کے نتائج میں انگریزوں نے لکھا کہ اس سرزمین میں اتنے مذاہب اور پھر ان کے
ذیلی مذاہب اور ان کے مزید ذیلی فرقے اور زبانین اور اقوام اور انکے ذیلی
قبائل اور مزید ذیلی نسلیں اور خاندان اور اور پھر اسی طرح زبانیں اور
ہرزبان کے مختلف لہجے اور انکی مختلف پہچانیں اور مختلف رنگوں کی بنیاد
پرانسانوں کی تقسیم ہے کہ انہیں ایک صفحے پر لکھنااورجمع کرنا ممکن ہی
نہیں۔اس وقت ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا کثیرالثقافتی ‘عقئائد و لسانی ملک
ہے۔ شاید اسی وجہ سے 1976میں ہندوستانی آئین کو ’سیکولر‘کہا گیاہے جس کے
تحت ہندوستان میں ہرقوم،ہرمذہب اورہر لسانی و علاقائی گروہ کومساوی حقوق
حاصل ہیں لیکن موجودہ حالات اشارہ کررہے ہیں کہ کھانے کے دانت اور ہی ہیں
جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے موجودہ ہندوستان سے کہیں بڑے رقبے پر
سینکڑوں سال حکومت کی لیکن کہیں بھی علیحدگی کی تحریک نہیں چلائی گئی ۔ غیر
مسلم اکثریت آج بھی اس دور کو یاد کرتی ہے کہ مسلم حکمران ان پرکس قدرپر
مہربان تھے لیکن 1947کے بعد سے ایک طویل داستان الم ہے۔نہ جانے کیوںتحریک
آزادی کے دوران کانگریس نے وعدہ کیاتھا کہ آزادی کے بعدلسانی بنیادوں
پرصوبے بنائے جائیں گے۔ 1922میں کانگریس کی ذیلی شاخیں اسی فارمولے کے تحت
بنا دی گئیں ،1928میں موتی لعل نہرو کی زیرصدارت ایک کمیٹی نے لسانی بنیاد
پر صوبوں کی تجویزکو حتمی شکل بھی دی لیکن آزادی کے بعد 1948میں لسانی صوبہ
جاتی کمیشن کی سفارشات کے باوجود آج بھی کانگریس کا وعدہ تشنہ وفا ہے جبکہ
علیحدگی پسند تحریکوں کی ایک بہت بڑی تعدادمحض لسانیات کوہی جوازکے طورپر
پیش کرتی ہے۔ |