عسکری و دفاعی تجزیہ کار اور اینکر زید حامد سے خصوصی انٹرویو

معروف تحقیقاتی صحافی سید بدر سعید کا سابق افغان جہادی ، عسکری و دفاعی تجزیہ کار اور اینکر زید حامد سے خصوصی انٹرویو
عکاسی: اسعد نقوی

اپنا فون آن رکھئے اور وہیں کھڑے رہیں۔ راولپنڈی کے پوش علاقے میں داخل ہوتے ہی میں نے فون پر جو پہلی ہدایت سنی وہ یہ تھی ۔ بولنے والا جلدی میں لگ رہا تھا اس نے میرے پہنچنے کی تصدیق چاہی اور ہدایت کے ساتھ ہی فون بند کر دیا ۔دو منٹ بعد ایک چمکتی گاڑی میرے قریب آ کررکی اور ڈرائیونگ سیٹ پر مجاہدین کی مخصوص جیکٹ پہنے ایک باریش شخص نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میرے بیٹھتے ہی گاڑی آگے بڑھا دی۔ نرم لہجے میں گفتگو کرنے والے اس نوجوان نے سفر کے حوالے سے خیر وعافیت کا پوچھا، اسی دوران گاڑی ایک کوٹھی کے باہر رک گئی ۔مجھے اندر ایک آفس میں لے جایا گیا۔ جہاں میں نے ایک اہم شخصیت کا انٹرویو کرنا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں مجاہدین کی مخصوص جیکٹ پہنے ایک شخص اندر آیا اس کی جیکٹ پر پاکستانی جھنڈا نمایاں تھا اس نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور گلے ملنے کے بعد سامنے اپنے لیے مخصوص کرسی پر بیٹھ گیا۔
آپ کی عمر24سال لگتی ہے ؟ اس نے اندازہ لگایا۔
جی 23سال! میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس کے چہرے پر ایک لمحہ کے لیے تحسین آمیز مسکراہٹ آئی۔ ”گڈ! اتنی سی عمر میں اتنے سارے کام....“ اچانک ایک شخص اندر آیا اور اس نے میرے سامنے بیٹھے شخص کے ہاتھ میں سیاہ چمکتا ہوا قیمتی پستول تھما دیا۔ اس کے ساتھ ہی کمرے کا دروازہ بند کر دیا گیا۔اس نے پستول پکڑا، ہو لسٹر میں لگایا اور مسکراتے ہوئے کہا:
”تو آپ ہمارا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں!“
یہ زید حامد سے میری پہلی ملاقات تھی۔

لیکن اسی لمحہ مجھے اندازہ ہو گیا کہ زید حامد خطرناک دھمکیوں کی زد میں ہیں۔ میں بہر حال ان کے لیے اجنبی تھا۔ ان کے قریب ہی ایک اور شخص آ کر بیٹھ گیا درمیانی عمر کا یہ مہذب شخص مضبوط جسم اور خوبصورت مسکراہٹ کا مالک تھا اور زید حامد سے میرے اس انٹرویو کا مکمل گواہ بھی۔

انٹرویو کے دوران اس کمرے میں ہم تین افراد موجود تھے۔ اس انٹرویو کو لکھتے وقت میں نے اپنے بہت سے سوال حذف کر دیے ہیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے جوابات کو شامل نہیں کیا گیا بلکہ مجھے بعض سوالات کے درمیان ایک رابطہ اور تسلسل نظر آیا اور مجھے لگایا کہ اگر میں گفتگو میں سے اپنا سوال نکال کر جواب کو پچھلے جواب کے ساتھ ملا دوں تو گفتگو کا تسلسل قائم رہے گا اور قارئین کو مشکل سے ہی یہ احساس ہو گا کہ درمیان میں کوئی سوال بھی تھا۔ مجھے اپنے سوالات کی دھاک نہیں بٹھانی بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ قارئین کو اس انٹرویو میں انٹرویو کے ساتھ ساتھ آپ بیتی اور کہانی کی جھلک بھی ملے اور ایک تاریخ بھی ہمارے ساتھ ساتھ سفر کرے۔ زید حامد سے ان کی فیملی بیک گراﺅنڈ، ابتدائی زندگی، بچپن کے حالات اور تعلیم وغیرہ کے حوالے سے پوچھے گئے سوالات کو کہانی کی شکل دینے کے لیے جب میں نے اپنے سوالات درمیان سے حذف کیے تو گفتگو کچھ یوں شروع ہوئی۔
 

image

زید حامد میرے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے اپنے فیملی بیک گراﺅنڈ کے بارے میں بتارہے تھے انہوں نے کہا میرے والد صاحب فوجی ہیں۔ میرے والدین 1947ءمیں ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ میرے والد آتے ہی پاک فوج میں شامل ہو گئے۔ یہ پاکستان ملٹری کا پہلا بیج تھا جسے 1stPMAکہتے ہیں۔ 1948ءمیں یہ لوگ بھرتی ہوئے اور 1950ءمیں کیڈٹ ہوئے۔ راجہ عزیز بھٹی شہید میرے والد کے روم میٹ تھے اور کورس میٹ میں جنرل نصیراﷲ بابر اورجہاں داد تھے۔ میرے والد توپ خانے کے افسر تھے اور 65ءاور 71ءکی جنگوں میں سیالکوٹ کے محاذ پر رہے۔ میری والدہ بھی ماشا ءاﷲ ہجرت کر کے آئیں ۔اس وقت وومن گارڈز، نیشنل گارڈز پاکستان کے دفاع کے لیے خواتین کے ونگ ہوتے تھے،والدہ اس میں رہیں۔ ہمارے پورے گھر ،پورے خاندان میں ہجرت ، جہاد، شہادت پاکستان کے دفاع کا جذبہ ماں باپ دونوں کی طرف سے تھا اور ہمارے آباﺅ اجداد جو میرے والد کے خاندان آئے وہ تقریباً آج سے 1000سال پہلے بغداد سے تشریف لائے ۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی اولاد میں سے تھے اور وہاں سے افغانستان چلے گئے اور پھر ایک سپہ سالار بھی تھے اور انہوں نے ہندوستان میں جو بہار کا صوبہ ہے اسے فتح کیا۔ سید ابراہیم ان کا نام ہے۔ آج بھی بہار میں ان کا مزار ہے اور وہ سید تھے ۔شیخ عبدالقادر کی ساتویں پشت سے تھے ۔ہم ان کی اولاد سے ہیں۔

1964ءکی میری پیدائش ہے۔ 1965ءکی لڑائی میں میں بہت چھوٹا تھا لیکن71ءکی لڑائی پوری یاد ہے اور دونوں لڑائیوں میں میرے والد کی پوسٹنگ سیالکوٹ میں تھی۔ لہٰذ ا جب جنگ ہوئی تو ہم بالکل سرحد کے اوپر تھے ۔والدہ کو دونوں مرتبہ ہجرت کرنی پڑی جبکہ والد وہیں پہ توپ خانے کے افسر تھے اور پاکستان کے دفاع میں شامل تھے ۔ الحمد ﷲ میری تعلیم فوجی سکولوں میں ہوئی اور والد صاحب کی پوسٹنگ کی وجہ سے ہم پورے پاکستان میں گھومتے رہے لیکن آخر میں میٹرک ہم نے کراچی سے کیا ۔ریٹائرمنٹ کے بعد والد صاحب کراچی سیٹل ہو گئے۔ میٹرک وہیں سے کیا انٹرمیڈیٹ وہیں سے کیا اور پھر یونیورسٹی سے کمپیوٹر سسٹم میں انجینئرنگ کی۔1986ءمیں ڈگری ختم ہونے سے پہلے ہی اﷲ نے موقع دیا اور ہم افغانستان جہاد میں شامل ہو گئے۔ 1986ءسے 1992ءتک جب کابل فتح ہو گیا اس وقت تک افغانستان جہاد میں ہماری شرکت رہی اور اﷲ کے فضل سے اس وقت تک یہ جو تقریبا7 برس کا غیر معمولی تجربہ اﷲ تعالیٰ نے کرایا اس پر ہم نے ایک کتاب بھی لکھی ہے ”دریائے سندھ سے دریائے کابل تک“۔ ایک ڈیڑھ مہینے تک یہ کتاب منظر عام پر آجائے گی۔ 1992ءمیں جب افغانستان جہاد سے سے میرا رول ختم ہوا اور سول وار شروع ہو گئی تو ہم دلبرداشتہ ہو گئے۔ ہم نے اس لیے جہاد نہیں کیا تھا کہ وہاں پر سول وار ہو۔ جب تک روسیوں کو اور کمیونسٹوں کو نکالنے کی بات تھی تو ہم شامل تھے لیکن جب سول وار شروع ہوئی اور مجاہدین کے آپس میں اختلافات شروع ہوئے تو ہم واپس پاکستان آگئے۔ بچوں کو لے کر ہم نے کراچی سے ہجرت کی اور راولپنڈی آگئے۔ راولپنڈی میں آ کر تقریباً چھ سات سال مختلف نوکریاں کیں او ر اﷲ تعالیٰ نے موقع دیا اور ایک سکیورٹی کمپنی ہوا کرتی تھی وہاں میں الیکٹرانک آلارم سسٹم ہیں انجینئر کے طور پر کام کرتا تھا۔ اس دوران میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں پوری دنیا میں سکیورٹی سسٹم کے جو دوسرکل ہیں اور سکیورٹی کے جو ذخائر ہوتے ہیں ان کے بارے میں دکھایا اور 2000ءمیں ہم نے اپنا کام شروع کیا اور دفاعی تجزیہ نگاری کا اپنا ادارہ قائم کیا۔ آج الحمدﷲ ہمیں تقریباً11سال ہو گئے ہیں یہ کام کرتے ہوئے۔ ہم کمرشل سائٹ پر بھی کام کرتے ہیں جسے سکیورٹی ایڈوئز کہتے ہیں اور ہم سرکاری طور پر بھی کام کرتے ہیں۔ ہمارے کام سے ہماری پاک فوج کو اور ہماری حکومت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ پاکستان کے دفاع کا کام بھی ہے اور کمرشل سائٹ پر مختلف ادارے جو یہاں کام کرتے ہیں وہ سکیورٹی کے حوالے سے ہم سے رائے لیتے ہیں تو اﷲ نے رزق حلال کا ایک ذریعہ یہ بھی رکھا ہوا ہے اور ساتھ ساتھ2007ءمیں ہم ٹیلی ویژن پر آئے۔ اس سے پہلے ہم ٹی وی پر نہیں آئے تھے اور اس کے بعد ہمارا جو ٹیلی ویژن کا کام تھا یہ قومی تحریک میں تبدیل ہو گیا یعنی دفاعی تجزیہ نگاری بہت چھوٹا کام رہ گیا اصل میں تو ملک کے دفاع کا معاملہ شروع ہو گیا۔ کیونکہ یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستان میں خود کش حملے ہورہے تھے ۔پاکستان کو توڑنے کی سازشیں کی جارہی تھیں۔ جب رشیا کی طرح پاکستان کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کرنے کا کام آخری حد تک مکمل کیاجا چکا تھا۔مشرف کو اسی لیے انہوں نے ہٹایا ۔ مشرف انہی کا آدمی تھا انہی کے کام کرتا رہا پھر اسے ہٹانے کی کیا ضرورت تھی؟ مقصد اس کا یہ تھا کہ ایک حد سے زیادہ مشرف ان کے لیے نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے اسے ہٹا کر زرداری اور پیپلز پارٹی کو لے کر آئے، رحمان ملک کو لے کر آئے جن کے ذریعے انہوں نے پاکستان کو توڑ نا تھا۔اس وقت میں ٹیلی ویژن پر آیا اور اپنی قوم کو آگاہ کرناشروع کیا کہ کیا خطرات ہیں ۔ تقریباً چار برس ہو گئے ہیں۔ شدید مزاحمت ہوئی پچھلے ڈیڑھ سال سے پاکستان کے میڈیا پر ہمیں بند کر دیا گیا۔ مجھے کوئی ٹی وی پروگرام نہیں دیتا۔ پاکستان میڈیا کو Safmaکنٹرول کر رہی ہے یعنی ساوتھ ایشیافری میڈیا ایسوسی ایشن یہ انڈین نواز ہے ۔یا وائس آف امریکہ کنٹرول کر رہا ہے ۔پاکستانی میڈیا پر آپ یا تو وائس آف امریکہ کے چینل دیکھتے ہیں یا پھر سارے وہ صحافی ہیں جن کا تعلق کہیں نہ کہیں Safma سے ملتا ہے۔ان میں بہت سے لوگ ہیں، نجم سیٹھی ہے ،عاصمہ جہانگیر ہے، حسین حقانی ہے، خوشنود علی خاں ہے نام لے رہا ہوں براہِ راست۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے میری کھلی جنگ ہے ۔میں انہیں انڈین ایجنٹ کہتا ہوں اور غدار وطن کہتا ہوں، وطن فروش ہیں وطن بیچا اور کیا سستا بیچا کم بختوں نے۔

میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ ایسا ہی کچھ آپ نے حامد میر کے بارے میں بھی کہا تھا؟

زید حامد نے مسکراتے ہوئے کہا : کیا کہا تھا؟ یہ کہ حامد میر سی آئی اے کا ایجنٹ ہے.... آپ کو اس میں کوئی شک ہے کیا؟پھر کہنے لگے یہ سارا گینگ جو ہے یہ میرے خون کا پیاسا ہے اسی طرح MQMہماری جان کی دشمن ہے۔ اسی طرح زرداری اور رحمان ملک میری جان کے دشمن ہیں۔ اسی طرح بلوچستان لبریشن آرمی، تحریک طالبان، حکیم اﷲ محسود، میری جان کے دشمن ہیں۔ اﷲ کے فضل سے کوئی دشمن ہم نے چھوڑ ا نہیں ہے۔ جو پاکستان اور اﷲ رسول کے دشمن ہیں ہم نے ان کے خلاف اعلانِ جنگ کیا ہے۔ پوری قوم بیت اﷲ محسود اور الطاف حسین سے بلیک میل ہو رہی تھی یہ وہ وقت تھا جب ہم نے ان کے خلاف آواز اٹھائی پاکستان فوج کو سہارا دیا۔ انہیں تسلی دی کہ تم جس کے خلافِ جنگ کر رہے ہو یہ مسلمان نہیں ہیں ۔یہ دہشت گرد ہیں ،خوارج ہیں، حدیث شریف میں انہیں خوارج کہا گیا ہے۔ یہ ظاہر ہے خطرناک کام ہے نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے خلاف پراپیگنڈہ بھی ہوا؟ چونکہ میڈیا کے بڑے بڑے گروپ ہمارے خلاف ہوئے لہٰذا میڈیا استعمال کیا گیا۔

صحافی ہمارے خلاف لکھنے لگے ہم نے دہشت گرد مولویوں کے خلاف بات کی لہٰذا انہوں نے ہم پر کافر ہونے کا فتویٰ لگا دیا۔ کسی نے کہا قادیانی ہے کسی نے کہا ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا کسی نے کہا یہ امریکہ کا ایجنٹ ہے۔ مگر اﷲ کا فضل ہے کہ ہم چار سال سے کام کر رہے ہیں۔ ہزاروں پروگرام کر چکے ہیں۔ لکھ بھی چکے ہیں بول بھی چکے ہیں اور پوری دنیا میں اس وقت ہمیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ ہماری رائے ایران بھی لیتا ہے ،ہماری رائے سعودی عرب بھی لیتا ہے ،ہماری رائے خلیج کے مسلمان ممالک بھی لیتے ہیں۔ دوست مسلمان ممالک بھی لیتے ہیں اور دشمن بھی ہم سے خوف کھاتے ہیں ۔ہماری ہر بات کو انڈیا سے لے کر سی آئی اے تک ہر کوئی مانیٹر کرتا ہے کہ یہ کیا کہناچاہ رہا ہے ۔ہمارا یہ مقام اﷲ نے بنایا ہے۔ پچھلے سال2010ءمیں یورپ کا ایک دفاعی تحزیہ نگاری کا ادار ہ تھنک ٹینک ہے اس نے ایک رپورٹ نکالی جس میں اس نے ہمارا نام یہ کہہ کر ڈالا تھا کہ جنگ گروپ کے میر شکیل الرحمن جو جنگ کے مالک ہیں ان سے زیادہ افادیت ہے، ان سے زیادہ طاقت ہے زید حامد کی کہ یہ پاکستان میں اتنی بڑی رائے تبدیل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ اس سکیورٹی تھنک ٹینک نے بات کی اور اسی نے کہا کہ بہت سے مسلم دنیا کو جو ڈیڈیکٹ کر رہے ہیں اس میں یہ شامل ہوں گے اور یہ اﷲ کا احسان ہے کہ چار سال کے عرصے میں ہمیں یہ عطا کیا اور اس مشن کو لے کر ہم چل رہے ہیں۔ ہمارا اپنا دفاعی تجزیہ نگاری کا یہ ادارہ بھی اپنی جگہ پر قائم ہے ۔ہم رسالے بھی نکالتے ہیں۔ ہماری ویڈیو فلم، سی ڈی، ڈی وی ڈی،پوری دنیا میں تقسیم ہوتی ہیں۔ انٹرنیشنل ، میڈیا، نیشنل میڈیاالجزیرہ ،پریس ٹی وی، بی بی سی، سی این این تمام دنیا کا میڈیا ہم سے رائے لیتا ہے مگر سچ بات یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ہم نے بہت زیادہ دشمن بنا لیے ہیں۔ حکومت ِوقت سے لے کر بڑے بڑے میڈیا گروپ سے لے کر مولویوں تک اور سیاسی جماعتوں تک ، کیونکہ ہم جمہوریت کے اس نظام کے خلاف ہیں اور اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ اگر جمہوریت کو لے کر آنا ہے تو پہلے آئین کے آرٹیکل 62اور 63کو نافذ کیا جائے۔62اور 63آئین کے وہ آرٹیکل ہیں جن کے تحت کوئی زانی،بدکار، شرابی، حرام خور، بدبخت ، پلید الیکشن میں کھڑا ہی نہیں ہو سکتا۔ کوئی پاکستان کی آئیڈیا لوجی کے خلاف کام کرنے والا الیکشن میں کھڑا نہیں ہو سکتا اور کوئی کرپٹ الیکشن میں کھڑا نہیں ہو سکتا اور آپ آرٹیکل 62اور63کو نافذ کر دیں تو ساری سیاسی جماعتیں الیکشن سے باہر ہو جاتی ہیں ۔ لہٰذا یہ ساری سیاسی جماعتیں ہم سے بدکتی ہیں ،خوف کھاتی ہیں کیونکہ ہمارا دیا ہوا یہ پوائنٹ بقیہ مسائل کا حل ہے اور پھر ظاہر ہے کہ جب یہ سیاسی جماعتیں ڈلیور نہیں کرتیں تو پھر ہم فوج سے کہتے ہیں کہ آ کر صفائی کرو۔ ہم مارشل لاءکے حق میں نہیں ہیں لیکن ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ فوج کی طاقت استعمال ہوتا کہ ایک ایسی سویلین کریٹیکل حکومت لائی جائے جو ملک میں دہشت گردی اور کرپشن کا خاتمہ کرے۔

میں نے افغان جہاد کے حوالے سے زید حامد سے پوچھا کہ آپ افغاں جہاد میں شامل رہے وہاں آپ کی کیا ذمہ داریاں تھیں؟
زیدحامد مسکرائے اور دھیمے لہجے میں کہنے لگے۔ اس کے لیے پہلے تو ہم آپ کو یہ کہیں گے کہ ایک کتاب ہے ہماری افغان جہاد کے اوپر14باب اس کے چھپ چکے ہیں ۔ پوری کتاب 25ابواب پر مشتمل ہے انشا ءاﷲ آہستہ آہستہ وہ آتے رہیں گے آپ وہ بھی پڑھئے۔ ایک مجاہد سے لے کر جس کا کام صرف رائفل گولی چلانا ہے۔ اس مجاہد سے لے کر ہم ان کے میڈیا کا حصہ تھے ۔ہم ان کے لیے فوٹو گرافی کرتے تھے۔ فلمیں بناتے تھے اور بعد میں اﷲ نے ہمیں یہ مقام دے دیا تھا کہ ہم افغان مجاہدین اور پاکستان حکومت کے درمیان ایک ثالث کا کردار بھی ادا کر تے رہے۔ اﷲ نے ہمیں افغان مجاہدین کی تمام قیادت کے ساتھ جن میں حکمت یار، استاد سیاف ، مجیب الرحمن، احمد شاہ، شاہ مسعود شامل ہیں، ان سب کے ساتھ ہمیں بڑا قریبی ساتھ فراہم کیا ۔برہان الدین جن کا حال ہی میں انتقال ہوا، انتقال سے کچھ عرصہ پہلے انہوں نے مجھے فون بھی کیا تھا کہ وہ پاکستان آرہے ہیں.... تو ہمارے تمام افغان مجاہدین لیڈر کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں اور یہ ساری باتیں ہم اپنی تصاویر کے ساتھ، اپنے مضامین کے ساتھ اپنی کتاب میں چھاپ رہے ہیں ۔ 24سال کی عمر میں، میں افغان جہاد میں گیا تھا۔ 28,27سال کی عمر میں تقریباً باہر آیا تھا وہاں سے۔ مگر اس وقت اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو دیا ہے آج میں دنیا میں جو کام کر رہا ہوں اس کی بنیاد افغان جہاد میں پڑی۔ 1990ءمیں 1991ءمیں 1992ءمیں ہم نے مضامین چھاپے تھے اخباروں میں ۔پاکستان آبزرور میں، ڈان میں، نیوز میں، یہ چھپے ہوئے مضامین میرے پاس ثبوت رکھے ہوئے ہیں ،رسالے چھپے ہوئے ہیں کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ نہیں چھاپے ۔اس وقت ہم نے جو باتیں لکھیں تھیں کہ پاکستان افغانستان میں جو غلطیاں کر رہا ہے اگر یہ غلطیاں ہوئیں تو آگے جا کر پاکستان کو افغانستان سے بڑا نقصان پہنچے گا اور آج 20سال کے بعد وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے جو باتیں ہم 1990ءاور 1991ءمیں لکھ چکے ہیں۔

میں اسی پس منظر میں ایک اور سوال کر تے ہوئے کہا: پہلے آپ حکمت یار کے ترجمان رہے بعد میں احمد شاہ مسعود سے مل گئے اس کی کیا وجہ تھی؟
زید حامد کہنے لگے، یہ بات درست نہیں ہے کہ میں حکمت یار کا ترجمان رہا ۔پہلی بات کہ میں کبھی بھی ترجمان نہیں رہا اور یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ میں حکمت یار سے تعلق توڑ کر احمد شاہ کے ساتھ شامل ہو گیا۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم انصار تھے انصار کا مطلب ہے کہ افغان مجاہدین کی مدد کرنے والے۔ میں تو جماعت اسلامی کا یا حزب اسلامی کا جو حکمت یار کی تنظیم ہے ان کے لیے کام نہیں کرتا ۔ہم انصار ہیں ہمارا کام تمام مجاہدین کے ساتھ کام کرنا ہے۔ میرا بہت قریبی تعلق عرب مجاہدین کے ساتھ ہے۔ استاد عبد اﷲ شہید اور ان کے گروپ کے ساتھ رہا۔ بہت قریبی تعلقات استاد سیاف کے ساتھ تھے استاد سیاف کی پوری ایک الگ جماعت تھی جب ہم جنوبی افغانستان میں کام کر رہے تھے جہاد کر رہے تھے۔دیکھیں افغانستان میں جہاد کے محاذ تقسیم تھے۔1996ءاور 88,87اور 89یہ چار سال میں نے جنوبی افغانستان میں جہاد کیا ہے جنوبی افغانستان کا مطلب ہے کہ پکتیا میں ،ننگرہار میں، ہز ان تمام علاقوں میں جو پاک فوج میں پاکستان کے پاس تھے۔ اس میں حکمت یار ، حزب اسلامی اور استاد سیاف اور عرب مجاہدین ان کے ساتھ ہم کام کرتے رہے۔ 1990ءاور 1991ءمیں ہم شمالی افغانستان کی طرف نکل گئے تاکہ شمالی افغانستان کے مجاہدین کی صورتِ حال کو دیکھا جائے وہاں کے علاقے احمد شاہ مسعود کے کنٹرول میں تھے اور 1990ءاور 1991ءان دو سال میرا وقت شمالی افغانستان میں گزرا،لیکن جب میں پاکستان واپس آیا تو پھرہم اسی طرح تمام مجاہدین کے ساتھ تھے ۔ یہاں میرا کام سپلائی کرنی تھی ۔ کراچی میں بیس ہونے کی وجہ سے ان کا کسٹم میں سامان بھی پھنسا ہوتا تھا ،وہ نکالنا ہوتا تھا۔ ان کے لیے دوائیاں خریدنی ہوتی تھیں جو زخمی یہاں آتے تھے ان کا علاج کروانا ہوتا تھا۔ جو مجاہدین کراچی پہنچتے تھے ان کے لیے ویزے اور پاسپورٹ کی مشکلات ہوتی تھیں ۔ ٹکٹ کی بکنگ کروانی ہوتی تھیں لوکل سپورٹ جیسی بھی تھی مجاہدین کی، چاہے وہ عرب ہوں ،چاہے پاکستانی ہوں، چاہے وہ استاد سیاف کے ہوں ،ہمارے ان میں کوئی فرق نہیں تھا۔ حتیٰ کہ یوسف اسلام جوکیپٹیلزم کے نام سے جن کی بہت بڑی تنظیم تھی وہ مسلم ایڈ کے نام سے ہزاروں سکول چل رہے تھے۔ ہم ان کے لیے بھی کئی سال کام کرتے رہے۔ ان کے لیے پیسے اکٹھے کرنا، ان کے لیے سلائی مشینوں کا بندوبست کرنا، ان کے لیے کپڑوں اور پانی کا بندوبست کرنا جو کام ایک انصار کی حیثیت سے تھا اﷲ نے توفیق دی اور ہم نے وہ کیا۔

ترجمان میں حکمت یار کا کبھی بھی نہیں رہا۔استاد ربانی کاترجمان میں ضرور رہا ہوں، استاد ربانی جب کراچی آیا کرتے تھے۔ میری پشتو اتنی مضبوط نہیں ہے حکمت یار پشتو زیادہ بولتے تھے۔ میری فارسی بہتر ہے تو استاد ربانی جب کراچی آیا کرتے تھے تو ان کی پریس کانفرنس کے بعد میں اردومیں صحافیوں کو بتایا کرتا تھا کیونکہ استاد سے میرے تعلقات بھی تھے ۔ محبت اور پیار کا بھی سلسلہ تھا اور فارسی چونکہ میری بہتر تھی اس لیے بھی۔

میں نے زید حامد پر لگے ایک اور الزام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان پر آپ کی کتاب بھی آرہی ہے، آپ کی باتیں بھی ہیں، لیکن آ پ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ آپ افغانستان گئے ضرور لیکن افغان جہاد میں شامل نہیں ہوئے؟
زید حامد نے تیز آواز میں بات کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا، جو بھی یہ کہتے ہیں پہلی بات تو یہ کہ شکوہ کوئی بے جا بھی کرے تو لازم شعور والی بات ہے۔400سو صفحات کی کتاب لکھ ڈالی میں نے اور اس کے اندر تقریباً400تصاویر بھی ہیں اور جیسے عرض کیا کہ 1990ءمیں 1991ءمیں اور 1992ءمیں ان تین سالوں میں میرے پبلشڈ آرٹیکل بھی ہیں اور پھر آرٹیکل بھی نیوز میں ،ڈان میں، پاکستان آبزرور میں ہیں۔ پاکستان کے بڑے اخبارات ہیں۔ ان میں چھپے ہوئے آرٹیکل میں آپ کو ابھی دکھا دیتا ہوں۔(زید حامد نے انٹرویو کے بعد ان اخبارات میں اپنے پرانے آرٹیکل بھی دکھائے) اب ان سے پوچھیں کہ جو افغانستان نہ گیا ہو اس نے 400صفحات کی کتاب لکھ ڈالی وہ بھی ثبوت کے ساتھ؟ اور جس کے گواہ موجود ہوں اور گواہ بھی چھوٹے لوگ نہیں بلکہ بڑے بڑے لوگ ہیں ۔ہمارے ساتھ ہزاروں لوگ جہاد میں شریک تھے میں اکیلا نہیں تھا اور ان میں سے اکثر زندہ بھی ہیں جن کے ساتھ میں کابل گیا۔ پاکستان حکومت اور افغان مجاہدین کے درمیان ہم ثالت کا کردار بھی ادا کرتے رہے ہیںISIاور افغان مجاہدین بعض اوقات جب مصیبت میں پھنستے تھے تو ہم سے کہتے تھے کہ فوج کے پاس ہمارا پیغام لے جاﺅ کیونکہ آپ پاکستانی ہیں تو وہ آپ کی بات سمجھیں گے۔ میرے والد چونکہ فوج میں تھے میرے فوج میں تعلقات بھی بہت تھے تو میرے لیے رابطہ کرنا آسان تھا ،تو اگر کوئی یہ کہے گا تو پہلے اس اﷲ کے بندے کو میرے سامنے تو لاﺅ۔ جو نہ مجھے جانتا ہو، نہ مجھے زندگی میں کبھی ملا ہو۔ ہم نے بھی سنا ضرور ہے کہ بعض لوگ ایسی بات کرتے ہیں میں کہتا ہوں اسے سامنے تو لاﺅ۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ آپ انجینئرنگ یونیورسٹی کبھی پڑھے ہی نہیں یا آپ پڑھے ضرور لیکن آپ نے ڈگری نہیں لی۔ آپ کے والد فوجی آفیسر کبھی تھے ہی نہیں۔ مطلب اتنی بے ہودہ بات !! سات سال میری زندگی کے افغانستان کے میدان جنگ میں گزرے ہیں۔

میں نے زید حامد کی رائے جاننے کے لیے اگلا سوال کرتے ہوئے کہا، آپ کیا سمجھتے ہیں کہ طالبان کا دور زیادہ بہتر تھا یا حامد کرزئی کا؟
زید حامد نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا، دیکھیں حامد کرزئی کا دور تو ہمارے لیے اسی طرح ہے جیسے کمیونسٹوں کا دور تھا ۔ وہ ہمارے دشمن ہیں بہت بڑے اس میں تو کوئی شک کی بات نہیں۔ طالبان کے دور میں ہمیں بہت زیادہ فائدہ یہ تھا کہ اس زمانے میں پاکستان میں کوئی دہشت گردی نہیں تھی۔ انہوں نے کبھی بھی انڈیا کو افغانستان میں اس بات کی اجازت نہیں دی تھی کہ پاکستان کے خلاف کام کرے ،نہ بلوچستان لبریشن آرمی کا کوئی جھگڑا تھا، نہ تحریک طالبان کا کوئی فساد تھا،نہ ہی منشیات پاکستان میں آئی تھی اور نہ ہی انہوں نے کبھی ڈیورنڈ لائن کے بارڈر کا جھگڑا پاکستان سے شروع کیا تھا۔1996ءسے 2001ءتک طالبان کی حکومت رہی ہے یہ ہمارے لیے بڑے امن کا دور تھا۔ طالبان نے اپنے ملک میں جو کچھ کیا اس کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔

لیکن یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ طالبان نے شیعوں کے خلاف انتقامی جنگ کی اور انہیں قتل کرنا شروع کر دیا ؟میں نے زید حامد کی بات کاٹتے ہوئے کہاتو زید حامد سمجھانے کے انداز میں کہنے لگے:
طالبان نے ہزارہ جات کے ساتھ جنگ کی وہ شیعہ ہیں۔ طالبان نے اربکوں اور تاجکوں کے ساتھ جنگ کی وہ سنی ہیں۔ طالبان کی جنگ صرف فرقے کی بنیاد پر نہیں تھی قومیت کی بنیاد پر بھی تھی کیونکہ افغانستان میں سول وار ہو رہی تھی ۔ تاجک اور ازبک کافر نہیں ہیں۔ تاجک اور ازبک افغانستان کے وجود کا حصہ ہیں۔آپ انہیں مارکر، قتل کر کے ختم نہیں کر سکتے۔ طالبان نے جو جنگ ان کے ساتھ کی اپنے دور حکومت میں۔ انہوں نے تاجکوں سے بھی جنگ کی، ازبکوں سے بھی جنگ کی اورہزارہ سے بھی جنگ کی۔ اب تاجک اور ازبک سنی تھے اور ہزارہ والے شیعہ تھے لہٰذا یہ کہنا کہ طالبان صرف شیعوں کے خلاف جنگ کر رہے تھے یہ بھی غلط ہے۔ وہ سنیوں کے خلاف بھی جنگ کر رہے تھی اور اسی جنگ کے نتیجے میں امریکہ نے تاجکوں ازبکوں اور ہزارہ کو ساتھ ملا کر افغانستان پر چڑھائی کر دی۔ طالبان کو اپنے دور میں یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ یہ سول وار آگے جا کر انہیں نقصان پہنچائے گی۔ آپ تاجکوں ،ازبکوں اور ہزارہ کو قتل نہیں کر سکتے آپ کو ان سے کمپرو مائز کرنا ہی پڑے گا۔ وہ آپس میں سول وار کرتے رہے لیکن پاکستان کے بارے میں ان کی پالیسی ٹھیک تھی۔

میں نے زید حامد پر لگے اور الزام کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: پہلے آپ زید زمان کے نام سے سامنے آئے پھر آپ زید حامد کے نام سے سامنے آئے اس کی کیا وجہ ہے؟
زید حامد کہنے لگے ،یہ تو ایسا الزام یا بات ہے جس کی کوئی تک ہی نہیں، دیکھیں میں نے کب نام تبدیل کیا ہے؟ تبدیل کرنا کس کو کہتے ہیں؟ میں نے جب سے اپنا کام شروع کیا ہے ،گیارہ سال سے میں نے براس ٹیکس بنایا ہوا ہے تب سے یہ میرا و زٹنگ کا رڈ ہے(کارڈ دیتے ہوئے) اس پرنام دیکھیں کیا لکھا ہوا ہے؟

میں نے کب نام تبدیل کیا میرے شناختی کارڈ پر سید زید زمان حامد ہے۔ میرے وزٹنگ کارڈ پر سید زید زمان حامدلکھا ہوا ہے۔ میری ویب سائٹ پر سید زید زمان حامدلکھا ہوا ہے؟ میں نے نام کہاں تبدیل کیا یار؟ شروع کے جب میں نے پروگرام کیے جو نیوز ون سے ہوئے تو آپ ریکارڈ دیکھیں میرا نا م سید زید زمان حامدلکھا ہوا تھا تو پھر انہوں نے خود ہی کہا کہ یہ تو بہت لمبا ہے۔ آپ نام چھوٹا کریں جیسے فلمی نام ہوتا ہے یا قلمی نام ہوتا ہے ، اسے چھوٹا کر دیتے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ جناب آپ نام چھوٹا کر دیں زید حامد کر دیں ،زید زمان کر دیں جو آپ کا دل چاہے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتاتو نیوزون والوں نے زید حامد لکھنا شروع کر دیا۔ زید زمان بھی میرانام ہے ،زید زمان حامد بھی میرا نام ہے اور زید حامد بھی میرا نام ہے صرف میڈیا پر زید حامد استعمال ہوتا ہے ورنہ آپ خود دیکھ لیں میرے وزٹنگ کارڈ پر ،گیارہ سال سے میرا یہی وزٹنگ کارڈ ہے۔

زید حامد کے لیکچرز اور پروگرام میں علامہ اقبال کے حوالے جا بجا ملتے ہیں اس حوالے سے میں نے پوچھا کہ، علامہ اقبال آپ کی زندگی میں کب اور کیوں آئے؟ اور آپ کو کیوں لگا کہ اقبال کا پیغام نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے؟
اس سوال پر زید حامد مسکرائے اور کہا، بڑا اچھا سوال ہے۔ میں آپ کو اس کا بیک گراﺅنڈ بتا دیتا ہوں۔ جہاد، شہادت ، پاکستان اور ہجرت تو ہمارے خون میں ہے اور جب میں ساتویں یا آٹھویں کلاس میں تھا تو اس وقت نسیم حجازی کی ساری کتابیں ہم پڑھ چکے تھے آٹھویں جماعت تک نسیم حجازی ہم پڑھ کر ختم کر چکے تھے اور ہمارا پورا تہیہ تھا کہ ہم نے فوج میں جانا ہے اور فوج میں جانے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ جا کر جرنیل بننا ہے مقصد یہ تھا کہ جا کر شہادت حاصل کرنی ہے اور جب میٹرک میں پہنچا تو اس وقت ہمیں کہیں سے 210روپے ملے، غالباً عیدی ملی یا کوئی کا م کیا کہیں پر۔ میں نے اس 210روپے میں سے 55روپے کی جا کر کلیات اقبال خریدلی۔ یہ میں نے اپنے پیسوں سے پہلی کتاب خریدی اور اس وقت سے لے کر آج تک کلیات اقبال ہماری بیڈ سائٹ پر ہے اور اس کتاب کا خود اپنا ایک جادو ہے، اپنا ایک لاجک ہے۔ جیسا کہ بات کی ناکہ اردو زبان آج کل کمزور ہو رہی ہے بچے اردو نہیں پڑھتے لیکن اس زمانے میں نیٹ نہیں تھا۔ ہم بہت پرانے زمانے کے لوگ ہیں۔ اس زمانے میں گھروں میں فون بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ ہم فوجی گھروں میں رہتے تھے۔ وہاں پر فون بھی نہیں تھا، ٹیلی ویژن بھی نہیں ہوتا تھا۔ ٹیلی ویژن بہت بعد میں ہمارے والد نے لیا۔ تو ہمارے پاس اور کوئی شغل نہیں تھا سوائے اس کے کہ گھر سے باہر نکلتے اور میدانوں میں کھیلتے تھے یا گھر آ کر کتاب پڑھتے تھے تو اﷲ نے کتاب سے دوستی اس وقت کرائی اور اچھی کتابوں سے دوستی کرائی ۔ ہمارے گھر میں ابوالحسن، نسیم حجازی کی کتابیں رکھی ہوئی تھیں، اقبال کا ماشاءاﷲ ذکر بہت تھا لیکن کلیات میں نے خود خریدی اور ماشاءاﷲ اس کتاب سے اقبال کو ایک مرتبہ پڑھ لو پھر ممکن نہیں کہ کوئی انسان نارمل رہ سکے۔ پہلے ہی جہاد ، شہادت اور ہجرت کی باتیں اورنسیم حجازی بھی آگ بھڑکا چکے تھے، اقبال نے جلتی پہ تیل کا کام کیا اور پھر 1986ءمیں تقریباً جب میری عمر22سال تھی اس وقت اﷲ نے افغانستان کی راہ دکھادی اب آپ خود سوچ لیں کہ جو خاندانی بیک گراﺅنڈ ہے اس کے بعد جو تعلیمی بیک گراﺅنڈ گھر میں تھا ۔ پھر 22سال کی عمر میں افغان جہاد میں شامل ہو گئے تو اس کے بعد کیا ہونا تھا وہی ہونا تھا جو آج ہے۔ (ہنستے ہوئے۔)

میں نے زید حامد کے ادارے کے حوالے سے پوچھا کہ، آپ نے براس ٹیکس کی بنیاد رکھی اس کے لیے فنڈ کہاںسے آئے اور آپ کو کس قدر کامیابیاں ملیں؟
اپنے ادارے کا ذکر کرتے ہوئے ان کی آنکھوں میں چمک آئی اور کہنے لگے، دیکھیں میں نے آپ کو بتایا کہ 2000ءمیں یہ ادارہ قائم کیا۔ تو یہ میرے بیڈ روم سے قائم ہوا۔ براس ٹیکس ہے کیا؟ اس وقت براس ٹیکس کیا تھا؟ براس ٹیکس صرف ایک کنٹریشن تھی۔ ایک ڈاکٹر اگر اپنا کلینک کھولتا تو اس کے لیے اسے کتنا فنڈ چاہئے، ایک میز کرسی چاہئے ، بیٹھ جاتا۔ ایک حکیم اگر ایک میز کرسی رکھتاتو نبض دیکھنا شروع کر دیتا، میرا بھی کنٹریشن کا کام تھا تو ہم نے مشکل سے15یا 20ہزار روپے کے بجٹ سے اس کام کو شروع کیا تھا اوروزٹنگ کارڈ چھپوائے ، لیٹر پیڈ چھپوائے اورجتنے مارکیٹ میں کارپوریٹ کلائنٹس تھے ،کارپوریٹ کمپنیاں تھیں، آئل اور گیس کمپنی تھیں ،بڑے بڑے تجارتی ادارے تھے ،ان کو ہم نے خط لکھنا شروع کیا اور کچھ تعلقات بھی تھے، لوگوں میں جان پہچان تھی تو ان لوگوں نے بھی ہمیں کام دینا شروع کیا، ہم نے ان کی سکیورٹی رپورٹس لکھنا شروع کیں، پالیسی رپورٹس لکھنا شرع کیں ماشاءاﷲ آہستہ آہستہ اﷲ نے برکت دی ہمیں کام ملنا شروع ہو گیا اور2007ءتک سات سال ہم نے براس ٹیکس اپنے گھر سے چلایا میرے ڈرائنگ روم میں براس ٹیکس ہوتا تھا، ہمیں ملازم رکھنے کی بھی ضرورت نہیں تھی۔

2007تک تو ہمارا کام یہ تھا اور اس وقت چونکہ مشرف کی حکومت تھی ،جنر ل معین الدین حیدر نے ہمیں وزارت داخلہ کا ایڈوائیزر رکھ لیا۔ چونکہ میرا کام سکیورٹی کے حصے سے تھا اور پاکستان بڑی مشکل حالت میں تھا تو ہم نے خط لکھ لکھ کر معین الدین حیدر کو ایڈوائز کرنا شروع کیا کہ اس معاملے کو آپ اس طریقے سے ہینڈل کریں ۔ یہ لوگ بہت غلط پالیسی استعمال کر رہے تھے ۔بڑی زیادہ سختی ان لوگوں نے کی ہوئی تھی۔ مذہب کی بنا پرانہوں نے ہر مذہبی طبقے کو ،ہر عالم دین کو، ہر اسلام سے محبت کرنے والے کو انہوں نے القاعدہ بنا کر ہوا دی ہوئی تھی۔ تب ہم نے ان کو ایڈوائز کرنا شروع کی ،ہماری ایڈوائزمیں بڑی ساﺅنڈ تھی کیونکہ میں خود افغانستان سے آیا ہوا تھا، میں جانتا تھا کہ افغان طالبان کون ہیں؟ پاکستان طالبان کون ہیں ان کے اختلافات کیا ہیں؟ نظریاتی اختلافات کیا ہیں؟ کون پاکستان کے دوست ہیں کون دشمن ہیں؟ یہ باتیں تو مشرف کے علم میں ہی نہیں تھیں۔ پاکستان کی محبت میں ہم نے ان کو لکھنا شروع کیا تو معین الدین حیدر نے بہت عرصہ تک ہمیں اپائنٹ پر لیا۔ اس کی وجہ سے فوج نے بھی ہم سے کہا کیونکہ اس وقت حکومت فوج سب ایک ہی چیز تھی تو اس مشرف کے جو ایڈوائزر تھے آس پاس، آئی ایس آئی میں، این آئی میں انہوں نے بھی ،نوجوان افسروں نے ہم سے رابطے کرنے شروع کیے کہ آپ ہمیں بھی پالیسی لکھ کر دیں، بتائیں کیا ہو رہا ہے ،ہم کیا کریں ؟تو ظاہر ہے پاکستان کی ڈیوٹی تھی، پاکستان کی خدمت تھی یہ بھی ہم نے کرنا شرع کیا اور ہمیں پھر انیٹرئیرمنسٹری کے ساتھ بھی کانٹریکٹ مل گیا اور بھی کئی کانٹریکٹ ہمیں مل گئے اور یہ بات پاکستان کے دفاع کی بھی تھی تو براس ٹیکس ہمارا ایک آفیشل ادارہ بن گیا جو ایک کارپوریٹ سائٹ پر بھی کام کر رہا تھا اور حکومت ِوقت کے ساتھ بھی کام کر رہا تھا۔ 2007ءمیں مشرف کی حکومت ختم ہوئی تو ہماراسرکاری کام ختم ہو گیا زرداری وغیرہ یہ لوگ آگئے مگر اس وقت تک ہم ٹیلی ویژن پر آگئے تھے اور ظاہر ہے ٹیلی ویژن پر ہمیں اﷲ کے فضل سے اچھی آمدنی ہوتی تھی ۔”نیوز ون“ والے ہمیں پیسے دیتے تھے یہ نہیں کہ میں انہیں پیسے دے کر چلا رہا ہوں لوگوں نے یہ بھی پراپیگنڈا کیا کہ چونکہ ٹیلی ویژن پرپروگرام کا نام بھی براس ٹیکس ہے اور میری کمپنی کا نام بھی یہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ شاید میں پیسے دے رہا ہوں ”نیوز ون“ کو، تو آپ” نیوز ون“ سے پتا کرلیں وہ مجھے پیسے دیا کرتے تھے کام کرنے کے اس کے بعد ہمیں” آج “چینل کے ساتھ کام کرنے کا کانٹریکٹ مل گیا۔ علی عظمت کے ساتھ ہم نے اقبال کا پاکستان سیریز کی تھی اس میں ماشا ءاﷲ بہت اچھے پیسے ملتے تھے کوئی ڈھائی تین لاکھ وہ ہمیں مہینے کے دیا کرتے تھے۔تو اس کے بعد ہماری کنسٹریشن ہے میں نے عرض کیا ناکہ ہم مختلف حکومتوں کوایڈوائز کرتے ہیں۔ ایران میں، سعودی عرب میں ہمارے کنٹریکٹ ہیں اﷲ کے فضل سے۔ مسلمان دنیا کو متحد کرنا ہماری ڈیوٹی میں شامل ہے۔ پاکستان کادفاع کرنا ہمارے فرض میں شامل ہے اور اس میں اگر اﷲ تعالیٰ نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم مسلم دنیا کو اکٹھا کر سکیں۔ پچھلے دنوں میں ایران کیا تھا ۔ایرانی حکومت سے ہماری ملاقات ہوئی ۔احمدی نژاد کے ساتھ میری ایک تصویرچھپی تھی جس پر دنیا میں بڑا ہنگامہ ہوا کہ زید حامد، احمدی نژاد کے ساتھ کیا کر رہا ہے جاکر؟ لیکن اس کے بعد اﷲ کا کرم یہ ہوا کہ آپ نے دیکھا کہ پاکستان اور ایران قریب آگئے تو جو ہماری رائے تھی، ہماری پالیسی تھی، ہماری سکیورٹی کی رپورٹس تھیں وہ ایرانی حکومت نے قبول کیں تو یہ کام ہے ہمارا ۔ ہم اﷲ کے فضل سے اس وقت پاکستان کے دفاع پر پوری دنیا پر نظر رکھ کر کام کررہے ہیں، ہمارے کلائنٹس بھی ہیں اور ہم اپنے ہاتھ سے کماتے ہیں اﷲ کا فضل ہے کوئی چندہ کوئی بھیک کوئی ڈونیشن کسی حوالے سے نہیں سوائے اس کے کہ جو بچے ہماری اپنی ہی ٹیم میں شامل ہیں ۔ میں اپنی جیب سے خرچ کروں، میرے اپنے ساتھی دوست بیٹھے ہیں وہ اپنی جیب سے خرچ کر کے اس کام کو پھیلا دے وہ ان کی مرضی ان کا کام ہے، لیکن ہمارا یہ دفتر اﷲ کے فضل سے رزقِ حلال کی کمائی سے چلتا ہے۔

میں اچانک گفتگو کو اس حساس پوائنٹ کی طرف لے آیا جو زید حامد کے حوالے سے سب سے زیادہ متنازعہ ایشو ہے اگر میں اس سوال کو چھوڑ دیتا تو یہ انٹرویو ادھورا رہ جاتا، مجھے علم تھا کہ بہت سے لوگ یہ بات جاننا چاہتے ہیں میں نے کہا، آپ کے دوست یوسف نے نبوت کا دعویٰ کیا اور آپ اسے بچانے کی کوشش کرتے رہے اس حوالے سے متنازعہ بھی رہے۔ اصل بات کیا تھی؟
زید حامد نے بولنا شروع کیا تو ان کا اندازہ دھیما ہی تھا لیکن مجھے یوں لگا کہ وہ دلائل سے بات کریں گے اندرو نی طور پر وہ مکمل توجہ سے بات کرتے نظر آئے انہوں نے کہا، دیکھیں پہلی بات تو یہ کہ کس شخص نے ہمیں سنا ہے میں کوئی آج تو نہیں پیدا ہو گیا نا میں نے وہی بات عرض کی کہ جو کہ انسان نعوذ باﷲ، اﷲ اور اس کے رسول کا گستاخ ہوتا ہے دین کے معاملے میں اس کے اندر شبہات ہوتے ہیں گمراہی کا شکار ہوتا ہے تو کہیں نہ کہیں تو نظر آئے نا؟ کہیں نہ کہیں تو بات سامنے نکلے اس سے بڑی دلیل اور کوئی نہیں ہے کہ ہم ایک ہزار سے زائد پروگرام کر چکے ہیں پوری دنیا کے بیچ میں بیٹھے ہوئے ہیں کوئی چھپ تو نہیں رہے۔نہ کوئی خاص سکیورٹی کا بندوبست کیا ہوا ہے سب سے ملتے ہیں، یونیورسٹیز میں جاتے ہیں ہم لوگوں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا ہمارے منہ سے کچھ سنا آپ نے جو قرآن و سنت کے خلاف ہو؟ ہمارے پیغام سے خیر نکلتی ہے یا شر نکلتا ہے؟ پہلے تو یہ بتا دو۔ کوئی ہمارے پاس مواد لے کر آﺅ نا، ہمارے مخالفین تک نے یہ بات کہی جنہوں نے ہم پر الزام لگائے۔ انہوں یہ کہا کہ ہم نے بڑے بڑے مفتی علما بٹھائے آپ کے سب پروگرام دکھائے کہ قرآن و سنت کے خلاف کچھ نکال دو سب نے کانوں کو ہاتھ لگائے کیونکہ کوئی ایسی چیز مل ہی نہیں سکی ہمارے خلاف کون لوگ کام کر رہے ہیں پہلے اس بات کو سمجھ لیجئے۔ ہمارے خلاف دیو بند کا وہ طبقہ کام کر رہا ہے جو کانگریسی ملا کہلاتا ہے سوائے اس کے اور کوئی ہمارا مخالف نہیں ہے ۔ دیو بند کے دو طبقے ہیں ایک طبقہ وہ ہے جو اشرف علی تھانوی صاحب یا علامہ شبیر احمد عثمانی کے گروپ کا ہے اور دوسرا دیو بند وہ ہے جو آج بھی انڈیا کے دیو بند کے ساتھ وابستہ ہے اشرف علی تھالوی صاحب اور مولانا شبیر احمد عثمانی وہ ہیں کہ جن کو حضور نے خواب میں آ کر اشارہ فرمایا تھا کہ پاکستان بننے والا ہے قائداعظم اﷲ اور رسول کے سپاہی ہیں۔ شبیر احمد عثمانی نے یہ واقعات خود بیان کیے ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے پاکستان کی مخالفت بند کر دی اور قائداعظم کے ساتھ آ کر شریک ہو گئے آج بھی ان کے بیٹے رفیع عثمانی ، تقی عثمانی سارے پاکستان میں ہیں اس گروپ نے کبھی بھی ہمارے خلاف بات نہیں کی لیکن وہ دیو بندی جو کانگریسی ہیں پاکستان میں ہونے والے سارے خود کش حملے پاکستان ریاست کے خلاف ہونے والی تمام جنگ، پاکستان فوج پر حملہ کرنے والے اور پاکستان کی ریاست کو تباہ کرنے والے حقیقت ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ کانگریسی دیو بندی مولوی ہیں تحریک طالبان کا تعلق بھی ان سے ہے ۔ملا سوات کا تعلق بھی ان سے ہے لشکر جھنگوی کا تعلق بھی اسی سے ہے خود کش حملہ کرنے والے سارے اسی نقطہ نظر کے مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جو پاکستان کو کافرستان اور قائداعظم کو کافر اعظم کہتے ہیں۔ انہوں نے قائداعظم کو بھی کافرِ اعظم کس بنیاد پر کہا تھا؟ علامہ اقبال کو کس بنیاد پر کافر کہا تھا۔ نعوذ باﷲ کروڑوں رحمتیں ہوں ان پر ،کس بنیاد پر کہا تھا؟ بنیاد ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ یہ پاکستان کے مخالف ہیں ہم نے پاکستان کے دفاع کی بات کی تکمیل پاکستان کی بات کی ان سے پوچھو چلو میرے نظریات سے کوئی اختلاف ہو۔ چلو میں نعوذ باﷲ عیسائی بھی ہوتا کیا میری باتوں سے پاکستان کو نقصان پہنچ رہا ہے یا فائدہ پہنچ رہا ہے؟ میں اﷲ رسول کے دشمنوں کے خلاف کھڑا ہوں ۔ انڈیا کو روک رہا ہوں امریکہ کو روک رہا ہوں یا ان کی حمایت کر رہا ہوں؟ تم جو کام کر رہے ہو جو پاکستان کو تباہ و برباد کرنے والا۔ تو یہ بات بالکل واضح کر لیجئے کہ اﷲ کے فضل سے استغفراﷲ نہ تو میں قادیانی ہوں نہ کبھی کسی ختم نبوت کے منکر کے ساتھ رہا نہ کبھی ایسے کسی کو سپورٹ کیا اور اﷲ کے فضل و کرم سے ہماری سار ی زندگی ختم نبوت کے دفاع میں اﷲ اور اس کے رسول کے دفاع میں اور پاکستان کے دفاع میں گزری ہے ایک تو یہ معاملہ ہوااور دوسرامعاملہ یوسف علی کے کیس کا تو وہ کیا تھا؟
 

image

زیدحامد اپنے مخالفین کے بارے میں بات کرنے کے بعد وہ یوسف کے اصل ایشوپر آئے اور کہنے لگے۔
یوسف علی کے کیس کے لیے بہتر یہ ہو گا کہ آپ ان تمام علماءکے فتاویٰ کو پڑھیں جنہوں نے یوسف علی کے دفاع میں فتوے دیے ہیں کم از کم چالیس فتویٰ میں آپ کو ابھی دکھا دیتا ہوں آپ انہیں سکین کر کے لے جائیں۔ یہ علماءکے فتوے ہیں، نہ یہ میرے لکھے ہوئے ہیں نہ میں نے لکھے ہیں جب چالیس بڑے بڑے علماءیوسف علی کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ اس نے دعویٰ نبوت نہیں کیا تھا اور عدالت نے غلط فیصلہ کیا اور یہ مسلک کا اختلاف تھا تب عدالت کو یہ چاہئے تھا کہ علماءکو بلا کر فیصلہ کرواتے۔ دیکھیں کیا دیوبندی عدالت میں جا کر یہ فیصلہ کرواسکتے ہیں کہ بریلوی کافر ہیں؟ یہ نہیں ہو سکتا نا؟ کیادیوبندی عدالت میں جا کر یہ فیصلہ کروا سکتے ہیں کہ شیعہ کافر ہیں۔ لکھتے تو رہتے ہیں روز شیعہ کافر۔ کیا کوئی عدالت ایسا فیصلہ دے سکتی ہے؟ نہیں دے سکتی ، کیونکہ یہ مسلک کا اختلاف ہے ۔یہی ہوا یوسف علی کے مسئلے ، پر چالیس فتوی موجود ہیں یوسف علی کے دفاع میں، اور بڑے بڑے علما کے فتوے موجود ہیں جن میں مولانا عبدالستار خان نیازی، اور مولانا منظورشاہ ساہیوال والے شامل ہیں یہ سب بریلوی مسلک کے اور اہل سنت مسلک کے لوگ ہیں اور یوسف کی مخالفت کرنے والے ہیں ختم نبوت کے دیوبندی میں فتوے آپ کو دکھا دیتا ہوں خود فیصلہ کرلیں۔ اگر گالی دینی ہے کسی کو جنہوں نے یوسف کا دفاع کیا تو یا ان چالیس علما کو پہلے کافر کہو، میں تو مسکین عاجز آدمی ہوں۔ میرا پوائنٹ آف ویو دیکھیں میں نے یہ نہیں کہا کبھی کہ یوسف بے گناہ ہے۔ میں نے کہا یوسف گمراہ آدمی تھا، میں نے کہا یوسف کرپٹ آدمی تھامیری رائے میں اس نے دعویٰ نبوت نہیں کیا تھا اور اب یہ رائے میری ذاتی نہیں ہے میںنے کہا چالیس علماءکی رائے ہے سیکڑوں لوگ یہاں ایسے ہیں جنہوں نے کہا یہ مسلک کی بات ہے دعویٰ نبوت نہیں ہے۔ اب اگر کوئی شخص وہ رائے ختیار کرتا ہے تو اس کا مطلب میں نعوذ باﷲ جھوٹے نبی کو سپورٹ کر رہا ہوں تو یہ کہاں سے آگیا؟ اس سے پہلے ان چالیس پچاس علماءکو کافر کہو اور پھر کس نے اس کو کافر قرار دیا پہلے تو یہ بتا دو۔ ایک ایسی عدالت نے جو شرعی تقاضے پورے نہیں کرتی ہے اگر آپ عدالتوں سے فیصلے کرانے لگے مسلک کی بنیاد پر تو پھر تو ہو گیا کام اس ملک میں ۔ یعنی ایک طرف تو علماءکہتے ہیں کہ سارے دین کے معاملات ہمارے پاس آنے چاہئیں لیکن اس معاملے میں کہتے ہیں جو عدالت نے فیصلہ کیا ٹھیک کیا جس میں علماءشامل ہی نہیں ہیں جس میں کوئی عالم شامل نہیں ہے۔ پوچھو عدالت سے، پورے فیصلے میں دیکھ لیں کوئی عالم دین شامل ہوا؟ جبکہ پتا ہے۔ آپ صحافی ہو آپ کو اچھی طرح معلوم ہے لاہور میں ہر ایک سے پوچھ لو کہ یوسف کا خبریں اخبار کے ساتھ، ضیا شاہد کے ساتھ، جھگڑا تھا۔ سب کو معلوم ہے کہ پراپرٹی کا جھگڑا تھا اور بلیک میلر دنیا کا سب سے بڑا مشہور ضیا شاہد ہے ، ضیا شاہد کا یوسف کے ساتھ جھگڑا تھا اور میرا اس معاملے پر اختلاف ان کے ساتھ یہ تھاعبدالستار خان اور بڑے بڑے علماءنے، جن کے ساتھ میری دوستی تھی ہم سے کہا تھا کہ کوشش یہ کرو کہ یہ معاملہ عدالت میں نہ جائے علماءکا بورڈ بن جائے۔ یہی میرا قصور ہے جس کی اتنی لمبی کہانی بنائی ہوئی ہے۔

میں نے بات کو اسی رخ پر رکھتے ہوئے مزید وضاحت کے لیے پوچھا کہ یوسف میں ایسا کیا تھا جس سے آپ متاثر ہو گئے آپ تو اسے ایک روحانی شخصیت کے طور پر بھی متعارف کراتے رہے ہیں؟ زید حامد نے سمجھانے کے انداز میں بات شروع کی اور کہنے لگے۔
دیکھیں یہ بات میں میڈیا اور ٹی وی پر بھی کہہ چکا ہوں کہ یوسف ایک کنفیوژ صوفی تھا انسان جب تصوف کے سفر پر چلتا ہے نا تو اسے بڑا مضبوط مرشد چاہیے ہوتا ہے قابو رکھنے کے لیے۔ ضبط کا بڑا معاملہ ہوتا ہے۔ یوسف جو تھا وہ ایک اچھی چیز تھی وہ ایک اچھے صوفی کے طور پر شروع ہوا تھا بعد میں پیسے نے،شہرت نے گمراہ کر دیا۔ پھر مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں یوسف کے مشن کو لے کر چل رہا ہوں ان سے پوچھو بابا میں کون سا کام ایسا کر رہا ہوں کہ جو یوسف کا مشن ہے ۔میں خلافت راشدہ کی بات کررہا ہوں کیا یہ یوسف کا مشن ہے؟ میں غزوہ ہند کی بات کررہا ہوں میں بات کررہا ہوں پاکستان کا دفاع کرنے کی، میں بات کر رہا ہوں یونائٹیڈسٹیٹ آف اسلام کی، میں بات کررہا ہوں قرآن و سنت کو نافذ کرنے کی، میں بات کر رہا ہوں جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ ختم کر کے خلافت راشدہ کے نظام کو لانے کی۔ اس میں کون سا مشن ہے یوسف کا جو میں لے کر چل رہا ہوں؟ بات کرنے والے جواب تو دیں ناکہ بھئی یوسف کا مشن لے کر چل رہا ہے یوسف کا مشن مجھے بتا دو، پہلے تو خود بتا دو کہ یوسف کا مشن کیا تھا؟ مجھے یہی نہیں پتا یوسف کا مشن کیا ہے۔ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں یوسف کا مشن لے کر چل رہا ہوں؟ بابا میرا مشن تو یہ ہے اور یہ مشن تو قرآن و سنت کا مشن ہے اگر یہ یوسف کا مشن تھا تو یار یوسف ٹھیک آدمی ہو گا اور اگر یہ یوسف کا مشن نہیں تھا تو پھر خوا مخواہ کیوں یہ بہتان مجھ پرباندھتے ہو کہ میں یوسف کا مشن لے کر چل رہا ہوں؟ کوئی دلیل ہو کوئی ثبوت ہو؟ جبکہ ایک شخص کو میں کہہ رہا ہوں کہ کنفیوز ہے گمراہ ہے وہ۔ پھر نبی کیسے مان لیا اس کو میں نے؟ بھئی ایک شخص ہندو ہو عیسائی ہو میں کہہ رہا ہوں کہ ہندو ہے عیسائی ہے لیکن ہندو عیسائی کہنا اور بات ہے لیکن اس نے نبوت کا دعویٰ کیا یہ بالکل دوسری چیز ہے، اس کے شرعی تقاضے ہیں۔ آپ مذاق نہیں بنا سکتے شریعت کا خدا کے واسطے ایسا ظلم نہیں کریں اور یہی تو اختلاف ہے، یہ کہتے ہیں آپ اسے کافر کہو۔ میں کہتا ہوں ضرور کہہ دوں گا آپ شرعی تقاضے پورے کر دیں۔ دیکھیں شرعی تقاضے ہوتے ہیں، آپ کسی شخص کو کہہ دیں زانی، کہہ سکتے ہیں آپ کسی کو زانی؟ نہیں؟ کیونکہ اس کے لیے گواہ چاہئے چار ایسے گواہ چاہیے جو.... وشہود کی شرائط پر پورا اترتے ہوں ۔ حضرت عمرؓ کے سامنے ایک کیس پیش ہوا زنا کا، جس میں تین آدمیوں نے کہا کہ میں نے اس آدمی کو زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے جبکہ چوتھے نے کہا کہ میں نے دیکھا ہے لیکن میں عورت کو نہیں دیکھ سکا مجھے نہیں پتا اس کی بیوی تھی یا کوئی عورت۔ حضرت عمرؓ نے ان چاروں کو کوڑے لگوائے، بہتان باندھنے پر، تین گواہ کھڑے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے زنا کرتے ہوئے دیکھا ہے چوتھے نے کہا میں نے عورت نہیں دیکھی تو انہیں کوڑے لگوائے گئے اتنا سخت معیار ہے کسی شخص کو سنگسار کرنے کا کسی شخص کو کافر کہنے کا اور تم کسی شخص کو نعوذ باﷲ کافر قرار دے کر قتل کروا رہے ہو اور شریعت کا کوئی بھی تقاضہ پورا نہیں کرتے؟ ہم نے بار بار کہا ہے کہ اس کو اگر کوئی شرعی عدالت پورے مقدمے کو دیکھ کر شریعت کے تقاضے پورے کر کے سزا دیتی ہے تو میں سب سے پہلے کہہ دوں گا۔ مجھے کیا پڑی ہے؟ میرا کون سا لینا دینا ہے اس کے ساتھ؟

اب میں نے باقاعدہ ریفرنس دیتے ہوئے کہا کہ ایک اخبار نے آپ کے حوالے سے خط اور کہانی شائع کی۔ میں نے اس کی تمام اقساط پڑھی ہیں آپ کے بارے میں یہ اخبار لکھتا ہے کہ ”زیدحامد کی اہلیہ نے گمراہ عقائد سے بغاوت کر دی۔ یوسف کذاب کا قریبی ساتھی اہلیہ کو اپنے مشن پر چلانا چاہتا تھا ۔ تشدد بھی کرتا تھا۔ بالآخر طلاق دے دی“۔ یہ سوال اہم تھا لیکن میں صحافتی اور اخلاقی حدود کو پار بھی نہیں کرنا چاہتا تھالہٰذا میں نے ساتھ ہی وضاحت کر دی کہ میں بطور صحافی اخلاقی طور پر یہ حق نہیں رکھتا کہ آپ کے ذاتی مسائل کو ڈسکس کروں لیکن ممکن ہو تو اس خبر میں طلاق کی جو وجہ بتائی گئی ہے اس کی وضاحت کر دیں کیونکہ یہ ایک تشویش ناک بات ہے۔
زید حامد نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں وضاحت کرتے ہوئے بات کا آغاز ایک حدیث مبارکہ سے کیا اور کہنے لگے۔پہلی بات تو ہم یہ کہیں گے کہ میرے آقا کی حدیث شریف ہے کہ کسی انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ سنی سنائی بات بغیر تحقیق آگے بیان کر دے جن لوگوں نے یہ بات کہی ہے انہیں کہیں ذرا سامنے تو آئیں،یوسف والا معاملہ 13سال پرانا ہے میری طلاق پچھلے سال ہوئی ہے اگر یوسف کی وجہ سے ہونی ہوتی تو توبہ استغفار 13سال پہلے ہونی تھی جبکہ13سال ہم اکٹھے رہے ہیں۔ چاقی نا چاقی ہو جاتی ہے۔ طلاق ہو جاتی ہے ایسی کون سی بڑی بات ہے ؟ اﷲ نے حرام تو نہیں قرار دیا نا، ناپسند قرار دیا ہے۔ ماشاءاﷲ تین میرے جوان بچے ہیں تینوں بچے میرے ساتھ رہتے ہیں نعوذباﷲ اگر میں ظلم کرتا ہوتا یا میں نے کوئی ایسی بات کی ہوتی تو بچے تو سب سے پہلے ماں کی سائیڈ لیتے ہیں باپ کے خلاف ہوتے ہیں یہ میرا ذاتی گھر کا معاملہ ہے لیکن تینوں بچے میرے ساتھ ہیں اﷲ کے حکم سے، میرا دوبارہ نکاح بھی ہو گیا ہے ماشاءاﷲ میں گھر پر بھی خوش ہوں میرے گھر والے بھی خوش ہیں یہ ایک اتفاقیہ ایک حادثہ ہو گیا کہ جس قسم کا طوفان ہمارے خلاف اٹھا یہ فسادیوں کی شرارت تھی قرآن پاک میں جادو کا کہا گیا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان جھگڑاکروا دیتا ہے۔ قرآن میں ذکر کیا ہے انکار کوئی نہیں کرسکتا انہوں نے جادو سے کم نہیں کیا جو کیا۔ یہ جو فساد پھیلائے، جھوٹ پھیلائے، ہمارا جو سسرال تھا وہ پریشان ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ آسان نہیں ہے میرے ساتھ رہنا۔ مجھ پر قتل کی ایف آئی آر کٹوا دی انہوں نے ایک مولوی کے قتل پہ، حالانکہ وہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ ہوا ہے۔ میرا جہاں سے مرضی ہو میں نے کون سا مارا ہے یار،میں تو پنڈی بیٹھا تھا کوئی ٹارگٹ کلر ہوں کراچی کا؟ جو ٹارگٹ کلنگ ہو رہی ہے وہ زید حامد کروا رہا ہے؟ تو اس قسم کے جھوٹے مقدمات جب انہوں نے مجھ پر بنوائے تو پریشر فیملی کا سسرال کا اتنا پڑا کہ الگ ہو گئے۔ اس کا کوئی تعلق یوسف کے ایشو سے نہیں ہے۔ یوسف کی وجہ سے ہوتا تو پہلے ہوتا یار!
 

image

زیدحامد سانس لینے کے لیے رکے تو میں نے اگلا سوال کرتے ہوئے کہا کہ ختم نبوت والے آپ کے اتنا خلاف
کیوں ہیں؟ آخر ایسا کیا جھگڑا ہے کہ بات اتنی خطرناک حد تک آگے چلی گئی حالانکہ آپ اور وہ دونوں اسلام کی سر بلندی کی بات کرتے ہیں ۔ اصل حقیقت کیا ہے!
زیدحامد نے میری بات پوری توجہ سے سنی اور میرا سوال ختم ہونے کا انتظار کیا اس کے بعد جب بولے تو ان کا لہجہ کچھ تیز تھا وہ کہنے لگے۔ میں آپ سے عرض کر رہا ہوں ناکہ ختم نبوت صرف ایک نام ہے اصل میں ان کا تعلق لشکر جھنگوی اور سپہ صحابہ کے ساتھ ہے۔ اصل میں یہ کانگریسی مولوی ہیں۔ ختم نبوت ایک ڈرامہ ہے۔ یہ پلید لوگ ہیں میں صاف کہہ رہا ہوں آپ سے۔ اگر یہ سچے ہوتے تو مجھ پر جھوٹی ایف آئی آر نہ کٹواتے۔ اگر یہ سچے ہوتے تو شریعت کے تقاضے پورے کرتے۔ اگر یہ سچے ہوتے تو میرے پاس آ کر دو لفظ.... آپ بھی تو میرے پاس آگئے ہونا؟ انہیں کیا بیماری، کوڑھ ہو گیا تھا جو یہ میرے پاس نہیں آسکے۔ یہاں آ کر کتنی دیر لگی آپ کو مجھ سے ملنے میں؟ ایک فون کال کی آپ نے، میں آپ کو جانتا تک نہیں، مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ آپ کس مقصد کے لیے آرہے ہیں، پستول لے کر آرہے ہیں، خود کش حملہ کرنے آرہے ہیں۔ آپ نے کہا کہ ملنا ہے میں نے کہا حاضر ہوں جی۔ آپ کی کوئی تلاشی تو نہیں لی گئی، کوئی سکیورٹی ہوئی؟ تو ختم نبوت کو کیا بیماری لگی ہوئی تھی؟مجھے مسلمان سے کافر کر دیا انہوں نے، میرے خلاف طوفان کھڑا کر دیا لیکن ملنے نہیں آسکتے۔ یعنی کیا شریعت کا یہی تقاضہ تھا؟ مجھے بتاﺅ کیا شریعت یہ کہتی ہے؟ شریعت یہ نہیں کہتی تو پھر فیصلہ کر لو کہ سچا کون ہے اور جھوٹا کون ہے؟ میں نے تو انہیں کافر نہیں کہا۔ انہوں نے مجھے کافر کہا۔ کافر کہنے سے پہلے اﷲ کے بندو مل تو لیتے، پوچھ تو لیتے، آپ آگئے مجھ سے پوچھنے کے لیے اور جو میں صفائیاں دے رہا ہوں جو میں نے انٹرویوز دیے ہیں، جو میں نے وضاحتیں پیش کی ہیں، جو میں نے اپنا عقیدہ بیان کیا ہے اس کو نہیں ماننا۔ بابا میرا دل چیر کے دیکھا ہے تم نے کہ میں مسلمان ہو ں کہ نہیں؟ حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جب ایک آدمی کو قتل کر دیا عین میدان جنگ میں جب اس نے کلمہ پڑھا تو رسول اﷲ نے ان سے یہ پوچھا کیا تم نے اس کا قلب چیر کر دیکھا تھا۔ کلمہ پڑھ لیا ٹھیک پڑھا؟ میرا کون سا عمل ہے جو خلاف شریعت جا رہا ہے۔ یا تو میرا عمل گواہی دے یا میری زبان گواہی دے۔ میری زبان، اقرار اللسان بھی، تسلیم باالقلب بھی، شہادہ العمل بھی ہے۔ زبان سے اعتراف بھی کر رہا ہوں عمل بھی ظاہر کر رہا ہے سب کچھ میرا ظاہر کر رہا ہے کہ میں اسلام کے مطابق ہوں۔ پھر میری کون سی چیز ایسی تمہیں نظر آرہی ہے کہ تم مجھ پر اس حد تک کفر کے فتوے لگا ر ہے ہو میرے آقاکی حدیث کے مطابق جس کا مفہوم ہے کہ ایک مسلمان کو جو کافر نہیں ہے، کافر کہا جائے تو فتویٰ اس پر لوٹ کر آتا ہے۔ ہم کچھ نہیں کہیں گے۔ حضورکی حدیث کے مطابق یہ لوگ دین سے باہر جا چکے ہیں یہ ہے ختم نبوت کا المیہ ۔ یہ اٹھے تھے قادیانیوں کے خلاف لیکن قادیانیوں کو چھوڑ دیا ہے انہوں نے اور پاکستان اور اﷲ رسول کا دفاع کرنے والے مسلمانوں کے خلاف مسلک اور فرقہ واریت کی بنیاد پر یہ فساد برپا کررہے ہیں یہ کانگریسی لوگ ہیں انڈیا کے کہنے پر فساد برپا کر رہے ہیں MQMکے کہنے پر فساد پیدا کررہے ہیں۔ مفتی نعیم جس نے میرے خلاف فساد کھڑا کیا ہے یہ وہی مفتی نعیم ہے جو الطاف حسین کو بچاتا پھرتا ہے جب الطاف حسین کہتا ہے کہ میں قادیانیوں کی ایک عبادت گاہ بناﺅں گا اور سب سے پہلے قادیانیوں کا دفاع کرنے والا الطاف حسین اور الطاف حسین کا دفاع کرنے والا مفتی نعیم جو میرے خلاف فتوی دے رہا ہے، پاگل، استغفر اﷲ العزیز انہیں مسئلہ یہ ہے کہ یہ ڈرتا کیوں نہیں ہے۔یہ تو ہر ایک کو بلیک میل کر لیتے ہیں نا، ہم نے تو ان کا مقابلہ کیا ان کے سامنے کھڑے ہو گئے، نہ ہم بلیک میل ہوئے۔ نہ خوف کھایا مطلب پاکستان جیسے ملک میں آپ کسی کے خلاف قتل کی ایف آئی آ ر کٹوا دیں تو وہ تو ختم ہو گیا اس سے بڑا کیس تو کوئی نہیں۔ انہوں نے وہ بھی کٹوا کر دیکھ لی۔

میں نے اسی سلسلے کو آگے بڑھایا اور زید حامد سے کہا کہ آپ پر مفتی جلال پوری کے قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی آج میں آپ سے اصل حقیقت جاننے آیا ہوں۔ درمیان میں اصل جھگڑا کیا تھا؟
زید حامد نے اسی ٹون میں بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جھگڑا تو ہمارے خلاف پہلے شروع کر دیا تھا نا، بیچ میں جلال پوری قتل ہو گیا انہوں نے کہا کہ موقع سے فائدہ اٹھا کر اسے بھی رگڑ دو حالانکہ انہیں اچھی طرح پتا تھا، قاتل جو تھے وہ پکڑے بھی گئے ہیں۔ سپہ محمد جو ایک شیعہ ملی ٹنٹ گروپ تھا اس کے لوگ تھے چونکہ جلال پوری کا تعلق سپہ صحابہ سے بھی ہے تو اس دن دو مولوی قتل ہوئے تھے۔ حیدری بھی قتل ہوئے تھے کراچی میں ساتھ میں یہ بھی۔ تو ایک گروپ تھا جس نے دونوں کو مارا تھا۔ اس کی FIRکسی اور کے نام کٹوائی اور اس کی ایف آئی آر میرے نام کٹوادی اب تو قاتل پکڑے گئے ہیں ان سے پوچھو کہ اگر تم ایمان دار ہو اﷲ رسول سے ڈانے والے ہو تو جھوٹی ایف آئی آر کیوں کٹوائی؟

میں نے گفتگو کا رخ ملکی حالات کی طرف موڑتے ہوئے کہا کہ آپ عسکری و دفاعی تجزیہ نگار بھی ہیں دفاعی تجزیہ نگاری کا آپ نے باقاعدہ ایک ادارہ بھی بنا رکھا ہے۔ آپ کے خیال میں کراچی میں ہونے والی بدامنی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ کیا یہ کوئی منظم سازش ہے؟
زید حامد نے بات گول مول کرنے بجائے صاف نام لیتے ہوئے کہا کہ دیکھیں، ایم کیو ایم ہے سب سے پہلے تو، عوامی نیشنل پارٹی ہے اور اب تو تیسرا گروپ پیپلز پارٹی والے بھی شامل ہیں، لیکن زیادہ تر عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم شامل ہے، ایم کیو ایم، اے این پی تاریخی طور پر یہ ہمیشہ سے پاکستان مخالف جماعتیں ہیں، پاکستان بننے کے وقت ، اگرآپ کو تاریخ یاد ہے تو انہوں نے پاکستان بننے کی مخالفت کی، ریفرینڈم کرانا پڑا تھا کیونکہ انہوں نے شور کر دیا تھاکہ ہم پاکستان سے نہیں ملنا چاہتے،پاکستان کے جتنے صوبے ہیں ان میں صرف فرنٹیئر میں ریفرینڈم ہوا تھا کہ پاکستان سے ملو گے یا نہیں ملو گے؟سارے پٹھانوں نے پاکستان کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ماشاءاﷲ ۔ اے این پی وہیں بے عزت ہوئی لیکن کام انہوں نے اسی وقت شروع کر دیا تھا، سرحدی گاندھی تھے نا یہ اور دوسرا یہ کہ ایم کیو ایم اور الطاف حسین برٹش انٹیلی جنس اور ،را کا ایجنٹ ہے، ان دونوں جماعتوں کو تیار کیا ہے انڈیا نے اربن وار کے لیے جو پاکستان پر اس وقت جنگ مسلط کی گئی ہے نا اس جنگ کو یوو سلاویہ وار کہوں گا یوگو سلاویہ میں کیا کیا تھا؟ اتنا بڑا ملک تھا اس کو 500ملکوں میں توڑ دیا یہ ساری جنگ پاکستان پر مسلط کی ہے قومیت، لسانیت، فرقہ واریت، صوبائیت ، نوٹ نہیں کرتے آپ کہ ہزارے کا صوبہ الگ کرنا ہے، سرائیکی صوبہ الگ کرنا ہے یعنی پاکستان کو پہلے صوبوں میں تقسیم کر کے بالکل تقسیم در تقسیم پارہ پارہ کر دیں یہ ان بدبختوں کا پلان ہے جس کے لیے ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی ان کے بہت بڑے ہتھیار ہیں سیاسی جماعتوں میں۔ عوامی نیشنل پارٹی نے ریلوے تباہ کر کے رکھ دی۔ ایم کیو ایم نے ہزاروں کینٹزنیٹو کے جن میں اسلحہ بھی تھا کون تھا؟ کس نے کیا؟ بابر غوری منسٹر تھا ناشپنگ کا؟ کینٹز اس کے ہولڈ میں تھے نا؟ انہوں نے وزارتیں وہ لی ہیں جو پاکستان کی ٹرانسپورٹ کنٹرول کرتی ہیں۔ بیڑہ غرق کیا انہوں نے۔

میںنے زید حامد کے افغان جہادی پس منظر اور دفاغی تجزیہ نگاری کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہا کہ پہلے امریکہ نے حقانی نیٹ ور ک کو بنیاد بنا کر پاکستان پر دباﺅ ڈالا پھر کہا کہ حقانی گروپ سے امن معاہدہ کرنے کو تیار ہیں اصل گیم کیا ہے؟
زید حامد اس سوال پر ایک لمحہ کے لیے مسکرائے اور پھر افغان پس منظر سے بات کا آغاز کرتے ہوئے کہنے لگے: دیکھیں ۔ حقانی نیٹ ورک.... جلال الدین حقانی ، ملا عمر اور گلبد ین حکمت یار، یہ تین بڑے گروپ ہیں افغانستان میںاس وقت جو پشتون مزاحمتی گروپ کہلاتے ہیں اور یہ وہی ہیں جو روسیوں کے خلاف بھی لڑتے تھے۔ جلال الدین حقانی جو تھے وہ روسیوں کے خلاف لڑتے رہے۔ ان کے ساتھ پورے افغانستان کی 62%پشتون آبادی ہے۔ آپ پشتونوں کو مار تو نہیں سکتے۔ اب پشتونوں کی نمائندگی جلال الدین حقانی، ملا عمر اور حکمت یار کر رہا ہے امریکیوں کو بھی اچھی طرح معلوم ہے۔ اگر جلال الدین حقانی دہشت گرد ہوتے تو امریکہ اپنی دہشت گرد تنظیموں کی لسٹ میں جلال الدین حقانی کا نام شامل کرتا لیکن آج تک نہیں کیا۔ جس طرح انہوں نے لشکر طیبہ کو دہشت گرد ڈکلیئر کر دیا دوسری پارٹی جیش محمد کو دہشت گرد ڈکلیئر کر دیا، القاعدہ کو دہشت گرد ڈکلیئر کیا تو انہیں بھی کر دیتے اگر تھے تو؟ اگر امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے لیکن جس طرح سویت یونین افغانستان میں پھنس گیا تھا، تو سویت یونین نے اس وقت امریکہ سے بات کی تھی کہ ہم افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں جینوا معاہدہ سائن کیا گیا تھا۔ ظلم یہ کیا تھا انہوں نے کہ جو افغان مجاہدین تھے جنہوں نے سویت یونین سے جنگ کی تھی ان کو اس معاہدے کا حصہ بنایاہی نہیں گیا۔ معاہدہ اسلام آباد اور کابل کے درمیان ہو گیا جبکہ کابل کی کوئی حکومت تھی ہی نہیں کٹھ پتلی حکومت تھی اس کی تو حیثیت ہی کوئی نہیں تھی جینوا معاہدے میں ہونا یہ چاہئے تھاکہ یہ بات طے کرلی جاتی کہ کابل سے روسیوں کے نکلنے کے بعد افغانستان میں افغان مجاہدین کی حکومت بنے گی۔ یہ بات جینوا معاہدے میں طے ہی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے روسیوں کے جانے کے بعد وہاں سول وار ہو گئی۔ اب پاکستان اس طرح کی غلطی نہیں کرنا چاہ رہا پاکستان یہ نہیں چاہتا کہ افغانستان سے امریکہ کے نکلنے کے بعد پشتونوں سے ہماری لڑائی ہو یا ہم کابل حکومت کرزئی کے ساتھ مل کر کوئی معاہدہ کرلیں اور امریکہ کو نکل جانے کا موقع دے دیں اور افغان مجاہدین جو ہیں اس وقت ان کو چھوڑ دیا جائے لہٰذا پاکستان، مجاہدین ، حقانی، ملا عمر اور حکمت یار سے تعلقات خراب نہیں کر رہا۔ امریکہ نے آج یا کل چلے جانا ہے، انہوں نے یہیں رہنا ہے یہ ہمارے ہمسائے ہیں اورہمارے ان کے ساتھ خون کے، تاریخ کے ، قبائلی ہر طرح کے تعلقات ہیں نہ یہ ہمارے دشمن ہیں نہ انہوں نے کبھی ہمارے خلاف جنگ کی تھی بلکہ ان شاءاﷲافغانستان آزاد ہونے کے بعد یہ مجاہدین ہم کشمیر میں داخل کر دیں گے اس سے انڈیا کی جان نکلتی ہے۔ یہ وجہ ہے کہ پاکستان ان کے خلاف کبھی جنگ نہیں کرے گا۔ امریکہ پاکستان پر دباﺅ ڈال رہا ہے کہ پاکستان ان سے جنگ کرے کیونکہ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ امریکہ کے نکلنے کے بعد یہاں فساد پھیل جائے اور پاکستان وہ غلطی نہیں کرنا چاہتا جو روس کے نکلنے کے بعد ہم نے کی تھی اپنی تاریخ سے کچھ نہ کچھ تو سبق ہم نے سیکھا ہے۔

میں نے زید حامد سے کہا کہ ذوالفقار مرزا کے انکشافات اور الزامات کے پیچھے کون ہے؟
زیدحامد نے اپنے مخصوص انداز میں کہا کہ دیکھیں اس حمام میں سارے ننگے ہیں اور اپنی بقا کے لیے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں اور جو اچھال رہا ہے وہ سچ اچھال رہا ہے کوئی غلط بات نہیں کی اس نے۔ ایم کیو ایم واقعی پاکستان توڑنا چاہتی ہے۔ رحمان ملک بالکل ملا ہوا ہے۔ زرداری اس کھیل کا حصہ ہے اور اس میں اب کوئی شبہ کی بات نہیں رہ گئی کہ یہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آگیا ہے نا، اب میں تو یہ بات نہیں کر رہا، چیف جسٹس بات کر رہا ہے چیف جسٹس نے کہا ہے۔ یہ ساری پارٹیاں جو ہیں ان کے عسکری ونگز ہیں۔ چیف جسٹس کا فیصلہ بڑا کمزور فیصلہ ہے۔ ان کوا گلا سٹیپ آگے جانا چاہئے۔ یہ کہنے کا مطلب ہے کہ جو1500آدمی آپ نے قتل کر دیے وہ ہم معاف کر دیتے ہیں آئندہ نہ کرنا۔ چیف جسٹس کے فیصلے کا تو یہی مطلب ہوا نا؟ ورنہ ٹیکنیکلی چیف جسٹس کو ڈس کوالی فائی کرنا چاہئے تھا حکومت ختم کرنی چاہئے تھی کیئرٹیکر بنانے چاہئے تھے ملک میں دوبارہ الیکشن کروانے چاہیے تھے اور ان پارٹیوں کو بین کرنا چاہیے تھا۔ الیکشن میں پتا لگتا کہ چیف جسٹس کا یہ فیصلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساری جماعتوں کے دہشت گردونگ ہیں ساری جماعتیں بھتہ لیتی ہیں ساری جماعتیں قتل و غارت میں شامل ہیں لیکن آئندہ نہ کریں اور اپنے آپ کو ٹھیک کرلیں یہ تو کوئی مطلب نہ ہوا لیکن کم از کم یہ بات تو آگئی نا، اجمل پہاڑی کا بیان چیف جسٹس نے حصہ بنا لیا جس میں صاف صاف لکھا ہوا ہے اجمل پہاڑی نے کہ میں انڈیا سے ٹریننگ لے کر آیا تھا اس کو جج منٹ کا حصہ بنا لیا۔ISIنے پوری بریفنگ دی ہے چیف جسٹس کو ، چیف جسٹس نے اس بریفنگ کو پروٹسٹ نہیں کیا، کراس سوال نہیں کروائے اس کا مطلب ہے کہ اس کو جج منٹ کا حصہ بنا لیا بلکہ ISIکو یہ کہا ہے کہ اپنی انفرمیشن کو آپ پولیس سے بھی شیئر کریں اس کا مطلب ہے کہ اسے عدالتی ریکارڈ میں شامل کر لیا گیا۔ جب یہ ساری باتیں عدالتی ریکارڈ میں ہیں تو پھر میرے کہنے کی کوئی بات تو رہ ہی نہیں جاتی میرے کہنے کی صرف یہ بات رہ جاتی ہے کہ چیف جسٹس کو اﷲ پوچھے گا قیامت کے دن کہ آپ نے اتنا کمزور فیصلہ کیوں کیا؟ آپ کو آج اﷲ نے اختیار دیا تھا آپ نے ان سارے بدبخت، پلید، پاکستان کی دشمن سیاسی جماعتوں کو نااہل کر کے گھر کیوں نہیں بھیجا؟ جیل کیوں نہیں بھیجا یہ چیف جسٹس سے اﷲ ضرور پوچھے گا، ہم پوچھ سکیں نا پوچھ سکیں ہم کمزور لوگ ہیں لیکن چیف جسٹس سے اﷲ ضرور پوچھے گا۔ ایک دن ان کا بھی کوئی جج ہو گا جوان کا حساب کرے گا۔

زید حامد کی اکثر ویڈیوز میں انقلاب کی بات ہوتی ہے ملکی حالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں لہٰذا اس پس منظر میں، میں نے کہا کہ کیا آپ پاکستان میں کوئی انقلاب آتا دیکھ رہے ہیں؟
زید حامد کہنے لگے ۔ دیکھیں.... ایک انقلاب جو ہوتا ہے وہ انار کی ہوتی ہے، انارکی تو ہے اس وقت سوات میں انقلاب آیا ، طالبان آگئے حکومت ختم ہو گئی پاکستان فورس کو وہاں پر مشکل حالات سے گزرنا پڑا۔
ملک میں انارکی پھیلی ہوئی ہے۔ اب یا تو یہ ا نارکی بڑھتے بڑھتے یوگو سلاویہ کی طرح ہو جائے گی یا پاکستان کے اندر فوج بالآخر دخل اندازی کرے گی اس پورے سیاسی نظام کی بساط پلٹ دے گی اور پاکستان میں کوئی ایسی حکومت قائم کی جائے گی جو پاکستان سے وفادار ہو، پیار کرنے والی ہو یہ کام فوج نے کرنا ہے ۔ سپریم کورٹ نہیں کرے گی ہم نے دیکھ لیا سپریم کورٹ کراچی کا فیصلہ نہیں کر سکی تو آگے کیا فیصلہ کرے گی۔ سیاسی جماعتیں دبی ہوئی ہیں کیونکہ اس حمام میں سارے ننگے ہیں یہ تو خود چور ہیں بدبخت۔ اب آپشن صرف یہی ہے کہ فوج مارشل لاءلگائے۔ ہمیشہ تاریخ میں پہلے فوج آتی رہی ہے اور فوج سسٹم کو ری سٹور کرنے کے لیے آتی رہی ہے اور سٹیٹس کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے آتی رہی ہے۔ اب سٹیٹس قائم نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان حالت ِجنگ میں ہے۔ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے اور پاکستان کو توڑنے کی سازش اس وقت آخری حد تک پہنچی ہوئی ہے پچھلے 11سال سے ہم حالتِ جنگ میں ہیں ایک لاکھ پاکستانی یا زخمی ہو چکے ہیں۔ شہید یا زخمی ایک لاکھ شہید ہیں تو اس سے چار گنا زیادہ زخمی ہوں گے تو پاکستان فوج کا اب انتظار کریں ہمارے نزدیک فوج نے اب بہت زیادہ دیر کر دی ہے کیونکہ اگر اسی طرح حالات چلتے رہے تو کچھ عرصے بعد ریلوے بھی بند ہو جائے گی ائیر لائینز بھی بند ہو جائیں گی پٹرول ، گیس، سی این جی یہ سب بھی بند ہو جائے گا۔ پھر فوج کے پاس بھی تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہوں گے۔ یہ حکومت روز تین چار ارب روپیہ چھا پ رہی ہے۔ کرپشن کے لیے اور اپنی خیانت کرنے کے لیے۔ کرنسی پاکستان کی دیوالیہ ہوتی چلی جارہی ہے۔ ردی کاغذ میں تبدیل کردیں گے یہ پاکستان کی کرنسی کو جس طرح یہ کام کر رہے ہیں اور فوج کا ایک اچھا لیفٹیننٹ کرنل بچارا حلال پر گزارہ کرنے والا آج بھی اپنی تنخواہ میں 24,22 دن کے بعد فارغ ہو جاتا ہے اور فوج کے افسر کہ جب 15دن بعد اس کی جیب خالی ہو جائے گی تو یہ چوٹ فوج کو بھی لگے گی بڑی زور سے۔ جب قوم کو لگے گی تو فوج کو بھی لگے گی۔ فوج الگ تو نہیں رہ سکتی۔ اس وقت پاکستان کا دفاع اگر کوئی ادارہ کر رہا ہے تو وہ فوج ہی ہے ISIہی ہے۔ باقی تو سارے ادارے کرپٹ ہو چکے ہیں لہٰذا پاک فوج کا ہم زبردست دفاع کرتے ہیں، فوج کو بچاتے ہیں جس کی وجہ سے لوگوں نے یہ بھی طوفان کھڑا کردیا کہ آپ کو ISIنے بھیجا ہے، لیکن پاک فوج کا دفاع کرنے کے لیے ISIکا ہونا ضروری نہیں ہے۔ صرف پاکستانی ہونا کافی ہے۔ کیونکہ حالات اس طرح کے ہیں۔ دفاعی تجزیہ نگار ہوں میں۔ ہم یہ دیکھ ہے ہیں حالات، پاکستان کے دفاع کے لیے فوج کا مضبوط ہونا ضروری ہے کیونکہ دشمن کو میں دیکھ رہا ہوں انڈیا ، امریکہ، CIAکو ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ فوج کو بے عزت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ فوج ٹوٹ گئی تو پھر پاکستان کو بچانے والا کوئی نہیں ہے۔

زید حامد سے میرا اگلا سوال یہ تھا کہ آپ عموماً ہر بات کو تاریخ کے آئینے سے دیکھتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟
زید حامد مسکرائے اور کہنے لگے لازمی بات ہے مورخ کہتے ہیں کہ جوقوم اپنی تاریخ نہیں پڑھتی اس کا جغرافیہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ تاریخ سے سیکھے بغیر ممکن نہیں ہے کہ اپنے حال کو درست کر سکیںیا اپنا مستقبل۔

میں نے غیر محسوس انداز میں زید حامد کی کلائی کی طرف دیکھا میرا وقت ختم ہونے کو تھا میں نے اگلا سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے خیال میں پاکستان سیکولرملک ہے یا اسلامی؟
زید حامد کہنے لگے، دیکھیں میرے خیال کی بات ہی نہیں ہے یہ پاکستان ہمارے جو 50لاکھ شہدانے بنایا تھا تو کیا اس لیے بنایا تھا کہ ہم ایک سیکولرملک سے نکل کر دوسرے سیکولر ملک میں آجائیں گے؟ کسی کا دماغ تو نہیں خراب تھا کیا؟50لاکھ شہدا ہیں ہمارے۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالا الااﷲ۔ سیکولر کے ساتھ رہنا ہوتا تو انڈیا کے ساتھ رہ لیتے۔ کیا بیماری لگی تھی ہمیں یہاں آنے کی ؟ جب اس کے اندر پاکستان یا شہادت کے نعرے لگے تھے۔ 1940ءکی قرار داد پاکستان کی ریگولیوشن پاس ہوئی تو اس قرار داد کے اندر جو تقریریں کی گئی تھیں ذرا ان کو اٹھا کر پڑھ لیں۔ اس میں صاف صاف کہا گیا تھا کہ پاکستان ہم کیوں بنانا چاہتے ہیں اور پھر ہمارے بڑوں نے 1949ءکی بات کر رہا ہوں اس وقت تو مارشل لا بھی نہیں لگا تھا۔ اس وقت سیاسی جماعتیں بھی نہیں آئی تھیں۔ ہمارے فاﺅنڈنگ فادر لیاقت علی خان تھے۔ قائداعظم کی وفات کے فوراً بعد آپ نے یہ کام کیا کہ قرارداد مقاصد پیش کی۔ قرار داد مقاصد میں کیا لکھا ہوا ہے؟ کہ پاکستان میں اﷲ اور اس کے رسول کا نظام قائم ہو گا۔ اس وقت سیکولر، لادین طبقہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ اس وقت کوئی مولوی پارلیمنٹ اور کیبنٹ میں نہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس وقت تو اعلیٰ ترین وہ لوگ کہ جن کو دنیا کافر کہتی تھی۔ قائداعظم کو کافر اعظم کہا تھا نا، لیاقت علی خان تو نواب زادہ تھے۔ ان لوگوں نے کیا فیصلہ کیا پاکستان بننے کے فوراً بعد؟ انہوں نے کہا کہ پاکستان اﷲ اور اس کے رسول کے نام پر لیا گیا ہے۔ قرار داد مقاصد پیش کر دی سب کچھ اس میں لکھا ہوا ہے۔ میرے کہنے کا تو سوال ہی نہیں ہے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جو قرار داد مقاصد میں لکھا ہے۔1949ءمیں پاکستان بنانے کے بعد ہمارے بڑوں نے جو پہلا آئین پاس کیا تھا وہ قرار دادمقاصد تھا اس کو نافذ کرو۔

میں نے ایک دم بات کا رخ موڑتے ہوئے سوال کیا کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو قتل کیا گیا قاتل ان کا محافظ تھا۔ ممتاز قادری کے اس عمل کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ یہ درست ہوا یا غلط؟مجھے اندازہ تھا کہ زید حامد جن حالات میں ہیں یہ سوال ان کے لیے قدرے مشکل ہے اسی لیے میں نے یہ سوال تقریباً آخر میں کیا تھا۔
زید حامد ایک لمحہ کو رکے اور پھر کہنے لگے دیکھیں ممتاز قادری کے کیس پر میں خاموش ہوں میں نے کوئی کمنٹ نہیں دیا بہت لوگوں نے ہم پر زور لگایا کہ کمنٹس دیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس کیس کی تفصیلات ہی واضح نہیں ہیں۔ میں نے یوسف کا کیس دیکھا ہوا ہے اس ملک میں ۔ میں نے مولویوں کا فتنہ فساد دیکھا ہوا ہے یہ بات بالکل طے ہے اس بات کو کورٹ میں اور کم از کم اسلامی آئیڈیا لوجی میں بھی اکنالج کیا ہوا ہے کہ ہمارے ہاں ذاتی وجوہات کی بنا پر، جائیدادوں کی بنیاد پر، ذاتی جھگڑوں کی بنا پر کسی پر توہین رسالت کا الزام لگا دیا جائے تو اس کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ شریعت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اس لیے اس کیس کو ہمیں بالکل شروع سے دیکھنا پڑے گا کہ آسیہ بی بی کا کیس تھا کہ نہیں تھا؟ ابھی تک اس پر کوئی شرعی فیصلہ نہیں آیا یا تو ہونا کہ کوئی نہ کوئی شرعی فیصلہ آچکا ہو اس کے اوپر جذبات زیادہ ہیں۔ شرعی عدالت میں اس کو لے کر جائیں۔ شرعی فیصلہ کریں اس کے بعد فیصلہ ہو گا کہ سلمان تاثیر واجب القتل مرتدبنتا تھایا نہیں بنتا تھا اس کے لیے بھی کسی شرعی فیصلے کی ضرورت ہے اب اس کے بعد اگر فیصلہ آتا ہے کہ اگر وہ واقعی مرتد واجب القتل بنتا تھا تو پھر ممتاز قادری صاحب ٹھیک ہیں اگر وہ نہیں بنتا تھا تو پھرممتاز قادری سے غلطی ہوئی اس حوالے سے۔ یہ معاملہ تو ایسا ہے جو علما ڈسکس کر سکتے ہیں۔ ہم اس پر کوئی رائے نہیں دے رہے۔ ہم خاموش ہیں۔

زید حامد کا کہنا تھا کہ وہ اس ایشو پر کوئی رائے نہیں دیں گے میرا خیال ہے کہ میں ان کا موقف اور رائے حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا لہٰذامیں نے ایک اور سوال کرتے ہوئے کہا کہ آپ پر یہ بھی الزام ہے کہ یوسف نے آپ کو اپنا خلیفہ بنایا تھا؟ اس میں کتنی سچائی ہے۔
زید حامد جب بولے تو ان کا لہجہ کچھ تیز تھا وہ کہنے لگے یہ کس نے کہا کہ ہم خلیفہ ہیں؟ پہلی بات یہ دیکھیں کہ یہ الزام لگایا کس نے کہ خلیفہ ہیں۔ یہ سب خبریں اخبار میں چھپا تھا ضیا شاہد اور میاں غفار نے چھاپا تھا۔ میاں غفار آپ کو پتا ہے دنیا کا سب سے بڑا حرام خور آدمی ہے۔ خبریں اخبار میں صرف ایک لائن لگی تھی کہ یوسف نے ہم کو خلفیہ بنا دیا اب ان سے کوئی پوچھے کہ اﷲ کے بندے یوسف نے کوئی ڈاکومنٹ لکھ کر دیا؟ میں نے کوئی مانا؟ یوسف نے کچھ کہا؟ یوسف کی زبان سے کچھ تم نے سنا؟ یہ بہتان ہے، نہ میں نے کچھ کہا نہ اس نے کوئی خلیفہ بنایا۔

میں نے ان کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ آپ پر الزام لگانے والوں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے آپ کی ویڈیوز دیکھی ہیں اور یویٹوب پر بھی اس حوالے سے کچھ ویڈیوز موجود ہیں۔
زید حامد کا لہجہ چیلنج کرنے والا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ جا کر دیکھ لیں۔ کسی ویڈیو میں کہیں لکھا ہو کہ یوسف نے مجھے خلیفہ بنایا یا میں نے اسے مرشد مانا میں تو کہہ رہا ہوں کہ وہ گمراہ تھا جب میں ایک شخص کو گمراہ کہہ رہا ہوں تو خلیفہ کیسے بن گیا؟
 

image

میرا وقت ختم ہو چکا تھا میں نے زید حامد سے کہا کہ اس انٹرویو کے بعد بھی بہت سے اعتراضات سامنے آئیں گے۔ ان کا میری نظر میں ایک بہترین حل یہ بھی ہے کہ میں کلمہ پڑھوں اور آپ بھی میرے ساتھ ساتھ یہی الفاظ دہرائیں میرے خیال میں اپنے مذہب کی تصدیق اور کلمہ پڑھنا معیوب بات نہ ہو گی؟
زید حامد کے لہجے میں کسی قدر تلخی آگئی انہوں نے تیز لہجہ میں کہا کہ یہ بات ہم سو مرتبہ کہہ چکے ہیں ہماری ویڈیو بھی ہے، یوٹیوب پر موجود ہے۔ ہم نے پریس کانفرنس بھی کی ہے لاہور میں پورے میڈیا کے سامنے میڈیا کے سوسے زائد نمائندے موجود تھے وہاں۔ اب ہم مزید کسی کے سامنے کلمہ نہیں پڑھ رہے۔

زید حامد نے بات ختم کرتے ہوئے مجھے یوسف علی کے کیس کے حوالے سے مختلف خبریں ، دستاویز اور علماءکرام کے فتوے دکھانے شرع کر دیے۔ دوسرے الفاظ میں زید حامد سے میرا انٹرویو ختم ہو گیا تھا۔ عصر کی نماز کا وقت شروع ہو چکا تھا اسی کوٹھی کے لان میں زید حامد نے امامت کروائی اور نماز عصر ادا کی گئی میرے دائیں بائیں مجاہدین کی مخصوص جیکٹ میں ملبوس باریش افراد نے صف بندی کی نماز کے بعد میں نے اس دفتر نما کوٹھی کی مزید تصاویر بنائیں اور پھر ایک گاڑی مجھے میرے ہوٹل چھوڑ آئی۔
Syed Badar Saeed
About the Author: Syed Badar Saeed Read More Articles by Syed Badar Saeed: 49 Articles with 49698 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.