ٹو جی گھپلہ :غم ملے ،حسرت ملے، رسوائیٔ بے جا ملے

سر زمین ہند پر فی الحال ٹوجی کے بڑے چرچے ہیں ۔اول تو سوامی جی اور دوسرے چدمبرم جی ۔ ان دونوں سیاستدانوں کے درمیان بلا کی مشابہت ہے ۔ ان دونوں کا تعلق تمل ناڈو سے ہے ۔ دونوں وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔ دونوں کی بیویاں وکیل ہیں۔ دونوں نے ہارورڈ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ دونوں وزیر تجارت رہے ہیں اور دونوں اشتراکیت سے متاثر ہیں لیکن اس کے باوجود یہ دونوں ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہیں۔چدمبرم نے سوامی کو دیوا نہ پاگل قرار دے رکھا ہے اور سوامی چدمبرم کورشوت خور چور کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔

ٹوجی گھوٹالہ ہندوستان کا سب سے بڑا گھپلہ ہے جس میں سابق وزیراے راجہ گزشتہ ایک سال سے قیدو بند کی سزا بھگت رہا ہے ۔ دسمبر ۲۰۱۰ میں سبرامنیم سوامی نے عدالت سے درخواست کی تھی کے انہیں راجہ کے خلاف سرکاری وکیل بنا یاجائے جسے کورٹ نے خارج کردیااس کے جواب میں "لوک تنتر یا لوٹ تنتر "کے عنوان پر ہونے والے ایک مذاکرہ میں سوامی نے دعویٰ کیا کہ اگر ان کی درخواست قبول کر لی جاتی تووہ اس وقت کے وزیر مواصلات اے راجہ کو چار مہینے کے اندر جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچا دئیے جاتے۔ لیکن قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ تین ماہ کے اندر ہی اے راجہ کو گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ۔ کانگریس کو اس بدعنوانی سے پیچھا چھڑانے کیلئے ایک بکرے کی ضرورت تھی سو راجہ جی کی بلی چڑھا دیا گیا اس کے بعد یہ سوچ لیا گیا کہ اب معاملہ رفع دفع ہوگیا ہے اور کا نگریس کا دامن پاک صاف ہو گیا ہے۔ اس اتھل پتھل کا براہِ راست فائدہ کپلسبل کو جن کےنرغے میں وزارت مواصلات کی سونے کے انڈے دینے والی مرغی آگئی۔

اس بیچ ممبئی میں دہشت گردانہ حملہ ہوا اور اس کی بدنامی سے بچنے کیلئے کانگریس پارٹی کو اپنے شوبوائے وزیرداخلہ شیوراج پاٹل کی گردن مارنی پڑی اس سے پی چدمبرم کے بھاگ کھلے اور ان کو ترقی ملی وہ وزیر خزانہ سے وزیر داخلہ بنا دئیے گئے۔پرنب مکرجی کابھی فائدہ ہوا ۔ وزارت ِدفاع کا قلمدان چھوڑ کر وہ وزیر خزانہ بن گئےگویا تیسرے نمبر پر آگئے۔ اب انہیں دوسرے نمبر پر آنے کیلئے چدمبرم کا کانٹا نکالنا تھا۔ اس کیلئے انہوں نے ٹوجی بدعنوانی کی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا تاکہ اس کی لپیٹ میں آکر چدمبرم کا محل خاکستر ہو جائے۔ انہوں نے وزیر اعظم کو اپنے خط میں لکھ دیا کہ اگر وزیر خزانہ یعنی چدمبرم چاہتے اورمداخلت کرتے تو اس بدعنوانی پر لگام لگا سکتے تھے۔ویسے تو دستخط کے ساتھ اس گیارہ صفحات پر مشتمل خط کا لکھا جانا ہی کوئی کم مصیبت نہیں تھا اس پر سے اس کے ذرائع ابلاغ تک پہنچ جانے سے ہنگامہ کھڑاہوگیا۔سونیا اور منموہن میں اگر دم خم ہوتا تو پرنب کو ان کی اس حرکت پر بن باس پر بھیج دیا جاتا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ دونوں کی مشترکہ پریس کانفرنس ہوئی اور پھر ایک بار کانگریس نے سوچا معاملہ رفع دفع ہو گیا ہے لیکن موقع کی تاک میں بیٹھے سبرامنیم سوامی اس خط کو لے کر عدالت میں پہنچ گئے اور چدمبرم کو بھی ٹوجی بدعنوانی میں گھسیٹ لیا۔

عدالت میں سبرامنیم سوامی کی مخالفت سی بی آئی کررہی تھی ۔ اس کا کہنا تھا کہ چدمبرم بے گناہ ہے سارا قصور صرف اور صرف وزیر مواصلات اے راجہ کا ہے جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں ۔ سی بی آئی کی یہ حرکت عین توقع کے مطابق تھی اس لئے کہ جو سی بی آئی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہو وہ بھلا اپنے آقا و مالک کے خلاف جانے کی جرأت کیسے کر سکتی ہے؟لیکن عدالت عالیہ نے اس معاملے میں کوئی فیصلہ کرنے کے بجائےسبرامنیم سوامی سے کہا کہ وہ اپنے شواہد سی بی آئی کی خصوصی عدالت میں پیش کرے نیز حکومت کو متعلقہ دستاویزات سوامی کو مہیا کرنے کی ہدایت کی تاکہ وہ اس کا مطالعہ کرکے اپنے شواہد تلاش کر سکیں ۔ ایک لحاظ سے یہ ایک غیرمعمولی فیصلہ تھا جو سوامی کے حق میں ہو اتھا ۔ اس طرح ٹوجی کا معاملہ بیک وقت عدالت عالیہ اور سی بی آئی کی خصوصی عدالت میں زیر سماعت تھا ۔
عدالت عالیہ میں سبرامنیم سوامی کا ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کر رہے تھے جس کے مطابق کوئی شہری انفرادی طور پر وزیر اعظم کو خط لکھ کر تفتیش کا حکم دینے کی درخواست نہیں کر سکتا اور یہ کہ وزیراعظم نے سی بی آئی کو تفتیش کا حکم دے رکھا ہے۔ اس معاملے میں عدالت عالیہ کا فیصلہ یکم فروری کو آیا اور اس نے اس معا ملے کو پھیلا کر وزیراعظم کے دفتر تک پہنچا دیا گویا جو چنگاری وزیر مواصلات کے دفتر سےنکلی تھی اب اس کی آنچ سے وزیر اعظم کا ایوان جھلس ر ہا تھا ۔ عدالتِ عالیہ نے اپنے فیصلے میں کمال سیاست سے کام لیا۔ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کی مصداق وزیر اعظم کے دفتر حملہ بھی کیا اور انہیں بچانے کی بھی بھی کوشش کی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنی آزادی کے تمام تردعوؤں کے باوجود ہنوز عدلیہ وزیرِ اعظم کو آنکھ دکھلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ ایسی جرأت راج نارائن کے مقدمے میں الہ ٰباد ہائی کورٹ نے کی تھی لیکن اس سے وزیراعظم اندرا گاندھی اس قدر چراغ پا ہوئیں کہ انہوں نے سارے ملک میں ہنگامی حالات کا اعلان کردیا اور پوری قوم کو بے دست پا کرنے کی جسارت کرڈالی۔شاید ہماری عدالتیں ابھی تک اس صدمے سے نکل نہیں پائی ہیں اور انہیں کسی افتخار چودھری کا انتظار ہے جو وزیراعظم کو عدالت کٹرسے میں کھڑا کر سکے۔ شاید یہی وجہ ہے عدالت کا چکر لگانے والے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ہندوستانی جمہوریت کی تعریف وتوصیف کرتے نہیں تھکتے۔

یکم فروری کو سپریم کورٹ کا فیصلہ دراصل مقننہ پر عدلیہ کی زبردست برتری کا کھلا ثبوت ہے ۔ عدالت نے حکومت کو رائے مشورہ دینے کے بجائے اور پندو نصائح سے کام لینے کے بجائے آگے بڑھ کر۱۲۲ کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کر دئیے اور سرکار کو حکم دیا ہے کہ وہ نیلامی کے ذریعہ ان لائسنسوں کو جاری کرے ۔ یہ اقدام بجائے خود اس بات کا اعتراف ہے کہ اس معاملے میں بدعنوانی ہوئی ہے ورنہ اس قدر انتہائی فیصلہ چہ معنی دارد۔عدالت کا یہ فیصلہ ایک معنیٰ میں مقننہ کے حقوق پر کھلی در اندازی ہے ۔ لائسنس دینا یا اسکے لئے مناسب پالیسی بنانا یہ عدالت کا نہیں بلکہ پارلیمان کا اختیار ہے لیکن بدعنوانی کے دلدل میں دھنسی ہوئی حکومت جب بری طرح مفلوج ولاغر ہوجائے تو ہر کوئی اس کو آنکھ دکھلاتا ہے اور عدالت عالیہ کا مذکورہ فیصلہ اس امر کا کھلا ثبوت ہے ۔

بات صرف کمزوری کی نہیں بلکہ یہاں معاملہ بے حیائی اور ڈھٹائی کا بھی ہے ۔ ایک ایسے فیصلے کو جس نے بھرے بازار میں حکومت کے پر جوتا مارا ہو سرکار دربارکے لوگ اپنی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔اس سے زیادہ شرم کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ کانگریس پارٹی کےرہنما یہ دعویٰ کرتے پھر رہے ہیں کہ اس مقدمہ میں وزیر اعظم کے دفتر کو مجرم قرار دیا گیا ہے اور وزیراعظم کی جان بخش دی گئی ۔ کیا ملک کاوزیر اعظم اپنے دفتر میں ہونے والی سرگرمیوں اور کوتاہیوں کیلئے ذمہ دار نہیں ہے ۔اگر ایسا ہے تو اس کے وزیر اعظم ہونے کا فائدہ ہی کیا ہے ؟ اگر کوئی باوقار وزیر اعظم ہوتا تو اپنی اس توہین پر استعفیٰ دے کر باعزت طریقے پر گھر کا راستہ ناپتا لیکن جو وزیر اعظم اپنے وزیرِ دفاع کا احتساب نہیں کر سکتا ۔ جس میں اپنے وزیر داخلہ کو ہٹانے کی ہمت نہیں ہے وہ اپنے آپ کو ذلیل و رسوا کرنے کے علاوہ اور کر بھی کیا کر سکتا ہے ۔

کانگریس پارٹی کی صدر سونیا گاندھی کو بھی نہ تو اپنی پارٹی اور اپنی ہی حکومت کی ساکھ کا کوئی خیال ہے اور نہ کسی جرأتمندانہ فیصلے کی ہمت ہے ورنہ وہ اس موقع کو غنیمت جان کر اپنے نورِ نظر راہل گاندھی کو منموہن کی جگہ تخت بٹھا دیتیں اور اعلان کر دیتیں کہ اب مسٹر کلین کا بیٹا سپر کلین ہندوستان کی سیاست کو بدعنوانی سے پاک کر کے گنگا اسنان کروائے گا۔ ممکن ہے یو پی کے انتخاب میں گنگا گھاٹ پر اپنی پکڑ مضبوط کرنے کے بعد سونیا کی خود اعتمادی کسی قدر بحال ہواور اس بے بس وزیر اعظم سے قوم کو چھٹکارہ دلوائے جسے کبھی بیرونی سرمایہ کاری کے معاملے جھکنا پڑتا ہے تو کبھی لوک پال کے معاملے میں منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔

عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں ہائی کورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس کا یہ مفروضہ بالکل بے بنیاد تھا کہ وزیر اعظم نے سی بی آئی سے اس بدعنوانی کی تحقیقات کروائیں بلکہ یہ معاملہ تو سی وی سی کی رپورٹ میں طشت از بام ہوا ۔ وزیر اعظم اور ان کے دفتر نے تو یہ کیا کہ اس سنگین معاملے پر ۱۶ ماہ تک سانپ بن کر بیٹھے رہے گویا اپنی اس مجرمانہ چشم پوشی سے انہوں نے بدعنوانوں کو تحفظ عطا کرنے کا غلیظ کام کیا عرف عام میں یہ حرکت وزیر اعظم کو اس جرم کا شریک کار بناتی ہے ۔ عدالت نے اس بارے میں بھی مقننہ سے قانون بنانے کی درخواست کرنے کے بجائے انقلابی فیصلہ سنایا جس کے مطابق اس طرح کے معاملات میں خاموشی جرم ہے ۔ تین ماہ کے اندر حکومت کی جانب سے فیصلہ سامنے آنا چاہئے ۔اگرحکومت اٹارنی جنرل سے مشورہ کرنا چاہتی ہے تو اسے ایک مہینے کا مزید وقت مل سکتا ہے لیکن چار مہینے بعد بھی اگر حکومت کی جانب سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا تو اس کے معنیٰ تفتیش کی اجازت دینے کے ہو جائیں گے ۔ اس بارے میں ۱۹۹۸ میں دئےص گئے ونیت نارائن کے مقدمے کا حوالہ دیا گیا جس میں عدالت نے یہ مدت طے کی تھی ۔

اس کوتاہی کیلئے وزیراعظم کے دفتر کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا گیا کہ وزیراعظم کے دفتری کارندوں کی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ انہیں وہ الزامات کی سنگینی کے بارے میں مطلع کرتے تاکہ وہ اس بارے میں مناسب اقدام کر سکتے ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیراعظم کو شیر خوار بچہ ہے جسے اگر سنگینی کا احساس نہ دلا یاجائے تو وہ خود اس قدر زبردست بدعنوانی کو محسوس نہیں کر سکتا ؟ اور عدالت کے مطابق اگر وزیر اعظم کے دفتر سے یہ کوتاہی سرزد ہوئی ہے تو اسکی سزا کسے اور کیا دی جائیگی؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ وزیراعظم کی مانند ان کے دفتری افسران کے بھی سات خون معاف ہیں اور ان کی بڑی سے بڑی سزا صرف معمولی سی پھٹکار ہے۔ عدالت نے وزیراعظم کے زخموں کو سہلاتے ہوئے کہا ہمیں یقین ہے کہ اگر وزیراعظم کو حقیقی اور قانونی صورتحال کے متعلق معلومات فراہم کی گئی ہوتیں تو وہ اس فیصلے کو ایک سال سے زیادہ مدت تک کیلئے التوا میں نہیں رکھتے۔ عدالت کو شاید یہ غلط فہمی ہے کہ وزیراعظم نے نادانستگی میں یہ صرفِ نظر کیا ہے جبکہ حقیقت اس سے متضاد ہے انہوں نے جانتے بوجھتے یہ سب کیا ہے اور اس دعویٰ کے حق میں شواہد موجود ہیں۔

اس بابت سب سے بڑا ثبوت تو وزارتِ خزانہ کے ڈپٹی ڈائرکٹر پی جی ایس راو ٔکا آفس میمو رنڈم ہے جو وزیراعظم کے جوائنٹ سکریٹری ونی مہاجن کو روانہ کیا گیا ۔ اس میں ٹوجی معاملے میں چدمبرم کے کردارپر شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس نوٹ میں صاف طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ اگر وزارت خزا نہ کی جانب سے نیلامی پر اصرار کیا جاتا تو وزارتِ مواصلات لائسنس کے معاہدے میں موجود دفع ۱ء۵ کی مدد سے ازخود لائسنس منسوخ کرنے کیلئے مجبور ہو جاتا اور اس طرح حالیہ رسوائی سے حکومت بچ جاتی لیکن وزیر اعظم نے اس کا نوٹس لینے کے بجائے راہِ فرار اختیار کرتے ہوئے اپنے پرنسپل سکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ انہیں اس معاملے سے دور رکھیں ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ خط جس کی کاپی انٹر نیٹ پر موجود ہے۔ جو ذرائع ابلاغ میں بحث کا موضوع بن گیا تھا اور جس نے این ڈی اے کے اندر بھونچال بپا کردیا تھا وزیر اعظم کی نظروں سے اوجھل رہا ہو اور انہیں اس کی سنگینی کا احساس نہ ہوا ہو۔ اگر واقعی ایسا ہے تو وزیراعظم کو نتن گڈکری کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے بذاتِ خود سنیاس لے کر کیلاش پربت کا رخ کرنا چاہئے۔

منموہن سنگھ کی جانب سے دکھلائی جانے والی یہ کمزوری کوئی نہیں ہے ۔ ٹوجی معاملے میں ابتدا ہی سے ان کا رویہ سب کچھ جاننے کے باوجود خاموش تماشائی بنے رہنے کی رہاہے ۔اس کی شروعات فروری ۲۰۰۶؁میں ہوئی جب سابق وزیر مواصلات دیاندھی مارن نے ٹوجی کے معاملے میں فیصلہ کرنے کا اختیار وزراء کی جمیعت سے چھین کر خود اپنے پاس رکھ لیا تھا ۔ اسی رویہ پر اے راجہ کاربند رہے اور وزیر اعظم دونوں کو اس من مانی سے روک پانے میں ناکام رہے۔ ٹوجی لائسنس کے فروخت کی پالیسی بنانے کیلئے وزیر اعظم نے وزیر خزانہ، وزیر دفاع ، وزیر پارلیمانی امور اور وزیر مواصلات پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیا تھا لیکن چند دنوں کے اندر وزیر اعظم کو اپنا فیصلہ بدل کر فیصلے کا مکمل اختیار مارن کو دینے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔ اس امر کا سب سے بڑا ثبوت سابق وزیر مواصلات دیاندھی مارن کا وہ خط ہے جو انہوں نے ۲۸ فروری ۲۰۰۶؁ کو وزیراعظم کے نام لکھا تھا ۔اس میں وہ رقمطراز تھے "آپکو ہماری یکم فروری کی میٹنگ یاد ہوگی جس میں ہم نے ٹوجی کے لائسنس معاملے میں وزراء کے گروپ کے حوالے سے گفتگو کی تھی اور آپ نے یقین دلایا تھا کہ اس بابت ساری شرائط مکمل طور پر ہماری مرضی کے مطابق طے کی جائینگی لیکن ہمیں حیرت ہے کہ وزراء کے گروپ نے کافی وسیع شرائط تجویز کی ہیں جو ہمارے کام میں مداخلت کے مترادف ہے "۔

دیاندھی مارن نے صرف اعتراض جتانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا کہ ہم آپ کے مشکور ہوں گے اگر آپ متعلقہ افراد کو احکامات جاری فرمائیں کہ وہ اس خط کے ساتھ منسلک شرائط کے مطابق ضروری تبدیلیاں کریں۔ اس خط و کتابت سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ ابتدا میں وزیر اعظم چاہتے تھے کہ تمام وزراء مل جل کر اس بارے میں فیصلہ کریں لیکن بعد میں ڈی ایم کے دباو ٔمیں انہوں نے اپنا فیصلہ بدل دیا اور مارن کو تمام اختیارات سونپ دئیے ۔ وزیر اعظم کو اپنی غلطی کی اصلاح کا ایک اور نادر موقع اس وقت ہاتھ آیا جب مارن کو ہٹا دیا گیا اور اے راجہ کو مواصلات کا وزیر بنایا گیا ۔اس وقت وزارتِ خزانہ کے سکریٹری دووری سباراو نے کئی مرتبہ لکھ کر اس جانب توجہ مبذول کروائی کہ ٹوجی کی قیمت مقرر کرنے کے معاملہ چونکہ سرکاری آمد سے متعلق ہے اس لئے اس فیصلے میں وزارتِ خزانہ کی شمولیت ضروری ہے لہٰذہ یہ معاملہ وزراء کے گروپ کو سونپا جائے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو وہ مروجہ سرکاری طریقہ کار کی خلاف ورزی ہوگی ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ وزیر اعظم جو خود مشہور ماہر معاشیات ہیں اور ماضی میں وزیر مالیات بھی رہ چکے ہیں سرکاری قوانین اور طریقہ کار سے واقف نہ ہوں اور ان کے ساتھ چدمبرم نے سباّراو کے مشاہدات کو دیکاا نہ ہو ۔

ٹوجی معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے باوجود اس کے کہ وزیر اعظم کو باقائدہ مجرم نہیں ٹھہرایا گیا ۔ اسی طرح سی بی آئی عدالت سے تکنیکی بنیادوں پر راحت پانے کے باوجود وزیر خزانہ چدمبرم اپنی اخلاقی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں ہو سکتے ۔ ا ب قوم کی اور ان کی اپنی بھلائی اس میں ہے اپنے آپ کو مزید رسوا کرنے کے بجائے موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنا راستہ ناپ لیں فی الحال کم از کم عدالت نے انہیں بے قصور ٹھہرایا ہے لیکن اگر سبرامنیم سوامی عدالتِ عالیہ میں جاتے ہیں جیسا کہ ان کا ارادہ ہے تو ممکن ہے ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے خلاف آجائے اور انہیں وزیر سے فقیر بنا کر جیل کی سلاخوں پیچھے پہنچا دیا جائے اس دن کی رسوائی سے بچنے کا ایک اور موقع فی الحال موجودہے اب دیکھنا یہ ہے یہ لوگ اس کا فائدہ اٹھا تے ہیں یا اسے بھی گنوا دیتے ہیں۔ اس معاملے ایک دلچسپ اتفاق قابل ِ غور ہے۔ ٹوجی کے مسئلے پر دیاندھی مارن کے ساتھ منموہن سنگھ کی میٹنگ یکم فروری ۲۰۰۶؁ کوہوئی۔ اے راجہ کی گرفتاری یکم فروری؁۲۰۱۱ کو عمل میں آئی۔ ٹوجی کے لائسنس کی منسوخی یکم فروری ۲۰۱۲؁کو ہوئی ۔ ہو سکتا ہے یکم فروری ۲۰۱۳؁ کو آنے والا عدالت کا فیصلہ چدمبرم کو اے راجہ کے پاس تہاڑ جیل میں پہنچا دے ۔بقول شاعرـ
غم ملے ،حسرت ملے، رسوائیٔ بے جا ملے
کیا پتہ کب کون اپنا بن کے بیگانہ ملے
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226672 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.